سورھیہ بادشاہ

’’ وطن یا کفن ‘‘ اور اس طرح اس شخص نے آزاد وطن نہ ملنے پر کفن کو لباس جانا

Jvqazi@gmail.com

سوچا تھا اپنے اس سلسلے کو جو آپ کی نذر اسی دن ہر ہفتے کرتا ہوں ، اسے صرف اور صرف تاریخ تک محدود رکھوں ، ہماری تاریخ جو کہیں کھو گئی ہے؟ کھو کیا گئی ہے؟ ہم نے دراصل خود کھوئی ہے اور اب تو ہمیں کچھ خبر بھی نہیں ہے، جنگ آزادی میں وہ بھی شامل تھے جن کا مسلم لیگ سے تعلق نہ تھا۔ وہ انگریز سے لڑے بلکہ شہید بھی ہوئے اور تنہا نہیں اپنے سیکڑوں مداحوں کے ساتھ پھانسی کے پھندے پر جھول گئے۔

آج میں اس باغی کا ذکر کرنا فرض سمجھتا ہوں، جس کو سندھی بھی وہ مقام نہ دے سکے جو اس کا حق بنتا تھا۔ ہم پیر پگاڑا کا نام تو بہت سنتے ہیں لیکن اس باغی پیر پگاڑا کے بارے میں نہیں جانتے جسے 20 مارچ 1943 کو 33 سال کی عمر میں انگریز سرکاری نے حیدرآباد سندھ کی جیل میں پھانسی پر لٹکا دیا، پھر سیکڑوں حر اس پیر پگاڑا کے حکم پر جام شہادت نوش کرتے ہیں۔

انگریز سامراج کو للکارنے والی اس تحریک کو '' حر تحریک '' کے نام سے تاریخ یاد کرتی ہے جس کے سالار پیر پگاڑا صبغت اللہ شاہ راشدی عرف سورھیہ بادشاہ تھے۔بارہ سال کی عمر میں سورھیہ بادشاہ نے ہر طرف غلامی اور غربت کے مناظر دیکھے۔

انگریز سامراج نے پھر ایک جھوٹا مقدمہ درج کیا ، سورھیہ بادشاہ کو بائیس سال کی عمر میں آٹھ سال کی سزا ہوئی اور جیل بھیج دیے گئے، بہت سارا وقت بنگال کی جیلوں میں گزارا ، وہاں وہ ان بنگالیوں سے ملے جو سبھاش چندر بوس کے پیروکار تھے، یوں انگریز کو سورھیہ بادشاہ کو بنگال جیل میں رکھنا مہنگا پڑگیا۔

وہ جیل کاٹ کے واپس لوٹے تو اپنے خاص حروں کو بنگال ٹریننگ کے لیے بھیجا۔ پہلی ٹرین جو ٹنڈوآدم میں ڈی ریل کی گئی ، یہ ان کے حروں کا کارنامہ تھا ، انگریز بھانپ گیا۔ جب انگریز دوسری جنگ عظیم میں کمزور ہوا اور کانگریس نے '' ہندوستان چھوڑو '' تحریک شروع کی تو سندھ میں حروں نے اپنی حر تحریک شروع کی۔

سورھیہ بادشاہ دوسری مرتبہ گرفتار ہوئے ، خیر پور ریاست کے آئی جی پولیس نے اسے گرفتار کیا گیا۔ سید غلام رسول شاہ جو ہمارے گائوں کے اور ہمارے پڑوسی تھے ، اس کو قتل کرکے جسم جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کیے گئے۔ سورھیہ بادشاہ نے جیل سے بغاوت کا اعلان کر دیا، یوں سندھ میں '' حر موومنٹ '' شروع ہوئی۔ سیکڑوں حر پھانسی کے پھندے پر وارے گئے۔

برصغیر میں کسی جگہ پر اگر پہلا انتظامی مارشل لاء لگا تو وہ سانگھڑ تھا اور پھر Sind Suppression of Hur-Outrages Act 1942 کے ذریعے انگریز نے حر لفظ کے معنی دہشت گرد قرار دیے۔اس زمانے میں ایئر مارشل اصغر خان انڈین ایئر فورس میں پائلٹ تھے۔ حکم ہوا کہ '' جہاز اڑائو اور سانگھڑ کے نواح میں حروں پر بمباری کرو۔''

یہ بات خود اصغر خان نے مجھے ایک ٹی وی انٹرویو میں بتائی کہ جب وہ جہاز بمباری کے لیے حیدرآباد سے اڑا کر وہاں پہنچے تو انھیں درجنوں بیل گاڑیاں نظر آئیں جن پر بچے اور خواتین بیٹھی تھیں، جہاز کو پلٹایا اور واپس چلے آئے اور انگریز کا حکم ماننے سے انکار کر دیا ، اس بات پر اصغر خان کا کورٹ مارشل ہوا۔ اصغر خان نے کورٹ مارشل کا زمانہ سکھر جیل میں گذارا۔ انگریز نے سندھ کے سارے حروں کو ، بچوں اور عورتوں سمیت کیمپوں میں منتقل کیا۔


بھائی بہن سے بچھڑ گئے۔ خاندان کٹ گئے اور یہ عمل دس سال تک لاگو رہا۔ آئے دن کسی نہ کسی حر کو پھانسی دی جاتی تھی۔ میرے والد نے 1948 میں مولانا حسرت موہانی کو نواب شاہ آنے کی دعوت دی ، وہ یہاں آئے اور ان حروں کی کیمپوں کا دورہ کیا، ان کی حالت زار دیکھی اور یہ روئیداد پارلیمنٹ میں بیان بھی کی۔

سندھ کی اس حر تحریک میں عورتوں کا کردار بہت عظیم و شاندار رہا ، وہ مردوں کے ساتھ شانہ بشانہ لڑیں۔ برصغیر کی تحریک آزادی میںایسی مثال نہیں ملتی،جس میں مرد اور عورتیں اکٹھے انگریز پولیس اور فوج سے لڑے ہوں۔

کہنے کا مقصد یہ کہ ہمیں بھگت سنگھ کے حوالے سے تو بہت کچھ پڑھنے کو ملتا ہے لیکن اس سورھیہ بادشاہ کو سب نے بھلا دیا۔جب بلاول بھٹو نے سندھ کی تاریخ سے '' ہوشو شیدی '' کو اٹھایا تھا جس نے 1843 میں چارلس نیپیئر سے جنگ لڑی تھی اور '' مرسوں مرسوں سندھ نہ ڈیسوں '' کا نعرہ لگایا تھا مگر پیپلز پارٹی نے سورھیہ بادشاہ کو وہ مقام نہ دیا حالانکہ ان کی شہادت اور جدوجہد سندھ کی تاریخ کا روشن ترین باب ہے۔

سورھیہ بادشاہ کے دونوں بیٹوں کو انگریز نے اپنی کسٹڈی میں لے لیا ، جن کی عمر اس وقت تیرہ اور چودہ سال تھی، کچھ عرصہ علی گڑھ اور باقی دس سال لندن میں رکھا۔ ان کی تعلیم کے لیے استاد اور نصاب کا انتخاب خود کیا، یہ لیاقت علی خان تھے جو ان کو واپس لائے۔

قصہ مختصر 33 سالہ اس آزادی کے عظیم ہیرو سورھیہ بادشاہ کو پھانسی دینے کی ڈیوٹی کرنل کارگل کو سونپی گئی جو سورھیہ بادشاہ کا بہت گہرا دوست بھی بن گیا تھا اور صرف اس شخص کو سورھیہ بادشاہ سے ملنے کی اجازت تھی ، وہ شطرنج بھی کھیلتے تھے۔ یہ ساری بات کارگل نے خود تحریر بھی کی ہے اور بلاخر جب پھانسی دینے کا دن آیا تو رات کو دونوں نے پہلے شطرنج کھیلی جس میں کارگل کو مات ہوئی۔

کارگل حیران تھا کہ اس چہرے پر ایک لمحے کو بھی موت کا ڈر نہیں۔ سورھیہ بادشاہ نے بعد ازاں نماز پڑھنے کی مہلت مانگی اور کارگل کو ہنس کر کہا کہ '' اب تم اپنا کام کر سکتے ہو '' اپنے پائوں پر چل کر تختہ دار پر گئے اور اسی طرح اس آزادی کے متوالے نے وطن کی خاطر جام شہادت نوش کیا۔ 33 سال کی عمر میں دس سال پابند سلاسل رہا۔

اس کی حر تحریک نے جو آزادی کا نعرہ دیا تھا وہ یہی تھا کہ '' وطن یا کفن '' اور اس طرح اس شخص نے آزاد وطن نہ ملنے پر کفن کو لباس جانا۔انگریز کو اب پریشانی یہ تھی کہ اسے دفنائے کہاں ؟ کیونکہ اس کی قبر اس کے زندہ ہونے سے بھی زیادہ خطرناک ثابت ہوسکتی تھی اور اسی طرح آج تک یہ کسی کو خبر نہیں کہ اس باغی کی قبر کہاں ہے۔ایسے درجنوں عظیم ہیروز ہوں گے۔

بھگت سنگھ ، سورھیہ بادشاہ ، سبھاش چندر بوس جو ہم سے انصاف مانگتے ہیں۔ سبھاش چندر بوس کو تو کانگریس نے بھی اپنی صفوں سے الگ کر دیا تھا۔
Load Next Story