انمول ہیرے

عالم اسلام آج تمام تر وسائل کی فراہمی کے باوجود ہر چیز میں اغیار کا محتاج ہے۔۔۔

ڈھیلا ڈھالاعربی کرتا پہنے اور سر پر پھول دارمدنی رومال سجائے ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھنے والا یہ گول مٹول سا دس سالہ ''ادیب سلیمان البلوشی'' ہے۔ بلوچ نژاد عرب ''ادیب'' ابھی چھٹی جماعت کا طالب علم ہے، لیکن یہ چھوٹا سا بچہ کئی بڑے بڑے کام کر کے بڑی بڑی ڈگریوں کے حصول سے بڑھ کر عالم اسلام کے لیے اپنی انفرادیت کا ثبوت دے چکا ہے۔ قدرت نے غریب اور معذور ''سلیمان اسماعیل البلوشی'' کے بیٹے ''ادیب سلیمان البلوشی'' کا ذہن کھول دیا ہے۔ چھوٹی سی عمر میں ہی اسے ایسی صلاحیتوں سے مالا مال کیا ہے، جنھیں دیکھ کر دنیا ورطہ حیرت میں ڈوب گئی۔ ادیب البلوشی اپنے ننھے منے ہاتھوں سے اب تک تقریباً سات چیزیں ایجاد کرچکا ہے۔

صرف پانچ سال کی عمر میں اپنے معذور والد کی مشکل کا حل نکالتے ہوئے نہایت آرام دہ اورکارآمد واٹر پروف مصنوعی ٹانگیں تیار کیں، جنھیں پہن کر تیراکی اور غوطہ خوری بھی کی جا سکتی ہے۔ ا ن ٹانگوں میں باریک برقی تاریں نصب ہیں، جو آلہ سماعت کے ذریعے کان سے مربوط ہیں، دماغی سگنلز اس آلے اور برقی تاروں کے ذریعے ٹانگ تک پہنچتے ہیں اور آدمی نارمل انداز میں چل پھر سکتاہے۔ گھر کی صفائی کے لیے ننھے البلوشی نے ایک نہایت چھوٹا ''ویکیوم کلینر روبوٹ'' بھی تیار کیا ہے۔

سردی، گرمی اور بارش سے محفوظ ایک ہیلمٹ بھی تیار کیا ہے، جس میں کیمرے نصب ہیں، جو تصاویر نشر کرنے کے ساتھ ساتھ دھویں اور تاریکی میں روشنی بھی مہیا کرتے ہیں۔ ادیب البلوشی نے گاڑی میں کسی حادثے کی صورت میں ازخود امدادی ٹیموں اور اہلخانہ کو اطلاع دینے والا ایک چھوٹا سا آلہ بھی تیار کیا جو کار کی سیٹ کے ساتھ منسلک ہوتا ہے۔ اس نے ریموٹ کنٹرو ل سے چلنے والی ''وہیل چیئر'' بھی ایجاد کی ہے۔ اور یہ سب کچھ ادیب نے صرف ایک سال میں ایجاد کیا ہے۔

یہ ننھا مختلف حکومتوں اور تنظیموں کی جانب سے متعدد القابات، بے شمار تمغے و میڈل اور سو سے زاید اعزازی ڈگریاں حاصل کر چکا ہے۔ انتہائی خوشی کی بات یہ ہے کہ ننھی سی عمر میں ہی البلوشی کا دل عالم اسلام کے لیے تڑپنا شروع ہو گیا ہے۔ وہ اپنی صلاحیتوں کو صرف اور صرف عالم اسلام کی خدمت کے لیے مختص کرنا چاہتا ہے۔ جب البلوشی کی غیر معمولی صلاحیتوں سے متاثر ہو کر جرمنی کی ''سائنس و ثقافت فائونڈیشن'' نے اسے مفت تعلیم کی پیشکش کی تو البلوشی نے اس پیشکش کو یہ کہتے ہوئے ٹھکرا دیا کہ ''میں امارات میں پیدا ہوں۔ اس لیے میرے اوپر وطن عزیز کی مٹی کا قرض ہے۔ میں عالم اسلام کا سائنسدان بنوں گا۔''


حقیقت یہ ہے کہ یہ صرف ایک البلوشی ہی نہیں ہے، بلکہ عالم اسلام کو وقتاً فوقتاً بے پناہ صلاحیتوں سے مزین ایسے البلوشی میسر آتے رہتے ہیں، افغانستان میں بھی ہوتے ہیں، فلسطین میں بھی ہوتے ہیں اور پاکستان سمیت دنیائے اسلام کے تمام ممالک میں ہوتے ہیں۔ بہت سے مسائل میں گھرا ہوا ہونے کے باوجود عالم اسلام کے یہ بچے اپنی صلاحیتوں کا منوائے بغیر نہیں رہ پاتے۔

پاکستان میں رائے حارث منظور کو ہی لے لیجیے! رائے حارث منظور نے برطانیہ کی کیمرج یونیورسٹی کا 800 سالہ ریکارڈ توڑتے ہوئے صرف 9 سال کی عمر میں فزکس، کیمسٹری اور بائیالوجی کے ساتھ او لیول کا امتحان پاس کرکے دنیا بھر میں پاکستان کا نام روشن کیا۔ برطانیہ کی کیمبرج یونیورسٹی کے زیر اہتمام او لیول کے امتحان میں دنیا بھر کے 90 ممالک سے کم از کم 20 لاکھ طلبا حصہ لیتے ہیں۔ اس امتحان کے لیے بالعموم 3 سال کی پری اسکولنگ اور 11 سال کی باقاعدہ کلاسز ضروری سمجھی جاتی ہیں، لگے بندھے طریقے سے پڑھنے والے طلبا وطالبات یہ امتحان 17 یا 18 سال کی عمر میں پاس کرتے ہیں، مگر حارث منظور نے 9 سال کی عمر میں یہ سنگ میل عبور کر کے عالمی ریکارڈ قائم کیا۔

حارث منظور کے دل میں بھی عالم اسلام کی خدمت کرنے کا جذبہ موجزن ہے۔ چند ماہ قبل میرے ایک صحافی دوست سے گفتگو کرتے ہوئے حارث منظور کا یہ بھی کہنا تھا: ''میں مسلم دنیا کی خدمت کرنا چاہتا ہوں۔'' عالم اسلام کو ایسے افراد کا میسر آجانا خوش قسمتی کی بات ہے، جو بچپن سے ہی امت مسلمہ کی خدمت کرنے کے لیے بے چین ہیں، چاہے یہ متحدہ عرب امارات کے البلوشی کی صورت میں ہوں یا پھر پاکستان کے رائے حارث منظور کی شکل میں ہوں۔ ابھی ان بچوں کی عمریں صرف نو، دس سال ہیں، لیکن ان کے دل میں عالم اسلام کی تڑپ کئی بڑوں سے بھی بڑی ہے۔

یہ تو صرف دو بچے ہیں، ورنہ آئے دن عالم اسلام کے بچے دنیا پر اپنی فوقیت ثابت کرتے دکھائی دیتے ہیں، نت نئے تجربوں سے آئے دن نئی چیزیں ایجاد کرتے رہتے ہیں اور اسی قسم کے باصلاحیت بچے قوموں کے ماتھے کا جھومر بنتے ہیں، جو قوموں کو پسماندگی کے اندھیروں سے نکال کر روشنیوں میں داخل کرنے کا سامان کرتے ہیں، لیکن افسوس! ان کی صلاحیتوں کی بدولت بچپن میں تو کچھ دن ان کی واہ واہ ہوتی ہے، مگر بعد میں یہ بچے گم ہو جاتے ہیں، جب یہ بچے بڑے ہوتے ہیں تو کوئی ان کا نام تک نہیں جانتا۔ ماضی میں جھانکنے سے اسلامی دنیا میں ایسے بہت سے انمول ہیروں کے بارے میں معلوم ہوگا جو تمام تر صلاحیتوں کے باجود گمنام ہوگئے۔ اس میں مسلم ممالک کی غفلت اور عدم توجہی کا عنصر کافی نمایاں ہے، کیونکہ بھرپور توجہ کے ساتھ ہی بچپن میں ہی ظاہر ہونے والی ان کی صلاحیتوں کو نکھارا اور کام میں لایا جاسکتا ہے، لیکن مسلم دنیا میں شاید ایسے افراد کی قدر کم کی جاتی ہے۔

عالم اسلام آج تمام تر وسائل کی فراہمی کے باوجود ہر چیز میں اغیار کا محتاج ہے۔ اس کی یہی وجہ سمجھ میں آتی ہے کہ کہ مسلم امہ ایسے قابل حکمرانوں سے محروم ہے جو باصلاحیت افرادی قوت اور قدرتی عطیات و وسائل کا درست استعمال کرتے ہوئے مسلم ممالک کو ایک مکے کی طرح بنادے۔ اسلامی ممالک کو چاہیے کہ مشترکہ طور پر ایک ایسا ادارے قائم کریں، جہاں حکومتوں کے خرچ پر پوری مسلم دنیا کے ذہین اور باصلاحیت طلبہ کو تعلیم دی جائے اور ان کی صلاحیتوں کو نکھارا جائے، ان اداروں میں اسلامی دنیا کے سائنسدان ان طلبہ کو تعلیم دیں، مختلف اسلامی ملکوں کے دورے کروائے جائیں۔ اس طرح ایک ساتھ سائنسدان بننے سے ان سب کی سوچ بھی ایک ہوگی اور یہ ایک بن کر عالم اسلام کے مسائل کو حل کر سکیں گے۔
Load Next Story