سعودی عرب اور ایران میں صلح
یہ عالمی سفارتکاری میں ایک بڑی پیش رفت ہے، ورنہ اس سے پہلے ایسی سفارتکاری امریکا کرتا تھا
چین نے سعودی عرب اور ایران کی صلح کروا دی ہے۔ یہ عالمی سفارتکاری میں ایک بڑی پیش رفت ہے، ورنہ اس سے پہلے ایسی سفارتکاری امریکا کرتا تھا۔
وہ ممالک کو آپس میں لڑانے میں بھی کوئی ثانی نہیں رکھتا اور پھر صلح بھی خود ہی کرواتا ہے۔ لیکن اس بار دنیا کا چکر بدل گیا ہے۔ امریکا کے بجائے سعودی عرب اور ایران کے درمیان صلح چین نے کروائی ہے۔ جس سے دنیا میں یہ تاثر گیا ہے کہ چین اب عالمی سفارتکاری میں ایک بڑے کھلاڑی کے طور پر مان لیا گیا ہے۔
سوال یہ ہے کہ امریکا اس صلح کو کیسے دیکھتا ہوگا۔ میں سمجھتا ہوں واشنگٹن میں یقیناً اس کو اچھی نظر سے نہیںدیکھا جا رہا ہوگا۔ لیکن پھر بھی چند تجزیہ نگاروں کی رائے میں امریکا میں اس وقت ڈیموکریٹس کی حکومت ہے۔
ڈیموکریٹس کی ایران کے حوالے سے پالیسی پھر بھی نرم ہے۔ ڈیموکریٹ کے سابق صدر اوباما نے ایران کے حوالے سے ایک ڈیل بھی کی تھی۔تاہم بعد میں آنے والے ری پبلکن صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس ڈیل کو منسوخ کر دیا تھا۔
اس طرح ری پبلکن کی ایران کے حوالے سے پالیسی نہایت سخت ہے۔ اس لیے اگر امریکا میں ری پبلکن کی حکومت ہوتی تو رد عمل یقیناً بہت سخت ہوتا۔ تا ہم چین کی جانب سے کروائی جانے والی اس صلح کو امریکا میں اچھی نظر سے نہیں دیکھا جا رہا ہے۔
امریکا کو اگر صلح پر اعتراض نہ بھی ہو پھر بھی اس کی عالمی چودھراہٹ خطرہ میں پڑ گئی ہے جو امریکا کو کسی بھی صورت قبول نہیں۔ وہ اپنی چودھراہٹ کسی کو دینے کے لیے تیار نہیں۔
یہ سوال بھی اہم ہے کہ کیا چین عالمی سطح پر ایک ایسا کھلاڑی بن گیا ہے جو امریکا کو چیلنج کر سکتا ہے۔ ابھی تک چین نے عالمی سطح پر بڑی محاذ آرائی سے اجتناب کیا ہے۔ امریکا کے سخت رویہ کے باوجود چین نے امریکا کے ساتھ مکمل محاذ آرائی سے اجتناب کیا ہے۔
اس لیے ایسا نہیں کہ دنیا میں چین کوئی اپنا بلاک بنانے جا رہا ہے۔ چین کی سفارتکاری میں محاذ آرائی نہیں ہے۔ چین کی سفارت کاری کو خاموش سفارتکاری کہا جاتا ہے جہاں شور نہیں ہے۔ اسی لیے سعودی عرب اور ایران کی صلح پر بھی شور نہیں مچایا گیا۔
نہ صلح کروانے سے پہلے شور مچایا گیا اور نہ ہی صلح کروانے کے بعد کریڈٹ لینے کی کوئی کوشش کی جا رہی ہے۔ لیکن چین کی سفارت کاری ایسی ہی ہے وہ اپنے دوستوں کو بھی خاموشی سے کام کرنے کا ہی مشورہ دیتا ہے۔ ایسے مشورے انھوں نے پاکستان کو بھی دیے ہیں۔
جہاں تک سعودی عرب اور ایران کا تعلق ہے۔ بے شک دونوں ممالک نے اگلے دو ماہ میں اپنے سفارتی تعلقات بحال کرنے کا اعلان کیا ہے۔ لیکن دونوں ممالک کے درمیان برادرانہ تعلقات میں ابھی بھی بہت سے مراحل باقی ہیں۔
یہ درست ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان 2016سے سفارتی تعلق ختم تھے۔ دونوں ممالک عالمی سطح پر اکٹھے بیٹھنے کے لیے تیار نہیں تھے۔
لیکن سات سال بعد کم از کم سفارتی تعلقات کی بحالی بھی کوئی چھوٹی کامیابی نہیں۔ سفارتی تعلقات سے کم از کم براہ راست بات چیت کے راستے کھل جاتے ہیں۔ گلے شکوے شروع ہو جاتے ہیں۔ سفارتی تعلقات کی بحالی کو باقی مسائل کے حل کے لیے پہلا قدم قرار دیا جا سکتا ہے۔
یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اس صلح کو قائم رکھنے کے لیے ایران کو اپنی پالیسی میں بڑی تبدیلیاں کرنا ہونگی۔ بالخصوص یمن کے حوالے سے ایران کو اپنی پالیسی میں بڑی تبدیلی کرنا ہوگی۔ یہ ممکن نہیں کہ ایران یمن میں حوثی باغیوں کو اسلحہ بھی فراہم کرتا رہے اور سعودی عرب سے صلح بھی قائم رہے۔ اگر دیکھا جائے تو سعودی عرب اور ایران یمن میں براہ راست لڑائی لڑ رہے ہیں۔
حوثی سعودی عرب پر حملے کر رہے ہیں۔ اب تک سعودی عرب پر کئی میزائیل داغے گئے ہیں۔اس لیے یہ دیکھا جائے گا کہ اب کیا اس حوالے سے ایران اپنی پالیسی میں تبدیلی کرے گا کہ نہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اب ایران کے لیے ایک نادر موقع ہے کہ وہ عرب ممالک میں اپنی سیاسی تنہائی دور کرے اور تمام مسلم ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات بہتر کر لے۔
سعودی عرب اور ایران کے درمیان صلح سے او آئی سی بھی ایک مضبوط ادارہ بن جائے گا۔ مسلم ممالک کے درمیان اتحاد عالمی سطح پر سیاست بدل دے گا۔آج تک او آئی سی مسلم ممالک کے درمیان باہمی اختلافات کی وجہ سے ہی ایک مضبوط پلیٹ فارم نہیں بن سکا۔ عالمی سامراج نے مسلم ممالک کے اسی اختلاف کا فائدہ اٹھایا ہے۔
مسلم ممالک کی تقسیم نے ہی مغرب کی بالادستی قائم کی ہے۔ اس لیے اگر بڑے مسلم ممالک باہمی اختلافات حل کر لیتے ہیں تو دنیا کا نہ صرف نقشہ بدل جائے گا بلکہ مسلم ممالک عالمی سیاست میں ایک طاقتور پوزیشن میں آجائیں گے۔
سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے گزشتہ چند سال میں سعودی عرب کی سفارتکاری میں بڑی تبدیلیاں کی ہیں۔ قطر سے تعلقات واپس ٹھیک کیے گئے ہیں۔ قطر میں عالمی فٹ بال کا میچ دیکھنے کے لیے محمد بن سلمان خود قطر گئے۔ حالانکہ اس سے قبل قطر کو عرب لیگ سے بھی نکال دیا گیا تھا۔ اسی طرح چین کے ساتھ سعودی عرب کے تعلقات نئی بلندیوں کو چھو رہے ہیں۔
سعودی عرب کے چین کے ساتھ بڑھتے تعلقات عالمی سیاست کو نیا رخ دے رہے ہیں۔ چین کو سعودی عرب میں بڑے مواقعے دیے جا رہے ہیں۔ حالانکہ اس سے قبل یہ سب مواقع امریکا کو دیے جاتے تھے۔ یہ درست ہے کہ امریکا کے ساتھ سعودی عرب کا سیکیورٹی معاہدہ ابھی موجود ہے۔ امریکی افواج بھی سعودی عرب میں موجود ہیں۔
سعودی عرب میں امریکی اڈے بھی موجود ہیں۔ اسی لیے سعودی عرب کو ہمیشہ امریکی کیمپ میں ہی دیکھا گیا ہے، لیکن اب سعودی عرب نے اپنے لیے دیگر ممالک کے ساتھ بھی دروازے کھولنے شروع کر دیے ہیں۔
حال ہی میںسعودی عرب نے ترکی میں پانچ بلین ڈالر کا ڈیپازٹ رکھا ہے۔ حالانکہ چند سال قبل دونوں ممالک کے درمیان گفتگو کے تمام راستے بند تھے۔ لیکن اب دونوں کے درمیان نہ صرف تعلقات بحال ہو گئے ہیں بلکہ اب ایک دوسرے کے ساتھ تعاون شروع ہو گیا ہے۔
چند سال قبل ترکیہ عربوں کے مقابلے میں متوازی اسلامی بلاک بنانے کے لیے پیش پیش تھا۔ لیکن اب ترکیہ کے عربوں کے ساتھ تعلقات بہترین ہو گئے ہیں۔ ترکیہ اور سعودی عرب کے درمیان اچھے تعلقات بھی او آئی سی کو مزید مضبوط کریں گے۔
عالمی سیاست کا رخ بدل جائے گا۔ مجھے لگتا ہے کہ اگر بڑے مسلم ممالک باہمی اختلافات کو اسی طرح ختم کر نے میں کامیاب ہو جائیں گے تو مسلم ممالک دنیا کی سیاست میں اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرلیں گے۔ سعودی عرب نے جس طرح تمام ممالک کے ساتھ تنازعات حل کرنے کا سفر شروع کیا ہے، وہ دیگر ممالک کے لیے قابل تقلید ہے۔
وہ ممالک کو آپس میں لڑانے میں بھی کوئی ثانی نہیں رکھتا اور پھر صلح بھی خود ہی کرواتا ہے۔ لیکن اس بار دنیا کا چکر بدل گیا ہے۔ امریکا کے بجائے سعودی عرب اور ایران کے درمیان صلح چین نے کروائی ہے۔ جس سے دنیا میں یہ تاثر گیا ہے کہ چین اب عالمی سفارتکاری میں ایک بڑے کھلاڑی کے طور پر مان لیا گیا ہے۔
سوال یہ ہے کہ امریکا اس صلح کو کیسے دیکھتا ہوگا۔ میں سمجھتا ہوں واشنگٹن میں یقیناً اس کو اچھی نظر سے نہیںدیکھا جا رہا ہوگا۔ لیکن پھر بھی چند تجزیہ نگاروں کی رائے میں امریکا میں اس وقت ڈیموکریٹس کی حکومت ہے۔
ڈیموکریٹس کی ایران کے حوالے سے پالیسی پھر بھی نرم ہے۔ ڈیموکریٹ کے سابق صدر اوباما نے ایران کے حوالے سے ایک ڈیل بھی کی تھی۔تاہم بعد میں آنے والے ری پبلکن صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس ڈیل کو منسوخ کر دیا تھا۔
اس طرح ری پبلکن کی ایران کے حوالے سے پالیسی نہایت سخت ہے۔ اس لیے اگر امریکا میں ری پبلکن کی حکومت ہوتی تو رد عمل یقیناً بہت سخت ہوتا۔ تا ہم چین کی جانب سے کروائی جانے والی اس صلح کو امریکا میں اچھی نظر سے نہیں دیکھا جا رہا ہے۔
امریکا کو اگر صلح پر اعتراض نہ بھی ہو پھر بھی اس کی عالمی چودھراہٹ خطرہ میں پڑ گئی ہے جو امریکا کو کسی بھی صورت قبول نہیں۔ وہ اپنی چودھراہٹ کسی کو دینے کے لیے تیار نہیں۔
یہ سوال بھی اہم ہے کہ کیا چین عالمی سطح پر ایک ایسا کھلاڑی بن گیا ہے جو امریکا کو چیلنج کر سکتا ہے۔ ابھی تک چین نے عالمی سطح پر بڑی محاذ آرائی سے اجتناب کیا ہے۔ امریکا کے سخت رویہ کے باوجود چین نے امریکا کے ساتھ مکمل محاذ آرائی سے اجتناب کیا ہے۔
اس لیے ایسا نہیں کہ دنیا میں چین کوئی اپنا بلاک بنانے جا رہا ہے۔ چین کی سفارتکاری میں محاذ آرائی نہیں ہے۔ چین کی سفارت کاری کو خاموش سفارتکاری کہا جاتا ہے جہاں شور نہیں ہے۔ اسی لیے سعودی عرب اور ایران کی صلح پر بھی شور نہیں مچایا گیا۔
نہ صلح کروانے سے پہلے شور مچایا گیا اور نہ ہی صلح کروانے کے بعد کریڈٹ لینے کی کوئی کوشش کی جا رہی ہے۔ لیکن چین کی سفارت کاری ایسی ہی ہے وہ اپنے دوستوں کو بھی خاموشی سے کام کرنے کا ہی مشورہ دیتا ہے۔ ایسے مشورے انھوں نے پاکستان کو بھی دیے ہیں۔
جہاں تک سعودی عرب اور ایران کا تعلق ہے۔ بے شک دونوں ممالک نے اگلے دو ماہ میں اپنے سفارتی تعلقات بحال کرنے کا اعلان کیا ہے۔ لیکن دونوں ممالک کے درمیان برادرانہ تعلقات میں ابھی بھی بہت سے مراحل باقی ہیں۔
یہ درست ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان 2016سے سفارتی تعلق ختم تھے۔ دونوں ممالک عالمی سطح پر اکٹھے بیٹھنے کے لیے تیار نہیں تھے۔
لیکن سات سال بعد کم از کم سفارتی تعلقات کی بحالی بھی کوئی چھوٹی کامیابی نہیں۔ سفارتی تعلقات سے کم از کم براہ راست بات چیت کے راستے کھل جاتے ہیں۔ گلے شکوے شروع ہو جاتے ہیں۔ سفارتی تعلقات کی بحالی کو باقی مسائل کے حل کے لیے پہلا قدم قرار دیا جا سکتا ہے۔
یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اس صلح کو قائم رکھنے کے لیے ایران کو اپنی پالیسی میں بڑی تبدیلیاں کرنا ہونگی۔ بالخصوص یمن کے حوالے سے ایران کو اپنی پالیسی میں بڑی تبدیلی کرنا ہوگی۔ یہ ممکن نہیں کہ ایران یمن میں حوثی باغیوں کو اسلحہ بھی فراہم کرتا رہے اور سعودی عرب سے صلح بھی قائم رہے۔ اگر دیکھا جائے تو سعودی عرب اور ایران یمن میں براہ راست لڑائی لڑ رہے ہیں۔
حوثی سعودی عرب پر حملے کر رہے ہیں۔ اب تک سعودی عرب پر کئی میزائیل داغے گئے ہیں۔اس لیے یہ دیکھا جائے گا کہ اب کیا اس حوالے سے ایران اپنی پالیسی میں تبدیلی کرے گا کہ نہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اب ایران کے لیے ایک نادر موقع ہے کہ وہ عرب ممالک میں اپنی سیاسی تنہائی دور کرے اور تمام مسلم ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات بہتر کر لے۔
سعودی عرب اور ایران کے درمیان صلح سے او آئی سی بھی ایک مضبوط ادارہ بن جائے گا۔ مسلم ممالک کے درمیان اتحاد عالمی سطح پر سیاست بدل دے گا۔آج تک او آئی سی مسلم ممالک کے درمیان باہمی اختلافات کی وجہ سے ہی ایک مضبوط پلیٹ فارم نہیں بن سکا۔ عالمی سامراج نے مسلم ممالک کے اسی اختلاف کا فائدہ اٹھایا ہے۔
مسلم ممالک کی تقسیم نے ہی مغرب کی بالادستی قائم کی ہے۔ اس لیے اگر بڑے مسلم ممالک باہمی اختلافات حل کر لیتے ہیں تو دنیا کا نہ صرف نقشہ بدل جائے گا بلکہ مسلم ممالک عالمی سیاست میں ایک طاقتور پوزیشن میں آجائیں گے۔
سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے گزشتہ چند سال میں سعودی عرب کی سفارتکاری میں بڑی تبدیلیاں کی ہیں۔ قطر سے تعلقات واپس ٹھیک کیے گئے ہیں۔ قطر میں عالمی فٹ بال کا میچ دیکھنے کے لیے محمد بن سلمان خود قطر گئے۔ حالانکہ اس سے قبل قطر کو عرب لیگ سے بھی نکال دیا گیا تھا۔ اسی طرح چین کے ساتھ سعودی عرب کے تعلقات نئی بلندیوں کو چھو رہے ہیں۔
سعودی عرب کے چین کے ساتھ بڑھتے تعلقات عالمی سیاست کو نیا رخ دے رہے ہیں۔ چین کو سعودی عرب میں بڑے مواقعے دیے جا رہے ہیں۔ حالانکہ اس سے قبل یہ سب مواقع امریکا کو دیے جاتے تھے۔ یہ درست ہے کہ امریکا کے ساتھ سعودی عرب کا سیکیورٹی معاہدہ ابھی موجود ہے۔ امریکی افواج بھی سعودی عرب میں موجود ہیں۔
سعودی عرب میں امریکی اڈے بھی موجود ہیں۔ اسی لیے سعودی عرب کو ہمیشہ امریکی کیمپ میں ہی دیکھا گیا ہے، لیکن اب سعودی عرب نے اپنے لیے دیگر ممالک کے ساتھ بھی دروازے کھولنے شروع کر دیے ہیں۔
حال ہی میںسعودی عرب نے ترکی میں پانچ بلین ڈالر کا ڈیپازٹ رکھا ہے۔ حالانکہ چند سال قبل دونوں ممالک کے درمیان گفتگو کے تمام راستے بند تھے۔ لیکن اب دونوں کے درمیان نہ صرف تعلقات بحال ہو گئے ہیں بلکہ اب ایک دوسرے کے ساتھ تعاون شروع ہو گیا ہے۔
چند سال قبل ترکیہ عربوں کے مقابلے میں متوازی اسلامی بلاک بنانے کے لیے پیش پیش تھا۔ لیکن اب ترکیہ کے عربوں کے ساتھ تعلقات بہترین ہو گئے ہیں۔ ترکیہ اور سعودی عرب کے درمیان اچھے تعلقات بھی او آئی سی کو مزید مضبوط کریں گے۔
عالمی سیاست کا رخ بدل جائے گا۔ مجھے لگتا ہے کہ اگر بڑے مسلم ممالک باہمی اختلافات کو اسی طرح ختم کر نے میں کامیاب ہو جائیں گے تو مسلم ممالک دنیا کی سیاست میں اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرلیں گے۔ سعودی عرب نے جس طرح تمام ممالک کے ساتھ تنازعات حل کرنے کا سفر شروع کیا ہے، وہ دیگر ممالک کے لیے قابل تقلید ہے۔