ادریس نازؔ کی ”ناز برداریاں“
غزل کو اُردو شاعری کی مقبول ترین صنف سخن کہا جاتا ہے
سب سے اعلیٰ جو، افکار کہاں سے لاؤں
تیرے معیار کے اشعار کہاں سے لاؤں
لوحِ رُخسار پہ تقدیر جو لکھ بیٹھا ہے
نازؔ جیسا کوئی فنکار کہاں سے لاؤں
اُردو شاعری کا خیال آتے ہی ذہن غزل کی طرف چلا جاتا ہے۔ شاید اس لیے کہ غزل کو اُردو شاعری کی مقبول ترین صنف سخن کہا جاتا ہے۔اس کی تاریخ اور فتوحات کا سلسلہ صدیوں پر محیط ہے اور یہ ہمارا تہذیبی ورثہ ہے، کیونکہ کاغذ کے بدن پر اپنے عہد کی تاریخ اور تہذیب رقم کر دینا، اور آنے والے مورخ کے لیے اُس عہد کی شناخت چھوڑ جانا ایک ادیب اور شاعر کا فریضہ ہے جو شاعر اور ادیب اس فریضہ کی ادائیگی نئے لہجے اور نئی شناخت کے ساتھ کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں وہی نمائندہ شاعر اور ادیب کہلانے کا حقدار ہوتے ہیں۔ایسے ہی جدید لہجے اور کئی منفرد حوالوں سے اپنی شناخت رکھنے والے ادریس ناز ؔجن کا شمار عصر حاضر کے ایسے شعرا اور ادیبوں میں ہوتا ہیں جو تخلیقی اور علمی صلاحیتوں سے مالا مال ہوں۔ادریس نازؔ خوبصورت لب ولہجے کے ناصرف شاعر ہے بلکہ بے باک کالم نگار، مقالہ نگار،افسانہ نگار،تجزیہ کار،کمپیئر اور مایہ ناز صحافی کے طور پر ادب وصحافت میں اپنی منفرد پہچان رکھتے ہیں۔ان کی شاعری میں روایت کی پاسداری بھی ہے اور اُردو شاعری پر بدلتے ہوئے رحجانات کی بازگشت بھی۔ ان کی شاعری میں فلسفانہ خیالات زیادہ نہیں لیکن بلندی فکر کی دعوت جا بجا موجود ملتی ہے۔ ان کی شاعری احساس کی جس طرح کی ترجمانی مختلف زاویوں سے کرتی ہے اسے ہم روایتی اور جدید غزل کے درمیان ایک پل کا نام دے سکتے ہیں۔وہ غزل کے علاوہ حمد و نعت بھی بہت سلیقہ مندی کے ساتھ کہتے ہیں۔ وہ شبِ ظلمت میں یادِ محمدؐ کے دئیے دل پر روشن رکھتے ہوئے بارگاہِ رسالتؐ میں اپنی محبت کا اظہار اس طرح سے کرتے ہیں کہ:
نازؔ جس دل میں جلا یادِ محمدؐ کا دیا
شب ظلمت میں بھی اُس دل سے اُجالا نہ گیا
ادریس نازؔ اپنی بات کہنے کا ڈھنگ بڑے وثوق سے کرنا جانتے ہیں، وہ اپنے محسوسات اور خیالات کو بڑی عمدگی سے بیان کرتے ہیں،وہ ایک صاحبِ مطالعہ اور محبت پرور آدمی ہے۔ ان کے لفظوں میں صاف گوئی بھی ہے اور چاشنی بھی۔ ان کی شخصیت کی خاص خوبی یہ ہے کہ وہ کوئی بھی بات دل میں نہیں رکھتے بلکہ دوسروں کے منہ پر برملا اُس کا اظہار کر دیتے ہیں چاہے کسی کو اچھا لگے یا برا۔ ان کی محبت اور ان کی دشمنی دونوں سے ہی خوف آتا ہے کہ جانے کب کیا ہو جائے۔ صداقت کا یہ سپاہی جب سچ لکھتا ہے تو پھر سچ ہی لکھتے چلا جاتا ہے کیونکہ اُسے جھوٹوں اور وطن عزیز کے مکار لیڈروں سے سخت نفرت ہے۔ بقول شاعر
صداقت کا سبق میری زباں پر ہے
مرے دشمن بھی مجھ سے خوف کھاتے ہیں
ادریس نازؔ کئی کتابوں کے خالق بھی ہیں جن میں گل نو شگفتہ (شعری مجموعہ)،سب راہیں میری ہیں (نثری نظمیں)،سُرے راگ راگنیوں اور ٹھاٹھوں کا بیان (علم موسیقی پر مستند ترین تحقیق)،ناز برداریاں (منتخب کالم)،شاعر اور شاعری کے اصل مقام کا تعین (مقالہ خصوصی)،چھٹی (افسانے)،راکھ میں دبی چنگاریاں (معاشرتی مسائل پر سلگتے مضامین)،تاریاں دی لوئے (پنجابی شعری مجموعہ) شامل ہیں۔ ان کا یہ شعر دیکھے جو ان کی شخصیت، فکر اور فن کا خلاصہ ہے۔
پہلے پہل بضد تھا مری دوستی پہ وہ
پھر خود ہی ہٹ گیا مرا معیار دیکھ کر
ان کے کام کا معیار اور دوستی کا معیار ایک جیسا ہے۔ اُن کے کلام کی خوبیاں اُنکی پُر کشش شخصیت کو اور بھی چار چاند لگا دیتی ہیں۔وہ خوابوں کی دنیا میں نہیں رہتے بلکہ اپنے خوابوں کو حقیقت کا روپ دینے میں دیر نہیں کرتے۔ اُن کے اندر ایک سچا اور سنجیدہ تخلیق کار موجود ہیں۔ اُن کی شعری اور نثری تحاریر میں فکری پختگی نمایاں ہے۔ اسی بات کو مدنظر رکھتے ہوئے انہوں نے ہمیشہ اپنی صلاحیتوں اور ریاضت پر بھروسہ کیا جس کا صلہ اللہ نے اُنہیں پذیرائی اور عزت کی صوت میں عطا کیا۔جس پر وہ آج نہ صرف خود پر فخر محسوس کرتے ہیں بلکہ اس پذیرائی اور وقار کو اپنے لیے کسی اعزاز سے کم نہیں سمجھتے۔اس حوالے اُن کایہ شعر دیکھے۔
لاحق تھی ہم کو فِکر طلوعِ سحر کی نازؔ
ظلمت کے رُخ سے پردے ہٹاتے چلے گئے
میں نے اپنے تجزیاتی مطالعہ کے دوران محسوس کیا کہ ادریس نازؔ کی شاعری اور کالم دونوں اصناف جغرافیائی سرحدوں میں اسیر نہیں بلکہ ایک ہمہ گیرت اور اجتماعی فکر و نظر ان کے ہاں ملتا ہے جو انہیں آفافیت سے ہمکنار کرتے ہیں، محبت ہو یا سیاست، معاشرے ہو کہ معاشیات، سب کچھ جیتی جاگتی زندگی سے ماخوذ ہے۔ محض تصوراتی یا ماورائی نہیں اور یہ اسلوب انہیں ادبی صحافتی حلقوں میں نمایاں اور ممتاز کرتے ہیں۔یہ سب ان کے والدین کی دُعاؤں کا ثمر ہیں کہ وہ آج کامیابیوں کی منزلیں طے کرتے چلے جا رہے ہیں۔ انہیں اپنی ماں سے اس قدر محبت ہے کہ جس کا اندازہ آپ ان اس شعر سے بخوبی لگا سکتے ہیں۔
پیٹ بھر کھا کے میں جب سو نہ گیا بستر پر
حلق سے نیچے مری ماں کے نوالا نہ گیا
ادریس ناز کئی عرصے تک "ناز برداریاں" کے نام سے دیگر قومی اخبارات میں کالم لکھتے رہیں اور وہیں آج کل وہ اپنا ایک ذاتی نیوز چینل ایف ایم 4k کے نام سے چلا رہے ہیں جس پر ان کا مقبول پروگرام "ناز برداریاں" ہفتے میں تین بار دیکھنے کو ملتا ہے۔ ادریس نازکی شخصیت ایک ادارے کی حامل ہے۔ ان کے پاس بیٹھ جائیں تو آپ کو علم کا ایک خزانہ ملے گا جسے ڈھونڈنا نہیں پڑتا بس محبت سے تراشنا پڑتا ہے۔ ان جیسا فنکار صدیوں بعد پیدا ہوتے ہیں۔ ان کا ہمارے درمیان موجود ہونا کسی نعمت سے کم نہیں۔ آخر میں ان کا تازہ خیال ملاحظہ کیجیے:
اب جسم میں گناہ کی طاقت نہیں رہی
اب توبہ کے سوا کوئی چارہ نہیں رہا
تیرے معیار کے اشعار کہاں سے لاؤں
لوحِ رُخسار پہ تقدیر جو لکھ بیٹھا ہے
نازؔ جیسا کوئی فنکار کہاں سے لاؤں
اُردو شاعری کا خیال آتے ہی ذہن غزل کی طرف چلا جاتا ہے۔ شاید اس لیے کہ غزل کو اُردو شاعری کی مقبول ترین صنف سخن کہا جاتا ہے۔اس کی تاریخ اور فتوحات کا سلسلہ صدیوں پر محیط ہے اور یہ ہمارا تہذیبی ورثہ ہے، کیونکہ کاغذ کے بدن پر اپنے عہد کی تاریخ اور تہذیب رقم کر دینا، اور آنے والے مورخ کے لیے اُس عہد کی شناخت چھوڑ جانا ایک ادیب اور شاعر کا فریضہ ہے جو شاعر اور ادیب اس فریضہ کی ادائیگی نئے لہجے اور نئی شناخت کے ساتھ کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں وہی نمائندہ شاعر اور ادیب کہلانے کا حقدار ہوتے ہیں۔ایسے ہی جدید لہجے اور کئی منفرد حوالوں سے اپنی شناخت رکھنے والے ادریس ناز ؔجن کا شمار عصر حاضر کے ایسے شعرا اور ادیبوں میں ہوتا ہیں جو تخلیقی اور علمی صلاحیتوں سے مالا مال ہوں۔ادریس نازؔ خوبصورت لب ولہجے کے ناصرف شاعر ہے بلکہ بے باک کالم نگار، مقالہ نگار،افسانہ نگار،تجزیہ کار،کمپیئر اور مایہ ناز صحافی کے طور پر ادب وصحافت میں اپنی منفرد پہچان رکھتے ہیں۔ان کی شاعری میں روایت کی پاسداری بھی ہے اور اُردو شاعری پر بدلتے ہوئے رحجانات کی بازگشت بھی۔ ان کی شاعری میں فلسفانہ خیالات زیادہ نہیں لیکن بلندی فکر کی دعوت جا بجا موجود ملتی ہے۔ ان کی شاعری احساس کی جس طرح کی ترجمانی مختلف زاویوں سے کرتی ہے اسے ہم روایتی اور جدید غزل کے درمیان ایک پل کا نام دے سکتے ہیں۔وہ غزل کے علاوہ حمد و نعت بھی بہت سلیقہ مندی کے ساتھ کہتے ہیں۔ وہ شبِ ظلمت میں یادِ محمدؐ کے دئیے دل پر روشن رکھتے ہوئے بارگاہِ رسالتؐ میں اپنی محبت کا اظہار اس طرح سے کرتے ہیں کہ:
نازؔ جس دل میں جلا یادِ محمدؐ کا دیا
شب ظلمت میں بھی اُس دل سے اُجالا نہ گیا
ادریس نازؔ اپنی بات کہنے کا ڈھنگ بڑے وثوق سے کرنا جانتے ہیں، وہ اپنے محسوسات اور خیالات کو بڑی عمدگی سے بیان کرتے ہیں،وہ ایک صاحبِ مطالعہ اور محبت پرور آدمی ہے۔ ان کے لفظوں میں صاف گوئی بھی ہے اور چاشنی بھی۔ ان کی شخصیت کی خاص خوبی یہ ہے کہ وہ کوئی بھی بات دل میں نہیں رکھتے بلکہ دوسروں کے منہ پر برملا اُس کا اظہار کر دیتے ہیں چاہے کسی کو اچھا لگے یا برا۔ ان کی محبت اور ان کی دشمنی دونوں سے ہی خوف آتا ہے کہ جانے کب کیا ہو جائے۔ صداقت کا یہ سپاہی جب سچ لکھتا ہے تو پھر سچ ہی لکھتے چلا جاتا ہے کیونکہ اُسے جھوٹوں اور وطن عزیز کے مکار لیڈروں سے سخت نفرت ہے۔ بقول شاعر
صداقت کا سبق میری زباں پر ہے
مرے دشمن بھی مجھ سے خوف کھاتے ہیں
ادریس نازؔ کئی کتابوں کے خالق بھی ہیں جن میں گل نو شگفتہ (شعری مجموعہ)،سب راہیں میری ہیں (نثری نظمیں)،سُرے راگ راگنیوں اور ٹھاٹھوں کا بیان (علم موسیقی پر مستند ترین تحقیق)،ناز برداریاں (منتخب کالم)،شاعر اور شاعری کے اصل مقام کا تعین (مقالہ خصوصی)،چھٹی (افسانے)،راکھ میں دبی چنگاریاں (معاشرتی مسائل پر سلگتے مضامین)،تاریاں دی لوئے (پنجابی شعری مجموعہ) شامل ہیں۔ ان کا یہ شعر دیکھے جو ان کی شخصیت، فکر اور فن کا خلاصہ ہے۔
پہلے پہل بضد تھا مری دوستی پہ وہ
پھر خود ہی ہٹ گیا مرا معیار دیکھ کر
ان کے کام کا معیار اور دوستی کا معیار ایک جیسا ہے۔ اُن کے کلام کی خوبیاں اُنکی پُر کشش شخصیت کو اور بھی چار چاند لگا دیتی ہیں۔وہ خوابوں کی دنیا میں نہیں رہتے بلکہ اپنے خوابوں کو حقیقت کا روپ دینے میں دیر نہیں کرتے۔ اُن کے اندر ایک سچا اور سنجیدہ تخلیق کار موجود ہیں۔ اُن کی شعری اور نثری تحاریر میں فکری پختگی نمایاں ہے۔ اسی بات کو مدنظر رکھتے ہوئے انہوں نے ہمیشہ اپنی صلاحیتوں اور ریاضت پر بھروسہ کیا جس کا صلہ اللہ نے اُنہیں پذیرائی اور عزت کی صوت میں عطا کیا۔جس پر وہ آج نہ صرف خود پر فخر محسوس کرتے ہیں بلکہ اس پذیرائی اور وقار کو اپنے لیے کسی اعزاز سے کم نہیں سمجھتے۔اس حوالے اُن کایہ شعر دیکھے۔
لاحق تھی ہم کو فِکر طلوعِ سحر کی نازؔ
ظلمت کے رُخ سے پردے ہٹاتے چلے گئے
میں نے اپنے تجزیاتی مطالعہ کے دوران محسوس کیا کہ ادریس نازؔ کی شاعری اور کالم دونوں اصناف جغرافیائی سرحدوں میں اسیر نہیں بلکہ ایک ہمہ گیرت اور اجتماعی فکر و نظر ان کے ہاں ملتا ہے جو انہیں آفافیت سے ہمکنار کرتے ہیں، محبت ہو یا سیاست، معاشرے ہو کہ معاشیات، سب کچھ جیتی جاگتی زندگی سے ماخوذ ہے۔ محض تصوراتی یا ماورائی نہیں اور یہ اسلوب انہیں ادبی صحافتی حلقوں میں نمایاں اور ممتاز کرتے ہیں۔یہ سب ان کے والدین کی دُعاؤں کا ثمر ہیں کہ وہ آج کامیابیوں کی منزلیں طے کرتے چلے جا رہے ہیں۔ انہیں اپنی ماں سے اس قدر محبت ہے کہ جس کا اندازہ آپ ان اس شعر سے بخوبی لگا سکتے ہیں۔
پیٹ بھر کھا کے میں جب سو نہ گیا بستر پر
حلق سے نیچے مری ماں کے نوالا نہ گیا
ادریس ناز کئی عرصے تک "ناز برداریاں" کے نام سے دیگر قومی اخبارات میں کالم لکھتے رہیں اور وہیں آج کل وہ اپنا ایک ذاتی نیوز چینل ایف ایم 4k کے نام سے چلا رہے ہیں جس پر ان کا مقبول پروگرام "ناز برداریاں" ہفتے میں تین بار دیکھنے کو ملتا ہے۔ ادریس نازکی شخصیت ایک ادارے کی حامل ہے۔ ان کے پاس بیٹھ جائیں تو آپ کو علم کا ایک خزانہ ملے گا جسے ڈھونڈنا نہیں پڑتا بس محبت سے تراشنا پڑتا ہے۔ ان جیسا فنکار صدیوں بعد پیدا ہوتے ہیں۔ ان کا ہمارے درمیان موجود ہونا کسی نعمت سے کم نہیں۔ آخر میں ان کا تازہ خیال ملاحظہ کیجیے:
اب جسم میں گناہ کی طاقت نہیں رہی
اب توبہ کے سوا کوئی چارہ نہیں رہا