قوی خان ایک اداکار نہیں ایک اکیڈمی تھا
قوی خان ایک مرنجان مرنج قسم کے انسان تھے۔ شعر و ادب اور فلسفہ بھی ان کی گفتگو کا حصہ ہوا کرتے تھے
ریڈیو، ٹیلی وژن اور فلم کے نامور اداکار قوی خان اپنے بے شمار چاہنے والوں کو سوگوار چھوڑ کر اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ اداکار قوی خان ٹیلی وژن کی ایک چہیتی شخصیت ہی نہیں تھے بلکہ ٹی وی کے فنکاروں کے لیے ایک اکیڈمی کا درجہ رکھتے تھے۔
اداکار قوی خان جب تک ٹی وی پر آتے رہے تو ٹی وی کی شان بنے رہے اور جب انھوں نے فلم انڈسٹری میں قدم رکھا تو اپنے منفرد کرداروں کی وجہ سے فلم کی دنیا میں بھی چھاتے چلے گئے۔ وہ ایک ایسے اداکار تھے جنھوں نے فلم کے پردے پر ہر قسم اور ہر نوعیت کا کردار ادا کیا ہے اور منفرد انداز سے کردار نگاری میں اپنا جواب نہیں رکھتے تھے۔ وہ ہر کردار میں حقیقت کا رنگ شامل کردیتے تھے۔
اداکار اور صداکار قوی خان نے بطور چائلڈ آرٹسٹ ریڈیو پشاور سے آغاز کیا تھا پھر اسٹیج ڈراموں سے سفر کرتے ہوئے ٹیلی وژن کی طرف آئے تو وہ ٹیلی وژن کا پاکستان میں ابتدائی دور تھا بہت کم فنکار منظر عام پر آتے تھے اور جو آئے بھی تھے وہ زیادہ تر نوآموز تھے۔
قوی خان اس وقت واحد اداکار تھے جن کی کردار نگاری میں جان ہوتی تھی اور وہ جس ڈرامے میں بھی کام کرتے تھے وہ ڈرامہ ناظرین کی پسندیدگی کی سند بن جاتا تھا۔ٹیلی وژن کے پہلے قابل ذکر ڈرامے '' نذرانہ '' میں کام کرنے کا اعزاز قوی خان کو حاصل رہا پھر تو ڈراموں کی قطار لگتی چلی گئی جو بھی ٹی وی ڈرامہ آتا قوی اس ڈرامے کی جان اور آن بان ہوا کرتے تھے۔
چند ڈرامے تو ٹیلی وژن کی تاریخ کا جگمگاتا حصہ رہے ہیں۔ من چلے کا سودا ، اندھیرا اجالا، لاہوری گیٹ، دو قدم دور تھے، میرے قاتل، میرے دل دار، دستک، در شہوار، پھر چاند پہ دستک، زندگی دھوپ تم گھنا سایا، تم کون، صدقے تمہارے، نظر بد اور خاص طور پر الف لیلیٰ اور انسان کو ناظرین کی پسند حاصل رہی ہے۔ پھر جب فلمی دنیا میں قدم رکھا تو محمد علی، وحید مراد، ندیم کے درمیان اپنی شان دار شناخت پیدا کی اور فلم کا ہر بڑا ہیرو قوی خان کے ساتھ کام کرتے ہوئے سوچ سمجھ کے کام کرتا تھا۔
تقریباً ہر فلم میں اداکار قوی خان کی ضرورت محسوس کی جاتی تھی اور قوی کی کردار نگاری کو فلم بینوں کی طرف سے بڑی داد ملتی تھی۔ میں بھی کراچی میں ان کے ڈرامے بڑے شوق سے دیکھتا تھا، میری پہلی ملاقات قوی خان سے لاہور میں ہوئی تھی جب میں بحیثیت رائٹر اور نغمہ نگار لاہور کی فلم انڈسٹری سے وابستہ ہوا اور اداکار قوی خان سے میری بے تکلفی اس وقت ہوئی جب میں نے سنگیتا پروڈکشن کے لیے ان کی فلم '' میں چپ رہوں گی'' کا اسکرپٹ لکھا تھا۔
فلم کی کہانی ایک انگریزی ناول سے ماخوذ تھی اس فلم میں قوی اور سنگیتا نے مرکزی کردار ادا کیے تھے۔ مذکورہ فلم کو ایک آرٹ فلم کا درجہ دیا گیا تھا اور فلم کریٹکس نے اس فلم کو بڑا سراہا تھا۔ پھر جب میں نے کو پروڈیوسر ناظم اور ہدایت کار اقبال اختر کی فلم ''شرمیلی'' کے مکالمے اور گانے لکھے تو قوی خان بھی اس فلم کے اور اہم کردار تھے جب کہ فلم کے نمایاں فنکاروں میں ندیم، ممتاز، غلام محی الدین، طلعت صدیقی اور مزاحیہ اداکار جمشید انصاری بھی شامل تھا۔
اس فلم کے دوران بھی میری قوی سے بڑی ملاقاتیں رہی تھیں۔ اس فلم کی آؤٹ ڈور شوٹنگ کے لیے جب پورا یونٹ مری گیا تھا تو میں اور قوی اور ہدایت کار اقبال اختر ایک ہی ہوٹل میں ٹھہرے تھے۔ ہم رات دیر تک گپ شپ کرتے رہتے تھے۔ قوی خان کی دلچسپ گفتگو اور ان کے لطیفے آج بھی بڑی شدت سے یاد آتے ہیں۔
قوی خان ایک مرنجان مرنج قسم کے انسان تھے۔ شعر و ادب اور فلسفہ بھی ان کی گفتگو کا حصہ ہوا کرتے تھے۔ ان کی معاشرے پر بھی بڑی گہری نظر تھی، وہ فلم سازوں کے ساتھ بہت ہی معاون ثابت ہوتے تھے۔ پھر ان کے خیال میں بھی ایک پروڈیوسر کا احساس جاگا اور انھوں نے جو پہلی فلم پروڈیوس کی وہ پنجابی میں تھی۔ اس کا نام تھا ''منجی کتھے ڈھاواں'' اس فلم کا مزاحیہ اسکرپٹ ٹیلی وژن کامیڈی آرٹسٹ اور رائٹر اطہر شاہ خان عرف جیدی نے لکھا تھا ، یہ اطہر شاہ خان کا پہلا فلمی اسکرپٹ تھا۔
یہ 1974 میں بنائی گئی تھی، اس فلم کے مرکزی کرداروں میں منور ظریف، سنگیتا، رنگیلا، ننھا، اسلم پرویز، عشرت چوہدری، صاعقہ اور قوی خان شامل تھے ، اداکار قوی کی یہ پنجابی فلم سپرہٹ ہوئی تھی۔ اس کا تھیم سانگ جو گلوکار مسعود رانا نے گایا تھا وہ بھی بڑا ہٹ ہوا تھا۔ اس کے بول تھے:
میں کیہڑے پاسے جاواں
میں منجی کتھے ڈھاواں
یہ گیت منور ظریف پر فلمایا گیا تھا اور اس گیت نے بڑی دھوم مچائی تھی۔ پنجاب کے ہر شہر اور گاؤں میں اس فلم کو بڑی پذیرائی ملی تھی۔ پھر قوی نے اپنی دوسری فلم '' ایمان '' کے نام سے بنائی۔ جتنا پیسہ فلم '' منجی کتھے ڈھاواں'' سے کمایا تھا وہ اس اردو فلم میں لگا دیا ، مگر وہ پھر بھی کامیاب پروڈیوسر نہ بن سکا۔
فلم سازی کا میدان اسے راس نہیں آیا تھا۔ پھر اس نے فلم سازی سے توبہ کرلی تھی اور نئے دم خم کے ساتھ فلموں میں کام کرنا شروع کردیا تھا۔کراچی میں یوں تو ٹیلی وژن کے تمام پروڈیوسر، اداکار قوی خان کے شیدائی تھے اور بے شمار ٹی وی آرٹسٹ قوی کو اپنا آئیڈیل مانتے تھے۔ قوی جب بھی کراچی جاتا تھا اپنے دوستوں سے ملتا تھا اور خاص طور پر معین اختر کے گھر اس کی بیٹھک بہت ہوتی تھی۔
ایک بار میں جب لاہور سے کراچی آیا اور معین اختر کو فون کیا ''ہاں بھئی! پھر کب ملاقات ہو رہی ہے؟'' تو اس نے بتایا کہ '' یار ہمدم ! قوی خان بھی آئے ہوئے ہیں، میں نے ان کو کل گھر بلایا ہے، تم بھی شام کو میرے گھر آ جاؤ۔'' میں جب دوسرے دن شام کو معین اختر کے گھر پہنچا تو دیکھا لیونگ اداکار قوی بھی موجود تھے، مجھے دیکھ کر بڑے خوش ہوئے۔
ہم نے ایک دوسرے کی خیریت اور پروگرام پوچھا۔ قوی بولے '' میں بھی دس منٹ پہلے ہی آیا ہوں۔ شام ڈھل رہی ہے اور معین اختر کے اٹھنے کا وقت بھی ہوگیا ہے۔ میں نے اس پر پانی کا چھینٹا مار کر جگا دیا تھا۔ وہ بس اب واش روم سے آنیوالاہے۔'' یہاں میں یہ بات بتاتا چلوں کہ معین اختر شروع سے رات کا بادشاہ ہے ، ساری ساری رات جاگتا ہے، فجر کی نماز پڑھ کر سوتا ہے اور شام کو پھر اٹھتا ہے۔ یہ اس کا روز کا معمول تھا۔
اسی دوران معین اختر سر پر تولیہ لیے کمرے میں آتا ہے، ایک طرف شیشے میں دیکھ کر بال درست کرتا ہے، اور ہماری خیریت بھی پوچھتا جاتا ہے اور کہتا ہے '' یار معاف کرنا نہانے میں کچھ دیر ہوگئی۔'' قوی خان نے کہا '' ہاں جب تم ہفتہ بھرکے بعد نہاؤ گے تو دیر تک بدن کا میل اتارنا پڑے گا'' معین اختر نے بھی برجستہ جواب دیا '' تم مہینے میں ایک بار نہاتے ہو ، ہم نے کبھی تمہارا یہ راز فاش کیا ؟ '' اور پھر اسی دوران معین اختر کے لیے ملازم ناشتہ لے آیا۔
معین بولا ''یار! یہ میرے ناشتے کا وقت ہے۔ میں جلدی جلدی ناشتہ کرتا ہوں اور تم آہستہ آہستہ شام کی چائے پیتے رہو'' اور پھر ہنسی ہنسی کے ماحول میں وقت گزرتا رہا اور ہماری یہ بیٹھک رات بھر جاری رہی تھی۔ قوی خان اور معین اختر کی مثالی دوستی تھی۔ مجھے گزشتہ ہفتے جب قوی خان کے انتقال کی خبر ملی تو دل افسوس میں ڈوب گیا تھا۔ قوی کی وہ باتیں وہ یادیں آتی چلی گئی تھیں۔
قوی اپنا ٹی وی ڈرامہ ادھورا چھوڑ کر کینیڈا اپنی فیملی کے پاس چلا گیا تھا۔ اسے بہت عرصہ پہلے ڈاکٹر نے بتایا کہ وہ کینسر کے مرض میں مبتلا ہے مگر وہ اپنا مرض سب سے چھپاتا رہا اور اس مرض سے ہمت کے ساتھ لڑتا رہا مگر 5 مارچ2023 کا دن اس کی زندگی کا آخری دن تھا۔ اس کی کینیڈا میں نماز جنازہ مشہور عالم دین جناب طاہر الاسلام نے پڑھائی تھی۔ اللہ کریم سے دعا ہے کہ وہ قوی خان کو اپنے جوار رحمت میں جگہ دے۔ (آمین)
اداکار قوی خان جب تک ٹی وی پر آتے رہے تو ٹی وی کی شان بنے رہے اور جب انھوں نے فلم انڈسٹری میں قدم رکھا تو اپنے منفرد کرداروں کی وجہ سے فلم کی دنیا میں بھی چھاتے چلے گئے۔ وہ ایک ایسے اداکار تھے جنھوں نے فلم کے پردے پر ہر قسم اور ہر نوعیت کا کردار ادا کیا ہے اور منفرد انداز سے کردار نگاری میں اپنا جواب نہیں رکھتے تھے۔ وہ ہر کردار میں حقیقت کا رنگ شامل کردیتے تھے۔
اداکار اور صداکار قوی خان نے بطور چائلڈ آرٹسٹ ریڈیو پشاور سے آغاز کیا تھا پھر اسٹیج ڈراموں سے سفر کرتے ہوئے ٹیلی وژن کی طرف آئے تو وہ ٹیلی وژن کا پاکستان میں ابتدائی دور تھا بہت کم فنکار منظر عام پر آتے تھے اور جو آئے بھی تھے وہ زیادہ تر نوآموز تھے۔
قوی خان اس وقت واحد اداکار تھے جن کی کردار نگاری میں جان ہوتی تھی اور وہ جس ڈرامے میں بھی کام کرتے تھے وہ ڈرامہ ناظرین کی پسندیدگی کی سند بن جاتا تھا۔ٹیلی وژن کے پہلے قابل ذکر ڈرامے '' نذرانہ '' میں کام کرنے کا اعزاز قوی خان کو حاصل رہا پھر تو ڈراموں کی قطار لگتی چلی گئی جو بھی ٹی وی ڈرامہ آتا قوی اس ڈرامے کی جان اور آن بان ہوا کرتے تھے۔
چند ڈرامے تو ٹیلی وژن کی تاریخ کا جگمگاتا حصہ رہے ہیں۔ من چلے کا سودا ، اندھیرا اجالا، لاہوری گیٹ، دو قدم دور تھے، میرے قاتل، میرے دل دار، دستک، در شہوار، پھر چاند پہ دستک، زندگی دھوپ تم گھنا سایا، تم کون، صدقے تمہارے، نظر بد اور خاص طور پر الف لیلیٰ اور انسان کو ناظرین کی پسند حاصل رہی ہے۔ پھر جب فلمی دنیا میں قدم رکھا تو محمد علی، وحید مراد، ندیم کے درمیان اپنی شان دار شناخت پیدا کی اور فلم کا ہر بڑا ہیرو قوی خان کے ساتھ کام کرتے ہوئے سوچ سمجھ کے کام کرتا تھا۔
تقریباً ہر فلم میں اداکار قوی خان کی ضرورت محسوس کی جاتی تھی اور قوی کی کردار نگاری کو فلم بینوں کی طرف سے بڑی داد ملتی تھی۔ میں بھی کراچی میں ان کے ڈرامے بڑے شوق سے دیکھتا تھا، میری پہلی ملاقات قوی خان سے لاہور میں ہوئی تھی جب میں بحیثیت رائٹر اور نغمہ نگار لاہور کی فلم انڈسٹری سے وابستہ ہوا اور اداکار قوی خان سے میری بے تکلفی اس وقت ہوئی جب میں نے سنگیتا پروڈکشن کے لیے ان کی فلم '' میں چپ رہوں گی'' کا اسکرپٹ لکھا تھا۔
فلم کی کہانی ایک انگریزی ناول سے ماخوذ تھی اس فلم میں قوی اور سنگیتا نے مرکزی کردار ادا کیے تھے۔ مذکورہ فلم کو ایک آرٹ فلم کا درجہ دیا گیا تھا اور فلم کریٹکس نے اس فلم کو بڑا سراہا تھا۔ پھر جب میں نے کو پروڈیوسر ناظم اور ہدایت کار اقبال اختر کی فلم ''شرمیلی'' کے مکالمے اور گانے لکھے تو قوی خان بھی اس فلم کے اور اہم کردار تھے جب کہ فلم کے نمایاں فنکاروں میں ندیم، ممتاز، غلام محی الدین، طلعت صدیقی اور مزاحیہ اداکار جمشید انصاری بھی شامل تھا۔
اس فلم کے دوران بھی میری قوی سے بڑی ملاقاتیں رہی تھیں۔ اس فلم کی آؤٹ ڈور شوٹنگ کے لیے جب پورا یونٹ مری گیا تھا تو میں اور قوی اور ہدایت کار اقبال اختر ایک ہی ہوٹل میں ٹھہرے تھے۔ ہم رات دیر تک گپ شپ کرتے رہتے تھے۔ قوی خان کی دلچسپ گفتگو اور ان کے لطیفے آج بھی بڑی شدت سے یاد آتے ہیں۔
قوی خان ایک مرنجان مرنج قسم کے انسان تھے۔ شعر و ادب اور فلسفہ بھی ان کی گفتگو کا حصہ ہوا کرتے تھے۔ ان کی معاشرے پر بھی بڑی گہری نظر تھی، وہ فلم سازوں کے ساتھ بہت ہی معاون ثابت ہوتے تھے۔ پھر ان کے خیال میں بھی ایک پروڈیوسر کا احساس جاگا اور انھوں نے جو پہلی فلم پروڈیوس کی وہ پنجابی میں تھی۔ اس کا نام تھا ''منجی کتھے ڈھاواں'' اس فلم کا مزاحیہ اسکرپٹ ٹیلی وژن کامیڈی آرٹسٹ اور رائٹر اطہر شاہ خان عرف جیدی نے لکھا تھا ، یہ اطہر شاہ خان کا پہلا فلمی اسکرپٹ تھا۔
یہ 1974 میں بنائی گئی تھی، اس فلم کے مرکزی کرداروں میں منور ظریف، سنگیتا، رنگیلا، ننھا، اسلم پرویز، عشرت چوہدری، صاعقہ اور قوی خان شامل تھے ، اداکار قوی کی یہ پنجابی فلم سپرہٹ ہوئی تھی۔ اس کا تھیم سانگ جو گلوکار مسعود رانا نے گایا تھا وہ بھی بڑا ہٹ ہوا تھا۔ اس کے بول تھے:
میں کیہڑے پاسے جاواں
میں منجی کتھے ڈھاواں
یہ گیت منور ظریف پر فلمایا گیا تھا اور اس گیت نے بڑی دھوم مچائی تھی۔ پنجاب کے ہر شہر اور گاؤں میں اس فلم کو بڑی پذیرائی ملی تھی۔ پھر قوی نے اپنی دوسری فلم '' ایمان '' کے نام سے بنائی۔ جتنا پیسہ فلم '' منجی کتھے ڈھاواں'' سے کمایا تھا وہ اس اردو فلم میں لگا دیا ، مگر وہ پھر بھی کامیاب پروڈیوسر نہ بن سکا۔
فلم سازی کا میدان اسے راس نہیں آیا تھا۔ پھر اس نے فلم سازی سے توبہ کرلی تھی اور نئے دم خم کے ساتھ فلموں میں کام کرنا شروع کردیا تھا۔کراچی میں یوں تو ٹیلی وژن کے تمام پروڈیوسر، اداکار قوی خان کے شیدائی تھے اور بے شمار ٹی وی آرٹسٹ قوی کو اپنا آئیڈیل مانتے تھے۔ قوی جب بھی کراچی جاتا تھا اپنے دوستوں سے ملتا تھا اور خاص طور پر معین اختر کے گھر اس کی بیٹھک بہت ہوتی تھی۔
ایک بار میں جب لاہور سے کراچی آیا اور معین اختر کو فون کیا ''ہاں بھئی! پھر کب ملاقات ہو رہی ہے؟'' تو اس نے بتایا کہ '' یار ہمدم ! قوی خان بھی آئے ہوئے ہیں، میں نے ان کو کل گھر بلایا ہے، تم بھی شام کو میرے گھر آ جاؤ۔'' میں جب دوسرے دن شام کو معین اختر کے گھر پہنچا تو دیکھا لیونگ اداکار قوی بھی موجود تھے، مجھے دیکھ کر بڑے خوش ہوئے۔
ہم نے ایک دوسرے کی خیریت اور پروگرام پوچھا۔ قوی بولے '' میں بھی دس منٹ پہلے ہی آیا ہوں۔ شام ڈھل رہی ہے اور معین اختر کے اٹھنے کا وقت بھی ہوگیا ہے۔ میں نے اس پر پانی کا چھینٹا مار کر جگا دیا تھا۔ وہ بس اب واش روم سے آنیوالاہے۔'' یہاں میں یہ بات بتاتا چلوں کہ معین اختر شروع سے رات کا بادشاہ ہے ، ساری ساری رات جاگتا ہے، فجر کی نماز پڑھ کر سوتا ہے اور شام کو پھر اٹھتا ہے۔ یہ اس کا روز کا معمول تھا۔
اسی دوران معین اختر سر پر تولیہ لیے کمرے میں آتا ہے، ایک طرف شیشے میں دیکھ کر بال درست کرتا ہے، اور ہماری خیریت بھی پوچھتا جاتا ہے اور کہتا ہے '' یار معاف کرنا نہانے میں کچھ دیر ہوگئی۔'' قوی خان نے کہا '' ہاں جب تم ہفتہ بھرکے بعد نہاؤ گے تو دیر تک بدن کا میل اتارنا پڑے گا'' معین اختر نے بھی برجستہ جواب دیا '' تم مہینے میں ایک بار نہاتے ہو ، ہم نے کبھی تمہارا یہ راز فاش کیا ؟ '' اور پھر اسی دوران معین اختر کے لیے ملازم ناشتہ لے آیا۔
معین بولا ''یار! یہ میرے ناشتے کا وقت ہے۔ میں جلدی جلدی ناشتہ کرتا ہوں اور تم آہستہ آہستہ شام کی چائے پیتے رہو'' اور پھر ہنسی ہنسی کے ماحول میں وقت گزرتا رہا اور ہماری یہ بیٹھک رات بھر جاری رہی تھی۔ قوی خان اور معین اختر کی مثالی دوستی تھی۔ مجھے گزشتہ ہفتے جب قوی خان کے انتقال کی خبر ملی تو دل افسوس میں ڈوب گیا تھا۔ قوی کی وہ باتیں وہ یادیں آتی چلی گئی تھیں۔
قوی اپنا ٹی وی ڈرامہ ادھورا چھوڑ کر کینیڈا اپنی فیملی کے پاس چلا گیا تھا۔ اسے بہت عرصہ پہلے ڈاکٹر نے بتایا کہ وہ کینسر کے مرض میں مبتلا ہے مگر وہ اپنا مرض سب سے چھپاتا رہا اور اس مرض سے ہمت کے ساتھ لڑتا رہا مگر 5 مارچ2023 کا دن اس کی زندگی کا آخری دن تھا۔ اس کی کینیڈا میں نماز جنازہ مشہور عالم دین جناب طاہر الاسلام نے پڑھائی تھی۔ اللہ کریم سے دعا ہے کہ وہ قوی خان کو اپنے جوار رحمت میں جگہ دے۔ (آمین)