2022 سندھ میں کاروکاری کے الزام میں 152 خواتین اور 65 مرد قتل

کاروکاری کی واقعات میں ریکارڈ اصافہ، شمالی سندھ خواتین کیلیے مقتل گاہ بن گیا،روک تھام کیلیے اسپیشل فورس بنانے کامطالبہ

زیادہ واقعات جیکب آبادمیں ہوئے، دیہی علاقوں میں تعلیم کی کمی سے ایسے واقعات ہو رہے ہیں، سندھ سھائی آرگنائزیشن (فوٹو فائل)

سندھ میں کارو کاری کی واقعات میں ریکارڈ اصافہ ، شمالی سندھ خواتین کیلیے مقتل گاہ بن گیا، سندھ میں2022 میں نام نہاد غیرت کے نام کارو کاری الزام میں 152 خواتین اور 65 مردوں کو قتل کردیا گیا۔

سندھ میں کارو کاری کی روک تھام اور خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی سماجی تنظیم سندھ سھائی آرگنائزیشن کے رہنماؤں نے کاروکاری واقعات کی روک تھام کیلیے اسپیشل فورس بنانے کا مطالبہ کر دیا۔

سندھ سھائی آرگنائزیشن کی چیئرپرسن ڈاکٹر عائشہ حسن دھاریجو نے جسٹس(ر)ماجدہ رضوی، انیس ہارون ، انیتا پنجوانی، فہمیدہ ریاض سمیت دیگر کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ سندھ میں خواتین کو بھیڑ بکریوں کی طرح قتل کیا جا رہا ہے۔ 2022 میں کارو کاری کے واقعات میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے ایسے لگ رہا ہے جیسے دیہی خواتین کی نسل کشی ہو رہی ہو۔

ڈاکٹر عائشہ دھاریجوکا کہنا تھا کہ 2022 میں 152 خواتین کو کارو کاری الزام میں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا جبکہ 65 مردوں کو بھی قتل کیا گیا ہے مجموعی طور پر 217 انسانوں کو نام نہاد غیرت کے نام پر قتل کردیا گیا ہے۔


کارو کاری واقعات ضلع جیکب آباد میں سب زیادہ ہوئے ہیں، 12 ماہ میں جیکب آباد ضلعے کے اندر 20 خواتین اور 16 مردوںکو قتل کردیا گیا ہے، دوسرے نمبر پر کشمور ہے جہاں پر21خواتین اور6 مردوں کو قتل کردیا گیا ہے ، اس ہی طرح تیسرے نمبر گھوٹکی ضلع ہے جہاں پر 16 خواتین اور 7 مردوں سے جینے کا حق چھین لیا گیا ہے۔

ڈاکٹر عائشہ حسن دھاریجو کا مزید کہنا تھا کہ چوتھے نمبر پر شکار پور ضلع ہے، جہاں پر 13 خواتین 3 اور مردوں کی جانیں ضائع ہوئیں، پانچویں نمبر پر لاڑکانہ ضلع میں 9 خواتین اور 5 مردوں کو قتل کیا گیا۔

چیئرپرسن سندھ سھائی آرگنائزیشن ڈاکٹر عائشہ حسن دھاریجو نے کہا کہ دیہی علاقوں میں تعلیم کی کمی وجہ سے ایسے واقعات پیش آرہے ہیں یہ ہمارے لیے سوچنے کا مقام ہے، ہم پانچ سال سے کارو کاری پر کام کررہے ہیں کبھی اتنے قتل نہیں ہوئے ، 2022 میں ریکارڈ اصافہ ہوا ہے۔

انھوں نے کہا کہ اب تو ایسے محسوس ہو رہا ہے جیسے دیہی خواتین کی نسل کشی کی جا رہی ہو ، یہ صرف کارو کاری کے واقعات ہیں ، قبائلی جھگڑوں میں نہ جانے کتنی خواتین قتل ہوئی ہیں،سندھ حکومت کیا کررہی ہے ؟، دیہی علاقوں میں وڈیروں نے اپنی عدالتیں لگائی ہوئی ہیں، کارو کاری کے بعض واقعات میں تو ملزمان گرفتار بھی نہیں ہوتے۔
Load Next Story