ممنوعہ فنڈنگ عمران خان کی ضمانت منسوخ کرنے کی ایف آئی اے کی درخواست مسترد
ایف آئی اے نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں بینکنگ کورٹ کے فیصلے کیخلاف درخواست دائر کی تھی
ہائیکورٹ نے ممنوعہ فنڈنگ کیس میں پاکستان تحریک اںصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کی ضمانت منسوخ کرنے کی ایف آئی اے کی درخواست مسترد کر دی۔
جسٹس محسن اختر کیانی اور جسٹس طارق محمود جہانگیری نے محفوظ فیصلہ سنایا۔ عدالت نے شریک ملزم طارق شفیع کی ضمانت منسوخ کرنے کی درخواست بھی مسترد کر دی۔
وفاقی تحقیقاتی ادارے ( ایف آئی اے) نے پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کی ضمانت منظوری کے حوالے سے 28 فروری کو بینکنگ کورٹ کے فیصلے کے خلاف اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔ درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ اسپیشل کورٹ کا فیصلہ خلاف قانون ہے ۔ بینکنگ کورٹ کا فیصلہ کلعدم قرار دے کر عمران خان کی ضمانت منسوخ کی جائے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی اور جسٹس طارق محمود جہانگیری نے درخواست کی سماعت کی۔ ایف آئی اے کے اسپیشل پراسیکیوٹررضوان عباسی موقف اختیار کیا کہ عمران خان تاحال شامل تفتیش نہیں ہوئے۔ عبوری ضمانت منظور کیے جانے کا بینکنگ کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جائے۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ ایف آئی آر میں جو الزامات ہیں وہ تو عارف نقوی پر ہیں۔ عمران خان یا تحریک انصاف تو رقوم وصول کرنے والے ہیں۔
وکیل ایف آئی اے نے کہا کہ عمران خان نے ایک انٹرویو میں کہا کہ یہ چیئرٹی رقوم ہیں لیکن یہ سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کی گئیں۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے استفسار کیا کہ رقوم اگر سیاسی جماعت کے استعمال کی گئی ہیں تو ذاتی مقاصد کیسے ہوگئے ؟ جس پرایف آئی اے کے وکیل نے کہا کہ چیئرٹی کی رقم کو کسی دوسرے کے غیر ملکی اکاؤنٹ کے ذریعے بھیجنا جرم ہے۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ اسٹیٹ بینک کا وہ خط دکھائیں جو آپ کو دوران تفتیش ملا ہے۔آپ نے تفتیش میں اسٹیٹ بینک کا بندہ شامل ہی نہیں کیا۔ کسی بینک اکاؤنٹ کا نام تبدیل کرنا کوئی جرم تو نہیں۔ کیا اسٹیٹ بینک نے نام یا نیچر آف اکاؤنٹ تبدیل کرنے پر کوئی کارروائی کی ؟
ایف آئی اے کے وکیل نے جواب دیا کہ وہ تو کریں گے۔ یو بی ایل بینک کا متعلقہ ریکارڈ ہی غائب ہے۔ اسٹیٹ بینک سے تحریری جواب مانگا تھا جو انہوں نے فراہم کردیا۔ اسٹیٹ بینک کو 161 کے بیان میں شامل نہیں کیا گیا۔
عدالت نے کہا کہ ریکارڈ تو بینک کی ذمہ داری ہے پی ٹی آئی والے تونہیں لے گئے نا۔ کیا نیچر آف اکاؤنٹ تبدیل کرنے کے فارم پر عمران خان نے دستخط کئے ؟
وکیل ایف آئی اے نے کہا کہ یونس علی ، طارق شفیع اور سردار اظہر طارق نے دستخط کئے۔ یہ وائٹ کالر کرائم ہے۔ ہم نے کافی چیزوں پر تفتیش کرنی ہے۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ یہ تو اکاؤنٹ تبدیل ہی نہیں ہوا ۔ فارم میں تو تفصیلات کچھ اور ہیں۔ یہ سارا کیس اسٹیٹ بینک کی ریگولیشن میں آتا ہے۔ عمران خان کا طارق شفیع سے کیا تعلق ہے ؟ عمران خان کون سے پیسے نکلواتے رہے ہیں؟ اس اکاؤنٹ کا دستخط کنندہ کون ہے ؟ یہ اکاؤنٹ تو تحریک انصاف کا ہے تو تحریک انصاف کی کمیٹی نے چلانا ہے۔ عمران خان بینفشری کیسے ہوگئے؟
راجہ رضوان عباسی نے جواب دیا کہ عمران خان پارٹی کے چیئرمین ہیں اور وہی بینفشری ہیں۔
جسٹس محسن اختر کیانی اور جسٹس طارق محمود جہانگیری نے محفوظ فیصلہ سنایا۔ عدالت نے شریک ملزم طارق شفیع کی ضمانت منسوخ کرنے کی درخواست بھی مسترد کر دی۔
وفاقی تحقیقاتی ادارے ( ایف آئی اے) نے پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کی ضمانت منظوری کے حوالے سے 28 فروری کو بینکنگ کورٹ کے فیصلے کے خلاف اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔ درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ اسپیشل کورٹ کا فیصلہ خلاف قانون ہے ۔ بینکنگ کورٹ کا فیصلہ کلعدم قرار دے کر عمران خان کی ضمانت منسوخ کی جائے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی اور جسٹس طارق محمود جہانگیری نے درخواست کی سماعت کی۔ ایف آئی اے کے اسپیشل پراسیکیوٹررضوان عباسی موقف اختیار کیا کہ عمران خان تاحال شامل تفتیش نہیں ہوئے۔ عبوری ضمانت منظور کیے جانے کا بینکنگ کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جائے۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ ایف آئی آر میں جو الزامات ہیں وہ تو عارف نقوی پر ہیں۔ عمران خان یا تحریک انصاف تو رقوم وصول کرنے والے ہیں۔
وکیل ایف آئی اے نے کہا کہ عمران خان نے ایک انٹرویو میں کہا کہ یہ چیئرٹی رقوم ہیں لیکن یہ سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کی گئیں۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے استفسار کیا کہ رقوم اگر سیاسی جماعت کے استعمال کی گئی ہیں تو ذاتی مقاصد کیسے ہوگئے ؟ جس پرایف آئی اے کے وکیل نے کہا کہ چیئرٹی کی رقم کو کسی دوسرے کے غیر ملکی اکاؤنٹ کے ذریعے بھیجنا جرم ہے۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ اسٹیٹ بینک کا وہ خط دکھائیں جو آپ کو دوران تفتیش ملا ہے۔آپ نے تفتیش میں اسٹیٹ بینک کا بندہ شامل ہی نہیں کیا۔ کسی بینک اکاؤنٹ کا نام تبدیل کرنا کوئی جرم تو نہیں۔ کیا اسٹیٹ بینک نے نام یا نیچر آف اکاؤنٹ تبدیل کرنے پر کوئی کارروائی کی ؟
ایف آئی اے کے وکیل نے جواب دیا کہ وہ تو کریں گے۔ یو بی ایل بینک کا متعلقہ ریکارڈ ہی غائب ہے۔ اسٹیٹ بینک سے تحریری جواب مانگا تھا جو انہوں نے فراہم کردیا۔ اسٹیٹ بینک کو 161 کے بیان میں شامل نہیں کیا گیا۔
عدالت نے کہا کہ ریکارڈ تو بینک کی ذمہ داری ہے پی ٹی آئی والے تونہیں لے گئے نا۔ کیا نیچر آف اکاؤنٹ تبدیل کرنے کے فارم پر عمران خان نے دستخط کئے ؟
وکیل ایف آئی اے نے کہا کہ یونس علی ، طارق شفیع اور سردار اظہر طارق نے دستخط کئے۔ یہ وائٹ کالر کرائم ہے۔ ہم نے کافی چیزوں پر تفتیش کرنی ہے۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ یہ تو اکاؤنٹ تبدیل ہی نہیں ہوا ۔ فارم میں تو تفصیلات کچھ اور ہیں۔ یہ سارا کیس اسٹیٹ بینک کی ریگولیشن میں آتا ہے۔ عمران خان کا طارق شفیع سے کیا تعلق ہے ؟ عمران خان کون سے پیسے نکلواتے رہے ہیں؟ اس اکاؤنٹ کا دستخط کنندہ کون ہے ؟ یہ اکاؤنٹ تو تحریک انصاف کا ہے تو تحریک انصاف کی کمیٹی نے چلانا ہے۔ عمران خان بینفشری کیسے ہوگئے؟
راجہ رضوان عباسی نے جواب دیا کہ عمران خان پارٹی کے چیئرمین ہیں اور وہی بینفشری ہیں۔