امتحان کا موسم
موسم بہار کی آمد آمد ہے ہر طرف پھول کھلنے لگے ہیں، سردیوں کی رخصتی ہو رہی ہے اور گرمیوں کی آمد آمد ہے
موسم بہار کی آمد آمد ہے ہر طرف پھول کھلنے لگے ہیں، سردیوں کی رخصتی ہو رہی ہے اور گرمیوں کی آمد آمد ہے مگر ساتھ ساتھ ایک اور موسم بھی چل رہا ہے وہ ہے امتحانوں کا موسم۔ صوبہ سندھ میں بورڈ کے امتحانات ہو رہے ہیں میٹرک بورڈ اس مرحلے سے گزر رہا ہے دعوے کیے جا رہے ہیں کہ نقل کرنے والوں یا کروانے والے گروپس کی حوصلہ افزائی نہیں کی جائے گی مگر آپ حوصلہ افزائی کریں یا نہ کریں کام تو جاری و ساری ہے۔ پچھلے دنوں ہر چینل پر رپورٹ تھی کہ ایک اسکول میں چھاپے کے دوران اسسٹنٹ کمشنر نے کسی بچے کو نقل کرتے ہوئے پکڑا اور اس کو زور دار تھپڑ رسید کر دیا پھر اس پر بھی بحث شروع ہو گئی کہ تھپڑ مارنا چاہیے تھا یا نہیں۔ اصل بات درمیان میں ہی رہ گئی کہ نقل کیوں ہو رہی تھی بظاہر اتنی سختی کا مظاہرہ ہو رہا ہے چھاپہ مار ٹیمیں چھاپے مار رہی ہیں جیسے کہ دشمن کی فوج پر حملہ ہو رہا ہو۔
طالب علموں کی نگرانی ہو رہی ہے چینل مسلسل دکھا رہے ہیں کہ کن کن اسکولوں میں نقل کا بازار گرم ہے مگر ابھی تک کسی بھی اسکول کے خلاف تادیبی کارروائی نظر نہیں آئی۔ اس کے باوجود زیادہ تر اسکولوں میں کھلے عام نقل کے مواقعے فراہم کیے جا رہے ہیں اکثر جگہ پر تو فی پرچہ ریٹ بھی مقرر ہے نقل مافیا اور فوٹو اسٹیٹ مشینوں کے مالکان کا کاروبار عروج پر ہے تا کہ طلبا کو آسانی فراہم کی جا سکے نقل مافیا کی سہولتوں کی بدولت طلبا میں پڑھنے کا رجحان ختم ہوتا جا رہا ہے۔ اب تو اکثر والدین اپنے بچوں کی حوصلہ افزائی کرتے نظر آتے ہیں اور اپنے جاننے والے اساتذہ اور دوسرے عملے کو ڈھونڈتے نظر آتے ہیں ہم اپنے ایک ملنے والوں کے گھر ان کی عیادت کو گئے دیکھا تو پتہ چلا بیمار کو چھوڑ کر باقی گھر والے کبھی کسی کو تو کبھی کسی کو فون پر فون کر رہے ہیں پوچھا تو معلوم ہوا کہ ان کی بچی کا نویں جماعت کا امتحان ہونے والا ہے۔ اس لیے ذرایع تلاش کیے جا رہے ہیں کہ بچی کی مدد کی جا سکے جب والدین اس طرح کی حرکتیں کرتے ہیں تو بچوں کو کیا ضرورت ہے پڑھنے کی ان کو تو علم ہے کہ کچھ نہ کچھ ہو جائے گا۔
ادھر والدین کا موقف ہے کہ ہم بھی کیا کریں ہم تو پورا سال اسکول کی فیسیں اور کوچنگ کی فیسوں کی ادائیگی کرتے ہیں مگر ہوتا یہ ہے کہ وہ بچے اچھے گریڈ میں کامیاب ہو جاتے ہیں جو پورا سال پڑھتے نہیں اسکول سے غیر حاضر رہتے ہیں مگر جب نتیجہ نکلتا ہے تو اعلیٰ گریڈ میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ اس وجہ سے بھی والدین مجبور ہو گئے ہیں کہ اپنے بچوں کے لیے امتحانات کے دوران نقل مافیا کے ہاتھ پیر جوڑیں یا پیسہ خرچ کریں ایک خاتون نے تو حد ہی کر دی خود نقل کے پرچے لے کر امتحانی سینٹر میں پہنچ گئیں وہاں جا کر دیکھا کہ بڑی سختی ہے۔ بورڈ کی ٹیم انسپکشن پر آئی ہوئی ہے تو انھوں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ ٹیم کے ایک رکن کو پکڑ کر التجا کی کہ میرا شوہر بہت ظالم ہے میرے بیٹے کو پڑھنے نہیں دیتا۔ میرا بیٹا یہاں پرچہ دینے آیا ہے اگر وہ امتحان میں فیل ہو گیا تو اسے جان سے مار دے گا۔ برائے مہربانی آپ میری مدد کریں یہ دکھ بھری داستان سن کر ٹیم کے رکن کی آنکھیں بھیگ گئیں اور انھوں نے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امدادی کمک بچے تک بہ حفاظت خود پہنچائی یہ واقعہ ہمارا چشم کشا ہے جس معاشرے میں اس طرح کا کلچر فروغ پا رہا ہو تو وہاں ڈگریاں تو مل جاتی ہیں مگر قابلیت صفر رہ جاتی ہے۔ پچھلے ہی دنوں ایک خبر تھی کہ سی ایس ایس کے امتحان میں ہزاروں کی تعداد میں طلبا نے حصہ لیا مگر صرف 200 یا اس سے کچھ زائد طلبا نے تحریری امتحان میں کامیابی حاصل کی اس تمام صورت حال میں کچھ قصور ہمارے فرسودہ نظام تعلیم کا بھی ہے۔
ہمارا نصاب تعلیم جدید تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہے جدید معلومات کا فقدان ہے ہم تو ابھی تک یہ بھی طے نہیں کر سکے ہیں کہ نظام تعلیم اردو ہو یا انگریزی ہماری حالت اس مسافر کی طرح ہے جو دو کشتیوں کا مسافر ہو حقیقت کی کی عینک لگا کر دیکھا جائے تو کوئی بھی ذی شعور پاکستانی پاکستان میں رائج نصاب تعلیم سے مطمئن نہیں ہو سکتا یہ نصاب ہماری ضروریات زمینی حقائق اور معروضی حالات سے بالکل مطابقت نہیں رکھتا ساتھ ساتھ اساتذہ کا پڑھانے کا طریقہ بھی وہی فرسودہ ہے جماعت میں آنے کا دل چاہا تو آ گئے لیکچر دیا ورنہ سارا زور نوٹس لکھوانے پر دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے طلبا رٹے کی مشق میں لگے رہتے ہیں اس طریقے تدریس کی وجہ سے ہی طلبا جماعت میں بوریت محسوس کرتے ہیں۔ بڑے بڑے سوالوں کے جوابات لکھنے میں دشواری محسوس ہوتی ہے اور تعلیم سے بیزاری بڑھتی جاتی ہے اگر ہمیں اپنے نوجوانوں کو ملک و قوم کا سہارا، معمار بنانے میں دلچسپی ہے تو ان کو شروع سے ہی اس مقصد کے لیے تیار کرنا ہو گا اساتذہ اور والدین کا کردار اس میں بہت اہمیت رکھتا ہے بچے کی شخصیت کی تعمیر مرکز نگاہ ہو تو پھر ابتدا سے ہی اسے ایسی سرگرمیوں میں مشغول رکھا جائے جو بچے کی تعلیم و تربیت میں ممد و معاون ثابت ہوں اس طرح فرسودہ سالانہ امتحانات کے روایتی نظام کو بھی تبدیل کرنا ہو گا طلبا کی تعلیمی قابلیت کی جانچ کے لیے مختلف پروجیکٹ پر طلبا سے کام کروایا جا سکتا ہے۔ اس طرح مختلف موضوعات پر پریزینٹیشن انفرادی طور پر لے کر بھی طلبا کے پورے سال کی کارکردگی کا جائزہ لیا جا سکتا ہے مگر اس کے لیے ماہرین تعلیم، بورڈ، اساتذہ، والدین سب کو شامل ہونا پڑے گا جب جا کر بات بنے گی اس کے علاوہ پرائیویٹ اسکولز کی بھی مانیٹرنگ پر توجہ دینی ہو گی کیونکہ پرائیویٹ اسکولز کی بڑی تعداد بھی اس بات کی ذمے دار ہے ۔
کیونکہ یہ لوگ اکثر بورڈ اور والدین سے مک مکا کر کے بچے کی صلاحیتوں کے مطابق نہیں بلکہ ان کے مالی تعاون کے مطابق گریڈ دلواتے ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بچہ میٹرک میں تو اچھا گریڈ لے لیتا ہے مگر آیندہ اپنے کیریر کو منتخب کرنے کے لیے مطلوبہ تعلیمی ٹیسٹ میں وہ مطلوبہ کارکردگی نہیں دکھا پاتا اس لیے ہمارا تو مشورہ ہے کہ انسپکشن ٹیم امتحانی مراکز کے دوروں کے دوران بچوں کو نقل پر سرزنش کرنے کے ساتھ ساتھ امتحانی عملے کو بھی سزائیں دے جو کہ امتحان کے دوران نقل کا ذمے دار ہوتا ہے اگر دو چار لوگوں کو کڑی سزائیں مل گئیں تو پھر لوگوں میں خوف پیدا ہو گا اور طلبا کو نقل میں مواقع نہیں ملیں گے۔ اس کے علاوہ وہ سیاسی پارٹیاں بھی اپنے کارکنوں کو سختی سے پابند کریں کہ وہ اپنے کسی بھی جاننے والے کو نقل میں مدد فراہم نہیں کریں گے یاد رکھیں یہ مدد نہیں بلکہ طلبا کے ساتھ دشمنی ہے کیونکہ اس سے طلبا میں موجود قدرتی صلاحیتوں کا بھی نقصان ہوتا ہے ۔ اس کے علاوہ سالانہ بورڈ کے پرچے بناتے وقت خیال رکھا جائے کہ سوالات ایسے ہوں جس کا جواب کتاب کے مطابق نہ ہو بلکہ بچے خود سے ان کے جوابات تحریر کر سکیں۔
طالب علموں کی نگرانی ہو رہی ہے چینل مسلسل دکھا رہے ہیں کہ کن کن اسکولوں میں نقل کا بازار گرم ہے مگر ابھی تک کسی بھی اسکول کے خلاف تادیبی کارروائی نظر نہیں آئی۔ اس کے باوجود زیادہ تر اسکولوں میں کھلے عام نقل کے مواقعے فراہم کیے جا رہے ہیں اکثر جگہ پر تو فی پرچہ ریٹ بھی مقرر ہے نقل مافیا اور فوٹو اسٹیٹ مشینوں کے مالکان کا کاروبار عروج پر ہے تا کہ طلبا کو آسانی فراہم کی جا سکے نقل مافیا کی سہولتوں کی بدولت طلبا میں پڑھنے کا رجحان ختم ہوتا جا رہا ہے۔ اب تو اکثر والدین اپنے بچوں کی حوصلہ افزائی کرتے نظر آتے ہیں اور اپنے جاننے والے اساتذہ اور دوسرے عملے کو ڈھونڈتے نظر آتے ہیں ہم اپنے ایک ملنے والوں کے گھر ان کی عیادت کو گئے دیکھا تو پتہ چلا بیمار کو چھوڑ کر باقی گھر والے کبھی کسی کو تو کبھی کسی کو فون پر فون کر رہے ہیں پوچھا تو معلوم ہوا کہ ان کی بچی کا نویں جماعت کا امتحان ہونے والا ہے۔ اس لیے ذرایع تلاش کیے جا رہے ہیں کہ بچی کی مدد کی جا سکے جب والدین اس طرح کی حرکتیں کرتے ہیں تو بچوں کو کیا ضرورت ہے پڑھنے کی ان کو تو علم ہے کہ کچھ نہ کچھ ہو جائے گا۔
ادھر والدین کا موقف ہے کہ ہم بھی کیا کریں ہم تو پورا سال اسکول کی فیسیں اور کوچنگ کی فیسوں کی ادائیگی کرتے ہیں مگر ہوتا یہ ہے کہ وہ بچے اچھے گریڈ میں کامیاب ہو جاتے ہیں جو پورا سال پڑھتے نہیں اسکول سے غیر حاضر رہتے ہیں مگر جب نتیجہ نکلتا ہے تو اعلیٰ گریڈ میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ اس وجہ سے بھی والدین مجبور ہو گئے ہیں کہ اپنے بچوں کے لیے امتحانات کے دوران نقل مافیا کے ہاتھ پیر جوڑیں یا پیسہ خرچ کریں ایک خاتون نے تو حد ہی کر دی خود نقل کے پرچے لے کر امتحانی سینٹر میں پہنچ گئیں وہاں جا کر دیکھا کہ بڑی سختی ہے۔ بورڈ کی ٹیم انسپکشن پر آئی ہوئی ہے تو انھوں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ ٹیم کے ایک رکن کو پکڑ کر التجا کی کہ میرا شوہر بہت ظالم ہے میرے بیٹے کو پڑھنے نہیں دیتا۔ میرا بیٹا یہاں پرچہ دینے آیا ہے اگر وہ امتحان میں فیل ہو گیا تو اسے جان سے مار دے گا۔ برائے مہربانی آپ میری مدد کریں یہ دکھ بھری داستان سن کر ٹیم کے رکن کی آنکھیں بھیگ گئیں اور انھوں نے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امدادی کمک بچے تک بہ حفاظت خود پہنچائی یہ واقعہ ہمارا چشم کشا ہے جس معاشرے میں اس طرح کا کلچر فروغ پا رہا ہو تو وہاں ڈگریاں تو مل جاتی ہیں مگر قابلیت صفر رہ جاتی ہے۔ پچھلے ہی دنوں ایک خبر تھی کہ سی ایس ایس کے امتحان میں ہزاروں کی تعداد میں طلبا نے حصہ لیا مگر صرف 200 یا اس سے کچھ زائد طلبا نے تحریری امتحان میں کامیابی حاصل کی اس تمام صورت حال میں کچھ قصور ہمارے فرسودہ نظام تعلیم کا بھی ہے۔
ہمارا نصاب تعلیم جدید تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہے جدید معلومات کا فقدان ہے ہم تو ابھی تک یہ بھی طے نہیں کر سکے ہیں کہ نظام تعلیم اردو ہو یا انگریزی ہماری حالت اس مسافر کی طرح ہے جو دو کشتیوں کا مسافر ہو حقیقت کی کی عینک لگا کر دیکھا جائے تو کوئی بھی ذی شعور پاکستانی پاکستان میں رائج نصاب تعلیم سے مطمئن نہیں ہو سکتا یہ نصاب ہماری ضروریات زمینی حقائق اور معروضی حالات سے بالکل مطابقت نہیں رکھتا ساتھ ساتھ اساتذہ کا پڑھانے کا طریقہ بھی وہی فرسودہ ہے جماعت میں آنے کا دل چاہا تو آ گئے لیکچر دیا ورنہ سارا زور نوٹس لکھوانے پر دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے طلبا رٹے کی مشق میں لگے رہتے ہیں اس طریقے تدریس کی وجہ سے ہی طلبا جماعت میں بوریت محسوس کرتے ہیں۔ بڑے بڑے سوالوں کے جوابات لکھنے میں دشواری محسوس ہوتی ہے اور تعلیم سے بیزاری بڑھتی جاتی ہے اگر ہمیں اپنے نوجوانوں کو ملک و قوم کا سہارا، معمار بنانے میں دلچسپی ہے تو ان کو شروع سے ہی اس مقصد کے لیے تیار کرنا ہو گا اساتذہ اور والدین کا کردار اس میں بہت اہمیت رکھتا ہے بچے کی شخصیت کی تعمیر مرکز نگاہ ہو تو پھر ابتدا سے ہی اسے ایسی سرگرمیوں میں مشغول رکھا جائے جو بچے کی تعلیم و تربیت میں ممد و معاون ثابت ہوں اس طرح فرسودہ سالانہ امتحانات کے روایتی نظام کو بھی تبدیل کرنا ہو گا طلبا کی تعلیمی قابلیت کی جانچ کے لیے مختلف پروجیکٹ پر طلبا سے کام کروایا جا سکتا ہے۔ اس طرح مختلف موضوعات پر پریزینٹیشن انفرادی طور پر لے کر بھی طلبا کے پورے سال کی کارکردگی کا جائزہ لیا جا سکتا ہے مگر اس کے لیے ماہرین تعلیم، بورڈ، اساتذہ، والدین سب کو شامل ہونا پڑے گا جب جا کر بات بنے گی اس کے علاوہ پرائیویٹ اسکولز کی بھی مانیٹرنگ پر توجہ دینی ہو گی کیونکہ پرائیویٹ اسکولز کی بڑی تعداد بھی اس بات کی ذمے دار ہے ۔
کیونکہ یہ لوگ اکثر بورڈ اور والدین سے مک مکا کر کے بچے کی صلاحیتوں کے مطابق نہیں بلکہ ان کے مالی تعاون کے مطابق گریڈ دلواتے ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بچہ میٹرک میں تو اچھا گریڈ لے لیتا ہے مگر آیندہ اپنے کیریر کو منتخب کرنے کے لیے مطلوبہ تعلیمی ٹیسٹ میں وہ مطلوبہ کارکردگی نہیں دکھا پاتا اس لیے ہمارا تو مشورہ ہے کہ انسپکشن ٹیم امتحانی مراکز کے دوروں کے دوران بچوں کو نقل پر سرزنش کرنے کے ساتھ ساتھ امتحانی عملے کو بھی سزائیں دے جو کہ امتحان کے دوران نقل کا ذمے دار ہوتا ہے اگر دو چار لوگوں کو کڑی سزائیں مل گئیں تو پھر لوگوں میں خوف پیدا ہو گا اور طلبا کو نقل میں مواقع نہیں ملیں گے۔ اس کے علاوہ وہ سیاسی پارٹیاں بھی اپنے کارکنوں کو سختی سے پابند کریں کہ وہ اپنے کسی بھی جاننے والے کو نقل میں مدد فراہم نہیں کریں گے یاد رکھیں یہ مدد نہیں بلکہ طلبا کے ساتھ دشمنی ہے کیونکہ اس سے طلبا میں موجود قدرتی صلاحیتوں کا بھی نقصان ہوتا ہے ۔ اس کے علاوہ سالانہ بورڈ کے پرچے بناتے وقت خیال رکھا جائے کہ سوالات ایسے ہوں جس کا جواب کتاب کے مطابق نہ ہو بلکہ بچے خود سے ان کے جوابات تحریر کر سکیں۔