ایوان بالا کی گولڈن جوبلی کی تقریبات
تین روزہ خصوصی اجلاس جو 15,16 اور17 مارچ2023 کو منعقد ہوگا
امسال مارچ کا مہینہ پاکستان کے جمہوری، پارلیمانی اور آئینی سفر میں انتہائی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ سینیٹ، ہاؤس آف فیڈریشن، اپنی گولڈن جوبلی کی شکل میں ایک عہد ساز سنگ میل منا رہا ہے۔
یہ بلاشبہ ایک تاریخی موقع ہے کیونکہ اس کی بدولت ہمیں اپنے ترقی کے سفر کی پیش رفت پر غور کرنے، اس کا جائزہ لینے اور اس پرتفصیلی نظر ڈالنے کا منفرد موقع فراہم کرتا ہے تاکہ ہم مستقبل کی منصوبہ بندی ایک ایسے خوش آیند اور ترقی پسندانہ سوچ کے ساتھ ترتیب دیں سکیں جو عوام کی خواہشات اور وفاقی اکائیوں کے جذبات کی نمایندگی کرے۔
اگر ہم تاریخ پر نظر ڈالیں تو ایوان بالا نے یہ سفر نصف صدی قبل اپنے قیام کے بعد اس مقصد سے شروع کیا تھا کہ صوبوں کو اختیارات کی منتقلی اور مساوی نمایندگی کے تحت وفاقی اکائیوں کو با اختیار بنایا جائے۔
اگرچہ مسائل بھی تھے اورسیاسی، سماجی و اقتصادی مشکلات کا سامنا بھی تھا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ 1973 کے دستور سے پہلے پاکستان کے سیاسی اْفق پر پارلیمانی نظام کو یک ایوانی مقننہ کے تحت چلایا جارہا تھا جس کی وجہ سے قانون ساز ادارہ اکثریت کے زیر اثر رہا اور چھوٹے صوبوں کی کوئی شنوائی نہیں تھی۔اس یک ایوانی مقننہ کے نظام اور اختیارات کے مرکز میں تفویض نے جمہوریت کی جڑوں کو پنپنے نہ دیا اور ایک غیر یقینی صورتحال کا سامنا رہا۔
اس غیر یقینی صورتحال کو 1973 کے آئین نے حل کیا جس کے تحت دو ایوانی مقننہ کی بنیاد رکھی گئی جس میں صوبوں کو برابر کی نمایندگی دی گئی اور اس طرح سے وفاق اور وفاقی اکائیوں کے درمیان ایک ادارہ جاتی اور آئینی نظام کار کے ذریعے رابطہ پیدا کیا گیا۔ اْس وقت کے وزیر قانون، جناب عبدالحفیظ پیرزادہ، جنھیں 1973 کے آئین پاکستان کے پرنسپل ڈرافٹ مین کے طور پر جانا جاتا ہے، نے 17 فروری 1973 کو قومی اسمبلی سے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ آئین میں سینیٹ آف پاکستان کے تصور کو متعارف کرانے سے ایک حقیقی وفاقی طرز حکمرانی یا وفاقی آئین متعارف کرا دیا گیا ہے جو صوبوں کے درمیان آبادی کی بنیاد پر پائی جانے والی تفریق کا حل نکالنے میں مددگار ثابت ہوگا۔
میں آئین بنانے والوں کی دور اندیشی، بصیرت، دانش مندی کو سلام پیش کرتا ہوں۔ جنھوں نے بجا طور پر یہ سمجھا کہ پاکستان کی سیاسی تنوع اور جغرافیائی تشکیل وفاقی سطح پر دو ایوانوں کے نظام کے متقاضی ہے، نہ کہ ایک ایوانی مقننہ کے۔
مضبوط مرکزکی خاطر اْس وقت کی ''ون یونٹ''جیسی خطرناک مہم جوئی اور 1971 میں مشرقی حصے کے جدا ہونے کے باعث وفاق کو ایک بڑی قیمت چکا نا پڑی اور ان سے سبق سیکھ کر سینیٹ کا وجود عمل میں لایا گیا جس نے جمہوری، سیاسی، سماجی، خارجہ پالیسی، اندروانی و بیرونی محاذوں پر حالات کا مقابلہ کرنے میں اپنا کلیدی کردار ادا کیا ہے اور ان مختلف سطح پر مسائل کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنا تشخص برقرار رکھا ہے۔
پاکستان جیسی کثیر الثقافتی ریاست کی حکمرانی اور نمایندگی کے لیے ایک ایسے فریم ورک کا ہونا ضروری تھا جہاں سب کی شمولیت کو یقینی بنایا جا سکے اور ایوان بال نے یہ فریم ورک فراہم کیا جس نے قومی ہم آہنگی کو فروغ دیتے ہوئے صوبائی اکائیوں کے تصور اور صوبوں کو مساوی نمایندگی دیتے ہوئے باہمی احترام اور شراکت دارانہ جمہوریت کے طرز عمل کو پروان چڑھایااور ایوان بالا نے صوبوں کے مابین اور وفاق اور صوبوں کے درمیان رابطہ کاری کو مضبوط بنانے میں ایک تاریخی کردار ادا کیا۔ثقافتی تنوع کے ذریعے اتحاد کو فروغ دیتے ہوئے ایوان بالا نے اپنے مینڈیٹ کو پورا کرنے کے لیے تمام تر توانائیاں برؤے کار لائیں اور ہر سطح پر کوششیں کیں۔
ہر دور کے مشکلات اور مسائل کے باوجود یہ سفر جاری رہا ہے اور اس کی جڑیں شراکت دارانہ وفاقیت کے تصور میں جڑی ہوئی ہیں جو صوبوں کی ملکی ترقی وخوشحالی میں کردار کو تسلیم کرنے اور قومی سطح پر مساوات، امن اور ہم آہنگی کو فروغ دینے کے فلسفے پر کام کر رہا ہے۔
موثر قانون سازی اور بھر پورصوبائی نمایندگی کامینڈیٹ لیے ایوان بالا نے جمہوریت کے تسلسل کی خاطر اجتماعی قومی دانش فراہم کی ہے اور اس کا عملی ثبوت بھی دیا ہے۔وہ ماہرین جنھوں نے 1973 کا آئین مرتب کیا، انھوں نے یہ تصور کیا تھا کہ ایوان بالا صوبائی حقوق، خود مختاری، قومی ہم آہنگی اور اتحاد کے مرکز کے طور پر اپنا کردار اد اکرے گا اور ایوان نے یہ کردار آئینی اور جمہوری انداز میں اد ا کیا ہے۔
ایوان بالا نے ہر مشکل دور میں قوم کو ایک اْمید کا پیغا م دیا ہے اور مختلف ادوار میں پیدا ہونے والے سیاسی خلفشار اور غیر یقینی صورتحال کے باوجو د ایک با مقصد کردار ادا کرتے ہوئے اپنی آئینی ذمے داریاں منصفانہ طریقے سے سرانجام دیں۔ اداروں کے مابین ڈائیلاگ اور رابطہ کاری ایک بہترین طرز حکمرانی اور ترقی کے لیے انتہائی ضروری ہے اور اس مسائل کے حل کے لیے ہم آہنگی کا فروغ ضروری ہے۔
اس لحاظ سے ایوان بالا نے ہمیشہ قومی سطح پر اہم ریاستی اداروں کے ساتھ رابطہ کاری کو ہم سمجھا تاکہ زندگی کے مختلف شعبوں اور ملکی سطح پر درپیش مسائل کا حل مل بیٹھ کر مشاورت کے ساتھ نکالا جائے چاہے وہ مسائل خارجہ پالیسی سے متعلق ہو یا انصاف کی باہم فراہمی یا سیکیورٹی سے متعلق، ان تمام کاوشوں کے پیچھے بنیادی مقصد یہی ہے کہ قومی سطح پر معاونت اور پارٹنر شپ کے ذریعے آگے بڑھیں اور پارلیمان ان تمام امور میں مرکزی کردار ادا کرے۔
میرے لیے ایوان بالا کی سربراہی بہت اعزاز کی بات ہے کیونکہ میں نے خود ہمیشہ صوبائی حقوق کی بات کی ہے اور میں اس پر پختہ یقین رکھتا ہوں کہ مساوات اور شراکت دارانہ طرز عمل پارلیمانی جمہوریت اور وفاقیت کے تصور میں مرکزی حیثیت رکھتے ہیں۔ ایوان بالا رواں ماہ گولڈن جوبلی منا رہا ہے اور اس سلسلے میں تین روزہ خصوصی اجلاس بھی طلب کیا گیا ہے تاکہ ہم وفاقی، صوبائی ہم آہنگی اور رابطہ کاری کے عظیم و شان تصور کو آگے بڑھاتے ہوئے ایک مضبوط اور موثر فیڈریشن کی خاطر اپنے عزم کی تجدید کر سکیں۔
تین روزہ خصوصی اجلاس جو 15,16 اور17 مارچ2023 کو منعقد ہوگا میں سینیٹرز، پارلیمانی لیڈران، وزرائے اعلیٰ، گورنرز،صوبائی وزیر، سفراء ، میڈیا، بارکونسلز کے نمایندے، ایوان ہائے تجارت کے سربراہان وغیرہ بھی شرکت کریں گے اور ملک کو درپیش چیلنجز پر قابو پانے کے لیے اپنا نقطہ نظر پیش کریں گے۔
سینیٹ کی گولڈن جوبلی کا سیشن اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ 50 سال قبل شروع ہونے والا سفر آج بھی جاری ہے اور یہ تاریخی لمحات مستقبل کے لیے راہ متعین کرنے میں مددگار ثابت ہوں گے اور اس تاریخی سیشن کا مقصد یہی ہے کہ اْس سفر کو جسے سینیٹ آف پاکستان نے 50 سال قبل شروع کیا تھا، آج تجدید عہد کے طور پر منایا جارہا ہے۔
یہ تاریخی سفروفاق کو مضبوط کرنے، قومی ہم آہنگی، اتحاد کو یقینی بنانے اور شراکتی وفاقیت کے ذریعے ایک جامع، نمایندہ اور متوازن پارلیمانی نظام کو فروغ دینے کے لیے ایک اہم سنگ میل کے طور پر جاری رہے گا۔ یہ 50 سالہ سفر جمہوریت، پارلیمنٹ اور قانون سازوں کی اجتماعی ناقابل تردید فتح ہے جو لوگوں کی نمایندگی کرتے ہیں، جیسا کہ آئین میں تصور دیا گیا ہے۔
یہ بلاشبہ ایک تاریخی موقع ہے کیونکہ اس کی بدولت ہمیں اپنے ترقی کے سفر کی پیش رفت پر غور کرنے، اس کا جائزہ لینے اور اس پرتفصیلی نظر ڈالنے کا منفرد موقع فراہم کرتا ہے تاکہ ہم مستقبل کی منصوبہ بندی ایک ایسے خوش آیند اور ترقی پسندانہ سوچ کے ساتھ ترتیب دیں سکیں جو عوام کی خواہشات اور وفاقی اکائیوں کے جذبات کی نمایندگی کرے۔
اگر ہم تاریخ پر نظر ڈالیں تو ایوان بالا نے یہ سفر نصف صدی قبل اپنے قیام کے بعد اس مقصد سے شروع کیا تھا کہ صوبوں کو اختیارات کی منتقلی اور مساوی نمایندگی کے تحت وفاقی اکائیوں کو با اختیار بنایا جائے۔
اگرچہ مسائل بھی تھے اورسیاسی، سماجی و اقتصادی مشکلات کا سامنا بھی تھا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ 1973 کے دستور سے پہلے پاکستان کے سیاسی اْفق پر پارلیمانی نظام کو یک ایوانی مقننہ کے تحت چلایا جارہا تھا جس کی وجہ سے قانون ساز ادارہ اکثریت کے زیر اثر رہا اور چھوٹے صوبوں کی کوئی شنوائی نہیں تھی۔اس یک ایوانی مقننہ کے نظام اور اختیارات کے مرکز میں تفویض نے جمہوریت کی جڑوں کو پنپنے نہ دیا اور ایک غیر یقینی صورتحال کا سامنا رہا۔
اس غیر یقینی صورتحال کو 1973 کے آئین نے حل کیا جس کے تحت دو ایوانی مقننہ کی بنیاد رکھی گئی جس میں صوبوں کو برابر کی نمایندگی دی گئی اور اس طرح سے وفاق اور وفاقی اکائیوں کے درمیان ایک ادارہ جاتی اور آئینی نظام کار کے ذریعے رابطہ پیدا کیا گیا۔ اْس وقت کے وزیر قانون، جناب عبدالحفیظ پیرزادہ، جنھیں 1973 کے آئین پاکستان کے پرنسپل ڈرافٹ مین کے طور پر جانا جاتا ہے، نے 17 فروری 1973 کو قومی اسمبلی سے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ آئین میں سینیٹ آف پاکستان کے تصور کو متعارف کرانے سے ایک حقیقی وفاقی طرز حکمرانی یا وفاقی آئین متعارف کرا دیا گیا ہے جو صوبوں کے درمیان آبادی کی بنیاد پر پائی جانے والی تفریق کا حل نکالنے میں مددگار ثابت ہوگا۔
میں آئین بنانے والوں کی دور اندیشی، بصیرت، دانش مندی کو سلام پیش کرتا ہوں۔ جنھوں نے بجا طور پر یہ سمجھا کہ پاکستان کی سیاسی تنوع اور جغرافیائی تشکیل وفاقی سطح پر دو ایوانوں کے نظام کے متقاضی ہے، نہ کہ ایک ایوانی مقننہ کے۔
مضبوط مرکزکی خاطر اْس وقت کی ''ون یونٹ''جیسی خطرناک مہم جوئی اور 1971 میں مشرقی حصے کے جدا ہونے کے باعث وفاق کو ایک بڑی قیمت چکا نا پڑی اور ان سے سبق سیکھ کر سینیٹ کا وجود عمل میں لایا گیا جس نے جمہوری، سیاسی، سماجی، خارجہ پالیسی، اندروانی و بیرونی محاذوں پر حالات کا مقابلہ کرنے میں اپنا کلیدی کردار ادا کیا ہے اور ان مختلف سطح پر مسائل کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنا تشخص برقرار رکھا ہے۔
پاکستان جیسی کثیر الثقافتی ریاست کی حکمرانی اور نمایندگی کے لیے ایک ایسے فریم ورک کا ہونا ضروری تھا جہاں سب کی شمولیت کو یقینی بنایا جا سکے اور ایوان بال نے یہ فریم ورک فراہم کیا جس نے قومی ہم آہنگی کو فروغ دیتے ہوئے صوبائی اکائیوں کے تصور اور صوبوں کو مساوی نمایندگی دیتے ہوئے باہمی احترام اور شراکت دارانہ جمہوریت کے طرز عمل کو پروان چڑھایااور ایوان بالا نے صوبوں کے مابین اور وفاق اور صوبوں کے درمیان رابطہ کاری کو مضبوط بنانے میں ایک تاریخی کردار ادا کیا۔ثقافتی تنوع کے ذریعے اتحاد کو فروغ دیتے ہوئے ایوان بالا نے اپنے مینڈیٹ کو پورا کرنے کے لیے تمام تر توانائیاں برؤے کار لائیں اور ہر سطح پر کوششیں کیں۔
ہر دور کے مشکلات اور مسائل کے باوجود یہ سفر جاری رہا ہے اور اس کی جڑیں شراکت دارانہ وفاقیت کے تصور میں جڑی ہوئی ہیں جو صوبوں کی ملکی ترقی وخوشحالی میں کردار کو تسلیم کرنے اور قومی سطح پر مساوات، امن اور ہم آہنگی کو فروغ دینے کے فلسفے پر کام کر رہا ہے۔
موثر قانون سازی اور بھر پورصوبائی نمایندگی کامینڈیٹ لیے ایوان بالا نے جمہوریت کے تسلسل کی خاطر اجتماعی قومی دانش فراہم کی ہے اور اس کا عملی ثبوت بھی دیا ہے۔وہ ماہرین جنھوں نے 1973 کا آئین مرتب کیا، انھوں نے یہ تصور کیا تھا کہ ایوان بالا صوبائی حقوق، خود مختاری، قومی ہم آہنگی اور اتحاد کے مرکز کے طور پر اپنا کردار اد اکرے گا اور ایوان نے یہ کردار آئینی اور جمہوری انداز میں اد ا کیا ہے۔
ایوان بالا نے ہر مشکل دور میں قوم کو ایک اْمید کا پیغا م دیا ہے اور مختلف ادوار میں پیدا ہونے والے سیاسی خلفشار اور غیر یقینی صورتحال کے باوجو د ایک با مقصد کردار ادا کرتے ہوئے اپنی آئینی ذمے داریاں منصفانہ طریقے سے سرانجام دیں۔ اداروں کے مابین ڈائیلاگ اور رابطہ کاری ایک بہترین طرز حکمرانی اور ترقی کے لیے انتہائی ضروری ہے اور اس مسائل کے حل کے لیے ہم آہنگی کا فروغ ضروری ہے۔
اس لحاظ سے ایوان بالا نے ہمیشہ قومی سطح پر اہم ریاستی اداروں کے ساتھ رابطہ کاری کو ہم سمجھا تاکہ زندگی کے مختلف شعبوں اور ملکی سطح پر درپیش مسائل کا حل مل بیٹھ کر مشاورت کے ساتھ نکالا جائے چاہے وہ مسائل خارجہ پالیسی سے متعلق ہو یا انصاف کی باہم فراہمی یا سیکیورٹی سے متعلق، ان تمام کاوشوں کے پیچھے بنیادی مقصد یہی ہے کہ قومی سطح پر معاونت اور پارٹنر شپ کے ذریعے آگے بڑھیں اور پارلیمان ان تمام امور میں مرکزی کردار ادا کرے۔
میرے لیے ایوان بالا کی سربراہی بہت اعزاز کی بات ہے کیونکہ میں نے خود ہمیشہ صوبائی حقوق کی بات کی ہے اور میں اس پر پختہ یقین رکھتا ہوں کہ مساوات اور شراکت دارانہ طرز عمل پارلیمانی جمہوریت اور وفاقیت کے تصور میں مرکزی حیثیت رکھتے ہیں۔ ایوان بالا رواں ماہ گولڈن جوبلی منا رہا ہے اور اس سلسلے میں تین روزہ خصوصی اجلاس بھی طلب کیا گیا ہے تاکہ ہم وفاقی، صوبائی ہم آہنگی اور رابطہ کاری کے عظیم و شان تصور کو آگے بڑھاتے ہوئے ایک مضبوط اور موثر فیڈریشن کی خاطر اپنے عزم کی تجدید کر سکیں۔
تین روزہ خصوصی اجلاس جو 15,16 اور17 مارچ2023 کو منعقد ہوگا میں سینیٹرز، پارلیمانی لیڈران، وزرائے اعلیٰ، گورنرز،صوبائی وزیر، سفراء ، میڈیا، بارکونسلز کے نمایندے، ایوان ہائے تجارت کے سربراہان وغیرہ بھی شرکت کریں گے اور ملک کو درپیش چیلنجز پر قابو پانے کے لیے اپنا نقطہ نظر پیش کریں گے۔
سینیٹ کی گولڈن جوبلی کا سیشن اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ 50 سال قبل شروع ہونے والا سفر آج بھی جاری ہے اور یہ تاریخی لمحات مستقبل کے لیے راہ متعین کرنے میں مددگار ثابت ہوں گے اور اس تاریخی سیشن کا مقصد یہی ہے کہ اْس سفر کو جسے سینیٹ آف پاکستان نے 50 سال قبل شروع کیا تھا، آج تجدید عہد کے طور پر منایا جارہا ہے۔
یہ تاریخی سفروفاق کو مضبوط کرنے، قومی ہم آہنگی، اتحاد کو یقینی بنانے اور شراکتی وفاقیت کے ذریعے ایک جامع، نمایندہ اور متوازن پارلیمانی نظام کو فروغ دینے کے لیے ایک اہم سنگ میل کے طور پر جاری رہے گا۔ یہ 50 سالہ سفر جمہوریت، پارلیمنٹ اور قانون سازوں کی اجتماعی ناقابل تردید فتح ہے جو لوگوں کی نمایندگی کرتے ہیں، جیسا کہ آئین میں تصور دیا گیا ہے۔