سیاسی تحریکوں میں لاشوں کا استعمال

سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ یہ بات صرف زبانی ہی نہیں کی جاتی ہے بلکہ یہ ایک مصدقہ حقیقت بھی ہے

mnoorani08@hotmail.com

ہماری نظام عدل کی تاریخ اتنی بھی قابل ستائش نہیں ہے کہ جس پر ہم فخر کرسکیں۔ بہت سے اہم کیسوں کے فیصلوں کو وقت اور تاریخ کے اندھیروں کے سپرد کر کے ہم ایسے بھول چکے ہیں جیسے وہ کبھی دائر ہوئے ہی نہ تھے یا پھر اُن کا ادھورا رہنا ہی کسی کی مرضی و منشاء کے تابع ہو یا پھر جنھیں سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جانا کسی کی مجبوری ہو۔

ملکی تاریخ کے بہت سے مقدموں کے فیصلے یا تو اتنی تاخیر سے کیے گئے کہ اُن کی اہمیت و افادیت باقی نہ رہی یا پھر انھیں زمانے کی گرد اورمٹی کے بوجھ تلے دفنا دیا گیا ہے۔ ایسے ہزاروں کیسوں میں سے ایک کیس لاہور کے سانحہ ماڈل ٹاؤن کا بھی ہے جسے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال تو بہت کیا جاتا رہا لیکن کبھی کسی حکومت نے اس پر ہماری عدالتوں سے فیصلہ نہیں لیا۔ چودہ انسانی جانوں کے ضایع ہوجانے والا اتنا اہم کیس ہنوز لا ینحل ہے۔

اس کو بار بار یاد کر کے اور سیاسی بیانوں میں اس کا تذکرہ کر کے اپنے مذموم مقاصد تو پورے کیے جاتے رہے لیکن کبھی کوئی سنجیدہ کوشش اس کو اس کے منطقی انجام تک پہنچانے کی نہیں کی گئی۔

علامہ طاہر القادری نے عمران خان کے ساتھ ملکر اِسے اچھالا تو بہت خوب لیکن جب انھیں تین چار سال تک اقتدار بھی ملا تو ایک منحنی سی کوشش بھی اس پر فیصلہ لینے کی نہیں کی گئی۔ مسلم لیگ نون کے شہباز شریف اور رانا ثناء اللہ سمیت بہت سے لوگوں پر مختلف کیس بنا کر انھیں کئی کئی مہینے قید میں تو ڈالا گیا لیکن ایک بار بھی ماڈل ٹاؤن کیس کے الزام میں انھیں عدالت کے حوالے نہیں کیا گیا۔

آج بھی جب جب موقعہ ملتا ہے خان صاحب اور اُن کے ساتھی اکثر اپنے سیاسی بیانوں میں اس سانحہ کا ذکر تو بڑی شد ومد کے ساتھ کیا کرتے ہیں لیکن اس بات کا جواب نہیں دیتے کہ مبینہ ملزموں میں سے کسی ایک پر بھی مقدمہ کیوں نہیں کیا گیا۔

صاف پانی ، ایل این جی معاہدے اور نارووال اسپورٹس سٹی جیسے فرضی اور بے بنیاد کرپشن کیسوں میں مسلم لیگ نون کے لوگوں کو بدنام تو کیا گیا لیکن ماڈل ٹاؤن جیسے اتنے اہم کیس کو کسی عدالت میں لے جانے کا سوچا بھی نہیں گیا۔ اس بات سے یہ حقیقت تو ضرور عیاں ہوجاتی ہے کہ اس واقعے کے پس پردہ مقاصد کچھ اور ہی تھے۔

واقعہ سے پہلے تین بڑی سیاسی جماعتوں کا برطانیہ کے شہر لندن میں خفیہ اجلاس اور پھر اس واقعہ کا رونما ہونا جس کے بعد لانگ مارچ اور اسلام آباد کے ڈی چوک پر 126 دنوں کے دھرنے نے بہت سے خفیہ رازوں سے پردہ اُٹھا دیا ہے۔

سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ یہ بات صرف زبانی ہی نہیں کی جاتی ہے بلکہ یہ ایک مصدقہ حقیقت بھی ہے۔ سیاسی مقاصد کی تکمیل کے لیے بے گناہ کارکنوں کی لاشوں کا استعمال ساری دنیا میں کیا جاتا ہے۔ سیاستدانوں کو اپنی تحریکوں کو کامیاب بنانے کے لیے لاشوں کی ضرورت ہوا کرتی ہے۔ اس کے لیے صرف ایک لاش ہی کافی ہوتی ہے ، مگر یہاں تو چودہ کی چودہ لاشیں حاصل ہو گئی تھیں۔


کسی بھی سیاسی تحریک کو کامیاب ہونے کے لیے اس سے بہتر اور سنہری موقع ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ علامہ طاہر القادری نے اپنے گرم جوش بیانوں سے اس سانحہ کو خوب استعمال کیا اور پوری کوشش کی کہ رانا ثناء اللہ اور شہباز شریف کو اس کا ذمے دار قرار دیکر پھانسی کے تختہ پر لٹکا دیں۔ وہ اس واقعہ سے جڑی کسی بھی تحقیقات کا حصہ بننے سے انکار کرتے رہے کیونکہ انھیں پتا تھا کہ حقیقت کچھ اور ہی ہے۔

وہ اس تحقیقات میں شامل ہو کر اس رپورٹ کا حصہ بننا ہی نہیں چاہتے تھے جو سارے معاملے کی اصلیت ظاہر کرنے پر منتج ہو۔ رپورٹ اُن کے حق میں آجاتی تو وہ خوشی سے سرشار ہوکر شادیانے بجا رہے ہوتے اور رپورٹ کچھ مختلف ہوتی تو وہ اس رپورٹ کو ماننے سے انکاری ہوتے جیسے کہ بالآخرہوا۔ وہ اب بھی کبھی کبھار اس معاملے پر خیال آرائی کرکے سارا الزام شہباز شریف پر لگاتے رہتے ہیں۔

لانگ مارچ اور دھرنے میں اُن کے سیاسی حلیف عمران خان نے بھی اس سانحہ کو اپنی سیاسی تحریک کا اہم ایشو بنایا اور وعدہ بھی کیا کہ اقتدار ملتے ہی وہ اس واقعہ کی شفاف اور غیر جانبدارانہ تحقیقات ضرور کروائیں گے لیکن جب اُن کے دور اقتدار میں جسٹس باقر حسین نجفی کی تحقیقاتی رپورٹ سامنے آگئی تو وہ اس سے انکار بھی نہ کرسکے۔

انھوں نے نہ اسے تسلیم کیا اور نہ اسے رد کیا۔ وہ اگر رد کردیتے تو پھر دوسری تحقیقات کی ذمے داری اُن کے سر پر آجاتی ، لہٰذا خاموش رہنے کو انھوں نے اپنی عافیت جانا۔ خاموش رہنے میں جو سیاسی مقاصد حاصل ہوتے ہیں وہ تحقیقات کو منطقی انجام تک پہنچانے سے حاصل نہیں ہوا کرتے۔ اس معاملے کو ادھورا چھوڑنے میں ایک بڑا فائدہ تو یہ حاصل ہوا کہ وہ جب چاہتے ہیں اپنی تقریر اور بیانوں میں اس کا الزام میاں شہباز شریف اور رانا ثناء اللہ پر لگا دیتے ہیں۔

مقدمات کا ادھورا رہنا اور لاشوں کا مل جانا ہمارے سیاستدانوں کو بہت مرغوب ہوتا ہے۔ ہر سیاسی تحریک کا اصل مقصد بھی یہی ہوتا ہے کہ کسی نہ کسی طرح ایک لاش مل جائے۔ وہ چاہے عمران خان ہوں یا پھر اُن کے مخالف ۔ اب ایسا ہی کچھ خان صاحب بھی کر رہے ہیں۔ ظل شاہ کی ناگہانی موت کو استعمال کر کے اب اپنی سیاسی تحریک کو کامیاب بنانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔

خان صاحب کے ساتھیوں کی اشتعال انگیز تقریروں اور اُن کے سیاسی بیانوں پر غور کیا جائے تو اُن کے پس پردہ عزائم واضح ہوجاتے ہیں۔ وہ ملک میں افراتفری پیدا کر کے اور لاشوں کی خواہش کر کے اپنی تحریک کو کامیاب بنانا چاہتے ہیں۔ سیاسی جلسوں اور ریلیوں میں ڈنڈا بردار گروہوں کا استعمال اُن کے ان ارادوں کی واضح طور پر غمازی کرتا ہے۔

خان صاحب ویسے تو اپنی ہر تقریر میں یہ عندیہ دیتے رہتے ہیں کہ اُن کی سیاسی تحریک ایک جمہوری اور پر امن تحریک ہے اور رہے گی ، لیکن پارلیمنٹ کی بلڈنگ پر حملہ اورPTV کے عمارت کے اندر گھس کر اس کو تہس نس کرنا کن پرامن جمہوری تحریکوں کا خاصہ رہا ہے۔

اُن کے من پسند جوشیلے ساتھی شیخ رشید ہمیشہ جلا دینے اورآگ لگا دینے کی باتیں کیا کرتے رہے ہیں۔ وہ تو انھیں اب اپنے خفیہ سرپرستوں کی حمایت حاصل نہیں رہی ہے اس لیے وہ آگ نہیں لگا پا رہے ہیں ورنہ کب کی لگا چکے ہوتے۔

وہ پرامن سیاسی جدوجہد کے کبھی قائل ہی نہیں رہے ۔ اُن کا خیال ہے کہ تحریکیں وہی کامیاب ہوتی ہیں جن میں ایک نہیں کئی کئی لاشیں گرائی گئی ہوں۔ وہ اب بھی اپنے اسی نظریے پر کام کر رہے ہیں اور شاید خان صاحب کو بھی اسی کام پر اکسا رہے ہیں۔
Load Next Story