ملک کسی نئے بحران کا متحمل نہیں ہوسکتا

ملک کے بدخواہوں کی اداروں کو لڑانے کی کسی بھی کوشش کو کامیاب نہ ہونے دیں

پاکستان کے سابقہ صدر اور آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کو آئین شکنی کے مقدمے میں سزا کے عمل سے گزار کر کے پاکستان کو درپیش لاتعداد اندرونی اور بیرونی مسائل اور خطرات سے چھٹکارا دلایا جا سکتا ہے تو پھر حکومت وقت کو جمہوریت کے نوخیز پودے کو لاحق تمام خطرات اور دباؤ کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اس عمل کو مکمل کیا جائے۔ ان کی سزا پر عمل درآمد ہونے کے بعد اگر پاکستان میں موجود تمام بوسیدہ روایات کا خاتمہ ممکن ہے تو انھیں ضرور کٹہرے میں کھڑا کیا جائے ان کی سزا کے بعد اگر پاکستان کی تقدیر بدل دی جائے گی، غریب اور امیر طاقت ور اور کمزور افراد پر قانون کا اطلاق اور نفاذ انتہائی منصفانہ اور مساویانہ ہو گا۔ امرا اور غربا کے درمیان بڑھتا ہوا انتہائی ظالمانہ اور غیر منصفانہ معاشی فرق کم ہو جائے گا جمہوریت اور قومی بقا کے نام پر آمرانہ قوتوں کا ساتھ دے کر دو ڈھائی عشروں میں اربوں پتی بننے والے سیاستدان، سابقہ جرنیل، اعلیٰ افسر شاہی، سرمایہ دار، زمیندار، کارخانہ دار، وکلا، ڈاکٹرز اور بڑے تاجر حضرات اپنی حب الوطنی کے ثبوت کے طور پر اپنی دولت کا صرف پانچ فیصد حصہ اپنی تاریخ کے بدترین بحران میں پھنسی ہوئی قوم کو دینے پر تیار ہو جائیں گے تو پھر انھیں سزا کے عمل سے ضرور گزارا جائے۔

کیا قوم کی اشرافیہ ہندوستان کی طرز پر، صرف چند سالوں کے لیے ہی سہی، چھوٹی چھوٹی کاروں اور جیپوں میں سفر کر کے توانائی اور ایندھن کے بے جا اسراف کو روکنے کی قابل تقلید مثال قائم کرنے پر تیار ہو جائے گی؟ کیا یہ اشرافیہ ملک کو سنگین معاشی مسائل کا ادراک کرتے ہوئے قوم کے سامنے اپنے حقیقی اثاثوں اور کروڑوں روپوں پر مشتمل ماہانہ ذرایع آمدن کو قوم کے سامنے ظاہر کر کے اس پر لاگو ہونے والے ٹیکس کو قومی خزانے میں جمع کروانے پر تیار ہو جائے گی؟ کیا جنرل مشرف کی سزا کے بعد گھی، آٹا، دالیں، ادویات اور دوسری اشیا ضرورت زندگی کی قیمتوں میں واضح کمی ہو جائے گی؟ کیا اقربا پروری، کینہ پروری، بدعنوانی، لوٹ کھسوٹ، ظالم و زیادتی، رشوت، کساد بازاری اور ملاوٹ جیسی معاشرتی برائیوں کا خاتمہ کر دیا جائے گا کیا با اثر افراد اپنے کمیشن لینا چھوڑ دیں گے اور خالی پڑی ہوئی اربوں روپوں کی قیمتی زمین پر طاقت اور دولت مند افراد قبضہ کرنا بند کر دیں گے؟

کیا اسلحہ، منشیات اور انسانوں کی اسمگلنگ کا عمل بند ہو جائے گا؟ کیا مشرف کی سزا کے بعد قوم کے نوجوان کا اسلحہ بردار بننے کا عمل رک جائے گا۔ کیا قوم کو اربوں روپے کی سالانہ آمدن دینے والے بڑے بڑے اداروں کو حکمرانوں کے وفادار اور من پسند افراد کے حوالے کرنے کی مجرمانہ روایات کا خاتمہ کر دیا جائے گا؟ کیا قوم انتہا پسندی فرقہ پرستی اور دہشت گردی جیسے دیو قامت مسائل سے نجات حاصل کر پائے گی؟ جنرل پرویز مشرف کی سزا کے بعد اگر قوم مذکورہ بالا تمام مسائل سے سرخ رو ہو کر نکلنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو ضرور اس 74 سالہ بوڑھے شخص کو آئین شکنی کا مرتکب قرار دیتے ہوئے قرار واقعی سزا ضرور دیں۔

لیکن اگر جنرل پرویز مشرف کی سزا پر عمل درآمد ہونے کے باوجود بھی پاکستان کو لاحق خطرات اور مسائل جوں کے توں رہتے ہیں اور آنے والے کئی سالوں تک قوم ان ہی مخدوش حالات سے نبرد آزما رہتی ہے تو پھر قومی منتخب سیاسی قیادت کو اس عمل میں چھپے ہوئے مضمرات اور اندیشوں کا بخوبی ادراک ہونا چاہیے۔ قوم کی منتخب سیاست قیادت کو عوام سے متعلق اس غیر اہم معاملے میں اپنی اور اپنے رفقا کی صلاحیتوں کو صرف کر کے نہ جانے کون سے عوامی بہبود اور خوشحالی کے مقاصد حاصل کرنے کی دھن سوار ہو چکی ہے اس روش سے کوئی عظیم مقصد حاصل ہو یا نہ ہو مگر حکمرانوں کی طرف سے اٹھایا جانے والا کوئی بھی غیر دانشمندانہ قدم ملک و قوم کو پھر سے کہیں بحرانی کیفیت میں نہ دھکیل دے۔

جی ہاں! ہٹ دھرمی، ضد، خودنمائی اور ذاتی عناد پر مشتمل طرز عمل پہلے اداروں کو اور پھر پوری قوم کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے کا ذریعہ بنتا ہے۔ کیا قوم نے آپ کو اور آپ کی پارٹی کو عوام سے متعلق اس غیر اہم معاملے کو سلجھانے کے لیے ووٹ دے کر اقتدار کے اعلیٰ ترین منصب پر فائز کرانے کی جدوجہد کی تھی جی نہیں! قوم نے آپ کو اور آپ کی پارٹی مسلم لیگ (ن) کو بڑے بڑے جلسوں میں کیے گئے بلند و بانگ دعوؤں اور وعدوں پر عمل درآمد کروانے کے لیے آپ کو اقتدار اعلیٰ کے عظیم رتبے پر فائز کیا تھا قوم نے آپ دونوں بھائیوں کے پرعزم انداز بیان سے بے حد متاثر ہو کر آپ کو اقتدار اعلیٰ کی کرسی پر بٹھایا تھا۔


پاکستان کے انتہائی طاقت ور اور منظم ادارے کی طرف سے ان کی خواہش پر مبنی ''اظہاریے'' کے بعد ملک کے تمام اعلیٰ اداروں میں موجود اعلیٰ تعلیم یافتہ اور بالخصوص میڈیا سے منسلک افراد کا یہ فرض بنتا ہے کہ پاکستان کی بقا کی ضامن اس عظیم منظم قوت کی خواہش پر لبیک کہتے ہوئے ملک کو درپیش انتہائی سنگین اور خطرناک حالات کا مقابلہ کرنے میں ان کی حقیقی اخلاقی مدد کی جائے ان کی حوصلہ افزائی کی جائے ان کے احساسات اور جذبات کو اہمیت دیتے ہوئے ان پر بے جا تنقید سے گریز کرتے ہوئے ان کی اجتماعی عزت نفس کا خیال کیا جائے۔

خدارا پاکستان اپنے تاریخ کے انتہائی نازک دور سے گزر رہا ہے لہٰذا ملک کے دانشور حضرات اور بالخصوص میڈیا سے منسلک اعلیٰ ذہنیت کے حامل لوگ آرمی چیف کی طرف سے دیے گئے بیان کو ''انتباہ'' کے بجائے ایک خواہش سے تعبیر کریں اور ملک کے بدخواہوں کی اداروں کو لڑانے کی کسی بھی کوشش کو کامیاب نہ ہونے دیں۔ ادارے کسی بھی مضبوط قوم کا سب سے قیمتی اثاثہ ہوتے ہیں کمزور اور آپس میں دست و گریبان ادارے کبھی بھی کسی مضبوط اور طاقتور قوم کو جنم نہیں دے سکتے۔ پاکستان کے تاریخ کے اس مشکل ترین دور میں اداروں کے باہمی ٹکراؤ کا پھیلتا ہوا تاثر قوم کو شدید مایوسی میں مبتلا کر کے کسی بڑے ناقابل تلافی نقصان کا باعث بھی بن سکتا ہے ۔

اپنی بقا اور سالمیت کی جنگ میں مصروف عمل قوموں کے رہنما اپنی سیاسی فہم و فراست کے مستند اصولوں پر کارفرما ہوتے ہوئے جنگی حالات سے نبرد آزما اپنے عسکری اداروں کی بھرپور حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ ان کی تعریف کرتے ہیں ان کی قربانیوں کو قدر کا مقام دیتے ہیں نہ کہ اس کی عظیم ترین قربانیوں کو نظرانداز کر کے ان کی ''اجتماعی خواہش'' کو ٹھکرا کر انھیں ناخوش اور مایوس کر دیتے ہیں چونکہ ایسے طرز عمل سے ملک کی بقا کی ضامن اس قوت پر ملک کے دشمنوں سے لڑنے کے عمل پر حوصلہ افزا نتائج مرتب نہیں ہوتے اور ان کی صلاحیت متاثر ہونے کے خدشات جنم لیتے ہیں۔ قوم کی رہنمائی کے اعلیٰ منصب پر فائز سیاسی رہنما اپنی فوج کی ضرورتوں کو پورا کر کے ان کے حوصلوں کو جواں رکھنے کے لیے محاذوں پر جا کر ان کی دلجوئی اور ان کی حوصلہ افزائی کر کے ہی اپنے ملک کے دفاع کو ناقابل تسخیر بناتے ہیں۔

لہٰذا مسلط کیے ہوئے مخدوش حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے ملک میں انتشار پیدا کرنے والے معاملات کو سیاسی دانش مندی اور معاملہ فہمی کے ساتھ حل کرتے ہوئے پاکستانی قوم اور بالخصوص اس کے اداروں کو آپس میں متحد و منظم رکھنے کی حکمت عملی کو وضع کر کے اس پر سختی سے عمل درآمد کیا جائے اور اقتدار کے اعلیٰ منصب پر فائز ہٹ دھرم، ضدی اور غیر لچکدار رویہ رکھنے والے افراد کو ملکی بقا اور سلامتی سے متعلق قومی فیصلہ سازی میں کسی بھی قسم کا زبانی کلامی اور عملی کردار ادا کرنے سے فوراً روک دیا جائے اور اداروں میں باہمی اشتراک عمل، تعاون اور اعتماد سے ہی مملکت خداداد کو ایک مضبوط اور طاقتور قوم بنایا جا سکتا ہے۔

لہٰذا بے رحم وقت کا تقاضا ہے کہ ملک و قوم کو درپیش سنگین معروضی حالات کے پیش نظر تمام آئینی و قانونی و پیچیدہ اور متنازعہ مسائل کو کچھ عرصے کے لیے قومی بقا کے مقابلے میں کم اہمیت دیتے ہوئے انھیں نظر انداز کر دیا جائے اور ملک کے تمام باعزت اور محترم اداروں کو ملک کو اپنی بقا سے متعلق درپیش سنگین خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے متحد، منظم اور باہم اشتراک عمل کے مضبوط بندھن میں باندھنے کی حقیقی اور بھرپور کوشش کی جائے۔
Load Next Story