نیا قانون
انسداد دہشت گردی ایکٹ موجود ہے ، اب یہ نیا قانون اس سے بھی ٹکرا کر مزید قانونی پیچیدگیاں پیدا کرنے کا سبب بنے گا
کیا پاکستان کا سیاسی و جمہوری نظام کسی ایسی قانون سازی کی منظوری دے سکتا ہے ، جو بنیادی انسانی حقوق اور اپنے ہی ملک کے بنائے ہوئے دستور اور اس میں دی گئی انسانی تحفظ کی ضمانت نہیں دیتا ہے ، تو جواب نفی میں ملے گا۔کیونکہ ہم اپنے آئین کے مطابق کسی ایسی قانون سازی کی منظوری نہیں دے سکتے جو آئین کے بنیادی اصولوں سے ٹکراؤ پیدا کرے گا۔
لیکن ہمارے سیاسی و جمہوری نظام میں ایسے سیاسی و قانونی تماشے موجود ہیں جو ہمارے سیاسی اور جمہوری چہرے کو مسخ کرتے ہیں کیونکہ یہاں جمہوریت کے نظام کو ایک چھتری فراہم کرکے وہ سب کچھ کرنے کی جائز یا ناجائز کوشش کی جاتی ہے جو انسانوں کو کمزور کرکے حکمرانوں کو زیادہ سے زیادہ بااختیار بنا سکے۔یہ کہنا کہ ہم نے ماضی کی غلطیوں سے بہت کچھ سیکھا ہے ، اس کی بھی نفی وہی حکمران طبقات کرتے ہیں جو سب سے زیادہ جمہوریت کے دعوے دار ہیں ۔ اگر جمہوری نظام بنیادی انسانی حقوق اور اس کے تحفظ کے خلاف ایک موثر ہتھیار کے طور پر استمال ہو، تو جمہوری نظام کی اہمیت بے معنی رہ جاتی ہے ۔
اگر جمہوری اور آمرانہ نظام میں فرق ختم ہوجائے اور دونوں نظاموں کا عمل ایک جیسا ہو تو پھر جمہوری مقدمہ کمزور ہوکر اپنی افادیت کھودیتا ہے ۔ یہاں لوگوں کو حکمرانی کے نظام سے متعلق کافی سنگین مسائل کا سامنا ہے ۔ حکمران طبقات چاہے وہ مرکزی سطح پر ہوں یا صوبائی سطح پر ، سب یہ ہی دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ سب سے زیادہ جمہوری حکمران ہیں ۔ لیکن ان کے دعوؤں کے برعکس محض معاشرے میں موجود اہل دانش ،انسانی حقوق ، قانون سے متعلق ماہرین ، سیاست اور سماج پر گہری نظر رکھنے والے افراد کا نقطہ نظر عمومی طور پر حکمرانوں سے مختلف نظر آتا ہے ۔لیکن حکمران اس تنقید کی پروا کیے بغیر آگے بڑھنا چاہتے ہیں ، جو سیاسی خود کشی ہوگی۔
ایسا ہی کچھ معاملہ '' تحفظ پاکستان ترمیمی بل'' کی صورت میں نظر آتا ہے۔ اس بل کی منظوری پچھلے دنوں قومی اسمبلی نے دی ہے ۔اگرچہ حکمران طبقہ کا دعویٰ ہے کہ '' تحفظ پاکستان ترمیمی بل '' ملک میں جاری دہشت گردی کے خلاف ایک موثر ہتھیار کے طور پر استمال ہوگا۔ حکمران اس بات پر بضد نظر آتے ہیں کہ وہ لوگ جو ہم پر اس بل کی منظوری کے تناظر میں تنقید کررہے ہیں ، انھیں '' زمانہ امن اور زمانہ جنگ'' کے درمیان فرق کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ان کے بقول دہشت گردی جیسے موذی مرض کا علاج عام اور روایتی علاج میں ممکن نہیں ، اس کے لیے خصوصی تدابیر کرنا ضروری ہوتا ہے ۔لیکن یہاں حکمران طبقہ کے اس موقف کے مقابلے میں جو قانون منظور ہوا ہے اسے دیکھنا اور پرکھنا ہوگا کہ یہ دہشت گردی کے خلاف موثر ہتھیار ہوگا یا نہیں ۔
قومی اسمبلی سے منظور ہونے والے اس بل پر غور وفکر کرکے اس کے ممکنہ نتائج کا جائزہ لینا ضروری ہے ۔اول اس بل کے تحت کسی بھی مشتبہ فرد کو 90روز تک حراست میں تفتیش کے لیے رکھا جا سکے گا،اس کے لیے کسی عدالت سے منظوری لینے کی ضرورت نہیں ۔دوئم پولیس، پیرا ملٹری فورس سمیت قانون نافذ کرنے والے ادارے کسی بھی مشتبہ فرد کو براہ راست گولی مارنے کا اختیار رکھتے ہیں ۔یاد رہے کہ اس سے قبل یہ اختیار صرف اس صورت میں تھا جب ان پر حملہ کردیا جائے ، لیکن اب یہ کام وہ محض شبہ کی بنیاد پر بھی کرسکتے ہیں ۔سوئم یہ بل 1973کے دستور جسے حکمران طبقہ بہت زیادہ مقدس قرار دیتا ہے ، کی نفی بھی کرتا ہے ۔ کیونکہ1973کے آئین کی شق10لوگوں کو بنیادی تحفظ کی ضمانت فراہم کرتی ہے ۔چہارم کسی ملزم کو ایف آئی آر کاٹے بغیر محض شبہ کی بنیاد پر 90دن تک رکھنا کیسے قانونی پہلو قرار دیا جاسکتا ہے ۔یاد رہے کہ اس سے قبل یہ مدت90دن کے مقابلے میں 30دن کی تھی ، اب اس کی مدت میں اضافہ کرکے اداروں اور ایجنسیوں کو بے پناہ اختیارات دیے گئے ہیں۔
پنجم اس بل میں گواہوں اور مدعی کو تحفظ فراہم کرنے کی کوئی بات نہیں کی گئی ۔ششم، کیا یہ بل قانون نافذ کرنے والے اداروں اور ایجنسیوں کو عدالتوں سے ماورا بے جا اختیارات دینے کے زمرے میں نہیں آئے گا۔حکمران طبقہ کی یہ منطق مان بھی جائے کہ اس بل کی منظوری دہشت گردی کے خاتمہ کے لیے بہت ضروری تھی ، لیکن اس بل کی منظوری کے لیے جو طریقہ کار اختیار کیا گیا ، وہ کیسے جمہوری اور قانونی اصولوں کے مطابق ہے ۔اگر واقعی حکومت اس معاملہ میں سنجیدہ تھی تو اسے اس بل کو پیش کرنے اور اسے منظورکرنے سے قبل تمام پارلیمانی جماعتوں سے مشاورت اور اتفاق رائے کے عمل کو پیدا کرنا چاہیے تھا،لیکن ایسا نہیں ہوسکا ۔حزب اختلاف کی پیش کردہ تمام ترامیم کو مسترد کردیا گیا۔ مشاورت کا اس سے زیادہ عملی ثبوت کیا ہوسکتا ہے کہ پارلیمنٹ میں موجود سوائے حکمران جماعت کے سب نے اس بل کی شدید مخالفت کی۔پیپلز پارٹی ، اے این پی ، ایم کیو ایم ، مسلم لیگ)ق(، تحریک انصاف ، جماعت اسلامی ، جے یو آئی ، پختون خواہ ملی عوامی پارٹی سب ہی اس بل کی مخالفت پر ایک نظر آتے ہیں ۔حکومت کے بقول یہ بل کوئی حرف آخر نہیں اس میں مزید ترمیم بھی کی جا سکتی ہیں۔
اگر یہ منطق درست ہے تو پھر اس کی منظوری میں کیوں اس قدر جلد بازی کا مظاہرہ کیا گیا ۔اسی طرح جو ترامیم حزب اختلاف نے پیش کیں ، اسے کیونکر سرے سے تسلیم ہی نہیں کیا گیا ۔حکمران جماعت نے اس پہلو کو بھی نظر انداز کردیا کہ بل کی منظوری کے لیے اسے سینیٹ کی منظوری بھی درکار ہے، جہاں اسے کسی بھی طور پر اکثریت حاصل نہیں۔ اس لیے یہ امکان کہ یہ بل اسی حالت میں سینیٹ سے منظور ہوجائے گا ، ممکن نہیں ہوگا۔حکمران طبقہ نے اس پہلو کو بھی نظر انداز کردیا کہ پہلے ہی ملک میں لاپتہ افراد کا معاملہ خاصہ سنگین نوعیت اختیار کرگیا ہے۔ عدالتیں اور قانون نافذ کرنے والے ادارے ایک دوسرے کے مدمقابل کھڑے ہیں ۔سپریم کورٹ نے پہلے ہی جنوری2014میں لاپتہ افراد کے مقدمہ میں اس '' تحفظ پاکستان بل '' پر اپنی رائے دیتے ہوئے کہا تھا کہ '' عدالت خود اس بل کا جائزہ لے گی ، اگر یہ بل بنیادی انسانی حقوق اور تحفظ کی ضمانت کی نفی کرے گا تو ہم اپنا فیصلہ بھی سنا دیں گے۔''حزب اختلاف کے بقول اس بل کی منظوری کو بنیاد بنا کر اسے اعلی عدالتوں میں چیلنج کیا جائے گا۔
ہمارے پاس پہلے ہی انسداد دہشت گردی ایکٹ موجود ہے ، اب یہ نیا قانون اس سے بھی ٹکرا کر مزید قانونی پیچیدگیاں پیدا کرنے کا سبب بنے گا۔اس بل میں خصوصی عدالتوں کا قیام پہلے سے موجود عدالتوں پر بھی عدم اعتماد ظاہر کرتا ہے،جو خود عدلیہ کے لیے بھی غور طلب پہلو ہے ۔یہ تجزیہ بھی موجود ہے کہ حکومت پر اس بل کی منظوری کے لیے بہت دباؤ تھا ، اگر ایسا ہے تو اس سے خود حکومت کا جمہوری چہرہ کافی متاثر ہوا ہے ۔ یہ عمل ظاہر کرتا ہے کہ لوگوں کو طاقت فراہم کرنے اور اپنے جمہوری تشخص کو بہتر بنانے کے بجائے ہم قانون نافذ کرنے والے اداروں اور ایجنسیوں کو طاقت فراہم کرکے نظام کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں ۔ اگر ہم نے اپنے ہی بنائے ہوئے آئین کے برعکس '' جوابدہی کے بغیر نظام '' کو طاقت فراہم کرنی ہے تو اس سے قانون اور انصاف کی نفی ہوگی۔ اس کے نتیجے میں دہشت گردی کا خاتمہ کم اور ردعمل کی سیاست کے طور پر دہشت گردی اور بالخصوص ریاستی دہشت گردی میں اضافہ ہوگا، جو اس ملک کی کمزور جمہوری حکمرانی میں خطرناک رجحانات کی نشاندہی کرتا ہے ، جس پر چاروں اطراف سے سخت مزاحمت کی ضرورت ہے۔
لیکن ہمارے سیاسی و جمہوری نظام میں ایسے سیاسی و قانونی تماشے موجود ہیں جو ہمارے سیاسی اور جمہوری چہرے کو مسخ کرتے ہیں کیونکہ یہاں جمہوریت کے نظام کو ایک چھتری فراہم کرکے وہ سب کچھ کرنے کی جائز یا ناجائز کوشش کی جاتی ہے جو انسانوں کو کمزور کرکے حکمرانوں کو زیادہ سے زیادہ بااختیار بنا سکے۔یہ کہنا کہ ہم نے ماضی کی غلطیوں سے بہت کچھ سیکھا ہے ، اس کی بھی نفی وہی حکمران طبقات کرتے ہیں جو سب سے زیادہ جمہوریت کے دعوے دار ہیں ۔ اگر جمہوری نظام بنیادی انسانی حقوق اور اس کے تحفظ کے خلاف ایک موثر ہتھیار کے طور پر استمال ہو، تو جمہوری نظام کی اہمیت بے معنی رہ جاتی ہے ۔
اگر جمہوری اور آمرانہ نظام میں فرق ختم ہوجائے اور دونوں نظاموں کا عمل ایک جیسا ہو تو پھر جمہوری مقدمہ کمزور ہوکر اپنی افادیت کھودیتا ہے ۔ یہاں لوگوں کو حکمرانی کے نظام سے متعلق کافی سنگین مسائل کا سامنا ہے ۔ حکمران طبقات چاہے وہ مرکزی سطح پر ہوں یا صوبائی سطح پر ، سب یہ ہی دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ سب سے زیادہ جمہوری حکمران ہیں ۔ لیکن ان کے دعوؤں کے برعکس محض معاشرے میں موجود اہل دانش ،انسانی حقوق ، قانون سے متعلق ماہرین ، سیاست اور سماج پر گہری نظر رکھنے والے افراد کا نقطہ نظر عمومی طور پر حکمرانوں سے مختلف نظر آتا ہے ۔لیکن حکمران اس تنقید کی پروا کیے بغیر آگے بڑھنا چاہتے ہیں ، جو سیاسی خود کشی ہوگی۔
ایسا ہی کچھ معاملہ '' تحفظ پاکستان ترمیمی بل'' کی صورت میں نظر آتا ہے۔ اس بل کی منظوری پچھلے دنوں قومی اسمبلی نے دی ہے ۔اگرچہ حکمران طبقہ کا دعویٰ ہے کہ '' تحفظ پاکستان ترمیمی بل '' ملک میں جاری دہشت گردی کے خلاف ایک موثر ہتھیار کے طور پر استمال ہوگا۔ حکمران اس بات پر بضد نظر آتے ہیں کہ وہ لوگ جو ہم پر اس بل کی منظوری کے تناظر میں تنقید کررہے ہیں ، انھیں '' زمانہ امن اور زمانہ جنگ'' کے درمیان فرق کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ان کے بقول دہشت گردی جیسے موذی مرض کا علاج عام اور روایتی علاج میں ممکن نہیں ، اس کے لیے خصوصی تدابیر کرنا ضروری ہوتا ہے ۔لیکن یہاں حکمران طبقہ کے اس موقف کے مقابلے میں جو قانون منظور ہوا ہے اسے دیکھنا اور پرکھنا ہوگا کہ یہ دہشت گردی کے خلاف موثر ہتھیار ہوگا یا نہیں ۔
قومی اسمبلی سے منظور ہونے والے اس بل پر غور وفکر کرکے اس کے ممکنہ نتائج کا جائزہ لینا ضروری ہے ۔اول اس بل کے تحت کسی بھی مشتبہ فرد کو 90روز تک حراست میں تفتیش کے لیے رکھا جا سکے گا،اس کے لیے کسی عدالت سے منظوری لینے کی ضرورت نہیں ۔دوئم پولیس، پیرا ملٹری فورس سمیت قانون نافذ کرنے والے ادارے کسی بھی مشتبہ فرد کو براہ راست گولی مارنے کا اختیار رکھتے ہیں ۔یاد رہے کہ اس سے قبل یہ اختیار صرف اس صورت میں تھا جب ان پر حملہ کردیا جائے ، لیکن اب یہ کام وہ محض شبہ کی بنیاد پر بھی کرسکتے ہیں ۔سوئم یہ بل 1973کے دستور جسے حکمران طبقہ بہت زیادہ مقدس قرار دیتا ہے ، کی نفی بھی کرتا ہے ۔ کیونکہ1973کے آئین کی شق10لوگوں کو بنیادی تحفظ کی ضمانت فراہم کرتی ہے ۔چہارم کسی ملزم کو ایف آئی آر کاٹے بغیر محض شبہ کی بنیاد پر 90دن تک رکھنا کیسے قانونی پہلو قرار دیا جاسکتا ہے ۔یاد رہے کہ اس سے قبل یہ مدت90دن کے مقابلے میں 30دن کی تھی ، اب اس کی مدت میں اضافہ کرکے اداروں اور ایجنسیوں کو بے پناہ اختیارات دیے گئے ہیں۔
پنجم اس بل میں گواہوں اور مدعی کو تحفظ فراہم کرنے کی کوئی بات نہیں کی گئی ۔ششم، کیا یہ بل قانون نافذ کرنے والے اداروں اور ایجنسیوں کو عدالتوں سے ماورا بے جا اختیارات دینے کے زمرے میں نہیں آئے گا۔حکمران طبقہ کی یہ منطق مان بھی جائے کہ اس بل کی منظوری دہشت گردی کے خاتمہ کے لیے بہت ضروری تھی ، لیکن اس بل کی منظوری کے لیے جو طریقہ کار اختیار کیا گیا ، وہ کیسے جمہوری اور قانونی اصولوں کے مطابق ہے ۔اگر واقعی حکومت اس معاملہ میں سنجیدہ تھی تو اسے اس بل کو پیش کرنے اور اسے منظورکرنے سے قبل تمام پارلیمانی جماعتوں سے مشاورت اور اتفاق رائے کے عمل کو پیدا کرنا چاہیے تھا،لیکن ایسا نہیں ہوسکا ۔حزب اختلاف کی پیش کردہ تمام ترامیم کو مسترد کردیا گیا۔ مشاورت کا اس سے زیادہ عملی ثبوت کیا ہوسکتا ہے کہ پارلیمنٹ میں موجود سوائے حکمران جماعت کے سب نے اس بل کی شدید مخالفت کی۔پیپلز پارٹی ، اے این پی ، ایم کیو ایم ، مسلم لیگ)ق(، تحریک انصاف ، جماعت اسلامی ، جے یو آئی ، پختون خواہ ملی عوامی پارٹی سب ہی اس بل کی مخالفت پر ایک نظر آتے ہیں ۔حکومت کے بقول یہ بل کوئی حرف آخر نہیں اس میں مزید ترمیم بھی کی جا سکتی ہیں۔
اگر یہ منطق درست ہے تو پھر اس کی منظوری میں کیوں اس قدر جلد بازی کا مظاہرہ کیا گیا ۔اسی طرح جو ترامیم حزب اختلاف نے پیش کیں ، اسے کیونکر سرے سے تسلیم ہی نہیں کیا گیا ۔حکمران جماعت نے اس پہلو کو بھی نظر انداز کردیا کہ بل کی منظوری کے لیے اسے سینیٹ کی منظوری بھی درکار ہے، جہاں اسے کسی بھی طور پر اکثریت حاصل نہیں۔ اس لیے یہ امکان کہ یہ بل اسی حالت میں سینیٹ سے منظور ہوجائے گا ، ممکن نہیں ہوگا۔حکمران طبقہ نے اس پہلو کو بھی نظر انداز کردیا کہ پہلے ہی ملک میں لاپتہ افراد کا معاملہ خاصہ سنگین نوعیت اختیار کرگیا ہے۔ عدالتیں اور قانون نافذ کرنے والے ادارے ایک دوسرے کے مدمقابل کھڑے ہیں ۔سپریم کورٹ نے پہلے ہی جنوری2014میں لاپتہ افراد کے مقدمہ میں اس '' تحفظ پاکستان بل '' پر اپنی رائے دیتے ہوئے کہا تھا کہ '' عدالت خود اس بل کا جائزہ لے گی ، اگر یہ بل بنیادی انسانی حقوق اور تحفظ کی ضمانت کی نفی کرے گا تو ہم اپنا فیصلہ بھی سنا دیں گے۔''حزب اختلاف کے بقول اس بل کی منظوری کو بنیاد بنا کر اسے اعلی عدالتوں میں چیلنج کیا جائے گا۔
ہمارے پاس پہلے ہی انسداد دہشت گردی ایکٹ موجود ہے ، اب یہ نیا قانون اس سے بھی ٹکرا کر مزید قانونی پیچیدگیاں پیدا کرنے کا سبب بنے گا۔اس بل میں خصوصی عدالتوں کا قیام پہلے سے موجود عدالتوں پر بھی عدم اعتماد ظاہر کرتا ہے،جو خود عدلیہ کے لیے بھی غور طلب پہلو ہے ۔یہ تجزیہ بھی موجود ہے کہ حکومت پر اس بل کی منظوری کے لیے بہت دباؤ تھا ، اگر ایسا ہے تو اس سے خود حکومت کا جمہوری چہرہ کافی متاثر ہوا ہے ۔ یہ عمل ظاہر کرتا ہے کہ لوگوں کو طاقت فراہم کرنے اور اپنے جمہوری تشخص کو بہتر بنانے کے بجائے ہم قانون نافذ کرنے والے اداروں اور ایجنسیوں کو طاقت فراہم کرکے نظام کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں ۔ اگر ہم نے اپنے ہی بنائے ہوئے آئین کے برعکس '' جوابدہی کے بغیر نظام '' کو طاقت فراہم کرنی ہے تو اس سے قانون اور انصاف کی نفی ہوگی۔ اس کے نتیجے میں دہشت گردی کا خاتمہ کم اور ردعمل کی سیاست کے طور پر دہشت گردی اور بالخصوص ریاستی دہشت گردی میں اضافہ ہوگا، جو اس ملک کی کمزور جمہوری حکمرانی میں خطرناک رجحانات کی نشاندہی کرتا ہے ، جس پر چاروں اطراف سے سخت مزاحمت کی ضرورت ہے۔