معاشی ترقی اور معاشرتی فلاح و بہبود
معاشی ترقی سے مراد قومی آمدنی یا فی کس آمدنی میں اضافہ ہے
پاکستان میں معاشی ترقی اور معاشی فلاح و بہبود کو ایک ساتھ لے کر چلنے میں بہت زیادہ قباحت سے کام لیا گیا ہے۔
ملک میں 60 کی دہائی میں جتنی معاشی ترقی ہوئی اس میں معاشی ترقی کے ساتھ معاشی فلاح و بہبود پر کم توجہ دی گئی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس ترقی سے ہزاروں خاندان تو مستفید ہوئے لیکن عوام کی غالب اکثریت محروم رہی۔ 70 کی دہائی میں سیاستدانوں کو حکومت کرنے کا موقع ملا لیکن عوام کی معاشی فلاح و بہبود کو اولین ترجیح نہ دی جاسکی۔
معاشی ترقی سے مراد قومی آمدنی یا فی کس آمدنی میں اضافہ ہے۔ معاشی ترقی کی مزید وضاحت کیے بغیر معاشی فلاح و بہبود پر زیادہ توجہ دیتے ہوئے اسے اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ معاشی فلاح و بہبود سے مراد افراد کے معیار زندگی کا بلند ہونا۔
انھیں اعلیٰ خوراک، لباس، طبی سہولیات، تعلیمی، رہائشی، تفریحی اور دیگر ضروری سہولیات میسر ہوں اور وہ بھی باآسانی ان میں سے کچھ مفت کچھ انتہائی کم قیمت پر مبنی یہ کہہ سکتے ہیں کہ طبی، تعلیمی، تفریحی، پینے کے پانی، نکاسی آب اور سڑکوں، پلوں کی تعمیر سے مفت فوائد کا حصول اور کم قیمت پر رہائشی بجلی، گیس اور دیگر مثلاً ٹول ٹیکس وغیرہ وغیرہ کم قیمت پر دستیاب ہوں۔
اس سلسلے میں قابل غور بات یہ ہے کہ 60 کی دہائی کی معاشی ترقی کو رول ماڈل کے طور پر دنیا کے کئی ملکوں نے پاکستان کی پلاننگ سے بہت کچھ حاصل کرنے کے بعد معاشی ترقی اور معاشی فلاح و بہبود کو ایک ساتھ جب لے کر چلے تو وہاں کے عوام کا معیار زندگی بلند سے بلند تر ہوتا چلا گیا۔
معاشی ترقی کے فوائد نے جب عوام کی طرف رخ موڑا تو وہاں معاشی انقلاب برپا ہوا اور عوام کو بہت سی آسانیاں ملتی چلی گئیں۔ تعلیم کا معیار بلند ہوا، دنیا کے بہت سے ملکوں نے تعلیمی معیار کو بلند کرنے کے ساتھ اپنے شہریوں کے لیے انتہائی سستی اور آسان ترین اور جدت سے بھرپور اعلیٰ ترین کرکے پیش کیا۔ آج وہ ممالک ترقی یافتہ کہلاتے ہیں۔
60کی دہائی سے قبل وہ ترقی پذیر تھے۔ پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ یہاں معاشی ترقی کے باوجود معاشی فلاح و بہبود میں قطعاً اضافہ نہیں ہوا۔ اس کی اہم ترین وجہ دولت کی تقسیم، عدم مساوات زوروں پر رہی۔ اگرچہ قومی آمدنی میں اضافے کو معاشی ترقی قرار دیا جا سکتا ہے لیکن قومی آمدنی میں اضافہ اسی وقت بار آور ثابت ہو سکتا ہے جب عوام کی معاشی فلاح و بہبود پر بھرپور توجہ دی جائے اور ان میں تعلیم، صحت، خوراک، مواصلات اور دیگر باتوں کو سب سے زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔
70 کی دہائی میں میٹرک تک تعلیم مفت کردی گئی تھی، تمام پرائیویٹ اسکولوں کو قومیا لیا گیا تھا۔ قومیانے کے ساتھ ہی ان اسکولوں کے تمام اساتذہ سرکاری ملازم قرار دیے گئے اور پنشن کے حق دار ٹھہرے اور ان کی نوکری پکی ہوگئی۔
لیکن اس سلسلے میں مثبت پہلو کے ساتھ کچھ منفی اثرات بھی مرتب ہوئے۔ کئی اساتذہ نوکری پکی ہونے کے باعث تساہل سے کام لینے لگے، تعلیم کا معیار کم سے کم تر ہوتا چلا گیا، کئی اساتذہ کی عدم توجہی کے باعث بہت سے طلبا اسکولوں سے غیر حاضر رہنے لگے۔ لہٰذا ملک میں پرائمری میں داخل ہونے والے تمام طلبا میٹرک تک نہ پہنچ پائے۔
اس طرح کالج اور یونیورسٹی سطح پر پہنچنے والے قلیل طلبا ہی ہوتے۔ 1988 سے لے کر 99 تک سیاسی حکومتیں ایوان اقتدار پر براجمان رہیں اور ملک میں معاشی فلاح و بہبود کے ضمن میں کوئی انقلابی کام نہ ہو سکا۔ اسی دوران بہت سے ترقیاتی پروجیکٹ شروع کرنے کے لیے کئی ملکوں اور مالیاتی منڈی سے قرضے بھی لیے جاتے رہے۔
لیکن ایک حکومت پروجیکٹ شروع کرتی اور دوسری حکومت آ کر ان میں سے کئی ترقیاتی اسکیموں پر کام روک بھی دیتی تھی۔ دراصل ملک میں تقسیم دولت غیر مساوی ہو تو اس کا فائدہ صرف ایک قلیل طبقے کو ملتا ہے۔
معاشی فلاح و بہبود سے دوری کے باعث ملک کا اکثریتی طبقہ غریب رہ جاتا ہے۔ اس طرح ملک کی پسماندگی بڑھتی رہتی ہے۔ ملک کی آمدن میں اضافہ نہیں ہونا۔ سرمایہ دار بااثر طبقہ مختلف طور طریقے سے اپنے اوپر سے ٹیکس کی رقم کو کم سے کم کروا کر حکومت کو برائے نام ٹیکس ادا کرتا ہے۔ پھر ملکی خزانے میں رقم کہاں سے آئے گی۔
اس طرح عوام بھی غریب سے غریب تر ہوتی چلی جاتی ہے۔ حکومت کے لیے مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ عالمی مالیاتی ادارے سے جب قرض طلب کرتی ہے تو اس کی شرائط پر عمل درآمد کرتے ہوئے عوام پر پٹرول بم، بجلی بم اور اب گیس بم بھی تیار ہے ،گراتی ہے۔
اس طرح ایک مہنگائی کا سونامی اس کے ساتھ عوام کے لیے فلاح و بہبود میں کمی ہی کمی ہوتی رہتی ہے۔ نئی صدی کے آغاز کے ساتھ پہلے عشرے میں دو بلدیاتی انتخاب ہوئے تھے، بعض حلقوں میں کچھ معاشی فلاح و بہبود کے کام ہوئے تھے۔
ملک میں 60 کی دہائی میں جتنی معاشی ترقی ہوئی اس میں معاشی ترقی کے ساتھ معاشی فلاح و بہبود پر کم توجہ دی گئی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس ترقی سے ہزاروں خاندان تو مستفید ہوئے لیکن عوام کی غالب اکثریت محروم رہی۔ 70 کی دہائی میں سیاستدانوں کو حکومت کرنے کا موقع ملا لیکن عوام کی معاشی فلاح و بہبود کو اولین ترجیح نہ دی جاسکی۔
معاشی ترقی سے مراد قومی آمدنی یا فی کس آمدنی میں اضافہ ہے۔ معاشی ترقی کی مزید وضاحت کیے بغیر معاشی فلاح و بہبود پر زیادہ توجہ دیتے ہوئے اسے اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ معاشی فلاح و بہبود سے مراد افراد کے معیار زندگی کا بلند ہونا۔
انھیں اعلیٰ خوراک، لباس، طبی سہولیات، تعلیمی، رہائشی، تفریحی اور دیگر ضروری سہولیات میسر ہوں اور وہ بھی باآسانی ان میں سے کچھ مفت کچھ انتہائی کم قیمت پر مبنی یہ کہہ سکتے ہیں کہ طبی، تعلیمی، تفریحی، پینے کے پانی، نکاسی آب اور سڑکوں، پلوں کی تعمیر سے مفت فوائد کا حصول اور کم قیمت پر رہائشی بجلی، گیس اور دیگر مثلاً ٹول ٹیکس وغیرہ وغیرہ کم قیمت پر دستیاب ہوں۔
اس سلسلے میں قابل غور بات یہ ہے کہ 60 کی دہائی کی معاشی ترقی کو رول ماڈل کے طور پر دنیا کے کئی ملکوں نے پاکستان کی پلاننگ سے بہت کچھ حاصل کرنے کے بعد معاشی ترقی اور معاشی فلاح و بہبود کو ایک ساتھ جب لے کر چلے تو وہاں کے عوام کا معیار زندگی بلند سے بلند تر ہوتا چلا گیا۔
معاشی ترقی کے فوائد نے جب عوام کی طرف رخ موڑا تو وہاں معاشی انقلاب برپا ہوا اور عوام کو بہت سی آسانیاں ملتی چلی گئیں۔ تعلیم کا معیار بلند ہوا، دنیا کے بہت سے ملکوں نے تعلیمی معیار کو بلند کرنے کے ساتھ اپنے شہریوں کے لیے انتہائی سستی اور آسان ترین اور جدت سے بھرپور اعلیٰ ترین کرکے پیش کیا۔ آج وہ ممالک ترقی یافتہ کہلاتے ہیں۔
60کی دہائی سے قبل وہ ترقی پذیر تھے۔ پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ یہاں معاشی ترقی کے باوجود معاشی فلاح و بہبود میں قطعاً اضافہ نہیں ہوا۔ اس کی اہم ترین وجہ دولت کی تقسیم، عدم مساوات زوروں پر رہی۔ اگرچہ قومی آمدنی میں اضافے کو معاشی ترقی قرار دیا جا سکتا ہے لیکن قومی آمدنی میں اضافہ اسی وقت بار آور ثابت ہو سکتا ہے جب عوام کی معاشی فلاح و بہبود پر بھرپور توجہ دی جائے اور ان میں تعلیم، صحت، خوراک، مواصلات اور دیگر باتوں کو سب سے زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔
70 کی دہائی میں میٹرک تک تعلیم مفت کردی گئی تھی، تمام پرائیویٹ اسکولوں کو قومیا لیا گیا تھا۔ قومیانے کے ساتھ ہی ان اسکولوں کے تمام اساتذہ سرکاری ملازم قرار دیے گئے اور پنشن کے حق دار ٹھہرے اور ان کی نوکری پکی ہوگئی۔
لیکن اس سلسلے میں مثبت پہلو کے ساتھ کچھ منفی اثرات بھی مرتب ہوئے۔ کئی اساتذہ نوکری پکی ہونے کے باعث تساہل سے کام لینے لگے، تعلیم کا معیار کم سے کم تر ہوتا چلا گیا، کئی اساتذہ کی عدم توجہی کے باعث بہت سے طلبا اسکولوں سے غیر حاضر رہنے لگے۔ لہٰذا ملک میں پرائمری میں داخل ہونے والے تمام طلبا میٹرک تک نہ پہنچ پائے۔
اس طرح کالج اور یونیورسٹی سطح پر پہنچنے والے قلیل طلبا ہی ہوتے۔ 1988 سے لے کر 99 تک سیاسی حکومتیں ایوان اقتدار پر براجمان رہیں اور ملک میں معاشی فلاح و بہبود کے ضمن میں کوئی انقلابی کام نہ ہو سکا۔ اسی دوران بہت سے ترقیاتی پروجیکٹ شروع کرنے کے لیے کئی ملکوں اور مالیاتی منڈی سے قرضے بھی لیے جاتے رہے۔
لیکن ایک حکومت پروجیکٹ شروع کرتی اور دوسری حکومت آ کر ان میں سے کئی ترقیاتی اسکیموں پر کام روک بھی دیتی تھی۔ دراصل ملک میں تقسیم دولت غیر مساوی ہو تو اس کا فائدہ صرف ایک قلیل طبقے کو ملتا ہے۔
معاشی فلاح و بہبود سے دوری کے باعث ملک کا اکثریتی طبقہ غریب رہ جاتا ہے۔ اس طرح ملک کی پسماندگی بڑھتی رہتی ہے۔ ملک کی آمدن میں اضافہ نہیں ہونا۔ سرمایہ دار بااثر طبقہ مختلف طور طریقے سے اپنے اوپر سے ٹیکس کی رقم کو کم سے کم کروا کر حکومت کو برائے نام ٹیکس ادا کرتا ہے۔ پھر ملکی خزانے میں رقم کہاں سے آئے گی۔
اس طرح عوام بھی غریب سے غریب تر ہوتی چلی جاتی ہے۔ حکومت کے لیے مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ عالمی مالیاتی ادارے سے جب قرض طلب کرتی ہے تو اس کی شرائط پر عمل درآمد کرتے ہوئے عوام پر پٹرول بم، بجلی بم اور اب گیس بم بھی تیار ہے ،گراتی ہے۔
اس طرح ایک مہنگائی کا سونامی اس کے ساتھ عوام کے لیے فلاح و بہبود میں کمی ہی کمی ہوتی رہتی ہے۔ نئی صدی کے آغاز کے ساتھ پہلے عشرے میں دو بلدیاتی انتخاب ہوئے تھے، بعض حلقوں میں کچھ معاشی فلاح و بہبود کے کام ہوئے تھے۔