خدا ہی کی طرف لوٹنا ہے

بات یہ ہے کہ اب ہم اپنے کسی اقدام کو اسلام کی کسوٹی پر کسنے کے لیے تیار نہیں

8 مارچ کو خواتین کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ سال بھر کے دنوں کو کسی نہ کسی سے منسوب کرکے دنوں کا تعین کرلیا گیا ہے اور اسی تاریخ کو متعلقہ واقعات یا افراد کا دن منایا جا رہا ہے۔

پاکستان میں بھی کئی سال سے یہ دن منایا جا رہا تھا اور اسے منانے میں کوئی حرج نہیں تھا، مگر ہوا یہ کہ اس دن کو اہل مغرب نے اچک لیا۔ مغرب کا مسئلہ یہ ہے کہ انھوں نے کئی صدیوں کی کوشش کے بعد اپنے معاشرے میں جو اقدار رائج کی ہیں وہی اقدار وہ دنیا میں رائج کرنا چاہتے ہیں تاکہ ان معاشرتی اقدار کے سرپرست کے طور پر وہ دنیا بھر میں اپنی ''سرداری'' قائم رکھ سکیں۔

چنانچہ گزشتہ چند سالوں میں پاکستان میں بھی عورتوں کے اس دن کو مغرب زدہ خواتین نے اچک لیا تھا یہاں تک کہ ''میرا جسم میری مرضی'' کا نعرہ لگا دیا گیا جو اپنے اندر معنی کا ایک سمندر سموئے ہوئے ہے۔

اس سال عورت مارچ میں ایسا کچھ نہیں تھا مگر خدا جانے کیا ہوا کہ اس جلوس پر پولیس نے لاٹھی چارج کردیا اور ظاہر ہے اس سے چند خواتین زخمی بھی ہوئی ہیں۔ پولیس کے اس اقدام کے لیے یہ عذر لنگ پیش کیا گیا ہے کہ اس مارچ میں خواجہ سرا بھی شامل ہو گئے تھے۔ خواجہ سرا تو چھوڑیے اس میں تو مرد بھی شامل تھے جو عورتوں سے اظہار یکجہتی کے لیے شریک تھے، اس لیے بہ ظاہر یہ عذر لنگ ہی ہے۔

ایک منجھے ہوئے صحافی جو سوشل میڈیا پر بھرپور وی لاگ کرتے ہیں اور سیاسی بصیرت کے بھی حامل ہیں انھوں نے خواتین سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے دو سال قبل ان کے انتہا پسندانہ نقطہ نظر کے اظہار کے لیے جن الفاظ (یعنی میرا جسم میری مرضی) کا سہارا لیا گیا تھا ان کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ جس طرح دیگر سماجی حلقوں کو اظہار رائے کا حق حاصل ہے میرا جسم میری مرضی والی خواتین کو بھی ان کی مرضی کا اظہار کرنے کا موقعہ دیا جائے۔


چہ خوب خواتین کو اس نعرے کی بے ہودگی کا احساس ہو گیا چنانچہ اب کسی طرف سے اس کا مطالبہ نہیں کیا جا رہا، اب خواتین خود بھی وہ نعرہ لگا رہی ہیں جو ان کا حق ہے۔

دراصل معاملے کی سنگینی ایک نعرہ نہیں بلکہ اس کے پس پشت ایک پورا فلسفہ کام کر رہا ہے۔ ایک خاص طرز فکر کو مسترد کرکے دوسرے خاص طرز فکر کو اختیار کرنا اس نعرے کا تقاضا ہے۔

ہماری سیاست نے ہمیں اسلام سے دور لا پھینکا ہے۔ ہم ''اسلامی جمہوریہ پاکستان'' کا نام لے لے کر تمام غیر اسلامی باتوں اور اقدامات کو اختیار کرنے کی آزادی کے علم بردار ہیں۔ اس لیے معاشرے کے کسی حلقے سے اب اسلام کے حق میں کوئی آواز نہیں اٹھتی۔ جماعت اسلامی سے وابستہ خواتین نے بھی اس روز جلوس نکالا اور عورتوں کے لیے ان حقوق کا مطالبہ کیا ہے جو اسلام نے انھیں دیے ہیں مگر اس معصوم، بے ضرر جلوس کو اخبارات نے قابل اشاعت نہیں سمجھا۔

بات یہ ہے کہ اب ہم اپنے کسی اقدام کو اسلام کی کسوٹی پر کسنے کے لیے تیار نہیں۔ اس نعرے کو ہی لے لیجیے ''میرا جسم میری مرضی'' ۔ یہ نعرہ یوں بے معنی ہے کہ حقیقت میں نہ جسم آپ کا ہے نہ مرضی آپ کی۔ یہ جسم خداوند قدوس کی تخلیق ہے جس سے اس کی مرضی کے مطابق کام لیا جائے گا اور اس میں کسی کا یہاں تک کہ خود آپ کی مرضی کا کوئی دخل نہیں ہوگا۔ اور اسی فکر کا نام اسلام ہے۔ ہونا تو یہی چاہیے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اسی فکر کی پابندی کی جائے۔

خیال رہے کہ یہی اصول مردوں کے لیے بھی ہے نہ ان کا جسم ان کا ہے نہ مرضی ان کی چلے گی۔ اس معاملے میں دونوں برابر ہیں اور یہ مساوات ہی معاشرے کو بامعنی رکھ سکتی ہے۔

اسلامی جمہوریہ پاکستان میں نہ مرضی ان کی ہے نہ جسم ان کا، سب کچھ اللہ کا ہے اور اسی کے احکام چلیں گے۔ مگر معلوم نہیں یہ رائے مولویانہ نہ سمجھی جائے کیونکہ مولوی صاحبان خاموشی میں مبتلا ہیں۔
Load Next Story