زمان پارک کی صورتحال کیا رنگ لائے گی
خدشہ ہے زمان پارک کی صورتحال کا فائدہ غیر جمہوری عناصر نہ اٹھالیں
سوشل میڈیا پر نگاہ دوڑائیں یا الیکٹرانک میڈیا پر، پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر لاہور کے علاقے زمان پارک کو کہیں پر فلسطین سے ملایا جارہا ہے اور کہیں اس کا موازنہ مقبوضہ کشمیر سے کیا جارہا ہے۔
پاکستان میں کچھ عرصے سے صحافت کا اونٹ ایسی کروٹ بیٹھا ہے کہ لگتا ہے پارٹی وابستگی کا اثر صحافت پر بھی ہوگیا ہے۔ جس طرح کسی دور میں مخصوص وابستگی کے حامل اخبارات ہر سرخی کو اپنے حساب سے رنگ دینے کا ہنر جانتے تھے آج کل وہی صورتحال الیکٹرانک میڈیا پر بھی نظر آرہی ہے۔ معدودے چند کچھ ٹی وی چینلز ایسے ہیں جو کسی نہ کسی حد تک حقیقی معنوں میں اب بھی آزادانہ صحافت کا دامن تھامے ہوئے ہیں۔ سونے پہ سہاگہ یہ ہوا کہ الیکٹرانک میڈیا انڈسٹری میں پچھلی ایک دہائی سے رئیل اسٹیٹ گروپس، سیاسی خاندان، صنعتی اجارہ داری رکھنے والے گرو اور دیگر نے طبع آزمائی کرتے ہوئے کہیں کچھ شیئرز خریدے تو کسی جگہ پورا چینل خرید لیا۔ جس کی وجہ سے ایک مخصوص موقف کی ترویج آپ کو نمایاں نظر آئے گی۔
اس پس منظر کو ذہن میں رکھتے ہوئے واپس آتے ہیں زمان پارک کی صورتحال کی طرف۔ اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستان میں جس طرح ذوالفقار علی بھٹو کا عدالتی ٹرائل ہوا اس مثال کو دوبارہ دہرایا جانا ایک المیہ ہوگا۔ عمران خان پاکستان کی ایک مقبول سیاسی جماعت کے نہ صرف سربراہ ہیں بلکہ انہوں نے پاکستان کی سیاست کو یکسر مختلف رخ دے دیا ہے۔ ہم ان سے اختلاف کرسکتے ہیں، ان کے بیانات میں تنقید کا پہلو تلاش کرسکتے ہیں لیکن ان کی مقبولیت میں ہرگز دو رائے نہیں ہوسکتیں۔ چار حلقوں کے احتجاج تک عمران خان نے جس طرح اپنا آپ منوایا وہ قابل تقلید و مثال ہے۔ لیکن پھر بائیس سالہ جہدوجہد کا جو حشر نشر ہوا اس سے نقصان صرف پاکستان کی سیاست کا ہوا۔
عمران خان کی سیاسی پارٹی کا بنیادی خیال ہی انصاف ہے۔ وہ بارہا اپنی تقاریر میں ارشاد فرما چکے ہیں کہ معاشرہ انصاف کے بنا قائم نہیں رہ سکتا۔ لیکن ساتھ ہی وہ اس حقیقت سے مجرمانہ چشم پوشی کرتے ہیں کہ منصف فیصلہ حق میں دے تو توصیف کے قلابے، اور مخالفت میں فیصلہ آئے تو ان کا سوشل میڈیا بریگیڈ عدلیہ کے خلاف محاذ قائم کرلیتا ہے۔
زمان پارک کی صورتحال کیوں پیش آئی؟ کیا اس صورتحال سے بچا جاسکتا تھا؟ اور اب جو آڈیو لیک میں خدشات صدرِ پاکستان اور یاسمین راشد کے سامنے آئے ہیں، کیا پاکستان تحریک انصاف کی سمجھدار قیادت نے اس کا ادراک کیا تھا کہ ایسا ہوسکتا ہے؟ عدلیہ کی بے توقیری جب آپ اپنی عادت بنالیں گے تو پھر آپ معاشرے میں انصاف کا بول بالا کیسے کرسکیں گے؟ یہ سمجھ سے بالاتر ہے۔ گولی لگنے کے معاملے کو کس نے متنازع بنایا؟ خود تحریک انصاف نے۔
ایک مرتبہ پھر عرض ہے کہ عمران خان کی سیکیورٹی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جانا چاہیے۔ لیکن کیا خود عمران خان ریاست مدینہ کی مثالیں نہیں دیتے کہ وہاں کس قدر سادگی تھی؟ کس طرح انصاف کی راہ میں عہدے اور مقام نہیں آسکتا تھا؟ مساوات کا کیا معیار تھا؟ وہ درس کہاں گیا اگر وہ قلعہ بند ہو کر خود زمان پارک یا بنی گالہ میں بیٹھے رہیں گے، عدالتوں میں پیش نہیں ہوں گے اور تقاریر میں دوبارہ سے راگ الاپیں کہ انصاف ہونا چاہیے؟
ذوالفقار علی بھٹو کو دوستوں کی جانب سے مشورہ بھی تھا کہ جھک جائیں، لیکن وہ نہ جھکے اور گردن میں پھندہ ڈال کر امر ہوگئے اور آج تک پاکستان پیپلز پارٹی کے پاس سوائے بھٹو ازم کے کوئی خاص ایجنڈہ نہیں۔ آصف علی زرداری آج بھی اپنی سیاسی بقا کےلیے جیل میں اپنے ساتھ ہونے والے مظالم کا ذکر کرتے ہیں۔ نواز شریف خودساختہ جلاوطنی کے باوجود اپنی قید کو آج تک کیش کروا رہے ہیں۔ مریم نواز قید و بند کی صعوبتوں کو آج بھی اپنی تقاریر کا بنیادی موضوع بنائے ہوئے ہیں۔ تو پھر عمران خان اس حقیقت سے کیوں انکاری ہیں کہ اگر وہ محاذ آرائی کی کیفیت میں جائیں گے تو کچھ بعید نہیں کہ ان کے ساتھ موجود موسمی پرندے جو مخلصی کا چولا پہنے ہوئے ہیں، وہ پر کھولے اُڑنے کو تیار ہیں۔
اب حالات 70 اور 80 کی دہائی سے یکسر مختلف ہیں۔ اب عمران خان جس قدر خوف کا شکار ہیں وہ اپنے پاؤں پر خود ہی کلہاڑی مار رہے ہیں۔ اگر نواز شریف کو پاکستان واپسی اور الیکشن مہم کا گرین سگنل مل گیا تو پھر عمران خان کےلیے، نہ پائے رفتن، نہ جائے ماندن، والا حساب ہوگا۔ صرف یورپی ممالک کی مثالیں کافی نہیں ہیں، عمل کرکے بھی کچھ ثابت کرنا ہوگا۔ اگر عمران خان منظر پر نہیں آتے اور پولیس پر ان کی رہائش گاہ کے اندر سے پیٹرول بم برستے رہے تو یقین جانیے نہ صرف نقصان پی ٹی آئی کا ہوگا بلکہ انتخابات کا انعقاد بھی مشکل ہوجائے گا، جو یقیناً پاکستان تحریک انصاف ہرگز نہیں چاہے گی۔ الیکشن کمیشن کے اجلاس میں جس طرح سیکریٹری دفاع نے فوج کی عدم دستیابی، پولیس کا ذمے داری لینے سے انکار، اور دیگر اداروں کی جانب سے عدم تعاون کی صورتحال سامنے آرہی ہے، اس موقع پر زمان پارک میں تصادم کی فضا حکومتِ وقت کو الیکشن کے التوا کا جواز فراہم کردے گی۔ اور ن لیگ کےلیے انتخابات کا التوا گھاٹے کا سودا نہیں ہے۔
عمران خان کےلیے سب سے بڑا لمحہ فکریہ یہ ہے کہ دوسرے درجے کی کوئی قیادت پارٹی میں نہیں ہے۔ تمام موجودہ رہنما خود کو قومی سطح کے رہنما اور مرکزی قائدین ہی سمجھتے ہیں۔ اس کے علاوہ پارٹی کا کوئی کنٹرول علاقائی سطح کے کارکنان پر نہیں ہے۔ اور اس لمحے اگر عمران خان تصادم کو کنٹرول کرنے میں ناکام رہے، اپنے کارکنان کو مثبت انداز میں استعمال کرنے میں کامیاب نہ ہوسکے تو پھر زمان پارک میں خیمے لگانا بے سود رہے گا اور فائدہ صرف غیر جمہوری عناصر کا ہوگا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
پاکستان میں کچھ عرصے سے صحافت کا اونٹ ایسی کروٹ بیٹھا ہے کہ لگتا ہے پارٹی وابستگی کا اثر صحافت پر بھی ہوگیا ہے۔ جس طرح کسی دور میں مخصوص وابستگی کے حامل اخبارات ہر سرخی کو اپنے حساب سے رنگ دینے کا ہنر جانتے تھے آج کل وہی صورتحال الیکٹرانک میڈیا پر بھی نظر آرہی ہے۔ معدودے چند کچھ ٹی وی چینلز ایسے ہیں جو کسی نہ کسی حد تک حقیقی معنوں میں اب بھی آزادانہ صحافت کا دامن تھامے ہوئے ہیں۔ سونے پہ سہاگہ یہ ہوا کہ الیکٹرانک میڈیا انڈسٹری میں پچھلی ایک دہائی سے رئیل اسٹیٹ گروپس، سیاسی خاندان، صنعتی اجارہ داری رکھنے والے گرو اور دیگر نے طبع آزمائی کرتے ہوئے کہیں کچھ شیئرز خریدے تو کسی جگہ پورا چینل خرید لیا۔ جس کی وجہ سے ایک مخصوص موقف کی ترویج آپ کو نمایاں نظر آئے گی۔
اس پس منظر کو ذہن میں رکھتے ہوئے واپس آتے ہیں زمان پارک کی صورتحال کی طرف۔ اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستان میں جس طرح ذوالفقار علی بھٹو کا عدالتی ٹرائل ہوا اس مثال کو دوبارہ دہرایا جانا ایک المیہ ہوگا۔ عمران خان پاکستان کی ایک مقبول سیاسی جماعت کے نہ صرف سربراہ ہیں بلکہ انہوں نے پاکستان کی سیاست کو یکسر مختلف رخ دے دیا ہے۔ ہم ان سے اختلاف کرسکتے ہیں، ان کے بیانات میں تنقید کا پہلو تلاش کرسکتے ہیں لیکن ان کی مقبولیت میں ہرگز دو رائے نہیں ہوسکتیں۔ چار حلقوں کے احتجاج تک عمران خان نے جس طرح اپنا آپ منوایا وہ قابل تقلید و مثال ہے۔ لیکن پھر بائیس سالہ جہدوجہد کا جو حشر نشر ہوا اس سے نقصان صرف پاکستان کی سیاست کا ہوا۔
عمران خان کی سیاسی پارٹی کا بنیادی خیال ہی انصاف ہے۔ وہ بارہا اپنی تقاریر میں ارشاد فرما چکے ہیں کہ معاشرہ انصاف کے بنا قائم نہیں رہ سکتا۔ لیکن ساتھ ہی وہ اس حقیقت سے مجرمانہ چشم پوشی کرتے ہیں کہ منصف فیصلہ حق میں دے تو توصیف کے قلابے، اور مخالفت میں فیصلہ آئے تو ان کا سوشل میڈیا بریگیڈ عدلیہ کے خلاف محاذ قائم کرلیتا ہے۔
زمان پارک کی صورتحال کیوں پیش آئی؟ کیا اس صورتحال سے بچا جاسکتا تھا؟ اور اب جو آڈیو لیک میں خدشات صدرِ پاکستان اور یاسمین راشد کے سامنے آئے ہیں، کیا پاکستان تحریک انصاف کی سمجھدار قیادت نے اس کا ادراک کیا تھا کہ ایسا ہوسکتا ہے؟ عدلیہ کی بے توقیری جب آپ اپنی عادت بنالیں گے تو پھر آپ معاشرے میں انصاف کا بول بالا کیسے کرسکیں گے؟ یہ سمجھ سے بالاتر ہے۔ گولی لگنے کے معاملے کو کس نے متنازع بنایا؟ خود تحریک انصاف نے۔
ایک مرتبہ پھر عرض ہے کہ عمران خان کی سیکیورٹی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جانا چاہیے۔ لیکن کیا خود عمران خان ریاست مدینہ کی مثالیں نہیں دیتے کہ وہاں کس قدر سادگی تھی؟ کس طرح انصاف کی راہ میں عہدے اور مقام نہیں آسکتا تھا؟ مساوات کا کیا معیار تھا؟ وہ درس کہاں گیا اگر وہ قلعہ بند ہو کر خود زمان پارک یا بنی گالہ میں بیٹھے رہیں گے، عدالتوں میں پیش نہیں ہوں گے اور تقاریر میں دوبارہ سے راگ الاپیں کہ انصاف ہونا چاہیے؟
ذوالفقار علی بھٹو کو دوستوں کی جانب سے مشورہ بھی تھا کہ جھک جائیں، لیکن وہ نہ جھکے اور گردن میں پھندہ ڈال کر امر ہوگئے اور آج تک پاکستان پیپلز پارٹی کے پاس سوائے بھٹو ازم کے کوئی خاص ایجنڈہ نہیں۔ آصف علی زرداری آج بھی اپنی سیاسی بقا کےلیے جیل میں اپنے ساتھ ہونے والے مظالم کا ذکر کرتے ہیں۔ نواز شریف خودساختہ جلاوطنی کے باوجود اپنی قید کو آج تک کیش کروا رہے ہیں۔ مریم نواز قید و بند کی صعوبتوں کو آج بھی اپنی تقاریر کا بنیادی موضوع بنائے ہوئے ہیں۔ تو پھر عمران خان اس حقیقت سے کیوں انکاری ہیں کہ اگر وہ محاذ آرائی کی کیفیت میں جائیں گے تو کچھ بعید نہیں کہ ان کے ساتھ موجود موسمی پرندے جو مخلصی کا چولا پہنے ہوئے ہیں، وہ پر کھولے اُڑنے کو تیار ہیں۔
اب حالات 70 اور 80 کی دہائی سے یکسر مختلف ہیں۔ اب عمران خان جس قدر خوف کا شکار ہیں وہ اپنے پاؤں پر خود ہی کلہاڑی مار رہے ہیں۔ اگر نواز شریف کو پاکستان واپسی اور الیکشن مہم کا گرین سگنل مل گیا تو پھر عمران خان کےلیے، نہ پائے رفتن، نہ جائے ماندن، والا حساب ہوگا۔ صرف یورپی ممالک کی مثالیں کافی نہیں ہیں، عمل کرکے بھی کچھ ثابت کرنا ہوگا۔ اگر عمران خان منظر پر نہیں آتے اور پولیس پر ان کی رہائش گاہ کے اندر سے پیٹرول بم برستے رہے تو یقین جانیے نہ صرف نقصان پی ٹی آئی کا ہوگا بلکہ انتخابات کا انعقاد بھی مشکل ہوجائے گا، جو یقیناً پاکستان تحریک انصاف ہرگز نہیں چاہے گی۔ الیکشن کمیشن کے اجلاس میں جس طرح سیکریٹری دفاع نے فوج کی عدم دستیابی، پولیس کا ذمے داری لینے سے انکار، اور دیگر اداروں کی جانب سے عدم تعاون کی صورتحال سامنے آرہی ہے، اس موقع پر زمان پارک میں تصادم کی فضا حکومتِ وقت کو الیکشن کے التوا کا جواز فراہم کردے گی۔ اور ن لیگ کےلیے انتخابات کا التوا گھاٹے کا سودا نہیں ہے۔
عمران خان کےلیے سب سے بڑا لمحہ فکریہ یہ ہے کہ دوسرے درجے کی کوئی قیادت پارٹی میں نہیں ہے۔ تمام موجودہ رہنما خود کو قومی سطح کے رہنما اور مرکزی قائدین ہی سمجھتے ہیں۔ اس کے علاوہ پارٹی کا کوئی کنٹرول علاقائی سطح کے کارکنان پر نہیں ہے۔ اور اس لمحے اگر عمران خان تصادم کو کنٹرول کرنے میں ناکام رہے، اپنے کارکنان کو مثبت انداز میں استعمال کرنے میں کامیاب نہ ہوسکے تو پھر زمان پارک میں خیمے لگانا بے سود رہے گا اور فائدہ صرف غیر جمہوری عناصر کا ہوگا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔