آئی ایم ایف معاہدے کے معیشت پر اثرات
پاکستان کو اپنی معیشت کو چلانے کے لیے خود ڈالر کمانے پر توجہ دینا ہوگی
وزیر خزانہ سینیٹر اسحق ڈار نے کہا ہے کہ اس بار آئی ایم ایف سے بات چیت بہت غیر معمولی رہی ، بہت زیادہ مطالبات سامنے رکھے گئے ، ہم نے ہر چیز مکمل کر لی ہے۔ شفاف مالیاتی ڈسپلن کے بغیر کوئی جمہوریت یا جمہوری نظام کامیاب نہیں ہوسکتا۔
سینیٹ کے اجلاس میں وفاقی وزیر خزانہ نے جن خیالات کا اظہار کیا ہے، وہ یقیناً صورتحال کی درست نشاندہی کر رہے ہیں۔ ہماری مجبوری یہ ہے کہ پاکستان کے تیزی سے گرتے ہوئے زرمبادلہ کے ذخائر کو سہارا دینے کے لیے آئی ایم ایف کے ساتھ کیے گئے قرض معاہدے پر عمل درآمد ضروری ہے۔
آئی ایم ایف کے ساتھ اسٹاف لیول پر معاہدہ ہونے جا رہا ہے جس کے بعد ایک ارب دس کروڑ کی اگلی قسط بھی جاری ہو جائے گی اور پانچ ارب ڈالر کی رکی ہوئی رقوم بھی خزانے میں آ جائیں گی۔
آئی ایم ایف کے ساتھ قرض پروگرام کی بحالی سے عام آدمی کی مشکلات میں اضافہ ہوگا اور اس کے لیے اگلے بارہ سے اٹھارہ ماہ مشکل ہوں گے۔ قرض پروگرام کے تحت بجلی اور گیس کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہونے سے مہنگائی بڑھے گی، خاص طور پر درآمدی اشیا مزید مہنگی ہوں گی۔
اس معاہدے سے پاکستان کو قرضہ تو مل جائے گا مگر ہمارے حالات ایک مقروض ملک کی طرح ہی رہیں گے جو ایک جگہ سے قرضہ لے کر دوسری جگہ واپس کر رہا ہے۔ پاکستان کے لیے قرض کی رقم سے زیادہ قرض پروگرام کی بحالی اہم تھی۔
اس پروگرام کی بحالی سے پاکستان اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے درمیان اعتماد بحال ہوگا جب کہ پاکستان اور اس کے دوست ممالک کے درمیان مالیاتی تعلقات بھی بحال ہوجائیں گے۔ سعودی عرب، یو اے ای اور چین پاکستان کو آیندہ مہینوں کے دوران پانچ سے سات ارب ڈالرز کی امداد دے سکیں گے، جس سے اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر بہتر سطح پر آجائیں گے۔
وطن عزیز کی اکانومی ایک عرصے سے مشکلات کا شکار چلی آرہی ہے، اس میں قرضوں کا بوجھ مسلسل بڑھتا چلا جارہا ہے اور نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ ایک قرضے کی قسط ادا کرنے کے لیے دوسرا قرضہ اٹھایا جا رہا ہے ہر نئے قرضے کے ساتھ قرض دینے والوں کی جانب سے شرائط کی فہرست بھی آجاتی ہے اس فہرست پر عملدرآمد کا سارا بوجھ عوام پر ڈال دیا جاتا ہے، بعض اوقات اس بوجھ سے متعلق یہ بھی کہہ دیا جاتا ہے کہ یہ صرف مالداروں پر ہی ہوگا تاہم بالواسطہ سہی یہ بوجھ آخر گرتا ملک کے غریب شہری پر ہی ہے۔
ہمارے ہاں یہ روایت بھی چلی آرہی ہے کہ حکومت کی جانب سے ہر نیا ٹیکس اسی روز پیداواری شعبے کی جانب سے صارفین کو منتقل ہو جاتا ہے جب کہ حکومت کی جانب سے ملنے والی مراعات اور سہولیات کی صورت میں عام صارف کو کوئی ریلیف نہیں دیا جاتا۔
اب کی بار بھی170 ارب روپے کا ٹیکس فوراً عام صارف کو منتقل ہو چکا ہے۔ عام صارف پہلے ہی گرانی کے ساتھ ذخیرہ اندوزی اور ملاوٹ کے ہاتھوں اذیت کا شکار ہے ۔
گرانی میں حقیقی مہنگائی کے ساتھ اس پر مصنوعی طور پر ڈالی گئی گرانی بھی شامل ہے۔ اس مہنگائی میں اگر ادویات تک بھی شامل ہوتی ہیں تو یہ زیادہ مشکلات کی حامل ہو جاتی ہے، حکومتوں کی جانب سے تواتر کے ساتھ ہیلتھ سیکٹر میں اصلاح احوال کے اعلانات اور اقدامات کے باوجود ملک کا عام شہری سرکاری علاج گاہوں میں خدمات کے حوالے سے گلہ مند ہی ہے۔
اس شہری کو مجبوری میں نجی شعبے کے اداروں سے رجوع کرنا پڑتا ہے جہاں کے چارجز بھی ہر قاعدے قانون سے آزاد ہیں، ایسے میں ادویات کا مہنگا ہونا مزید مشکلات بڑھاتا چلا جارہا ہے۔ ادویات کی قیمتوں کے ساتھ معیار کے حوالے سے بھی بعض پر سوالیہ نشان ثبت ہوتا رہتا ہے جعلی اور دو نمبر ادویات برآمد ہونا معیار کے لیے بہت کچھ کرنے کا متقاضی ہے۔
اسی طرح دیگر اشیاء کے کیس میں منڈی پر کڑی نظر رکھتے ہوئے عوام کو مصنوعی مہنگائی سے بچانے کی ضرورت ہے اس کے لیے چیک اینڈ بیلنس کا محفوظ نظام ضروری ہے جو مسلسل کام کرتا رہے، کبھی کبھار کے دوچار چھاپے مسئلے کا حل کبھی ثابت نہیں ہو سکتے۔
ریاست پاکستان نے عمران خان کے دور حکمرانی میں آئی ایم ایف کے ساتھ ایک معاہدہ کیا قرض حاصل کرنے کے لیے۔ کچھ ذمے داریاں قبول کیں، کچھ کرنے کے وعدے کیے۔ بجٹ خسارہ کم کرنے کا اقرار کیا۔ ٹیکس بڑھا چڑھا کر وصول کرنے کی یقین دہانیاں کرائیں۔ اسٹرکچرل ریفارمز کے اقرار نامے پر دستخط کیے۔
انرجی سیکٹر کے گردشی قرضے کم کرنے، اعانتوں کے خاتمے اور ایسے ہی کئی دیگر معاملات کے حوالے سے بہت کچھ کرنے اور کچھ دیگر معاملات نہ کرنے کے وعدے کیے۔ پکے وعدے اور ان پر تحریری طور پر عملدرآمد کرنے کی دستاویز پر دستخط بھی کیے۔
آئی ایم ایف نے ہمیں قرضہ دینے کا آغاز کر دیا۔ ہم نے آئی ایم ایف سے مطلوبہ قرض کی قسطیں وصول کرنا شروع کر دیں لیکن ایک دو سال کے بعد ہمیں احساس ستانے لگا کہ ہماری عوامی سیاسی مقبولیت میں کمی آنے لگی ہے۔ معاملات کو آئی ایم ایف کے ساتھ طے شدہ شرائط کے مطابق چلانے کے باعث سیاسی طور پر خسارہ ہو رہا ہے اس طرح عمران خان کی حکومت نے طے شدہ شرائط پر عمل درآمد نہ صرف ترک کر دیا بلکہ شرائط کے برعکس معاملات کرنا شروع کر دیے۔
پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کرنا شروع کر دی تاکہ عوام میں اپنی کھوئی ہوئی مقبولیت کا احیاء ہو سکے جس کے نتیجے میں گردشی قرضے کے حجم میں اضافہ ہونے لگا۔ دیگر معاملات بھی دگرگوں ہونے لگے۔ آئی ایم ایف نے ہمارے ساتھ کیا گیا معاہدہ معطل کر دیا ہمیں ملنے والی قرض کی اقساط روک دی گئیں۔
اگر معاملہ یہاں تک رہتا تو شاید بہت زیادہ بگاڑ نہ پیدا ہوتا، دیگر ممالک نے بھی ہمارے ساتھ کیے جانے والے معاملات روک دیے۔
ہم پر شرط عائد ہو گئی کہ جب تک آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات درست نہیں ہوتے اس وقت تک پاکستان کے ساتھ کسی قسم کا لین دین نہیں ہوگا نہ مالی تعاون ہوگا اور نہ ہی سرمایہ کاری ہوگی۔
اس طرح سعودی عرب، چین، ورلڈ بینک، دوست عرب ممالک اور دیگر دوست اقوام اور اداروں کے ساتھ جاری معاملات پر عمل درآمد بھی رک گیا ہم شدید مشکلات کا شکار ہو گئے۔ عمران خان پاکستان کو معاشی دلدل میں دھکیلنے کے بعد سیاسی درجہ حرارت بھی بڑھاتے چلے گئے، سیاسی فضا مکدر ہوتی چلی گئی۔ ملک معاشی دیوالیہ پن کا شکار ہونے لگا۔
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ کسی بھی ریاست میں سروسز کا معیار بہتر بنانے کے لیے متعلقہ ادارے کو سہولیات فراہم کرنا ضروری ہی رہتا ہے اس کے ساتھ انکار اس حقیقت سے بھی نہیں کہ مہیا وسائل اور افرادی قوت کا درست استعمال اور پوری انتظامی مشینری کی فعالیت وسائل بمقابلہ مسائل جیسے مسئلے پر قابو پانے میں معاون ثابت ہو سکتی ہے۔
اس مقصد کے لیے اصل ضرورت نگرانی کے کڑے نظام کی ہے اور جاری اقدامات میں وقت کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اصلاحات لانے کی بھی رہتی ہے۔ اس وقت مالی مشکلات اور سیاسی حوالے سے تناؤ اپنی جگہ ہے اس کے ساتھ کڑی نگرانی نہ ہونے کے نتیجے میں تمام تر حکومتی اقدامات اور بھاری فنڈز کا اجراء عوام کے لیے بے ثمر ہی ثابت ہوتا ہے۔ اس وقت ملک کے عام شہری کو منڈی کنٹرول کے لیے اقدامات کی ضرورت ہے۔
خدمات کے اداروں میں سروسز کا بہتر معیار ناگزیر ہے اسی طرح میونسپل خدمات میں بہتری ریلیف کا ذریعہ بن سکتی ہے اس سب کے لیے ضرورت مرکز، صوبوں ، ڈویژنل ، اضلاع اور تحصیل لیول پر مانیٹرنگ کے ایسے انتظام کی ہے کہ جس میں روزانہ کی بنیاد پر کارکردگی رپورٹ مرتب ہو۔
مالی مشکلات کو حل کرنے کے لیے پاکستان کو کافی وقت اور محنت لگے گی۔ قرض پروگرام کی بحالی کا دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ ملکی معیشت میں استحکام آئے گا اور امید ہے کہ آئی ایم ایف معاہدہ طے پانے سے ڈالر کا مصنوعی ریٹ ختم ہوگا اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے ترسیلات زر میں اضافہ ہوگا۔ 'ڈالر کا مارکیٹ ریٹ مقرر ہونے سے پاکستان کے بیرونی انفلوز بڑھیں گے۔ درآمدات پر پابندیاں ختم ہونے سے ملکی معیشت کو چلایا جاسکے گا۔
وزارت پاور ڈویژن نے بجلی کی قیمتوں میں اضافے کی کچھ تجاویز آئی ایم ایف کو دی ہیں جن کے مطابق بجلی تقریبا آٹھ روپے فی یونٹ مزید مہنگی کی جائے گی، سہ ماہی ایڈ جسٹمنٹ میں بجلی کی قیمت میں اضافہ الگ سے ہوگا، گردشی قرضے یا سرکلر ڈیٹ میں کمی کے لیے بجلی کے بنیادی ٹیرف میں اضافہ کرنا ہوگا۔
پاکستان کو اپنی معیشت کو چلانے کے لیے خود ڈالر کمانے پر توجہ دینا ہوگی۔ پاکستان کو مقامی معاشی پیداوار کو بڑھانا ہوگا۔
ملکی برآمدات کو بڑھانے کی کوئی پالیسی نہیں ہے، ملکی برآمدات کو بڑھانے کے لیے حکومت کو تمام اسٹیک ہولڈرز کو ساتھ بٹھانا ہوگا اور ایک واضح پالیسی دینا ہوگی تاکہ برآمدات کو 30 سے 40 ارب ڈالرز سے اوپر بڑھایا جاسکے۔ ایکسپورٹس اور ترسیلات زر بھی بڑھیں گی اور غیر ملکی سرمایہ کار بھی پاکستان میں دلچسپی لینا شروع کر دیں گے۔
سینیٹ کے اجلاس میں وفاقی وزیر خزانہ نے جن خیالات کا اظہار کیا ہے، وہ یقیناً صورتحال کی درست نشاندہی کر رہے ہیں۔ ہماری مجبوری یہ ہے کہ پاکستان کے تیزی سے گرتے ہوئے زرمبادلہ کے ذخائر کو سہارا دینے کے لیے آئی ایم ایف کے ساتھ کیے گئے قرض معاہدے پر عمل درآمد ضروری ہے۔
آئی ایم ایف کے ساتھ اسٹاف لیول پر معاہدہ ہونے جا رہا ہے جس کے بعد ایک ارب دس کروڑ کی اگلی قسط بھی جاری ہو جائے گی اور پانچ ارب ڈالر کی رکی ہوئی رقوم بھی خزانے میں آ جائیں گی۔
آئی ایم ایف کے ساتھ قرض پروگرام کی بحالی سے عام آدمی کی مشکلات میں اضافہ ہوگا اور اس کے لیے اگلے بارہ سے اٹھارہ ماہ مشکل ہوں گے۔ قرض پروگرام کے تحت بجلی اور گیس کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہونے سے مہنگائی بڑھے گی، خاص طور پر درآمدی اشیا مزید مہنگی ہوں گی۔
اس معاہدے سے پاکستان کو قرضہ تو مل جائے گا مگر ہمارے حالات ایک مقروض ملک کی طرح ہی رہیں گے جو ایک جگہ سے قرضہ لے کر دوسری جگہ واپس کر رہا ہے۔ پاکستان کے لیے قرض کی رقم سے زیادہ قرض پروگرام کی بحالی اہم تھی۔
اس پروگرام کی بحالی سے پاکستان اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے درمیان اعتماد بحال ہوگا جب کہ پاکستان اور اس کے دوست ممالک کے درمیان مالیاتی تعلقات بھی بحال ہوجائیں گے۔ سعودی عرب، یو اے ای اور چین پاکستان کو آیندہ مہینوں کے دوران پانچ سے سات ارب ڈالرز کی امداد دے سکیں گے، جس سے اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر بہتر سطح پر آجائیں گے۔
وطن عزیز کی اکانومی ایک عرصے سے مشکلات کا شکار چلی آرہی ہے، اس میں قرضوں کا بوجھ مسلسل بڑھتا چلا جارہا ہے اور نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ ایک قرضے کی قسط ادا کرنے کے لیے دوسرا قرضہ اٹھایا جا رہا ہے ہر نئے قرضے کے ساتھ قرض دینے والوں کی جانب سے شرائط کی فہرست بھی آجاتی ہے اس فہرست پر عملدرآمد کا سارا بوجھ عوام پر ڈال دیا جاتا ہے، بعض اوقات اس بوجھ سے متعلق یہ بھی کہہ دیا جاتا ہے کہ یہ صرف مالداروں پر ہی ہوگا تاہم بالواسطہ سہی یہ بوجھ آخر گرتا ملک کے غریب شہری پر ہی ہے۔
ہمارے ہاں یہ روایت بھی چلی آرہی ہے کہ حکومت کی جانب سے ہر نیا ٹیکس اسی روز پیداواری شعبے کی جانب سے صارفین کو منتقل ہو جاتا ہے جب کہ حکومت کی جانب سے ملنے والی مراعات اور سہولیات کی صورت میں عام صارف کو کوئی ریلیف نہیں دیا جاتا۔
اب کی بار بھی170 ارب روپے کا ٹیکس فوراً عام صارف کو منتقل ہو چکا ہے۔ عام صارف پہلے ہی گرانی کے ساتھ ذخیرہ اندوزی اور ملاوٹ کے ہاتھوں اذیت کا شکار ہے ۔
گرانی میں حقیقی مہنگائی کے ساتھ اس پر مصنوعی طور پر ڈالی گئی گرانی بھی شامل ہے۔ اس مہنگائی میں اگر ادویات تک بھی شامل ہوتی ہیں تو یہ زیادہ مشکلات کی حامل ہو جاتی ہے، حکومتوں کی جانب سے تواتر کے ساتھ ہیلتھ سیکٹر میں اصلاح احوال کے اعلانات اور اقدامات کے باوجود ملک کا عام شہری سرکاری علاج گاہوں میں خدمات کے حوالے سے گلہ مند ہی ہے۔
اس شہری کو مجبوری میں نجی شعبے کے اداروں سے رجوع کرنا پڑتا ہے جہاں کے چارجز بھی ہر قاعدے قانون سے آزاد ہیں، ایسے میں ادویات کا مہنگا ہونا مزید مشکلات بڑھاتا چلا جارہا ہے۔ ادویات کی قیمتوں کے ساتھ معیار کے حوالے سے بھی بعض پر سوالیہ نشان ثبت ہوتا رہتا ہے جعلی اور دو نمبر ادویات برآمد ہونا معیار کے لیے بہت کچھ کرنے کا متقاضی ہے۔
اسی طرح دیگر اشیاء کے کیس میں منڈی پر کڑی نظر رکھتے ہوئے عوام کو مصنوعی مہنگائی سے بچانے کی ضرورت ہے اس کے لیے چیک اینڈ بیلنس کا محفوظ نظام ضروری ہے جو مسلسل کام کرتا رہے، کبھی کبھار کے دوچار چھاپے مسئلے کا حل کبھی ثابت نہیں ہو سکتے۔
ریاست پاکستان نے عمران خان کے دور حکمرانی میں آئی ایم ایف کے ساتھ ایک معاہدہ کیا قرض حاصل کرنے کے لیے۔ کچھ ذمے داریاں قبول کیں، کچھ کرنے کے وعدے کیے۔ بجٹ خسارہ کم کرنے کا اقرار کیا۔ ٹیکس بڑھا چڑھا کر وصول کرنے کی یقین دہانیاں کرائیں۔ اسٹرکچرل ریفارمز کے اقرار نامے پر دستخط کیے۔
انرجی سیکٹر کے گردشی قرضے کم کرنے، اعانتوں کے خاتمے اور ایسے ہی کئی دیگر معاملات کے حوالے سے بہت کچھ کرنے اور کچھ دیگر معاملات نہ کرنے کے وعدے کیے۔ پکے وعدے اور ان پر تحریری طور پر عملدرآمد کرنے کی دستاویز پر دستخط بھی کیے۔
آئی ایم ایف نے ہمیں قرضہ دینے کا آغاز کر دیا۔ ہم نے آئی ایم ایف سے مطلوبہ قرض کی قسطیں وصول کرنا شروع کر دیں لیکن ایک دو سال کے بعد ہمیں احساس ستانے لگا کہ ہماری عوامی سیاسی مقبولیت میں کمی آنے لگی ہے۔ معاملات کو آئی ایم ایف کے ساتھ طے شدہ شرائط کے مطابق چلانے کے باعث سیاسی طور پر خسارہ ہو رہا ہے اس طرح عمران خان کی حکومت نے طے شدہ شرائط پر عمل درآمد نہ صرف ترک کر دیا بلکہ شرائط کے برعکس معاملات کرنا شروع کر دیے۔
پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کرنا شروع کر دی تاکہ عوام میں اپنی کھوئی ہوئی مقبولیت کا احیاء ہو سکے جس کے نتیجے میں گردشی قرضے کے حجم میں اضافہ ہونے لگا۔ دیگر معاملات بھی دگرگوں ہونے لگے۔ آئی ایم ایف نے ہمارے ساتھ کیا گیا معاہدہ معطل کر دیا ہمیں ملنے والی قرض کی اقساط روک دی گئیں۔
اگر معاملہ یہاں تک رہتا تو شاید بہت زیادہ بگاڑ نہ پیدا ہوتا، دیگر ممالک نے بھی ہمارے ساتھ کیے جانے والے معاملات روک دیے۔
ہم پر شرط عائد ہو گئی کہ جب تک آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات درست نہیں ہوتے اس وقت تک پاکستان کے ساتھ کسی قسم کا لین دین نہیں ہوگا نہ مالی تعاون ہوگا اور نہ ہی سرمایہ کاری ہوگی۔
اس طرح سعودی عرب، چین، ورلڈ بینک، دوست عرب ممالک اور دیگر دوست اقوام اور اداروں کے ساتھ جاری معاملات پر عمل درآمد بھی رک گیا ہم شدید مشکلات کا شکار ہو گئے۔ عمران خان پاکستان کو معاشی دلدل میں دھکیلنے کے بعد سیاسی درجہ حرارت بھی بڑھاتے چلے گئے، سیاسی فضا مکدر ہوتی چلی گئی۔ ملک معاشی دیوالیہ پن کا شکار ہونے لگا۔
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ کسی بھی ریاست میں سروسز کا معیار بہتر بنانے کے لیے متعلقہ ادارے کو سہولیات فراہم کرنا ضروری ہی رہتا ہے اس کے ساتھ انکار اس حقیقت سے بھی نہیں کہ مہیا وسائل اور افرادی قوت کا درست استعمال اور پوری انتظامی مشینری کی فعالیت وسائل بمقابلہ مسائل جیسے مسئلے پر قابو پانے میں معاون ثابت ہو سکتی ہے۔
اس مقصد کے لیے اصل ضرورت نگرانی کے کڑے نظام کی ہے اور جاری اقدامات میں وقت کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اصلاحات لانے کی بھی رہتی ہے۔ اس وقت مالی مشکلات اور سیاسی حوالے سے تناؤ اپنی جگہ ہے اس کے ساتھ کڑی نگرانی نہ ہونے کے نتیجے میں تمام تر حکومتی اقدامات اور بھاری فنڈز کا اجراء عوام کے لیے بے ثمر ہی ثابت ہوتا ہے۔ اس وقت ملک کے عام شہری کو منڈی کنٹرول کے لیے اقدامات کی ضرورت ہے۔
خدمات کے اداروں میں سروسز کا بہتر معیار ناگزیر ہے اسی طرح میونسپل خدمات میں بہتری ریلیف کا ذریعہ بن سکتی ہے اس سب کے لیے ضرورت مرکز، صوبوں ، ڈویژنل ، اضلاع اور تحصیل لیول پر مانیٹرنگ کے ایسے انتظام کی ہے کہ جس میں روزانہ کی بنیاد پر کارکردگی رپورٹ مرتب ہو۔
مالی مشکلات کو حل کرنے کے لیے پاکستان کو کافی وقت اور محنت لگے گی۔ قرض پروگرام کی بحالی کا دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ ملکی معیشت میں استحکام آئے گا اور امید ہے کہ آئی ایم ایف معاہدہ طے پانے سے ڈالر کا مصنوعی ریٹ ختم ہوگا اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے ترسیلات زر میں اضافہ ہوگا۔ 'ڈالر کا مارکیٹ ریٹ مقرر ہونے سے پاکستان کے بیرونی انفلوز بڑھیں گے۔ درآمدات پر پابندیاں ختم ہونے سے ملکی معیشت کو چلایا جاسکے گا۔
وزارت پاور ڈویژن نے بجلی کی قیمتوں میں اضافے کی کچھ تجاویز آئی ایم ایف کو دی ہیں جن کے مطابق بجلی تقریبا آٹھ روپے فی یونٹ مزید مہنگی کی جائے گی، سہ ماہی ایڈ جسٹمنٹ میں بجلی کی قیمت میں اضافہ الگ سے ہوگا، گردشی قرضے یا سرکلر ڈیٹ میں کمی کے لیے بجلی کے بنیادی ٹیرف میں اضافہ کرنا ہوگا۔
پاکستان کو اپنی معیشت کو چلانے کے لیے خود ڈالر کمانے پر توجہ دینا ہوگی۔ پاکستان کو مقامی معاشی پیداوار کو بڑھانا ہوگا۔
ملکی برآمدات کو بڑھانے کی کوئی پالیسی نہیں ہے، ملکی برآمدات کو بڑھانے کے لیے حکومت کو تمام اسٹیک ہولڈرز کو ساتھ بٹھانا ہوگا اور ایک واضح پالیسی دینا ہوگی تاکہ برآمدات کو 30 سے 40 ارب ڈالرز سے اوپر بڑھایا جاسکے۔ ایکسپورٹس اور ترسیلات زر بھی بڑھیں گی اور غیر ملکی سرمایہ کار بھی پاکستان میں دلچسپی لینا شروع کر دیں گے۔