وطن کی فکر کر ناداں

عمران خان وزارتِ عظمیٰ سے محروم ہونے پر پارٹی ورکروں کا ردعمل ویسا ہی چاہتے تھے جیسا بینظیر بھٹو کے قتل پر ہوا تھا

zulfiqarcheema55@gmail.com

وہی ہوا جس کا خطرہ تھا،عالمی چوہدریوں کو ہماری جوہری قوت پہلے روز سے ہی کھٹکتی تھی۔ اب وہ اپنے دل کی بات زبان پر لے آئے ہیں۔ جونیئر افسر چاہے تردید کریںمگر وزیرِ خزانہ کی سینیٹ میں کی گئی تقریر کا واضح مطلب ہے کہ عالمی مہاجن ہمارے ایٹمی اور میزائل پروگرام کے بارے میں اپنی شرائط منوانا چاہتے ہیں۔

اس سلسلے میں پرائم منسٹر کو چاہیے کہ فوری طور پر پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلائیں اور تمام اداروں کے قائدین کا گرینڈ ڈائیلاگ منعقد کریں اور قوم کو اعتماد میں لے کر ایسا واضح اور دوٹوک جواب دیں جو قومی امنگوں کا مظہر ہو۔

1930سے 1947تک کے مسلم قائدین اور ہندو لیڈروں کا موازنہ کریں تو مسلم لیڈر کہیں زیادہ قد آور دکھائی دیتے ہیں۔ فکر و دانش میں علامہ اقبالؒ کے پائے کا کوئی فکری رہنما ہندوستان کیا پورے ایشیاء میں نہیں تھا، سیاسی میدان میں محمد علی جوہر، محمد علی جناح، نواب بہادر یار جنگ، لیاقت علی خان اور سردار عبدالرّب نشتر جیسی شخصیات تھیں جو اپنے اعلیٰ کردار اور اپنے مشن کے لیے لازوال وابستگی کے باعث بے پناہ مقبول تھیں۔

ان کا سب سے بڑا سرمایہ بے داغ کردار، مسلمانوں کے لیے بے پناہ اخلاص اور اپنے نظریے پر غیر متزلزل یقین تھا۔ انھیں اگر کوئی چیز سب سے زیادہ عزیز تھی تو وہ اپنا نہیں مسلمانوں کا مفاد تھا۔ یورپی مورخ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ بیسویں صدی میں محمد علی جناح ؒ کے کردار کی عظمت کو دنیا کا کوئی سیاستدان نہیں چھوسکا۔

پاکستان بننے کے فوراً بعد قائدؒ بیماری کے ہاتھوں چلے گئے اور ان کے جانشین لیاقت علی خان کو قتل کرا کے راستے سے ہٹادیا گیا۔

اس وقت کے فوجی جرنیلوں اور بیوروکریٹوں کے ناپاک گٹھ جوڑ (unholy alliance) نے ملک کے بانیوں پر پابندیاں لگاکر ملک کے ساتھ وہ کھلواڑ کیا کہ جمہوریت کی منزل کھوٹی ہوگئی اور مشرقی حصے کے شہری ہم سے بدظن ہوکر علیحدہ ہوگئے۔

ہمارے ساتھ آزاد ہونے والے ہمسایہ ملک کو کئی سالوں تک بانی لیڈروں کی قیادت اور رہنمائی حاصل رہی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ انھوں نے عسکری مداخلت کے راستے بند کردیے اور اپنے جمہوری، انتظامی اور عدالتی ادارے مستحکم کرلیے۔

کرپشن تو وہاں بھی کم نہیں، مگر انھوں نے دو کام ایسے کیے جس سے ان کی ترقی کا سفر جاری رہا،ایک تو انھوں نے احتساب کے ایسے ادارے قائم کرلیے جو بیرونی مداخلت اور دباؤ سے کافی حد تک پاک رہے اور دوسرا ان کے بانی لیڈروں نے سادگی کا چلن اختیار کیا اور اسی کلچر کو پروان چڑھایا۔ ستر کی دھائی کے بعد آنے والی قیادت کا موازنہ کیا جائے تو ہندوستان کی قیادت کا طرزِ زندگی سادہ اور نمود اور تعیش سے پاک ہے۔

وہ پاکستانی لیڈروں کی نسبت زیادہ محب وطن اور ملکی مفاد کے لیے زیادہ ایثار کا مظاہرہ کرنے والی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہوس پرست عسکری، سیاسی، عدالتی اور انتظامی لیڈروں نے مل کر ملک کو برباد کیا ہے، جب کہ ہمسایہ ملک کے سادہ طرزِ زندگی اختیار کرنے والے مخلص اور محب ِ وطن قائدین نے اپنے ملک کو دنیا کی پانچویں اکانومی بنادیا ہے۔

پچھلے کچھ دنوں سے لاہور اور اسلام آباد میں جو کچھ ہورہا ہے اور ریاست جس طرح بے توقیر ہورہی ہے ایسا کبھی کراچی میں بانی ایم کیو ایم کے پیروکار کیا کرتے تھے، ایک پارٹی کا سربراہ اپنی مقبولیت کی بناء پر ہر قسم کی جوابدہی سے استثناء چاہتا ہے، وہ زبان سے رُول آف لاء اور قانون کے سب پر ایک جیسے اطلاق کی باتیں کرتا ہے مگر عمل اس کے بالکل برعکس کرتا ہے ۔

اسلام آباد کی ایک عدالت نے ایک تاریخ پر عمران خان کو بلایا ، وہ پیش نہ ہوا، بار بار بلایا مگر وہ پھر بھی پیش نہیں ہوا۔ اس کے بعد عدالت نے قانون کے مطابق وارنٹ جاری کردیے۔ عدالت کے جاری کردہ وارنٹس کی تعمیل کرانے کے لیے اسلام آباد کا ڈی آئی جی اس کی رہائش گاہ پر پہنچا تو اس نے ورکرز کو بلاکر مزاحمت کی ہدایات دے دیں۔

چنانچہ ورکروں نے پولیس پر تشدد کیا اور پٹرول بم پھینکے۔ جس طرح کسی زمانے میں ماڈل ٹاؤن کے خاص علاقے کا کنٹرول ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کے پیروکار وں کے پاس ہوتا تھا۔ نائن زیرو کا کنٹرول بانی ایم کیو ایم کے عسکری ونگ کے پاس تھا۔

اسی طرح کئی مہینوں سے لاہور کے ایک اہم حصے کا کنٹرول پولیس یا انتظامیہ کے پاس نہیں بلکہ عمران خان کے جیالوں کے پاس ہے، زمان پارک کے دوسرے مکین سخت پریشان ہیںکہ ان کا گھروں کو آنا جانا مشکل ہوچکا ہے اور وہ یرغمال بن چکے ہیں۔

اندر کی خبر رکھنے والے لوگ بتاتے ہیں کہ عمران خان وزارتِ عظمیٰ سے محروم ہونے پر پارٹی ورکروں کا ردعمل ویسا ہی چاہتے تھے جیسا بینظیر بھٹو کے قتل پر ہوا تھا۔


اس وقت وہ اپنے پیروکاروں سے ناراض تھے مگر اب زمان پارک میں پولیس اور رینجرز پر پٹرول بم پھینکنے اور انھیں تشدد کرکے زخمی کرنے اور سرکاری گاڑیاں جلانے پر وہ خوش ہیں۔

ان کے پیروکاروں نے پولیس کی ایک گاڑی زمان پارک کے ساتھ بہنے والی نہر میں پھینک دی۔ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی اس کی تصویر پر مختلف کیپشن نظر آئے، زیادہ تر نے لکھا ہے''نہر میں ڈوبی ہوئی پولیس کی گاڑی نہیں پاکستان کا عدالتی نظام ہے'' کسی جھجھک کے بغیر نام لے کر بولا اور لکھا جارہا ہے کہ فلاں فلاں منصفین فلاں سیاسی لیڈر کے حامی اور facilitator بن گئے ہیں۔ بدقسمتی سے تمام ادارے ہی عوام کا اعتماد کھوچکے ہیں، میرٹ کے برعکس بھرتیاں اس کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ عدلیہ میں بھی تعیناتیوں کے طریقۂ کار میں فوری تبدیلی کے بارے میں بارہا لکھ چکا ہوں۔

بگاڑ اور انتشار میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے، جس سے ہماری لڑکھڑاتی ہوئی اکانومی کو ہر روز اربوں روپے کا نقصان پہنچ رہاہے۔

یوں لگتا ہے کہ ایک منصوبے کے تحت وطنِ عزیز کو برباد کیا جارہا ہے۔ ملک سے محبت کرنے والوں کے دل خون کے آنسو رورہے ہیں مگر وہ تشویش کا اظہار کرنے کے سوا کچھ کرنہیں سکتے۔ ملک میں اس وقت کوئی ایسی بلند قامت شخصیت نظر نہیں آتی جو آگے بڑھے اور تمام فریقوں کو ایک جگہ بیٹھنے پر آمادہ کرسکے۔

حکومتی وزراء کا یہ حال ہے کہ کچھ تو صرف جگت بازی سے کام لے رہے ہیں ، لگتا ہے انھیں صورتِ حال کی سنگینی کا ادراک نہیں ہے اور نہ ہی اُس ذمے داری کا احساس ہے جو اہلِ حکومت کی ہوتی ہے اور کچھ کے بارے میں سنا ہے کہ دیہاڑیاں لگارہے ہیں۔

عمران خان کی جانب desperation کا لیول خطرے کی حدوں کو چُھورہا ہے، وہ برّ صغیر کے واحد سیاسی لیڈر ہیں جو گرفتاری سے اس قدر ڈرتے ہیں، اس لیے وہ چاہتے ہیں کہ ایسا ماحول بنادیا جائے کہ ملک کے کسی ادارے اور کسی عدالت کو ان کے کسی فعل کے بارے میں پوچھنے کی جرأت نہ ہو۔ ماضی میں تینوں سابق وزرائے اعظم میاں نواز شریف، بینظیر بھٹو اور شاہد خاقان عباسی عدالتوں میں پیش ہوتے رہے اور بہادری کے ساتھ گرفتاری دیتے رہے مگر عمران خان لاؤلشکر کے بغیر کہیں بھی پیش ہونے کے لیے تیار نہیں اور گرفتاری سے بھی بے حد خوفزدہ ہیں۔

انھیں عسکری قیادت سے گلے ہیں کہ اس نے ان کی حکومت بچانے میں ان کی مدد کیوں نہیں کی، مگر وہ اسٹیبلشمنٹ کی سیاست میں مداخلت کے خلاف نہیں ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ وہ مرض جس نے جسدملت کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا اسی طرح لگا رہے، یعنی اسٹیبلشمنٹ مداخلت کرتی رہے مگر ان کی مدد کرتی رہے اور اب بھی آئین کی خلاف ورزی کرکے انھیں اقتدار دلادے۔ اس کے لیے پہلے انھوں نے ایٹری چوٹی کا زور لگایا کہ ایک خاص فرد سب سے بڑا عسکری عہدہ حاصل نہ کرسکے۔

اس میں ناکامی کے بعد وہ اقتدار کے لیے ایک بے حد خطرناک کھیل کھیلنے جارہے ہیںاور اس کے لیے وہ امریکا کی خوشنودی اور مدد حاصل کرنے کے لیے اس کا آلہ کار بننے کے لیے بھی تیار ہوگئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی حمایت میں وہ زلمے خلیل متحرک ہوگیا ہے جو پاکستان سے اتنا ہی بغض رکھتا ہے جتنا مودی رکھتا ہے اور جو مسلمانوں کا اتنا ہی بڑا مخالف ہے جتنا اسرائیل۔

یہ بات واضح ہے کہ حکومت عمران خان کو گرفتار کرنے سے ہچکچاتی ہے۔ ظاہر ہے کہ اگر عدلیہ سے ریلیف ملے گا تو اسے گرفتار کرنے کی حکومتی کوششیں غیر موثر ہوجا ئیں گی۔

غالباً اسی لیے حکومت اس پر سخت ہاتھ ڈالنے اور موثر کاروائی کرنے سے گریزاں ہے، مگر بڑھتے ہوئے انتشار، روزانہ کے دھرنوں اور راستوں کی بندش کے باعث شہری عذاب میں مبتلا ہیں اور ہماری لرزتی ہوئی اکانومی کو ہر روز اربوں کا نقصان ہورہا ہے۔ان حالات میں وزیرِ اعظم کو چاہیے کہ وہ statesman بن کر اپنے سیاسی حریف کو کچل دینے کے مشوروں کو مسترد کرکے اسے مذاکرات کی دعوت دیں۔

فوری طور پر گرینڈ ڈائیلاگ منعقد کرنے کی اشد ضرورت ہے، ایسا ڈائیلاگ جس میں تمام اسٹیک ہولڈرز یعنی عمران خان اور نوازشریف سمیت عسکری اور عدالتی قیادت بھی شریک ہو۔ جس میں پی ٹی آئی کو شامل کرکے قومی حکومت بنانے کا آپشن بھی زیرِ بحث آئے اور جولائی، اگست میں الیکشن کا بھی۔ اس میں رکاوٹیں دور کرنے کا واضح روڈ میپ دیا جائے ۔

عمران خان کو بھی چاہیے کہ اسٹیبلشمنٹ سے مدد مانگنے اور امریکا کی خوشنودی حاصل کرنے کے بجائے ملک کے اندر سیاسی قوتوں کے ساتھ بیٹھ کر مذاکرات کرے اور اپنی ذات کے بجائے ملک اور پسے ہوئے عوام کو اہمیت دے۔

وطن کی فکر کر ناداں، مصیبت آنے والی ہے

تری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں
Load Next Story