طاہر نجمی کی یاد میں

ایڈیٹر طاہر نجمی کی وفات نے ایک ایسا خلا پیدا کردیا ہے جس کا پُر ہونا مشکل نظر آتا ہے

nasim.anjum27@gmail.com

زندگی کا کچھ پتا نہیں کہ وہ کب چلتے چلتے ٹھہر جائے، ہمیشہ کے لیے رک جائے، کون سی سانس آخری ہو اور پھر سب کچھ ختم ہو جائے، خیال و خواب، سوچ ماضی کی یادیں اور مستقبل کے منصوبے سب دھرے رہ جائیں۔ بس خالی ہاتھ اپنے اچھے برے اعمال کے ساتھ بندہ اپنے رب کے حضور حاضر ہو جائے۔


گزشتہ ہفتے جمعہ کی صبح چار بجے روزنامہ ''ایکسپریس'' کراچی کے ایڈیٹر طاہر نجمی اس فانی دنیا سے حیات جاوداں کی طرف لوٹ گئے، ان کے انتقال کے بعد ہر شخص ان کی تعریف کرتا نظر آیا، شریف النفس، کم گو، دوسروں کا بھلا چاہنے والے، ایمان دار کے طور پر ان کے کردار کی تعریف کی جا رہی تھی ان کی انھی نیکیوں نے انھیں جمعہ کے مبارک اور افضل دن تک پہنچایا۔

میں روزنامہ ''ایکسپریس'' میں 22 سال سے کالم لکھ رہی ہوں، اپریل 2000 سے لکھنا شروع کیا تھا، ان دنوں نیر علوی حیات تھے ان کے زمانے میں، میں نے باقاعدگی کے ساتھ کالم لکھنے کی ابتدا نہیں کی تھی، میری ان سے ایک بار بات ہوئی تھی، پھر چند ہی ہفتوں بعد پتا چلا کہ وہ انتقال فرما گئے ہیں، اللہ ان کی مغفرت فرمائے۔ ان کے جانے کے بعد طاہر نجمی ایڈیٹر کے عہدے پر فائز ہوئے، میرے کالم پڑھنے کے بعد انھوں نے اطمینان کا اظہار کیا اور کہا آپ نے بہترین کالم لکھا ہے، اب آپ پابندی کے ساتھ لکھا کریں۔ آپ کے قلم میں بہت توانائی ہے۔

سو ہم نے بے شمار سلگتے ہوئے موضوعات پر پابندی سے کالم نگاری شروع کردی۔ ان دنوں نادر شاہ عادل (شاہ جی) ایڈیٹوریل انچارج اور ساتھ سب ایڈیٹر بلقیس جہاں ہوا کرتی تھیں ، ان سے ہماری بہت اچھی دوستی ہوگئی جو آج تک ہے، نادر شاہ عادل آج کل صاحب فراش ہیں اور عرصہ دراز سے محمد بخش، کراچی کے ایڈریٹوریل پیج کی ذمے داریاں بہ خوبی انجام دے رہے ہیں۔

ہمیں محمد بخش نے جناب طاہر نجمی کے انتقال کی خبر دی تھی اور ہم نے اس خبر کو آگے بڑھاتے ہوئے سینئر کالم نگار رئیس فاطمہ اور قائد اعظم رائٹر گلڈ کے روح رواں جلیس سلاسل گلڈ کے اہم رکن حلیم انصاری تک پہنچایا۔ ہماری ہی طرح سب حیران اور غم زدہ تھے۔

رئیس فاطمہ نے کہا '' دو چار روز پہلے ہی تو میری ان سے بات ہوئی تھی، وہ اسپتال سے گھر آگئے تھے۔'' ان کے پرسے کے لیے ان کے گھر جانا ہم نے ضروری سمجھا۔ کالم نگار کی حیثیت سے بہت پرانا تعلق تھا، جب بھی ہم نے کالم یا کسی ادبی خبر کے حوالے سے بات کی انھوں نے مختصر بات کی، نرم لہجے میں گفتگو کرنا ان کے مزاج کا حصہ تھا۔


ہمیں یہ تو معلوم تھا کہ طاہر نجمی نے گھر بدل لیا ہے اور اب وہ بحریہ ٹاؤن میں رہائش پذیر ہیں، اگر جلیس سلاسل اور قائد اعظم رائٹرز گلڈ کے دوسرے ارکان تعزیت کرنے نہیں جاتے تو ہمارا جانا بھی ناممکن تھا۔ لہٰذا ایک لمبا سفر طے کرکے ان کے گھر پہنچے۔ ان کی بیگم پروفیسر نرگس رشید سے یونیورسٹی میں کئی بار ملاقات ہوئی۔

علمی و ادبی امور پر گھنٹوں تبادلہ خیال کرنے کے مواقع انھیں میسر آئے، ساتھ میں طاہر نجمی کے حسن اخلاق کے بھی جلیس سلاسل مداح تھے۔ اللہ تعالیٰ نے طاہر نجمی کے اہل و عیال کو صبر و شکر کی انمول دولت سے نوازا ہے، اس بات کا اندازہ اس وقت ہوا جب ہم زنان خانے میں پہنچے اور اداسی کے ساتھ کہا کہ '' بہت افسوس ہوا۔'' تب (غالباً) نرگس رشید صاحبہ کی ہمشیرہ نے اطمینان سے کہا '' افسوس کی کیا بات ہے ، اللہ کی امانت ہے جو اس نے واپس لے لی۔''

یہی ردعمل بھابھی صاحبہ کا بھی تھا اور بچوں کا بھی۔ البتہ ان کی صاحبزادی ڈاکٹر سومل بہت اداس نظر آ رہی تھیں، بقول ان کی والدہ اور عزیز و اقارب کے اس نے خدمت بھی بہت کی تھی، بہر حال یہ رشتے ایسے ہوتے ہیں جنھیں بھلانا ناممکن ہوتا ہے۔ جانے والا اللہ کے حکم سے چلا جاتا ہے اور اس کی یادیں اس کے چاہنیوالوں کے دلوں کو ہمیشہ روشن رکھتی ہیں۔

انتقال کے تیسرے روز قائد اعظم رائٹرز گلڈ کے ارکان دعائے مغفرت کے لیے جمع ہوئے اور اپنے مشترکہ بیان میں کہا کہ سینئر صحافی طاہر نجمی جرأت مند اور دیانت دار صحافی تھے۔ نصف صدی صحافت سے وابستہ رہے، قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں، آخری دور میں روزنامہ ''ایکسپریس'' کے ایڈیٹر کی حیثیت سے نمایاں خدمات انجام دیں، وہ کراچی یونین آف جرنلسٹس اور کراچی پریس کلب کے سیکریٹری بھی رہے۔ بعدازاں CPNE کے رکن کے طور پر فعال کردار ادا کیا۔

ایڈیٹر طاہر نجمی کی وفات نے ایک ایسا خلا پیدا کردیا ہے جس کا پُر ہونا مشکل نظر آتا ہے چونکہ فی زمانہ جذبہ ایمان داری عنقا ہو چکا ہے، ہر شخص مفاد پرست اور اپنا ہی بھلا چاہنے کا خواہش مند ہے، دوسروں کو دھکا دیتا اور اکثر اوقات سروں کو کچلتا ہوا اعلیٰ عہدے پر پہنچ جاتا ہے اور حق دار ان لوگوں کا منہ تکتے رہ جاتے ہیں جو اس اندھے کی مانند جو ریوڑیاں صرف اپنوں کو بانٹتا ہے۔ خوشامد پرستوں کی کمی نہیں ہے، آج جو لوگ اداروں پر قابض ہیں اور دوسروں کو ہرگز اس بات کا موقع نہیں دیتے ہیں کہ وہ بھی اپنی صلاحیتوں اور اپنے علم کی بدولت کام کرسکیں، ایسا رویہ ان اداروں میں زیادہ نظر آتا ہے جہاں علم و ادب کے ٹھیکیدار آنکھیں بند کرکے فیصلے کرتے ہیں۔

خود تو خود اپنے خاص لوگوں کو بھی فائدے پہنچانے میں پیش پیش نظر آتے ہیں گو کہ یہ انداز فکر عادات رذیلہ کو فروغ دیتا ہے، آگہی اور انصاف کے چراغوں کو گل کرتا ہے۔ آج جو ہمارے معاشرے میں گہرا اندھیرا چھایا ہوا ہے اس کی وجہ مفاد پرستی اور خود غرضی ہے۔ملک و قوم کا بھلا ہو یا نہ ہو، اداروں کی بدنامی دور تک پہنچے انھیں کوئی پرواہ نہیں۔ آج حبس کا عالم ہے، آمریت کا نام جمہوریت رکھ دیا گیا ہے لیکن جمہوریت کہیں نظر نہیں آتی۔ جانے دیجیے اس قصے کو، بڑا پرانا اور بوسیدہ ہے۔

آئیے ہاتھ اٹھا کر دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرمائے، ان کے درجات بلند کرے اور روز قیامت رسول پاکؐ کی شفاعت نصیب ہو۔(آمین)
Load Next Story