عقل و خرد کی مخالفت

افلاطون کہتا ہے کسی شخص پر اس سے بڑی اور کوئی مصیبت نازل نہیں ہو سکتی کہ وہ عقل و خرد کی مخالفت کرنے لگے ۔۔۔

پاکستان میں ایسے لوگوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے جن کے بدن سے زیادہ ان کے اذہان بیمار ہیں۔ ہمارے سارے عذابوں کی جڑ یہی بیمار اذہان ہیں، ان کے ذہن اس لیے بیمار ہیں کہ انھیں زہریلے اور منفی خیالات سے آلودہ کر دیا جاتا ہے ۔یہ زہریلے خیالات و تصورات اس لیے ان کے ذہن میں داخل ہوتے ہیں کیونکہ ایسے خیالات و تصورات کے متعلق و ہ سو چ بچار کرتے ہیں۔ اس عمل کے ذریعے ان کا ذہن زہریلے خیالات سے آلودہ ہو جاتا ہے اور وہ ذہنی طور پر بیمار ہو جاتے ہیں ممکن ہے کہ یہ زہریلے خیالات ان کے بدن کے لیے قاتل ثابت نہ ہوں اور یہ بھی ممکن ہے کہ ان کے باعث ان کے ذہن کا کچھ حصہ ہی متاثر ہو لیکن یہ زہریلے خیالات و تصورات ان کے ذہن کے اس حصے کو مکمل طور پر تباہ کر ڈالتے ہیں جو حصو ل مقصد کے ضمن میں تحریک مہیا کرتا ہے اور محرک ثابت ہوتا ہے۔

اس کے بعد ذہن ایک ایسے بحری جہاز کی شکل اختیار کر لیتا ہے جوا پنی منزل سے بھٹک چکا ہو، مواقعے کی لہریں اسے باآسانی ادھر ادھر لے جاتی ہیں، مقدر کی زہریلی لہریں اسے کہیں کا نہیں چھوڑتیں اور پھر یہ جہاز آخر کار زندگی کی تلخ حقائق کی چٹانوں سے ٹکرا کر تباہ و بر باد ہو جاتا ہے۔ زہریلے خیالات و تصورات کی بدترین شکل جس کا ہم شکار ہیں و ہ نفرت ہے یہ سب سے مہلک خطرناک احساس و جذبہ ہے نفرت ایک ایسا زہریلا مادہ ہے جو ذہن کو فوری طور پر تباہ کر ڈالتا ہے نفرت کے باعث اچھے خاصے اور قابل تعریف افراد بھی شیطا نی وسوسوں کا شکار ہو کر اپنے مقاصد کے حصول کے لیے غیر انسانی اور پر تشدد طریقے جیسے قتل و غارت، فساد، جھگڑا، تباہی و بربادی کا راستہ اختیار کر لیتے ہیں یا پھر وہ خفیہ منصوبہ سازی کے ذریعے اپنے متشدد رویے کا اظہار کرتے ہیں۔

اس کے علاوہ یہ لوگ جذباتی تشدد بھی اختیار کر تے ہیں جس کے تحت دوسروں کی انا، عزت نفس، عقیدہ، جذبات و احساسات کو ٹھیس پہنچاتے ہیں وہ جو لوگ معاشرے میں انتشار اور فساد پھیلاتے ہیں ان سب کے تخت الشعور میں نفرت کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہے ایسے لوگ سماج کو آہستہ آہستہ خوفزدہ کرتے چلے جاتے ہیں اور ساتھ ساتھ یرغمال بھی بناتے چلے جاتے ہیں۔ جس کی وجہ سے سماجی ارتقاء کا عمل آگے جانے کے بجائے پیچھے کی سمت جانا شروع ہو جاتاہے، یہیں سے ہی ان حضرات کی نظر میں ان کی کامیابی کا آغاز ہو جاتا ہے، بظا ہر تو یہ کامیابی نظر آتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ تشدد، دھمکی، دھو نس، زبردستی کے ذریعے کامیابی اور فتح حاصل ہی نہیں کی جا سکتی۔ محسوس ایسا ہو رہا ہوتا ہے کہ وہ کامیابی اور فتح حاصل کر رہے ہیں لیکن ان کی یہ فتح و کامیابی آگے چل کر عارضی اور کھوکھلی ثابت ہوتی ہے کیونکہ اس طرح وہ اپنے اندر ایسے دشمن پیدا کر لیتے ہیں جو مناسب مو قع ملنے پر ان ہی پر وار کر دیتے ہیں اور پھر اس دوران جنہوں نے متشدد رویہ اور طرز عمل اختیار کیا ہوتا ہے۔

مسلسل اس خوف میں مبتلا رہتے ہیں کہ آخر کار کسی نہ کسی دن انھیں بھی اسی قسم کے رویے کا سامنا کر نا پڑے گا۔ یہ سچ ہے کہ ذہنی امراض میں مبتلا اشخاص سماج کے لیے عذاب ہوتے ہیں لیکن دوسرا سچ یہ بھی ہے کہ ایسے اشخاص کو بھی اپنے آپ کو عذاب میں مبتلا ہونے کا احساس جلد یا بدیر ہو ہی جاتا ہے دنیا میں کوئی بھی بیماری چاہے وہ جسمانی ہو یا ذہنی اس کا علاج ممکن ہے۔ جواہر لعل نہرو نے کہا تھا کہ کوئی ملک جن موضوعات کو زیر بحث لاتا ہے۔ اس سے اس ملک کے سیاسی ارتقا ء کا اندازہ ہوتا ہے اس ملک کی ناکامی اکثر اس بنا پر ہوتی ہے کہ اس نے اپنے آپ سے درست سوالات نہیں کیے تھے'' بات بالکل سچ کہی ہوئی ہے۔ آئیں ہم اپنے سماج کو اور ان بیمار ذہنوں کو عذاب سے نجات دلانے کے لیے اپنے آپ سے درست سوالات کا آغاز کر دیں۔ بحث و مباحثے شروع کر دیں ذہنوں اور دلوں کی بند کھڑکیاں اور دروازے کھول دیں تا کہ تازہ خیالات اور نظریات ہمار ے اندر آ سکیں اور ہمارے اور ہمارے سماج میں موجود گھٹن حبس کا خاتمہ ہو سکے۔


تمام عظیم مذہبی رہنمائوں کا ہدف یہ نہیں رہا کہ خدا کو باہر سے انسان کے اندر لایا جائے بلکہ ہر فرد کی مدد کر کے اس کے اندر پہلے سے موجود خدائی صفات کو باہر لایا جائے۔ ٹالسٹائی نے کہا تھا خدائی سلطنت کا دائر ہ آپ کے اندر ہے۔ جب کہ پندرہویں صدی کے ہندوستانی صوفی کبیر کہہ چکے ہیں ''دو آنکھوں کے بیچ کے مالک ، خدا کا پیغام بر ۔ خدا تمہارے اپنے بدن کے اندر رہتا ہے اس کو دیکھنے کے لیے باہر کی آنکھیں کیا کھولنا ۔ ٹولین یونیورسٹی کے ماہر نفسیات لوہ سنگ سائی نے 1963ء میں ایک دلچسپ مظاہرہ کیا تھا کہ چوہے کھانے والی بلی اور ایک گندے نالی کے چوہے کو پر امن طور پر ایک ہی برتن میں کھانا کھانے کی تربیت دی جا سکتی ہے یہ پر اثر کرنے، سماجی آموزش کی آمیزش کا طریقہ کار تھا۔ شروع میں شیشے کی دیوار کے ذریعے دونوں کو علیحد ہ رکھا گیا جہاں دونوں جانوروں نے سیکھا کہ انھیں خوراک کی ایک مشترک پلیٹ میں خو راک پہنچانے والے آلے کو چلانے کے لیے یکے بعد دیگر ے متوازی لیوروں کو دبانا پڑے گا۔

سات ہزار تربیتی نشستوں کے بعد یہ ممکن ہو سکا کہ شیشے کی درمیانی رکاوٹ کو ہٹا دیا گیا اور چوہا بلی کا تر نوالہ نہ بنا اور دونوں نے ایک ساتھ خوراک کھائی۔ تسائی نتیجہ پیش کرتے ہوئے کہتا ہے سائنس کی تاریخ میں ہم نے پہلی بار نہایت اہم تجر بات کے ذریعے اس بات کا مظاہر ہ کیا کہ بلیاں اور چوہے (نام نہاد فطری دشمن) تعاون کر سکتے ہیں اور کرتے ہیں۔ اس طرح کی دریافت نفسیات میں اس روایتی عقیدے کو سمندر برد کر دیتی ہے کہ حیوانی فطرت میں ایک ناقابل تنسیخ جھگڑالو جبلت موجود ہے جو لڑائی یا جنگوں کو ناگزیر بنا دیتی ہے۔ دنیا کے تمام مذاہب و روحانی عقائد کا پیغام یہ رہا ہے کہ زندگی کا احترام کرو قتل مت کرو۔ میکس ویبر یہ رائے قائم کرتا ہے کہ قتل، تشدد، نفرت کرنے کے سیاسی احکام کبھی بھی روحانی عقیدے کے ساتھ ہم آہنگ نہیں ہو سکتے۔

بدھ مت کی پہلی شرط ہے کسی کی جان مت لو یہودیوں کی قدیم ترین تعلیمات کیمطابق ''جو کوئی بھی ایک شخص کی زندگی بچاتا ہے تو یہ ایسا ہی ہے جیسے اس نے لوگوں کی ایک کثیر تعداد کی حفاظت کی ہو جب کہ وہ شخص جو کسی ایک فرد کی زندگی کو نیست و نابود کرے تو یہ ایسا ہی ہے جیسے اس نے پوری دنیا کو تباہ کیا ہو۔ اسلام کیمطابق جو شخص ایک انسان کو قتل کرتا ہے تو یہ پوری انسانیت کا قتل سمجھا جائے گا اور جو شخص ایک زندگی بچاتا ہے و ہ پوری انسانی نسل کو بچاتا ہے۔

افلاطون کہتا ہے کسی شخص پر اس سے بڑی اور کوئی مصیبت نازل نہیں ہو سکتی کہ وہ عقل و خرد کی مخالفت کرنے لگے۔ تشدد، تشدد کو جنم دیتا ہے اور آخرکار تشدد کا خاتمہ ہو جاتا ہے ہمارے سماج میں موجود نفرت کے سو داگر ہاری ہوئی جنگ لڑ رہے ہیں۔ عقیدتوں کے بڑے روپ ہوا کرتے ہیں ضروری نہیں کہ پکا نماز ی اور روزہ دار خدا کے نزدیک ہی ہو پوری دنیا میں نفرت کی سیاست کا خاتمہ ہو چکا ہے پرانے نظام کو شکست ہو چکی ہے نیا سماجی نظام اور محبت و اخوت و اتحاد کی سو چ نے زمین پکڑ لی ہے اور اس کی جڑیں دنیا کے تمام سماجوں میں پھیل گئی ہیں۔ لہذا اب پرانی گلی سڑی نفرت کی سو چ کی واپسی اور اس کی فتح کا کوئی بھی امکان نہیں ہے۔ لہٰذا نفرت کے سوداگر اپنے آپ پر اور سماج پر رحم کھائیں۔
Load Next Story