معیشت اور سیاست
آئی ایم ایف کی شرائط کو پورا کرنے کے لیے حکومت نے خاصے سخت فیصلے کیے ہیں
وزیراعظم میاں شہباز شریف کی زیرصدارت وفاقی کابینہ کا اجلاس دارالحکومت اسلام آباد میں منعقد ہوا۔ اجلاس میں وفاقی کابینہ نے کپاس کی امدادی قیمت 8500روپے فی من کرنے کی منظوری دے دی۔ یہ ایک اچھا فیصلہ کہا جائے گا۔
پاکستان کو اس وقت زرعی شعبے پر سب سے زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے کیونکہ اس شعبے کی ترقی ہی دراصل پاکستان کی معیشت کو بحران سے نکال سکتی ہے۔ حکومت نے گندم کی سرکاری قیمت خرید میں بھی اضافہ کیا ہے، اس کے بھی اچھے اثرات مرتب ہوں گے اور کسانوں کو کسی حد تک ریلیف ملنے کی توقع ہے۔
بڑھتی ہوئی مہنگائی نے کسانوں اور درمیانے زمینداروں کو بری طرح م تاثر کیا ہے۔ ان کی فی ایکڑ کاشت کی لاگت بہت بڑھ چکی ہے۔ کھادوں کی قیمتیں بہت زیادہ ہیں جب کہ بیج اور زرعی ادویات کی قیمتیں بھی کئی گنا بڑھ چکی ہیں۔ اگر کسی نے ٹیوب ویل لگایا ہے تو بجلی کے نرخ بہت زیادہ ہو چکے ہیں۔
ایسے چھوٹے کاشت کار جنھیں نہری پانی میسر نہیں ہے اور ان کے پاس ٹیوب ویل لگوانے کی بھی سکت نہیں ہے، انھیں پانی خریدنا پڑتا ہے جس کی قیمت فی گھنٹہ کے حساب سے ہوتی ہے۔ ایک تو وہ پہلے ہی محدود وسائل کا مالک ہے اور دوسرا اسے یہ اضافی اخراجات بھی برداشت کرنے پڑ جاتے ہیں جس میں ٹریکٹر سے کاشت کا خرچ بھی شامل ہے۔
یوں دیکھا جائے تو چھوٹے کاشت کاروں کی پیداواری لاگت درمیانے زمیندار کے مقابلے میں زیادہ ہو جاتی ہے جب کہ اس کی فصل کی پوری قیمت اسے نہیں ملتی۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو اس حوالے سے زمینی حقائق کے مطابق زرعی پالیسی بنانی چاہیے تاکہ چھوٹے کسانوں کو فائدہ پہنچ سکے۔
دوسرا دیہات کے قریب منڈی بنائی جائے تاکہ کسانوں کے ٹرانسپورٹیشن کے اخراجات کم ہو سکیں اور وہ پولیس اور دیگر محکموں کے اہلکاروں کی چیرہ دستیوں سے بھی محفوظ رہ سکیں۔
اس حوالے سے سرکاری ملازمین کی بھی جواب دہی کا کوئی میکنزم ہونا چاہیے جس کے ذریعے یہ پتہ چل سکے کہ کسانوں کو کس کس طریقے سے اور کون کون سے محکمے کے اہلکار تنگ کرتے ہیں اور پیسے وصولتے ہیں۔ موسمی اتار چڑھاؤ، بارشوں اور آندھی کی وجہ سے چھوٹے کسانوں کی تیار فصلوں کو جو نقصان پہنچتا ہے، اس کا ازالہ بھی ہونا چاہیے تاکہ چھوٹا کسان قرضوں میں نہ پھنسے۔
اس اجلاس میں وفاقی کابینہ نے مختلف ممالک اور عالمی اداروں کے ساتھ سیکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن کی مفاہمتی یادداشتوں کی بھی منظوری دی۔ وفاقی کابینہ کے اجلاس کے علاوہ وزیراعظم میاں شہباز شریف نے رمضان المبارک میںآٹے کی فراہمی کے جائزہ اجلاس میں بھی شرکت کی، اخباری اطلاع کے مطابق انھوں نے کہا حکومت مستحقین کوسہولت دینے کی ہر ممکن کوشش کر رہی ہے۔
اجلاس کو بتایا گیا پنجاب میں ایک کروڑ 58 لاکھ گھرانوں کو مفت آٹا دیا جائے گا جب کہ خیبرپختونخوا میں بھی مستحق خاندانوں کو یہ تحفہ دیا جائے گا۔ بلوچستان میں 50 رمضان بازاروں میں سستا آٹا دستیاب ہو گا۔ اسلام آباد کے ایک لاکھ 85 ہزار مستحق خاندان آٹے کا تحفہ حاصل کر سکیں گے۔وہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے نمبر 8171 پر شناختی کارڈ ایس ایم ایس کر کے اپنی اہلیت جانچ سکتے ہیں۔
ادھر ایک اور خبر میں بتایا گیا ہے کہ پنجاب میں مفت آٹا تقسیم کے اہل مستحق خاندانوں کی تفصیلات سامنے آ گئیں ، جنوبی پنجاب میں غربت کی بلند شرح کے باعث یہاں 62 لاکھ سے زیادہ خاندان مستحق قرار دیے گئے ہیں،5 ڈویژنل ہیڈکوارٹر اضلاع میں مستحق افراد کی تعداد سب سے زیادہ ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔
فیصل آباد میں مستحق خاندانوں کی تعداد 11 لاکھ 98ہزار ہے، لاہور دوسرے نمبر پر ہے جہاں 9لاکھ 80ہزار خاندان رجسٹرڈ ہیں۔ ملتان 8 لاکھ 60 ہزار، رحیم یار خان 8لاکھ، مظفر گڑھ میں 22لاکھ 98ہزار مستحق خاندان رجسٹرڈ ہیں جب کہ بہاولپور میں 7 لاکھ 21ہزار، سرگودھا 6لاکھ 22ہزار، سیالکوٹ 5لاکھ 63ہزار مستحق خاندان موجود ہیں، غربت کی سب سے کم شرح جہلم میں ایک لاکھ 37ہزار، حافظ آباد میں ایک لاکھ 73 ہزار خاندان مستحق قراردیے گئے ہیں، رمضان پیکیج کے تحت مستحق خاندانوں میں 10کلو والے 4کروڑ 74لاکھ تھیلے تقسیم ہوں گے ۔
ایسے اقدامات شارٹ ٹرم کے لیے تو درست ہیں لیکن لانگ ٹرم میں ان کے فوائد کم اور نقصانات زیادہ ہیں۔ جن گھرانوں کو مفت آٹا ملے گا، ان کی نفسیات پر بھی اثر پڑے گا۔ وہ محنت سے ڈریں گے اور ان کی کوشش ہو گی کہ کسی طریقے سے انھیں بغیر کام کیے خیرات میں کچھ مل جائے۔ حکومتیں اس طرح کی پالیسی شدید قحط کے عرصے میں بناتی ہے۔ عمومی حالات میں ایسی پالیسی قومی وسائل کا اچھا خاصا حصہ ضایع کرنے کے مترادف ہے۔
حکومت اگر اتنے پیسے ترقیاتی کاموں پر لگائے تو اس سے ہنرمند اور غیرہنرمند دونوں قسم کے محنت کشوں کو روزگار ملے گا اور اس کے ساتھ ساتھ انھیں یہ احساس ہو گا کہ وہ کام کریں گے تو گھر کا کچن چلائیں گے۔ زرعی شعبے کو بھرپور ترقی دینے کے لیے بھی امداد اور خیرات کارگر نہیں ہوتے۔
زرعی شعبے کی ترقی کے لیے سب سے ضروری چیز زرعی مداخل کو سستا کرنا ہے۔ جب زرعی مداخل سستے ہوں گے تو کسان کے لیے محنت کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ اس طرح وہ زیادہ سے زیادہ پیداوار حاصل کرنے کی کوشش کرے گا، اس کا فائدہ کسان اور گاؤں کی خوشحالی کی صورت میں نکلے گا اور شہروں میں بسنے والوں کے لیے اجناس کی فراوانی ہو گی، ملک کو فوڈز سیکیورٹی میسر آ جائے گی۔
ادھر آئی ایم ایف کے ساتھ حتمی معاہدہ تاحال نہیں ہو سکا ہے۔ اطلاعات کے مطابق وفاقی حکومت آئی ایم ایف کے ساتھ اسٹاف سطع کے معاہدے کو جلد حتمی شکل دینے کے لیے کوششوں میں مصروف ہے، حکومت پاکستان نے دوست ملکوں سے پانچ سے چھ ارب ڈالرکی فنانسنگ کے لیے کوششیں تیزکردیں جب کہ چین سے 50کروڑ ڈالر مزید موصول ہو گئے ہیں۔
آئی ایم ایف کے مطالبے پر تین ملکوں سے فنڈز کی گارنٹی حاصل کرنے کے لیے سنجیدہ کوشش کی جا رہی ہے، چین سے دو ارب ڈالر کے سیف ڈیپازٹ رول اوور ہونے کا امکان بھی ظاہر کیا جا رہا ہے، حکومتی ذرایع سعودی عرب سے دو اور متحدہ عرب امارات سے ایک ارب ڈالر ملنے کا امکان ظاہر کر رہے ہیں، حکومت دوست ممالک سے5 سے6ارب ڈالرکی فنانسنگ کے لیے متحرک ہے۔
چین کی قرضوں کی موخر ادائیگیوں کی سہولت اور مسلسل پانچویں ہفتے زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافے جیسے عوامل کے باعث جمعے کو بھی ڈالر کی قدر میں کمی دیکھی گئی ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر میں بھی اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔
پاکستان کو شدید قسم کے مالی بحران کا سامنا ہے، حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ خاصا آگے بڑھ کر کام کیا ہے اور آئی ایم ایف کی شرائط کو پورا کرنے کی ہرممکن کوشش کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دوست ممالک بھی پاکستان کی مالی مدد کرنے پر آمادہ نظر آتے ہیں۔ اس بحران میں چین نے انتہائی مثبت کردار ادا کیا ہے۔
چینی مدد کی وجہ سے پاکستان میں قدرے مالی اطمینان دیکھنے میں آ رہا ہے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ طے پا گیا تو پاکستان کی معیشت مزید بہتر ہونے کی امید کی جا سکتی ہے اور یہ بھی امید کی جا سکتی ہے کہ ڈالر اور روپے کا ایکسچینج ریٹ ایک سطح پر مستحکم ہو جائے گا۔ ایل سی وغیرہ کھل جائیں گی جس سے معیشت زیادہ تیزرفتاری سے چلنا شروع ہو جائے گی اور مارکیٹ کی سطح پر کاروباری سرگرمیاں بھی بڑھ جائیں گی۔
آئی ایم ایف کی شرائط کو پورا کرنے کے لیے حکومت نے خاصے سخت فیصلے کیے ہیں کیونکہ ان فیصلوں کی وجہ سے مہنگائی میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ عوام مہنگائی کے بوجھ تلے بری طرح دبے ہوئے ہیں اور ان کے لیے کچن چلانا مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔ ادھر ملک میں سیاسی بحران مسلسل جاری ہے۔ دو صوبوں میں حکومتیں تحلیل ہو چکی ہیں اور الیکشن کا اعلان ہو چکا ہے لیکن دوسری طرف پی ٹی آئی اور اتحادی حکومت کے درمیان اختلافات بڑھتے بڑھتے محاذآرائی کی شکل اختیار کر رہے ہیں۔
اس محاذآرائی کے اثرات سے بھی معیشت میں استحکام نہیں آ رہا۔ ملک میں دہشت گردوں کی سرگرمیاں بھی بڑھ رہی ہیں اور ان حالات میں گھیراؤ جلاؤ دہشت گردوں کے لیے انتہائی سازگار حالات پیدا کر رہا ہے۔ ملک میں انتظامیہ مفلوج ہے اور نظامِ عدل سیاسی مقدمات کی بھرمار کی وجہ سے عام سائلیں کے مقدمات پر تیز کارروائی کرنے سے قاصر ہے۔ یہ صورت حال ملک کی سلامتی، داخلی امن وامان اور معیشت کے لیے زہر قاتل ہے۔
پاکستان کو اس وقت زرعی شعبے پر سب سے زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے کیونکہ اس شعبے کی ترقی ہی دراصل پاکستان کی معیشت کو بحران سے نکال سکتی ہے۔ حکومت نے گندم کی سرکاری قیمت خرید میں بھی اضافہ کیا ہے، اس کے بھی اچھے اثرات مرتب ہوں گے اور کسانوں کو کسی حد تک ریلیف ملنے کی توقع ہے۔
بڑھتی ہوئی مہنگائی نے کسانوں اور درمیانے زمینداروں کو بری طرح م تاثر کیا ہے۔ ان کی فی ایکڑ کاشت کی لاگت بہت بڑھ چکی ہے۔ کھادوں کی قیمتیں بہت زیادہ ہیں جب کہ بیج اور زرعی ادویات کی قیمتیں بھی کئی گنا بڑھ چکی ہیں۔ اگر کسی نے ٹیوب ویل لگایا ہے تو بجلی کے نرخ بہت زیادہ ہو چکے ہیں۔
ایسے چھوٹے کاشت کار جنھیں نہری پانی میسر نہیں ہے اور ان کے پاس ٹیوب ویل لگوانے کی بھی سکت نہیں ہے، انھیں پانی خریدنا پڑتا ہے جس کی قیمت فی گھنٹہ کے حساب سے ہوتی ہے۔ ایک تو وہ پہلے ہی محدود وسائل کا مالک ہے اور دوسرا اسے یہ اضافی اخراجات بھی برداشت کرنے پڑ جاتے ہیں جس میں ٹریکٹر سے کاشت کا خرچ بھی شامل ہے۔
یوں دیکھا جائے تو چھوٹے کاشت کاروں کی پیداواری لاگت درمیانے زمیندار کے مقابلے میں زیادہ ہو جاتی ہے جب کہ اس کی فصل کی پوری قیمت اسے نہیں ملتی۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو اس حوالے سے زمینی حقائق کے مطابق زرعی پالیسی بنانی چاہیے تاکہ چھوٹے کسانوں کو فائدہ پہنچ سکے۔
دوسرا دیہات کے قریب منڈی بنائی جائے تاکہ کسانوں کے ٹرانسپورٹیشن کے اخراجات کم ہو سکیں اور وہ پولیس اور دیگر محکموں کے اہلکاروں کی چیرہ دستیوں سے بھی محفوظ رہ سکیں۔
اس حوالے سے سرکاری ملازمین کی بھی جواب دہی کا کوئی میکنزم ہونا چاہیے جس کے ذریعے یہ پتہ چل سکے کہ کسانوں کو کس کس طریقے سے اور کون کون سے محکمے کے اہلکار تنگ کرتے ہیں اور پیسے وصولتے ہیں۔ موسمی اتار چڑھاؤ، بارشوں اور آندھی کی وجہ سے چھوٹے کسانوں کی تیار فصلوں کو جو نقصان پہنچتا ہے، اس کا ازالہ بھی ہونا چاہیے تاکہ چھوٹا کسان قرضوں میں نہ پھنسے۔
اس اجلاس میں وفاقی کابینہ نے مختلف ممالک اور عالمی اداروں کے ساتھ سیکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن کی مفاہمتی یادداشتوں کی بھی منظوری دی۔ وفاقی کابینہ کے اجلاس کے علاوہ وزیراعظم میاں شہباز شریف نے رمضان المبارک میںآٹے کی فراہمی کے جائزہ اجلاس میں بھی شرکت کی، اخباری اطلاع کے مطابق انھوں نے کہا حکومت مستحقین کوسہولت دینے کی ہر ممکن کوشش کر رہی ہے۔
اجلاس کو بتایا گیا پنجاب میں ایک کروڑ 58 لاکھ گھرانوں کو مفت آٹا دیا جائے گا جب کہ خیبرپختونخوا میں بھی مستحق خاندانوں کو یہ تحفہ دیا جائے گا۔ بلوچستان میں 50 رمضان بازاروں میں سستا آٹا دستیاب ہو گا۔ اسلام آباد کے ایک لاکھ 85 ہزار مستحق خاندان آٹے کا تحفہ حاصل کر سکیں گے۔وہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے نمبر 8171 پر شناختی کارڈ ایس ایم ایس کر کے اپنی اہلیت جانچ سکتے ہیں۔
ادھر ایک اور خبر میں بتایا گیا ہے کہ پنجاب میں مفت آٹا تقسیم کے اہل مستحق خاندانوں کی تفصیلات سامنے آ گئیں ، جنوبی پنجاب میں غربت کی بلند شرح کے باعث یہاں 62 لاکھ سے زیادہ خاندان مستحق قرار دیے گئے ہیں،5 ڈویژنل ہیڈکوارٹر اضلاع میں مستحق افراد کی تعداد سب سے زیادہ ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔
فیصل آباد میں مستحق خاندانوں کی تعداد 11 لاکھ 98ہزار ہے، لاہور دوسرے نمبر پر ہے جہاں 9لاکھ 80ہزار خاندان رجسٹرڈ ہیں۔ ملتان 8 لاکھ 60 ہزار، رحیم یار خان 8لاکھ، مظفر گڑھ میں 22لاکھ 98ہزار مستحق خاندان رجسٹرڈ ہیں جب کہ بہاولپور میں 7 لاکھ 21ہزار، سرگودھا 6لاکھ 22ہزار، سیالکوٹ 5لاکھ 63ہزار مستحق خاندان موجود ہیں، غربت کی سب سے کم شرح جہلم میں ایک لاکھ 37ہزار، حافظ آباد میں ایک لاکھ 73 ہزار خاندان مستحق قراردیے گئے ہیں، رمضان پیکیج کے تحت مستحق خاندانوں میں 10کلو والے 4کروڑ 74لاکھ تھیلے تقسیم ہوں گے ۔
ایسے اقدامات شارٹ ٹرم کے لیے تو درست ہیں لیکن لانگ ٹرم میں ان کے فوائد کم اور نقصانات زیادہ ہیں۔ جن گھرانوں کو مفت آٹا ملے گا، ان کی نفسیات پر بھی اثر پڑے گا۔ وہ محنت سے ڈریں گے اور ان کی کوشش ہو گی کہ کسی طریقے سے انھیں بغیر کام کیے خیرات میں کچھ مل جائے۔ حکومتیں اس طرح کی پالیسی شدید قحط کے عرصے میں بناتی ہے۔ عمومی حالات میں ایسی پالیسی قومی وسائل کا اچھا خاصا حصہ ضایع کرنے کے مترادف ہے۔
حکومت اگر اتنے پیسے ترقیاتی کاموں پر لگائے تو اس سے ہنرمند اور غیرہنرمند دونوں قسم کے محنت کشوں کو روزگار ملے گا اور اس کے ساتھ ساتھ انھیں یہ احساس ہو گا کہ وہ کام کریں گے تو گھر کا کچن چلائیں گے۔ زرعی شعبے کو بھرپور ترقی دینے کے لیے بھی امداد اور خیرات کارگر نہیں ہوتے۔
زرعی شعبے کی ترقی کے لیے سب سے ضروری چیز زرعی مداخل کو سستا کرنا ہے۔ جب زرعی مداخل سستے ہوں گے تو کسان کے لیے محنت کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ اس طرح وہ زیادہ سے زیادہ پیداوار حاصل کرنے کی کوشش کرے گا، اس کا فائدہ کسان اور گاؤں کی خوشحالی کی صورت میں نکلے گا اور شہروں میں بسنے والوں کے لیے اجناس کی فراوانی ہو گی، ملک کو فوڈز سیکیورٹی میسر آ جائے گی۔
ادھر آئی ایم ایف کے ساتھ حتمی معاہدہ تاحال نہیں ہو سکا ہے۔ اطلاعات کے مطابق وفاقی حکومت آئی ایم ایف کے ساتھ اسٹاف سطع کے معاہدے کو جلد حتمی شکل دینے کے لیے کوششوں میں مصروف ہے، حکومت پاکستان نے دوست ملکوں سے پانچ سے چھ ارب ڈالرکی فنانسنگ کے لیے کوششیں تیزکردیں جب کہ چین سے 50کروڑ ڈالر مزید موصول ہو گئے ہیں۔
آئی ایم ایف کے مطالبے پر تین ملکوں سے فنڈز کی گارنٹی حاصل کرنے کے لیے سنجیدہ کوشش کی جا رہی ہے، چین سے دو ارب ڈالر کے سیف ڈیپازٹ رول اوور ہونے کا امکان بھی ظاہر کیا جا رہا ہے، حکومتی ذرایع سعودی عرب سے دو اور متحدہ عرب امارات سے ایک ارب ڈالر ملنے کا امکان ظاہر کر رہے ہیں، حکومت دوست ممالک سے5 سے6ارب ڈالرکی فنانسنگ کے لیے متحرک ہے۔
چین کی قرضوں کی موخر ادائیگیوں کی سہولت اور مسلسل پانچویں ہفتے زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافے جیسے عوامل کے باعث جمعے کو بھی ڈالر کی قدر میں کمی دیکھی گئی ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر میں بھی اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔
پاکستان کو شدید قسم کے مالی بحران کا سامنا ہے، حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ خاصا آگے بڑھ کر کام کیا ہے اور آئی ایم ایف کی شرائط کو پورا کرنے کی ہرممکن کوشش کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دوست ممالک بھی پاکستان کی مالی مدد کرنے پر آمادہ نظر آتے ہیں۔ اس بحران میں چین نے انتہائی مثبت کردار ادا کیا ہے۔
چینی مدد کی وجہ سے پاکستان میں قدرے مالی اطمینان دیکھنے میں آ رہا ہے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ طے پا گیا تو پاکستان کی معیشت مزید بہتر ہونے کی امید کی جا سکتی ہے اور یہ بھی امید کی جا سکتی ہے کہ ڈالر اور روپے کا ایکسچینج ریٹ ایک سطح پر مستحکم ہو جائے گا۔ ایل سی وغیرہ کھل جائیں گی جس سے معیشت زیادہ تیزرفتاری سے چلنا شروع ہو جائے گی اور مارکیٹ کی سطح پر کاروباری سرگرمیاں بھی بڑھ جائیں گی۔
آئی ایم ایف کی شرائط کو پورا کرنے کے لیے حکومت نے خاصے سخت فیصلے کیے ہیں کیونکہ ان فیصلوں کی وجہ سے مہنگائی میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ عوام مہنگائی کے بوجھ تلے بری طرح دبے ہوئے ہیں اور ان کے لیے کچن چلانا مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔ ادھر ملک میں سیاسی بحران مسلسل جاری ہے۔ دو صوبوں میں حکومتیں تحلیل ہو چکی ہیں اور الیکشن کا اعلان ہو چکا ہے لیکن دوسری طرف پی ٹی آئی اور اتحادی حکومت کے درمیان اختلافات بڑھتے بڑھتے محاذآرائی کی شکل اختیار کر رہے ہیں۔
اس محاذآرائی کے اثرات سے بھی معیشت میں استحکام نہیں آ رہا۔ ملک میں دہشت گردوں کی سرگرمیاں بھی بڑھ رہی ہیں اور ان حالات میں گھیراؤ جلاؤ دہشت گردوں کے لیے انتہائی سازگار حالات پیدا کر رہا ہے۔ ملک میں انتظامیہ مفلوج ہے اور نظامِ عدل سیاسی مقدمات کی بھرمار کی وجہ سے عام سائلیں کے مقدمات پر تیز کارروائی کرنے سے قاصر ہے۔ یہ صورت حال ملک کی سلامتی، داخلی امن وامان اور معیشت کے لیے زہر قاتل ہے۔