پاکستان

وزیر اعظم لیاقت علی خان سے منسوب بیان کہ یہ بدقسمتی کی بات ہوگی، اگرپاکستان مسلم ریاست اور ہندوستان ہندو ریاست بن گئے

msmrao786@hotmail.com

چند سال پہلے اشتیاق ہوا کہ کیوں نہ قیام پاکستان کے دنوں میں شایع ہونے والے اخبارات کا مطالعہ کیاجائے۔ یہ اشتیاق مجھے نیشنل آرکائیوز اسلام آباد لے گیا۔

مجھے بڑی حیرت ہوئی کہ نیشنل آرکائیوز میں دو سو سال پرانے اخبارات رسائل اور جرائد موجود ہیں۔ میں نے یکم اگست 1947 سے 31 دسمبر 1947 کے اخبارات پر طائرانہ نظر ڈالی تو حیران کن خبریں سامنے آئیں۔ اس وقت کے ایک وفاقی وزیر کے بیان والی خبر تھی،'' کوئی غلط فہمی میں نہ رہے، پاکستان ایک سیکولر ریاست ہوگی''۔ ایک اور خبر پر نظر پڑی، ''راولپنڈی ہوٹل میں ڈانس پارٹی کا اہتمام''۔

'' قائد اعظم نے قیام پاکستان کی مناسبت سے کراچی کے ایک چرچ کی دعائیہ تقریب میں شرکت کی''۔ ''مرکزی حکومت کے وزراء کے لیے لاکھوں روپے کے ایرانی قالین خریدے گئے''۔ ''سائیکل سواروں کو ٹریفک رولزکی خلاف ورزی پر جرمانے ۔ ''کامونکی گوجرانوالہ کے قریب انڈیا جانے والی ٹرین پر حملہ دو سو غیرمسلم مارے گئے''۔

''دونوں اطراف سے اقلیتوں کی آمد اور روانگی جاری، آتش زنی کے واقعات''۔قائداعظم سے مشائخ عظام کی ملاقات، مشائخ کو لائسنس کے بغیر اسلحہ رکھنے کی اجازت دینے کا مطالبہ۔قائداعظم کی ہندوستانی مسلمانوں کو ہدایت کی کہ وہ ماضی کو بھول جائیں اور انڈیا کے وفادار شہریوں کی طرح رہیں۔صوبہ سرحد کے وزیر اعلیٰ کا بیان کہ گزشتہ حکومت نے صوبے کو دیوالیہ کر دیا، مر کزی حکومت سے امداد کی اپیل۔

وزیر اعظم لیاقت علی خان سے منسوب بیان کہ یہ بدقسمتی کی بات ہوگی، اگر پاکستان مسلم ریاست اور ہندوستان ہندو ریاست بن گئے۔ وزیراعظم نہرو کا بیان کہ ہم کبھی ہندوستان کو ہندو ریاست نہیں بننے دیںگے۔ سندھ حکومت کا اشتہار برائے ملازمت، تعلیم میٹرک پاس یا فیل تاہم میٹرک پاس کو ترجیح دی جائے گی۔


میں نے درج بالا تحریر حال ہی میں شایع ہونے والی ایک تحقیقی کتاب ''پاکستان'' کے پیش لفظ سے اخذ کی ہے۔ اس کتاب کے مصنف محمد سعید صاحب ہیں۔ 564 صفحات پر مشتمل یہ کتاب بظاہر چار اخبارات کی چھوٹی چھوٹی خبروں کے ذخیرے کا نام ہے، لیکن یہ خبریں اس دور کی سوچ کو کھل کر بیان کرتی ہیں۔

راقم نے خبروں کے ساتھ ساتھ ان چار ماہ کے دوران اخبارات میں شایع ہونے والے اشتہارات اور مضامین کے عنوانات کو بھی اکھٹا کیا ہے جنھیں پڑھ کر حیرانی ھوتی ہے کہ قیام پاکستان کے وقت کی سوچ اور اب کی سوچ میں کتنا فرق ہے۔ یہ خبریں ہم سب کے لیے بہت سے سوالات لیے ہوئے ہیں۔ کتاب کا مواد دعوت فکر دیتا ہے کہ ہم غور کریں کہ کب اور کس طرح ہم میں قوت برداشت ختم ہوئی اور ہم نے اپنے ذہن کیوں بند ہو گئے۔

یہ چھوٹی چھوٹی خبریں اپنے اندر کئی سوالات، تجسس اور ایسی اشکالات لیے ہوئے تھی کہ آج 74 سال گزرنے کے بعد یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ من حیث القوم ہم نے قیام پاکستان کی روح اور منزل کو حاصل کرنے کے عمل میں کہاں اپنا کانٹا تبدیل کیا۔ سیدھے راستے پر چلنے کے بجائے ہم گرداب میں کیوں پھنس گئے، ہم اجتماعی منزل کو حاصل کرنے کی راہ چھوڑ کر گم گشتہ پگڈنڈیوں کی مسافر کیسے بنے۔

اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کے لیے ہمیں ان تاریخی اوراق کی چھان بین کرنی چاہیے کیونکہ کسی بھی قوم کا ماضی اس کے مستقبل کی نشاندہی کرتا ہے۔کتاب کے مصنف محمد سعید صاحب نے ایک اہم علمی کام کیا ہے۔انھوں نے مغربی اور مشرقی پاکستان کے تعلیمی اداروں میں تعلیم بھی حاصل کی کی مقابلے کے امتحان میں کامیابی کے بعد کسٹمز کے محکمے میں اعلیٰ عہدوں پر خدمات انجام دیں۔

ریٹائرمنٹ کے بعد انھوں نے پندرہ روزہ دی ورلڈ ٹریڈ ریویو کے نام سے ایک اخبار بھی جاری کیا۔ یہ کتاب ہر صاحب علم اور فکر پاکستانی کے لیے تحقیق کی جہتیں کھولتی ہے۔
Load Next Story