لکشمی بائی مہربان ہوئی
سوال یہ تھا کہ اتنے وافر ٹیکسوں سے کہیں کالانعام کا دم نہ نکل جائے
مملکت ناپرسان ،عالی شان میں اس وقت ایک عظیم الشان جشن کا سامان کیا جارہا ہے، جگہ جگہ بھنگڑے ڈالے جارہے ہیں، مٹھائی بانٹی جارہی ہے، ساتھ ہی وزارتیں، سفارتیں، نوکریاں، افسریاں اور پلاٹ بھی تقسیم کیے جارہے ہیں۔
قوالیاں ہو رہی ہیں اوراس فتنہ عالم لکشمی بائی کے بجھن گائے جارہے ہیں جس نے آخر کار آخر کار ناپرسانی کالانعام کو اپنی سواری کا شرف عطا فرمایا ہے ۔بغیرمانگے یعنی صرف پاؤں پڑے اور ناک رگڑنے کے عوض یہ مہربانیاں تقریباً مفت میں دراصل لکشمی بائی ناپرسانی الوؤں سے ناراض ہوگئی تھی کیوں کہ اسے خبر ملی تھی کہ ناپرسانی الوؤں اور ان کے پٹھوں پر وہ جو عنایتیں غضب کی کرتی ہیں۔
ان کو کہیں کہیں کام میں بھی لایا جاتاہے حالانکہ وہ یہ عنایات اس لیے کرتی ہے کہ ناپرسانی الو اور اس کے پٹھے ''کام ''نام کاگناہ ہرگزنہ کریں، آرام سے بیٹھے رہیں اور لکشمی کی پوجا کرتے رہیں لیکن ناپرسانیوں نے لکشمی بائی سے چھپ چھپ کر سرکاری محکموں اور اداروں میں کام کرنے کی بدعت ڈالی تھی جس پر ناراض ہوکرلکشمی بائی نے نہ صرف عوام کالانعام کی سواری تیاگ دی بلکہ اپنا دودھ نہ بخشنے کا اعلان بھی کردیا۔
لیکن ناپرسانی بھی جدی پشتی خاندانی اور پیشہ ور بھکاری تھے، اس وقت تک پاؤں پڑے رہے اور ناک ماتھا رگڑے رہے جب تک لکشمی بائی کے منہ سے ہاں نہیں نکلوا دی، ادھر اس کے منہ سے ہاں نکلی اور ادھر ناپرسان میں سب کچھ بجنے لگا جن جن کے پاس کوئی بجانے کا آلہ نہیں تھا وہ بغلیں اور سیٹیاں بجانے لگے ۔
دعا قبول ہوئی ہے پر ایک شرط کے ساتھ
اسے ملوں تو مگر دور کر دیا جاؤں
وہ شرط یہ ہے کہ ''ہرشرط قبول ہے '' قبول ہے، قبول ہے، چنانچہ شرطوں کی پہلی پٹاری میں سب سے پہلی شرط یہ ہے کہ کم سے کم ڈھائی وزیر رکھے جائیں گے۔
زیادہ ہوں تو کوئی حرج نہیں لیکن کم ایک بلکہ آدھا بھی نہ ہو، پھر ان وزیروں کے ساتھ دگنے وزیرمملکت بھی ضروری ہیں جب کہ مشیروں کی تعداد وزیر مملکتوں سے تین گنا ہونی چاہیے، اور ان میں سے کم سے کم، وزیر مملکت بھی ایسی خواتین ہوں جو ریاستی امور سے نابلد ہوں، اس کے بعد معاونین خصوصی ان سب سے چار گنا ضروری ہیں۔
جو جو محکمے اورادارے خسارے میں جارہے ہیں، ان میں ملازمین اورافسروں کی تعداد دگنی کردی جائے اور سرکاری نوکریاں نہ میرٹ پر ہوں نہ مینڈیٹ پر ہوں بلکہ ''منی ڈیٹ'' کے ذریعے کھلے عام نیلام کے ذریعے دی جائیں ۔
بجلی ،گیس ،پٹرول، آٹا، چینی، گھی وغیرہ کی قیمتیں ہر روز دگنی کی جائیں، پانی، سورج، ہوا اوردھوپ سے بجلی بنانے کی کوشش ہرگز نہ کی جائے، ساری بجلی تھرمل کرکے سو روپے فی یونٹ کردی جائے ،ماہرین کی ایک کمیٹی فوری طورپر تشکیل دی جائے جو ایسی نئی نئی چیزیں دریافت کریں جن پر ٹیکس لگایا جاسکتا ہو، پرانے ٹیکس چارگنا کردیے جائیں اورنئے آٹھ گنا ۔
ماہرین کی ایک اورکمیٹی اس غرض کے لیے بٹھائی جائے کہ سانس لینے پر ٹیکس کیسے وصول کیا جا سکتا ہے۔
اس سلسلے میں لکشمی دیوی بھی مدد دے سکتی ہے یا تو سانسوں کا حساب کتاب رکھیں اور یا تخمینہ لگا کر ہرشخص سے سانس ٹیکس وصول کیاجائے، آخر یہ کالانعام کب تک مفت میں ملک کی ہوا نگلتے رہیں گے ،ممکن ہے کچھ مشورہ پشت لوگ اس پر واویلا مچانے کی کوشش کریں کہ
سانس لینا بھی سزا لگتا ہے
اب تو مرنا بھی روا لگتا ہے
ایسے لوگوں کے ساتھ سختی اورآہنی ہاتھ سے نمٹا جائے کیوںکہ یہ صاف صاف ''خودکش '' کی ترغیب دینا ہے جو ایک طرح سے بغاوت اور زندگی سے فرار کی تبلیغ کرنا ہے اورقانون کے مطابق یہ بہت بڑا جرم ہے۔
یہ حق کسی کو بھی نہیں ہے کہ کالانعام کو فرارکی تلقین کریں۔اگر کالانعام اسی طرح اس جہان سے فرار ہونے لگیں تو کالانعام تو تیار بیٹھے ہیں۔
سب کے سب دوسری دنیا کو خودکشی کرکے فرار ہوجائیں گے پھرسب کچھ ہڑپ کرنے والوں اور ان کے پٹھوں کو پالے گا کون ؟ اورجب سب کچھ ہڑپ کرنے والے اور ان کے پٹھے نہ رہیں گے تو لکشمی دیوی سواری کس پر کرے گی؟
حق حسن و محبت کا ادا کون کرے گا
جب ہم نہ ہوں گے تو وفا کون کرے گا
ایک اور بڑی اہم ترین شرط لکشمی دیوی نے یہ لگائی ہے کہ مملکت ناپرسان کی حکومت بڑی اور لگژری گاڑیوں کی درآمد فوراً پانچ گنا کردیں اور دنیا کے ممالک سے ان تمام ایکسپائر ڈیٹ گاڑیوں کو منگوائے جو وہاں کباڑ کردی گئی ہیں۔
چاہے وہ انیس سو چالیس کی بنی ہوئی کیوں نہ ہوں،کیوں کہ مملکت ناپرسان کے مستری مردے کو بھی زندہ کرسکتے ہیں ،ثبوت سامنے ہے کہ سڑکوں پر جنگ عظیم سے پہلے کی اور جنگ عظیم میں تباہ ہونے والی گاڑیاں بھی سڑکوں پر دلہن بن کر دوڑ رہی ہیں اور ڈیزل، پٹرول اورگیس پھونک کر ملک کا نام روشن کررہی ہیں اور تیل کی تجارت کوفروغ دے رہی ہیں۔
ویسے بھی مملکت ناپرسان میں تیل کی کوئی کمی نہیں ہے، لگ بھگ پچیس کروڑ تیل کے کنوئیں اس کی ملکیت ہیں اورکنوئیں آگے مزید کنوئیں کو بھی جنم دے رہے ہیں جن کے خون پسینے کو بڑی آسانی سے تیل بنایا جا سکتا ہے۔
اس قبول ہے، قبول ہے، قبول ہے کے دوران ایک بہت بڑا سوال بھی پیدا ہوگیا تھا لیکن صد شکر کہ لکشمی دیوی اور سب کچھ ہڑپ کرنے والوں نے بڑی آسانی سے حل کرلیا ،سوال یہ تھا کہ اتنے وافر ٹیکسوں سے کہیں کالانعام کا دم نہ نکل جائے، سب کچھ ہڑپ کرنے والوں اور ان کے پٹھوں نے آواز کو مترنم کرتے ہوئے گایا کہ
میری زندگی کے مالک میرے دل پہ ہاتھ رکھ دے
تیرے آنے کی خوشی میں کہیں دم نکل نہ جائے
تو دیوی لکشمی نے فوراً ان کے دل پر ہاتھ رکھتے ہوئے فرمایا ،مت روؤ میرے چاہنے والوں۔
لنگرخانے اور خیرات خانے کھول دو، کالانعام ان میں مصروف ہوجائیں گے، نہ خودکشی کرکے فرار ہوں گے اور نہ بھوکوں مریں گے اور بدستور لگے رہیں گے۔
اس تمام صورت حال پر ایک ناپرسانی شاعر کو خیال آیا اور بولا ،
زندگی سے بڑی سزا ہی نہیں
اور کیا جرم ہے پتا ہی نہیں
اتنے حصوں میں بٹ گیا ہوں میں
میرے حصے میں کچھ بچا ہی نہیں
سچ بڑھے یاگھٹے تو سچ نہ رہے
جھوٹ کی کوئی انتہا ہی نہیں
قوالیاں ہو رہی ہیں اوراس فتنہ عالم لکشمی بائی کے بجھن گائے جارہے ہیں جس نے آخر کار آخر کار ناپرسانی کالانعام کو اپنی سواری کا شرف عطا فرمایا ہے ۔بغیرمانگے یعنی صرف پاؤں پڑے اور ناک رگڑنے کے عوض یہ مہربانیاں تقریباً مفت میں دراصل لکشمی بائی ناپرسانی الوؤں سے ناراض ہوگئی تھی کیوں کہ اسے خبر ملی تھی کہ ناپرسانی الوؤں اور ان کے پٹھوں پر وہ جو عنایتیں غضب کی کرتی ہیں۔
ان کو کہیں کہیں کام میں بھی لایا جاتاہے حالانکہ وہ یہ عنایات اس لیے کرتی ہے کہ ناپرسانی الو اور اس کے پٹھے ''کام ''نام کاگناہ ہرگزنہ کریں، آرام سے بیٹھے رہیں اور لکشمی کی پوجا کرتے رہیں لیکن ناپرسانیوں نے لکشمی بائی سے چھپ چھپ کر سرکاری محکموں اور اداروں میں کام کرنے کی بدعت ڈالی تھی جس پر ناراض ہوکرلکشمی بائی نے نہ صرف عوام کالانعام کی سواری تیاگ دی بلکہ اپنا دودھ نہ بخشنے کا اعلان بھی کردیا۔
لیکن ناپرسانی بھی جدی پشتی خاندانی اور پیشہ ور بھکاری تھے، اس وقت تک پاؤں پڑے رہے اور ناک ماتھا رگڑے رہے جب تک لکشمی بائی کے منہ سے ہاں نہیں نکلوا دی، ادھر اس کے منہ سے ہاں نکلی اور ادھر ناپرسان میں سب کچھ بجنے لگا جن جن کے پاس کوئی بجانے کا آلہ نہیں تھا وہ بغلیں اور سیٹیاں بجانے لگے ۔
دعا قبول ہوئی ہے پر ایک شرط کے ساتھ
اسے ملوں تو مگر دور کر دیا جاؤں
وہ شرط یہ ہے کہ ''ہرشرط قبول ہے '' قبول ہے، قبول ہے، چنانچہ شرطوں کی پہلی پٹاری میں سب سے پہلی شرط یہ ہے کہ کم سے کم ڈھائی وزیر رکھے جائیں گے۔
زیادہ ہوں تو کوئی حرج نہیں لیکن کم ایک بلکہ آدھا بھی نہ ہو، پھر ان وزیروں کے ساتھ دگنے وزیرمملکت بھی ضروری ہیں جب کہ مشیروں کی تعداد وزیر مملکتوں سے تین گنا ہونی چاہیے، اور ان میں سے کم سے کم، وزیر مملکت بھی ایسی خواتین ہوں جو ریاستی امور سے نابلد ہوں، اس کے بعد معاونین خصوصی ان سب سے چار گنا ضروری ہیں۔
جو جو محکمے اورادارے خسارے میں جارہے ہیں، ان میں ملازمین اورافسروں کی تعداد دگنی کردی جائے اور سرکاری نوکریاں نہ میرٹ پر ہوں نہ مینڈیٹ پر ہوں بلکہ ''منی ڈیٹ'' کے ذریعے کھلے عام نیلام کے ذریعے دی جائیں ۔
بجلی ،گیس ،پٹرول، آٹا، چینی، گھی وغیرہ کی قیمتیں ہر روز دگنی کی جائیں، پانی، سورج، ہوا اوردھوپ سے بجلی بنانے کی کوشش ہرگز نہ کی جائے، ساری بجلی تھرمل کرکے سو روپے فی یونٹ کردی جائے ،ماہرین کی ایک کمیٹی فوری طورپر تشکیل دی جائے جو ایسی نئی نئی چیزیں دریافت کریں جن پر ٹیکس لگایا جاسکتا ہو، پرانے ٹیکس چارگنا کردیے جائیں اورنئے آٹھ گنا ۔
ماہرین کی ایک اورکمیٹی اس غرض کے لیے بٹھائی جائے کہ سانس لینے پر ٹیکس کیسے وصول کیا جا سکتا ہے۔
اس سلسلے میں لکشمی دیوی بھی مدد دے سکتی ہے یا تو سانسوں کا حساب کتاب رکھیں اور یا تخمینہ لگا کر ہرشخص سے سانس ٹیکس وصول کیاجائے، آخر یہ کالانعام کب تک مفت میں ملک کی ہوا نگلتے رہیں گے ،ممکن ہے کچھ مشورہ پشت لوگ اس پر واویلا مچانے کی کوشش کریں کہ
سانس لینا بھی سزا لگتا ہے
اب تو مرنا بھی روا لگتا ہے
ایسے لوگوں کے ساتھ سختی اورآہنی ہاتھ سے نمٹا جائے کیوںکہ یہ صاف صاف ''خودکش '' کی ترغیب دینا ہے جو ایک طرح سے بغاوت اور زندگی سے فرار کی تبلیغ کرنا ہے اورقانون کے مطابق یہ بہت بڑا جرم ہے۔
یہ حق کسی کو بھی نہیں ہے کہ کالانعام کو فرارکی تلقین کریں۔اگر کالانعام اسی طرح اس جہان سے فرار ہونے لگیں تو کالانعام تو تیار بیٹھے ہیں۔
سب کے سب دوسری دنیا کو خودکشی کرکے فرار ہوجائیں گے پھرسب کچھ ہڑپ کرنے والوں اور ان کے پٹھوں کو پالے گا کون ؟ اورجب سب کچھ ہڑپ کرنے والے اور ان کے پٹھے نہ رہیں گے تو لکشمی دیوی سواری کس پر کرے گی؟
حق حسن و محبت کا ادا کون کرے گا
جب ہم نہ ہوں گے تو وفا کون کرے گا
ایک اور بڑی اہم ترین شرط لکشمی دیوی نے یہ لگائی ہے کہ مملکت ناپرسان کی حکومت بڑی اور لگژری گاڑیوں کی درآمد فوراً پانچ گنا کردیں اور دنیا کے ممالک سے ان تمام ایکسپائر ڈیٹ گاڑیوں کو منگوائے جو وہاں کباڑ کردی گئی ہیں۔
چاہے وہ انیس سو چالیس کی بنی ہوئی کیوں نہ ہوں،کیوں کہ مملکت ناپرسان کے مستری مردے کو بھی زندہ کرسکتے ہیں ،ثبوت سامنے ہے کہ سڑکوں پر جنگ عظیم سے پہلے کی اور جنگ عظیم میں تباہ ہونے والی گاڑیاں بھی سڑکوں پر دلہن بن کر دوڑ رہی ہیں اور ڈیزل، پٹرول اورگیس پھونک کر ملک کا نام روشن کررہی ہیں اور تیل کی تجارت کوفروغ دے رہی ہیں۔
ویسے بھی مملکت ناپرسان میں تیل کی کوئی کمی نہیں ہے، لگ بھگ پچیس کروڑ تیل کے کنوئیں اس کی ملکیت ہیں اورکنوئیں آگے مزید کنوئیں کو بھی جنم دے رہے ہیں جن کے خون پسینے کو بڑی آسانی سے تیل بنایا جا سکتا ہے۔
اس قبول ہے، قبول ہے، قبول ہے کے دوران ایک بہت بڑا سوال بھی پیدا ہوگیا تھا لیکن صد شکر کہ لکشمی دیوی اور سب کچھ ہڑپ کرنے والوں نے بڑی آسانی سے حل کرلیا ،سوال یہ تھا کہ اتنے وافر ٹیکسوں سے کہیں کالانعام کا دم نہ نکل جائے، سب کچھ ہڑپ کرنے والوں اور ان کے پٹھوں نے آواز کو مترنم کرتے ہوئے گایا کہ
میری زندگی کے مالک میرے دل پہ ہاتھ رکھ دے
تیرے آنے کی خوشی میں کہیں دم نکل نہ جائے
تو دیوی لکشمی نے فوراً ان کے دل پر ہاتھ رکھتے ہوئے فرمایا ،مت روؤ میرے چاہنے والوں۔
لنگرخانے اور خیرات خانے کھول دو، کالانعام ان میں مصروف ہوجائیں گے، نہ خودکشی کرکے فرار ہوں گے اور نہ بھوکوں مریں گے اور بدستور لگے رہیں گے۔
اس تمام صورت حال پر ایک ناپرسانی شاعر کو خیال آیا اور بولا ،
زندگی سے بڑی سزا ہی نہیں
اور کیا جرم ہے پتا ہی نہیں
اتنے حصوں میں بٹ گیا ہوں میں
میرے حصے میں کچھ بچا ہی نہیں
سچ بڑھے یاگھٹے تو سچ نہ رہے
جھوٹ کی کوئی انتہا ہی نہیں