قرض ادائیگی کے اخراجات بڑھ کر 3 ہزار ارب تک جا پہنچے
اخراجات وفاق کی مجموعی آمدنی سے بھی زیادہ،سود ادائیگیوں میں 70فیصد اضافہ
رواں مالی سال قرض ادائیگی کے اخراجات بڑھتے ہوئے 3 ہزار 18 ارب روپے کی سطح تک جاپہنچے۔
قرض ادائیگی کے اخراجات رواں مالی سال کے ابتدائی 8 ماہ کے دوران بڑھتے ہوئے 3 ہزار 18 ارب روپے کی سطح تک جاپہنچے ہیں جو کہ وفاقی حکومت کی مجموعی آمدنی سے بھی کہیں زیادہ ہیں جس کے بعد اس امر کی ضرورت ہے کہ قرض ادائیگی معاملے کو از سر نو دیکھا جائے تاکہ وفاقی حکومت کو دیگر اخراجات کے لیے بھی رقم میسر آسکے اور ڈیفالٹ سے بچاجاسکے۔
وفاقی مالیاتی کارروائیوں کی تفصیلات میں جولائی کیلیے ایف بی آر کی طرف سے دعوی کردہ ٹیکس وصولی میں 20 ارب روپے کے تضاد کا بھی انکشاف ہوا۔
وزارت خزانہ کے ذرائع کے مطابق ایف بی آر نے فروری تک 4.493 ٹریلین روپے کی ٹیکس وصولی کا دعویٰ کیا۔تضاد کو ایڈجسٹ کرنے کے بعد رواں مالی سال کے پہلے آٹھ ماہ کے دوران ٹیکس کا شارٹ فال 232 ارب روپے ہے۔
جولائی تا فروری کی مدت کے لیے مالیاتی کارروائیوں کی تفصیلات سے ظاہر ہوتا ہے کہ رواں مالی سال کے پہلے 8مہینوں کے دوران سود کے اخراجات نمایاں طور پر بڑھ کر 3.18 ٹریلین روپے تک پہنچ گئے ہیں۔صرف 8ماہ میں وفاقی حکومت کے قرضوں ذخائر پر سود کی ادائیگی کی لاگت میں 70 فیصد اضافہ ہوا۔
گزشتہ تقریباً 4سالوں کے دوران مرکزی بینک کی طرف سے مقرر کردہ شرح سود تقریباً دوگنی ہو کر 20 فیصد ہو گئی ہے جس سے حکومت کے قرض سے متعلق اخراجات میں نمایاں اضافہ ہوا ،شرح سود میں مزید اضافہ متوقع ہے کیونکہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ شرح سود میں حالیہ اضافے سے مکمل طور پر مطمئن نہیں۔
پاکستان نے آئی ایم ایف کو آگاہ کیا ہے کہ رواں مالی سال میں قرض ادائیگی کے اخراجات کی لاگت تقریباً 5.2 ٹریلین روپے تک بڑھ سکتی ہے جو اس سال کے 9.6 ٹریلین روپے کے کل بجٹ کے نصف سے زیادہ کے برابر ہے۔دفاع کو چھوڑ کر دیگر تمام بڑے اخراجات نے پہلے آٹھ مہینوں میں منفی نمو ظاہر کی۔
فوجی پنشن اور مسلح افواج کے ترقیاتی پروگرام کے اخراجات کو چھوڑ کر آٹھ ماہ میں دفاع پر 871 ارب روپے خرچ کیے گئے جو کہ 117 ارب روپے یا گزشتہ سال کے مقابلے میں تقریباً 16 فیصد زیادہ ہے۔مجموعی محصولات بڑھ کر 5.6 ٹریلین روپے ہو گئے، وفاقی ٹیکس کا حصہ 2.48 ٹریلین روپے صوبوں کو منتقل کر دیا گیا۔
3.16 ٹریلین روپے کی خالص آمدنی کے ساتھ، قرض ادائیگی اور دفاع پر ہونے والے اخراجات 4.05 ٹریلین روپے سے زیادہ ہو گئے۔آئی ایم ایف پروگرام کے تحت پاکستان نے بنیادی خسارے کو جس کا حساب سود کی ادائیگیوں کو چھوڑ کر کیا گیا، کو جی ڈی پی کے 0.2 فیصد کے سرپلس میں تبدیل کرنے کا عہد کیا تھا، جو گزشتہ مالی سال کے 3.6 فیصد سے کم تھا۔
ذرائع نے بتایا کہ اے جی پی آر نے ایف بی آر کی جانب سے 4.493 ٹریلین روپے کے دعوے کے مقابلے میں 4.473 ٹریلین روپے کی ٹیکس وصولیوں کی تصدیق کی ہے۔ 4.473 ٹریلین روپے کی ٹیکس وصولی گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں 15 فیصد زیادہ تھی ، یہ تناسب جو کہ موجودہ مہنگائی کی شرح کے نصف سے بھی کم اور ایف بی آر کی نا اہلی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
قرض ادائیگی کے اخراجات رواں مالی سال کے ابتدائی 8 ماہ کے دوران بڑھتے ہوئے 3 ہزار 18 ارب روپے کی سطح تک جاپہنچے ہیں جو کہ وفاقی حکومت کی مجموعی آمدنی سے بھی کہیں زیادہ ہیں جس کے بعد اس امر کی ضرورت ہے کہ قرض ادائیگی معاملے کو از سر نو دیکھا جائے تاکہ وفاقی حکومت کو دیگر اخراجات کے لیے بھی رقم میسر آسکے اور ڈیفالٹ سے بچاجاسکے۔
وفاقی مالیاتی کارروائیوں کی تفصیلات میں جولائی کیلیے ایف بی آر کی طرف سے دعوی کردہ ٹیکس وصولی میں 20 ارب روپے کے تضاد کا بھی انکشاف ہوا۔
وزارت خزانہ کے ذرائع کے مطابق ایف بی آر نے فروری تک 4.493 ٹریلین روپے کی ٹیکس وصولی کا دعویٰ کیا۔تضاد کو ایڈجسٹ کرنے کے بعد رواں مالی سال کے پہلے آٹھ ماہ کے دوران ٹیکس کا شارٹ فال 232 ارب روپے ہے۔
جولائی تا فروری کی مدت کے لیے مالیاتی کارروائیوں کی تفصیلات سے ظاہر ہوتا ہے کہ رواں مالی سال کے پہلے 8مہینوں کے دوران سود کے اخراجات نمایاں طور پر بڑھ کر 3.18 ٹریلین روپے تک پہنچ گئے ہیں۔صرف 8ماہ میں وفاقی حکومت کے قرضوں ذخائر پر سود کی ادائیگی کی لاگت میں 70 فیصد اضافہ ہوا۔
گزشتہ تقریباً 4سالوں کے دوران مرکزی بینک کی طرف سے مقرر کردہ شرح سود تقریباً دوگنی ہو کر 20 فیصد ہو گئی ہے جس سے حکومت کے قرض سے متعلق اخراجات میں نمایاں اضافہ ہوا ،شرح سود میں مزید اضافہ متوقع ہے کیونکہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ شرح سود میں حالیہ اضافے سے مکمل طور پر مطمئن نہیں۔
پاکستان نے آئی ایم ایف کو آگاہ کیا ہے کہ رواں مالی سال میں قرض ادائیگی کے اخراجات کی لاگت تقریباً 5.2 ٹریلین روپے تک بڑھ سکتی ہے جو اس سال کے 9.6 ٹریلین روپے کے کل بجٹ کے نصف سے زیادہ کے برابر ہے۔دفاع کو چھوڑ کر دیگر تمام بڑے اخراجات نے پہلے آٹھ مہینوں میں منفی نمو ظاہر کی۔
فوجی پنشن اور مسلح افواج کے ترقیاتی پروگرام کے اخراجات کو چھوڑ کر آٹھ ماہ میں دفاع پر 871 ارب روپے خرچ کیے گئے جو کہ 117 ارب روپے یا گزشتہ سال کے مقابلے میں تقریباً 16 فیصد زیادہ ہے۔مجموعی محصولات بڑھ کر 5.6 ٹریلین روپے ہو گئے، وفاقی ٹیکس کا حصہ 2.48 ٹریلین روپے صوبوں کو منتقل کر دیا گیا۔
3.16 ٹریلین روپے کی خالص آمدنی کے ساتھ، قرض ادائیگی اور دفاع پر ہونے والے اخراجات 4.05 ٹریلین روپے سے زیادہ ہو گئے۔آئی ایم ایف پروگرام کے تحت پاکستان نے بنیادی خسارے کو جس کا حساب سود کی ادائیگیوں کو چھوڑ کر کیا گیا، کو جی ڈی پی کے 0.2 فیصد کے سرپلس میں تبدیل کرنے کا عہد کیا تھا، جو گزشتہ مالی سال کے 3.6 فیصد سے کم تھا۔
ذرائع نے بتایا کہ اے جی پی آر نے ایف بی آر کی جانب سے 4.493 ٹریلین روپے کے دعوے کے مقابلے میں 4.473 ٹریلین روپے کی ٹیکس وصولیوں کی تصدیق کی ہے۔ 4.473 ٹریلین روپے کی ٹیکس وصولی گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں 15 فیصد زیادہ تھی ، یہ تناسب جو کہ موجودہ مہنگائی کی شرح کے نصف سے بھی کم اور ایف بی آر کی نا اہلی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔