معاشی و سیاسی شکنجے
کیسا زبردست جال ہے۔ سادہ لوح پاکستانی عوام ایک سے نکلتے ہیں دوسرے میں پھنس جاتے ہیں
سابق بھارتی سفیر ستیندر لامبا جن کا گزشتہ برس انتقال ہوا ان کی بعد از مرگ شایع ہونے والی کتاب میں انھوں نے انکشاف کیا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے سابق سربراہان اقتدار سے محروم ہونے سے قبل دونوں ممالک کے درمیان امن معاہدے پر دستخط کرنے کے لیے تیار تھے۔ کتاب کے مطابق مئی 2003سے مارچ2014تک 36بیک چینل اجلاس منعقد ہوئے۔
اس مدت کے دوران دونوں ممالک کی جانب سے دو دو لیڈران نے اپنا کردار ادا کیا جنرل پرویز مشرف اور نواز شریف نے پاکستان کی جانب سے بیک چینل مذاکرات کی حمایت کی جب کہ اٹل بہاری واجپائی اور من موہن سنگھ نے بھارت کی جانب سے اس پر زور دیا۔ کتاب میں کہا گیا ہے کہ امن معاہدے پر زیادہ تر پیش رفت جنرل مشرف کے دور میں ہو چکی تھی۔
یہاں تک کہ جنرل مشرف اور بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ امن معاہدے پر دستخط کرنے والے ہی تھے کہ نادیدہ قوتوں نے پاکستان میں وکلاء تحریک چلا کر اس سارے عمل کاخاتمہ کر دیا۔ بعد میں اس عمل کو سابق وزیر اعظم نواز شریف نے تیزی سے آگے بڑھایا۔ نواز شریف کے اقتدار سے بے دخل ہونے کی سب سے بڑی وجہ یہی تھی کہ وہ بھارت اور پاکستان کے درمیان دوستی کی داغ بیل ڈالنا چاہتے تھے ۔
پاکستان بننے کے بعد سے ہی مختلف پروجیکٹ پر کام شروع ہو گیاتھا۔ جس کا اصل مقصد یہ تھا کہ پاکستان میں جمہوریت مضبوط نہ ہو۔ اس کے لیے ایک بڑی منصوبہ بندی کے تحت جمہوریت مخالف پروپیگنڈا اور سیاست دانوں کی کردار کشی کی گئی۔ قیام پاکستان کے بعد سے یہ سلسلہ شروع ہو گیا تھا کہ قائد اعظم کے ساتھیوں مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح سمیت کیسے محب وطن دیانتدار سیاست دانوں کو سیاست سے نکال باہر کیا جائے۔
ایبڈو کا قانون لاکر اس پر کامیابی سے عمل کیا گیا۔ حسین شہید سہروردی ہوں خواجہ ناظم الدین یا سردار عبدالرب نشتر کسی کو نہیں بخشا گیا۔ اس سلسلے میں جس پہلے پروجیکٹ کو لانچ کیا گیا اس میں ذوالفقار علی بھٹو شامل تھے لیکن بھٹو نے آخر کار عوام کو غلام بنانے کے اس کھیل سے انکار کر کے بغاوت کی۔
جس کی سزا انھیں پھانسی کی شکل میں بھگتنا پڑی۔ لیکن اس پروجیکٹ پر عملدرآمد کرواتے کرواتے نوبت یہاں تک پہنچی کہ اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھ سے گیم اس طرح نکل گئی کہ پورے پاکستان میں بھٹو کا طوطی بولنے لگا یعنی عوام میں ان کی مقبولیت اس انتہا درجہ تک پہنچ گئی کہ وہ اگر کھمبے کو بھی ٹکٹ دیتے تو وہ جیت جاتا سو انھیں اس "غداری "کی سزا ملنی ہی تھی جو انھیں مل کر رہی۔ اس کے بعد چالیس برس قبل جس پروجیکٹ پر کام شروع ہوا ۔
یہ نواز شریف پروجیکٹ تھا یہ بات پاکستانی عوام کو ذہن نشین کرنا ضروری ہے کہ ان تمام پروجیکٹوں کا ایک ہی مقصد تھا کہ پاکستان کے عوام کو ان کے حق حکمرانی سے محروم رکھا جائے جس پر آج بھی نہایت کامیابی سے عمل در آمد جاری ہے۔ نواز شریف صاحب کو بھٹو اثرات سے نکالنے کے لیے پاکستان خاص طور پر پنجاب میں بھر پور طور پر استعمال کیا گیا۔ لیکن اس تمام عمل کے دوران نواز شریف پنجاب کے مقبول ترین لیڈر بن گئے۔
جب نواز شریف کنٹرول سے باہر نکل گئے تو یہاں سے عمران خان پروجیکٹ کا آغاز ہوتا ہے۔ جیسے ہی نوازشریف عوام کے مقبول لیڈر بنے انھوں نے تابعداری سے انکار کر دیا۔ نواز شریف صاحب اچھی طرح سمجھ گئے تھے کہ عوام کے حق حکمرانی کو واپس لینے کا ایک ہی راستہ ہے کہ بھارت سے تعلقات نارمل کیے جائیں۔
یہی وجہ ہے کہ بھارتی وزیر اعظم مودی جب کابل سے واپسی پر اچانک لاہور رکے اور ان کی نواسی کی شادی کی تقریب میں شریک ہوئے تو اس ملاقات کو غداری ٹھہرایا گیا۔ ایسا کچھ بھی نہیں تھا یہ سب کچھ برصغیر کے عوام کے وسیع تر مفاد میں ہو رہا تھا۔
عمران خان پروجیکٹ پر کام کا آغاز 2011 میں شروع ہوا۔ یہ بھی سیاست دانوں کو آپس میں لڑا کر استعمال کرنے کا پروجیکٹ تھا۔ لیکن یہاں ایک عجیب صورتحال رونما ہو گئی کہ جب عمران خان اپنی مقبولیت کھو چکے تھے اور ان کی حکومت کا خاتمہ ہو گیا تو عمران خان نے امریکا اسٹیبلشمنٹ مخالف نعرہ لگا دیا تو وہ بھی اپنی مقبولیت کی انتہا پر پہنچ گئے۔
عالمی اسٹیبلشمنٹ کے لیے یہ بڑی حساس صورتحال ہے کہ جب وہ ہمارے خطے کے حوالے سے بڑے فیصلے لینے جا رہی ہے۔ پاکستان پر اپنی من مرضی مسلط کرنے کے لیے پاکستان کی تباہ کن معاشی صورتحال اس کے لیے انتہائی مددگار ہے۔
اس کی خوش قسمتی کی انتہا ہے ایک طرف روس دوسری طرف پاکستان کی صورتحال۔ اس وقت پاکستانی سیاسی منظر نامے میں جو بد ترین محاذ آرائی نظر آرہی ہے کہ حکمران طبقات کسی صورت عوام کو اس کا حق حکمرانی واپس کرنے کو تیار نہیں لیکن امریکا اور اس کے اتحادی اس صورتحال میں بتدریج مکمل تبدیلی چاہتے ہیں کہ جنوبی ایشیا کے حوالے سے ان کا ایجنڈا آگے بڑھے۔
پاکستانی عوام کو اس کے حق حکمرانی سے محروم کرنے کے اس کھیل میں حفظ ماتقدم کے کے طور پر مذہبی سیاسی جماعتوں کی نہ صرف سرپرستی کی گئی بلکہ انھیں ایک ہتھیار کے طور پر مسلسل استعمال کیا گیا۔ بعد میں جمہوریت اور سیاست دانوں کو کنٹرول کرنے کے لیے مجاہدین پاکستانی افغان طالبان کو بھی شامل کر لیا گیا۔
کیسا زبردست جال ہے۔ سادہ لوح پاکستانی عوام ایک سے نکلتے ہیں دوسرے میں پھنس جاتے ہیں۔ اس عوام کش کھیل کا آغاز 1954اور1958 سے ہوتا ہے۔ لیکن ہر عروج کا زوال ہے۔ اب یہ عروج اپنے فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو گیا ہے۔ صرف ایک سے دو سال کی بات ہے۔
اس مدت کے دوران دونوں ممالک کی جانب سے دو دو لیڈران نے اپنا کردار ادا کیا جنرل پرویز مشرف اور نواز شریف نے پاکستان کی جانب سے بیک چینل مذاکرات کی حمایت کی جب کہ اٹل بہاری واجپائی اور من موہن سنگھ نے بھارت کی جانب سے اس پر زور دیا۔ کتاب میں کہا گیا ہے کہ امن معاہدے پر زیادہ تر پیش رفت جنرل مشرف کے دور میں ہو چکی تھی۔
یہاں تک کہ جنرل مشرف اور بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ امن معاہدے پر دستخط کرنے والے ہی تھے کہ نادیدہ قوتوں نے پاکستان میں وکلاء تحریک چلا کر اس سارے عمل کاخاتمہ کر دیا۔ بعد میں اس عمل کو سابق وزیر اعظم نواز شریف نے تیزی سے آگے بڑھایا۔ نواز شریف کے اقتدار سے بے دخل ہونے کی سب سے بڑی وجہ یہی تھی کہ وہ بھارت اور پاکستان کے درمیان دوستی کی داغ بیل ڈالنا چاہتے تھے ۔
پاکستان بننے کے بعد سے ہی مختلف پروجیکٹ پر کام شروع ہو گیاتھا۔ جس کا اصل مقصد یہ تھا کہ پاکستان میں جمہوریت مضبوط نہ ہو۔ اس کے لیے ایک بڑی منصوبہ بندی کے تحت جمہوریت مخالف پروپیگنڈا اور سیاست دانوں کی کردار کشی کی گئی۔ قیام پاکستان کے بعد سے یہ سلسلہ شروع ہو گیا تھا کہ قائد اعظم کے ساتھیوں مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح سمیت کیسے محب وطن دیانتدار سیاست دانوں کو سیاست سے نکال باہر کیا جائے۔
ایبڈو کا قانون لاکر اس پر کامیابی سے عمل کیا گیا۔ حسین شہید سہروردی ہوں خواجہ ناظم الدین یا سردار عبدالرب نشتر کسی کو نہیں بخشا گیا۔ اس سلسلے میں جس پہلے پروجیکٹ کو لانچ کیا گیا اس میں ذوالفقار علی بھٹو شامل تھے لیکن بھٹو نے آخر کار عوام کو غلام بنانے کے اس کھیل سے انکار کر کے بغاوت کی۔
جس کی سزا انھیں پھانسی کی شکل میں بھگتنا پڑی۔ لیکن اس پروجیکٹ پر عملدرآمد کرواتے کرواتے نوبت یہاں تک پہنچی کہ اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھ سے گیم اس طرح نکل گئی کہ پورے پاکستان میں بھٹو کا طوطی بولنے لگا یعنی عوام میں ان کی مقبولیت اس انتہا درجہ تک پہنچ گئی کہ وہ اگر کھمبے کو بھی ٹکٹ دیتے تو وہ جیت جاتا سو انھیں اس "غداری "کی سزا ملنی ہی تھی جو انھیں مل کر رہی۔ اس کے بعد چالیس برس قبل جس پروجیکٹ پر کام شروع ہوا ۔
یہ نواز شریف پروجیکٹ تھا یہ بات پاکستانی عوام کو ذہن نشین کرنا ضروری ہے کہ ان تمام پروجیکٹوں کا ایک ہی مقصد تھا کہ پاکستان کے عوام کو ان کے حق حکمرانی سے محروم رکھا جائے جس پر آج بھی نہایت کامیابی سے عمل در آمد جاری ہے۔ نواز شریف صاحب کو بھٹو اثرات سے نکالنے کے لیے پاکستان خاص طور پر پنجاب میں بھر پور طور پر استعمال کیا گیا۔ لیکن اس تمام عمل کے دوران نواز شریف پنجاب کے مقبول ترین لیڈر بن گئے۔
جب نواز شریف کنٹرول سے باہر نکل گئے تو یہاں سے عمران خان پروجیکٹ کا آغاز ہوتا ہے۔ جیسے ہی نوازشریف عوام کے مقبول لیڈر بنے انھوں نے تابعداری سے انکار کر دیا۔ نواز شریف صاحب اچھی طرح سمجھ گئے تھے کہ عوام کے حق حکمرانی کو واپس لینے کا ایک ہی راستہ ہے کہ بھارت سے تعلقات نارمل کیے جائیں۔
یہی وجہ ہے کہ بھارتی وزیر اعظم مودی جب کابل سے واپسی پر اچانک لاہور رکے اور ان کی نواسی کی شادی کی تقریب میں شریک ہوئے تو اس ملاقات کو غداری ٹھہرایا گیا۔ ایسا کچھ بھی نہیں تھا یہ سب کچھ برصغیر کے عوام کے وسیع تر مفاد میں ہو رہا تھا۔
عمران خان پروجیکٹ پر کام کا آغاز 2011 میں شروع ہوا۔ یہ بھی سیاست دانوں کو آپس میں لڑا کر استعمال کرنے کا پروجیکٹ تھا۔ لیکن یہاں ایک عجیب صورتحال رونما ہو گئی کہ جب عمران خان اپنی مقبولیت کھو چکے تھے اور ان کی حکومت کا خاتمہ ہو گیا تو عمران خان نے امریکا اسٹیبلشمنٹ مخالف نعرہ لگا دیا تو وہ بھی اپنی مقبولیت کی انتہا پر پہنچ گئے۔
عالمی اسٹیبلشمنٹ کے لیے یہ بڑی حساس صورتحال ہے کہ جب وہ ہمارے خطے کے حوالے سے بڑے فیصلے لینے جا رہی ہے۔ پاکستان پر اپنی من مرضی مسلط کرنے کے لیے پاکستان کی تباہ کن معاشی صورتحال اس کے لیے انتہائی مددگار ہے۔
اس کی خوش قسمتی کی انتہا ہے ایک طرف روس دوسری طرف پاکستان کی صورتحال۔ اس وقت پاکستانی سیاسی منظر نامے میں جو بد ترین محاذ آرائی نظر آرہی ہے کہ حکمران طبقات کسی صورت عوام کو اس کا حق حکمرانی واپس کرنے کو تیار نہیں لیکن امریکا اور اس کے اتحادی اس صورتحال میں بتدریج مکمل تبدیلی چاہتے ہیں کہ جنوبی ایشیا کے حوالے سے ان کا ایجنڈا آگے بڑھے۔
پاکستانی عوام کو اس کے حق حکمرانی سے محروم کرنے کے اس کھیل میں حفظ ماتقدم کے کے طور پر مذہبی سیاسی جماعتوں کی نہ صرف سرپرستی کی گئی بلکہ انھیں ایک ہتھیار کے طور پر مسلسل استعمال کیا گیا۔ بعد میں جمہوریت اور سیاست دانوں کو کنٹرول کرنے کے لیے مجاہدین پاکستانی افغان طالبان کو بھی شامل کر لیا گیا۔
کیسا زبردست جال ہے۔ سادہ لوح پاکستانی عوام ایک سے نکلتے ہیں دوسرے میں پھنس جاتے ہیں۔ اس عوام کش کھیل کا آغاز 1954اور1958 سے ہوتا ہے۔ لیکن ہر عروج کا زوال ہے۔ اب یہ عروج اپنے فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو گیا ہے۔ صرف ایک سے دو سال کی بات ہے۔