یہاں ادب اور ادیب بھی خالی ڈبے ہیں

جس معاشرے میں سے ایسا تخلیقی ادب اٹھ جائے جو انسان کی کایا پلٹ کر رکھ دے تواس معاشرے کا حال ہمارے معاشرے جیسا ہوتا ہے.

لوگ ایک فٹ پاتھ کے کنارے لگائی گئی پرانی کتابوں کی خریداری کر رہے ہیں۔ فوٹو: آغامہروز/ایکسپریس

جس معاشرے میں سے ایسا تخلیقی ادب اٹھ جائے جو انسان کی کایا پلٹ کر رکھ دے تواس معاشرے کا حال ہمارے معاشرے جیسا ہوتا ہے، جہاں کتابیں شائع تو ہوتی ہیں مگر فروخت نہیں ہوتیں بلکہ صرف فٹ پاتھ کی زینت ہی بنتی ہیں ۔ لیکن ا س کی وجوہات کبھی کسی نے بھی جاننے کی کوشش نہیں کی نہ ہی ادیبوں نے اور نہ ہی پبلشرز نے۔ حکومت کی تو بات ہی چھوڑیے اس کا علم و فضل اور لکھنے لکھانے سے کیا لینا دینا۔ کچھ دن پہلے اسی موضوع پر ادبی بیٹھک لاہور میں چند سینئر ادیبوں ،شاعروں اور ڈرامہ نگاروں سے بات چل نکلی کہ آخر کاراب کتابیں کیوں فروخت نہیں ہو رہی؟ ان میں کئی حضرات صدارتی ایوارڈ یافتہ اور تمغہ حسن کاردگی کے حامل بھی تھے ،سب اپنی رائے دے رہے تھے کوئی ٹی وی چینل کو کوسنے دے رہا تھا تو کسی کی زبان پر انٹر نیٹ کے خلاف شکوہ تھا ،کسی کے نزدیک کتابوں کی بڑھتی ہوئے قیمت وجہ تھی اور کوئی سازشی تھیوری کا رونا رو رہا تھا۔

میں اس ''اجتماعی دانش'' کے درمیاں ان کے ''سنہری اقوال'' سن رہا تھا اور سوچوں میں گم تھا کہ آواز آئی کہ آفاقی صاحب آپ بھی تو کچھ بولیے ۔میں نے کہا حضور جہاں اس قدر دانش کے موتی رولے جارہے ہوں وہاں مجھ جیسے ادنیٰ سے قلم کار کی کیا رائے ہو سکتی ہے،،لیکن پھر بھی کچھ نہ کچھ کہنے پر اصرار بڑھتا گیا تو میں نے صرف اتنا کہا کہ جناب عالیٰ کیا پاکستان میں وہ ادب تخلیق ہو رہا ہے جو آج کے قاری کی ضرورتوں کو پورا کرتا ہو؟ سب کی خاموشی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے میں مزید بولنے لگا کہ جناب آج کا ادیب خوف اور وسوسوں کا شکار ہے وہ ادب تخلیق نہیں کر رہا بلکہ صرف اپنی مردہ سوچیں ،مردہ خیال اور مردہ لفظوں کو جدید نسل میں منتقل کر رہا ہے ، ادب تو بہتی ندی ہے اگر صاف اور شفاف ہو گی تو ہر کوئی اس سے مستفید بھی ہوگا اور اپنی جگہ بھی بنا لے گا ، کیا آر این سٹون کی ہیری پوٹرکروڑوں میں فروخت نہیں ہوتی ؟کیا مغرب میں میں کوئی بھی کتاب لاکھوں سے کم تعداد میں شائع ہوتی ہے؟کیا مغرب کے اخبارات اور رسائل کروڑوں کی تعداد میں شائع نہیں ہوتے ؟صرف ریڈر ڈائجسٹ کو ہی لے لیجیے،اس کا ہر ایڈیشن کروڑوں میں شائع ہوتا ہے،اسی طرح وہاں ناول ،شاعری اور اور دیگر موضوعات پر شائع ہونے والی کتابوں کا پہلا ایڈیشن لاکھوں سے کم میں شائع نہیں ہوتا۔
میں نے ان سے کہا کہ چلیں مغرب کو تو چھوڑیے اپنے ہمسایہ ملک بھارت کو ہی دیکھ لیجیے جہاں کے کسی ایک شہر سے شائع ہونے والے چھوٹے سے چھوٹے اخبار کی اشاعت بھی پچاس ہزار سے کم نہیں ہوتی ۔ وہاں کتابوں کی صورت حال بھی کم و بیش یہی ہے۔ جبکہ ہمارے ملک میں جس اخبار کی پیشانی پر '' پاکستان کے ہر روزنامے سے زیادہ'' اشاعت لکھی ہوتی ہے اس کی بھی اصل اشاعت کا پتہ لگانا ہو تو کسی بھی اخبار مارکیٹ میں جاکر اس کے ایجنٹ سے پوچھیے آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ ''کتنی زیادہ اشاعت ہے''؟ ،توباقی کے اخبارات اور رسائل کی اشاعت کا کیا عالم ہو گا؟

اب ہم آتے ہیں اس سوال کی جانب کہ پاکستان میں کتاب کیوں نہیں بکتی،تو جناب من اس کی بنیادی وجہ وہی ہے جو اوپر بیان ہو چکی ہے کہ پاکستانی ادیب کا ذہن ادب تخلیق کرنے کے حوالے سے بانجھ ہو چکا ہے ،چربہ سازی میں بھی عقل کا استعمال نہیں کیا جاتا بلکہ مکھی پر مکھی ماری جاتی ہے ہمارے ہاں تو پی ایچ ڈی کرنے والوں کا علم بھی مشکوک ہو چکا ہے۔ اس کے ساتھ ہی آج کا قاری کیا پڑھنا چاہتا ہے اس کے ذہن کے مطابق جب تک ادب تخلیق نہیں ہو گا کتاب مارکیٹ میں جاتے ہی فٹ پاتھوں پر نظر آئے گی۔ہمارے ادیب ، شاعر، کالم نگار خودکوئی کتاب نہیں پڑھتے اور نہ ہی دنیا بھر کے ادیبوں کی تحریروں سے مستفید ہوتے ہیں، انہیں پتہ ہی نہیں کائنات میں ہر روز تخلیق کے سوتے پھوٹ رہے ہیں سور ج ہر روز نئی کرنوں کے ساتھ طلوع ہوتا ہے۔ہم بند ذہنوں کے حامل معاشرے کے ادیب و شاعر،سوائے منافقت تخلیق کرنے کے کچھ اور تخلیق نہیں کر رہے۔ہمارا یہ المیہ ہے کہ ہمیں روحانی غذا فراہم کرنے والے دانشور،کالم نگار،و ادیب خود خالی ڈبے ہیں جو ذرا تیز ہوا چلنے سے بھی بجنے لگتے ہیں۔


ہمارے ملک کا تو تعلیمی نصاب بھی انسان سازی میں معاون نہیں ہے جبکہ درحقیقت تعلیمی نصاب کوانسان سازی میں معاون ہونا بے حد ضروری ہے۔انسانی ذہن سازی میں تعلیمی نصاب بڑا اہم کردار ادا کرتا ہے ،تعلیمی نصاب ایسا ہونا چاہے جس سے انسان کی مضمر صلاحتیں پروان چڑھیں اور ایک نئے انسان کی تخلیق وجود پزیر ہو سکے ،ایسا نصاب جو سوچنے ، سمجھنے ،بولنے سوال کرنے ،غور و فکر کے ساتھ کائنات کی پہنائیوں میں چھپے رازوں سے پردا اٹھانے کی طرف مہمیز کرتا ہو ۔کیا ہمارا تعلیمی نصاب ان خوبیوں کا حامل ہے؟ اور کیا ہمارا شاعر اور ادیب وہ ادب تخلیق کر رہے ہیں جسے آج کے قاری کی ضرورت کہا جاسکے ؟ میرے خیال میں ہم سب کواس سوال پر غور کرنے کی ضرورت ہے؟ تاکہ ہم اپنے ذہن کے دریچوں کو کھول سکیں اورآنے والی نسلوں کے لئے ادب کی نئی راہیں روزشن ہوں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 300 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔
Load Next Story