انتشار کا ایجنڈا ہے

ملکی سلامتی کے اداروں کے بارے ایسا زہرناک پروپیگنڈا شاید ہمارا دشمن بھی نہ کر سکتا جو ہم خود کر رہے ہیں

ملکی سلامتی کے اداروں کے بارے ایسا زہرناک پروپیگنڈا شاید ہمارا دشمن بھی نہ کر سکتا جو ہم خود کر رہے ہیں (فوٹو : فائل)

وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ آرمی چیف کے خلاف مہم ناقابل برداشت اور اداروں کے خلاف سازش کا تسلسل ہے۔ بیرون ملک مقیم پاکستانی اس سازش کا حصہ نہ بنیں۔ قوم اپنے اداروں کے ساتھ کھڑی ہے اور شرپسندوں کے خلاف متحد ہے۔

یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ ہمارے ملک کے کچھ لوگ اپنے ہی ملکی اداروں کو کیوں مورد الزام ٹھہراتے ہیں، پاکستانی ہونے کا دعویدار ایک مخصوص ٹولہ سیاسی اور گروہی مقاصد کے لیے اپنی ناکامیوں اور نااہلیوں کا ذمے دار ریاستی اداروں کو قرار دینے کی پالیسی پر گامزن ہے۔

ملکی سلامتی کے اداروں کے بارے ایسا زہرناک پروپیگنڈا شاید ہمارا دشمن بھی نہ کر سکتا جو ہم خود کر رہے ہیں۔ ہم ففتھ جنریشن وار کے عمل سے گزر رہے ہیں جہاں ہمارے دشمن ڈیجیٹل میڈیا یا پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے محاذ کو بنیاد بنا کر ہمیں داخلی اور خارجی دونوں محاذوں پر کمزور بھی کرنا چاہتا ہے اور تقسیم بھی۔ وہ معاشرے میں ایک ایسی سیاسی، سماجی، مذہبی، فرقہ وارانہ اور لسانی بنیادوں پر تقسیم پیدا کررہا ہے جو ہمیں کمزور کرے۔

بدقسمتی یہ ہے کہ ہمیں اس ففتھ جنریشن وار کے تناظر میں جس مضبوط حکمت عملی کے ساتھ نمٹنا چاہیے اس میں بہت سی کمزوریاں ہیں۔ ماضی میں پاکستان مخالف قوتوں نے پاکستانی عوام اور فوج کے درمیان دراڑ پیدا کرنے کی پوری کوشش کی لیکن تاریخ گواہ ہے کہ دشمنوں کی ایسی کوششیں بری طرح ناکام ہوئیں۔

ایسے متعدد واقعات سامنے آئے جن میں دہشت گرد تنظیموں نے کسی دوسرے ملک کی سر زمین پر بیٹھ کر پاکستان میں ناپختہ ذہنوں کو ورغلا کر اپنے چنگل میں پھانسا۔ یہ امر واقعہ ہے کہ بیرون ملک مورچہ زن علیحدگی پسند گروہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے ذریعے پاکستان کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈا کر کے پسماندہ علاقوں کے نوجوانوں کو شرپسندی کے لیے اکساتے رہے ہیں۔

پاکستان کو ایک ناکام ریاست کے طور پر پیش کرنے کے لیے سوشل میڈیا کے ذریعے جعلی معلومات پر مبنی مواد کی تشہیر کر کے عوام میں مایوسی اور غیر یقینی کی کیفیات ابھاری جارہی ہیں۔

نسلی، لسانی اور علاقائی تعصب، فرقہ ورانہ نفرت، سیاسی اختلافات، سفارتی تعلقات اور حساس مذہبی معاملات پر پاکستانی معاشرے میں تفریق پیدا کرنے کے لیے مسلسل غیر قانونی اور اشتعال انگیز مواد پھیلایا جا رہا ہے۔

آج کا خطر ناک منظر نامہ عکاسی کر رہا ہے کہ پاکستان کے اندر بھی سادہ لوح عوام کو غلط معلومات کے ذریعے ریاستی اداروںکے بارے میں شکوک و شہبات میں مبتلا کرنے کی کوشش جاری ہے۔ پاکستان کی معیشت کو زمین بوس کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا جارہا ہے۔

داخلی تصادم ، لاقانونیت اور سیاسی عدم استحکام کو بڑھاوا دینا اس حکمت عملی کا حصہ ہے۔ دہشت گرد گروپ اور ان کے سہولت کار اور فنانسرز پاکستان میں عسکری و سول اداروں کا ٹکراؤ چاہتے ہیں تاکہ ملک کا سسٹم ٹوٹ جائے اور پاکستان کی سلامتی کے ضامن ریاستی ادارے داخلی تنازعات میں پھنس کر رہ جائیں۔

کوئی اقتدار میں آتا تو فوج مورد الزام اور کوئی جاتا تو فوج پر دشنام۔ سمجھ نہیں آتا کہ ریاستی ادارے کیسے ہر جماعت اور گروہ کی توقعات کے مطابق کام کر سکتے ہیں؟ ان کا کام ملکی سرحدوں کا دفاع ہے مگر ہماری سیاسی قیادت اور ان کے پشت پناہ اس بات پر اصرار کر رہے ہیں کہ ادارے وہ کام کریں جو وہ چاہتے ہیں۔

یہ سیاسی چلن کسی طور پر جمہوری نہیں ہے۔ ہماری سیاسی قیادت اور ریاستی اداروں کے ذمے داروں کو سوچنا چاہیے ہم کس راہ پر چل پڑے ہیں، یہ لمحہ گہرے غور و فکر کا تقاضا کرتا ہے۔ افواج پاکستان ملک کی سلامتی اور استحکام کی ضامن ہے۔

دشمن ملکوں کے جارحانہ عزائم ہوں یا دہشت گرد تنظمیں، پاک فوج ہی انھیں شکست دے سکتی ہے۔ پاکستان کے اندر امن و امان قائم کرنا پولیس کی ذمے داری ہے، پاکستان کی سیاسی و مذہبی جماعتیں یہ کام نہیں کرسکتیں، اس لیے سیاسی قیادت کو بھی وہی کام کرنا چاہیے، جس کے لیے وہ معرض وجود میں آئی ہیں۔


منفی سیاسی بیانیے نوجوانوں کے ذہنوں کو زہر آلود کرتے ہیں، خود پسند سیاسی بیانیہ ہتھیاروں سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے ۔ مخصوص ذہنیت رکھنے والے سوشل میڈیا ٹرولرز نے افواج اور شہداء کے بارے میں جو منفی باتیں کی ہیں، ان سے صرف فوجی خاندانوں اور شہداء کے لواحقین کی ہی دل آزاری نہیں ہوئی، بلکہ ساری قوم کا دل دکھا ہے۔

بدقسمتی سے حالیہ چند ماہ میں سوشل میڈیا ٹرولرز نے نفرت انگیز پروپیگنڈا پھیلانے کی انتہا کر رکھی ہے۔ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوںکی قیادت کو اس قسم کی حرکت کرنے والوں کی نہ صرف مذمت کرنی چاہیے بلکہ اگر کوئی سوشل میڈیا ٹرولر خود کو کسی پارٹی سے نتھی کرتا ہے تو اس سے علیحدگی کا اعلان کرنا چاہیے۔

اس امر کی تفہیم ضروری ہے کہ فوج نے اگر سیاسی معاملات کے ضمن میں غیر جانبدار اور غیر سیاسی رہنے کا کردار اختیار کیا ہے تو اسے سراہا جائے کیونکہ ملک کے آئین کا تقاضا بھی یہی ہے اور جمہوری کلچر بھی یہی سکھاتا ہے۔ قومی اداروں کو سیاسی یا ذاتی تنازعات کی زد میں لانا قومی مفاد کے منافی ہے۔ کسی بھی سیاسی جماعت کے سپورٹر یا چاہنے والے ایسا کرتے ہیں تو ان کے خلاف قانونی کارروائی ہونی چاہیے۔

ملک کو جس طرح فری فار آل کر دیا گیا ہے ، اس سے پاکستان کی ریاست اور ریاستی ادارے شدید خطرات سے دوچار ہیں۔ ہائیبرڈ وار کے نام پر کچھ حلقوں نے اپنی سیاسی مہمات کو کامیاب بنانے کے لیے بڑے پیمانے پر بھرتیاں کی تھیں اس مقصد کے لیے ریاستی وسائل کا استعمال بے دردی سے کیا گیا۔

یہ سوشل میڈیائی جنگجو ہر قسم کی اخلاقیات سے عاریہیں اور ان کا ایک ہی کام ہے کہ جھوٹ کو اتنا پھیلا دو کہ سچ کے بارے میں لوگ جان ہی نہ سکیں۔ جن کے پاس یہ اہلیت تھی کہ وہ سچ اور جھوٹ میں تمیز کر سکیں، ان کی ٹرولنگ کی گئی۔

سوشل میڈیا پر انھیں گالیاں دی گئیں اور مقصد صرف یہ تھا کہ وہ خاموش ہوکر بیٹھ جائیں اور کسی جگہ سے کوئی آواز نہ ابھرے۔ آپ صبح شام دن رات جھوٹ کی فصل بوتے رہیں گے تو جھوٹ کی فصل ہی تیار ہو گی۔ ایک خبر میں انکشاف کیا گیا ہے کہ خیبر پختونخواکی سابق حکومت نے ایک ہزار سے پندرہ سو نوجوانوں کوسوشل میڈیا انفلیونسر بھرتی کیا ہے،عمومی طور پر ان کی تنخواہ 25 ہزار روپے مقرر کی گئی۔

اگر یہ خبر درست ہے اور یہ سوشل میڈیا انفلیونسرز کسی مخصوص ایجنڈے پر مامور ہیں تو قانونی کارروائی ہونی چاہیے ۔ ایک ہی ہیش ٹیگ کو جب ایک وقت میں آٹھ سے دس ہزار لوگ پرموٹ کریں گے تو ٹرینڈ بنتے دیر نہیں لگتی ۔ آج کل ہم یہی دیکھ رہے ہیں۔

مکاری، ہوشیاری اور کینہ پروری کی تہیں آہستہ آہستہ اتر رہی ہیں اور اندر سے بھیانک چہرے برآمد ہو رہے ہیں۔ معاملہ صرف خیبر پختونخوا کا نہیں بلکہ وفاق اور پنجاب میں بھی ایسی بھرتیاں ہوئی ہوں گی ۔ اس پر ایک تحقیقاتی کمیشن قائم ہونا چاہیے جو اس بات کا کھوج لگا سکے کہ پڑھے لکھے نوجوان کو سرکاری وسائل فراہم کرکے اپنے مخصوص گروہی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا۔

پاکستانی ادارے،کاروباری طبقے، سماجی تنظیمیں اور میڈیا پرسنز کچھ وقت کے لیے بھول جائیں کہ پاکستان کے ارد گرد کیا ہو رہا ہے بلکہ صرف اس پر توجہ دے کہ ہمارے اندر کیا چل رہا ہے، اگر ہم اندرونی طور پر مضبوط ہوں گے تو بیرونی دشمن کو جرات نہیں ہوگی کہ وہ ہمارے ملک کے خلاف سازش کر سکیں۔ پاکستان کو معاشی طور پر جہاں کھڑا کر دیا گیا ہے، دنیا والے اب اس کا مذاق اڑاتے ہیں۔

اندر سے کھوکھلا پاکستان کیسے اپنی حفاظت کرے گا۔ اداروں کا کام ہے کہ وہ ان عناصر کے خلاف کارروائی میں ایک لمحے کی تاخیر نہ کریں جو اندر سے ملک کو کمزور کرنے کے ایجنڈے پر کار فرما ہیں۔ جہاں میٹھے بول بولنے سے کام ہو سکتا ہے وہاں اس حربے کو استعمال کیا جائے اور جہاں لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے والا معاملہ ہو وہاں اس کے مطابق عمل کرنا ضروری ہے۔

کچھ بے حس حلقوں کی جانب سے سوشل میڈیا انتہائی تکلیف دہ اور توہین آمیز مہم جوئی کی گئی، یہ بے حس اور موقع پرستانہ رویے ملک کے سیاست، معیشت اور معاشرت کے لیے زہر قاتل ہے ، سوشل میڈیا کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں ہے ،سوشل میڈیا برا بھی نہیں ہے۔

اس کے علمی فوائد بھی ہیں اور تفریحی سرگرمیاں بھی ہیں،سرکاری اداروں کا کام یہ کہ سوشل میڈیا پر متحرک ان لوگوں تک پہنچنا ہے جو ملک میں انتشار پھیلانے ، انتہاپسندی کو فروغ دینے ، دہشت گردوں کو گلوری فائی کرنے پر مامور ہیں۔ان لوگوں کو قانون کی گرفت میں لانا انتہائی ضروری ہے ،انھیں قانون کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے کیونکہ مسئلے کی جڑ سے بیخ کنی ہو گی تو ملک آگے بڑھے گا۔
Load Next Story