کوہ سلیمان بارشیں ڈی جی خان کے مضافات ڈوبنے کا خطرہ شہباز ایئر بیس سے نفری کا انخلا شروع
سیلابی پانی سے جیکب آباد ڈوبنے کا خطرہ،کندھ کوٹ میں تباہی، نصیرآباد سے مزید 10 لاشیں ملیں، ہلاکتوں کی تعداد 86 ہو گئی
کوہ سلیمان پر شدید بارشوں کا سلسلہ پھر شروع ہوگیا جس کے نتیجے میں رود کوہیاں دوبارہ بٖپھر گئیں۔
انتظامیہ کی طرف سے چوٹی سمیت دیگر علاقوں کے مکینوں کو محفوظ مقام پر منتقل ہونے کی ہدایت کر دی گئی، بلوچستان کے پہاڑی علاقوں سے آنے والے سیلابی ریلوں سے جیکب آباد شہر کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے، نصیرآباد میں سیلابی ریلے سے مزید 10 لاشیں ملیں، جسکے بعد مرنے والوں کی تعداد 86 ہو گئی۔ تفصیلات کے مطابق رود کوہیوں کی وجہ سے ڈیرہ غازی خان کے مضافات ایک بار پھر ڈوبنے کا اندیشہ ہے جبکہ ڈی جی کینال کے پُر کیے گئے شگاف کو بھی خطرہ ہے، رود کوہی سوری لُنڈ کے پانی نے نوتک پاڑہ کے علاقوں میں تباہی پھیلاتے ہوئے متعدد بستیوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور مکینوں کے مطابق پانی کالا شہر کے نزدیک پہنچ گیا۔
تحصیل کوٹ چھٹہ کے اسسٹنٹ کمشنر نے چوٹی اور دیگر علاقوں کی رود کوہیوں کے نزدیک آبادیوں کو محفوظ مقام پر منتقل ہونے کی ہدایت کردی۔ ڈسٹرکٹ کوآرڈی نیشن آفیسر غازی امان اللہ خان کے مطابق ضلع راجن پور کے رودکوہیوں کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں زمینی راستوں کو بحال کر دیا گیا ہے۔ تحصیل روجھان کے علاقہ لال گڑھ کا زمینی راستہ عارضی پل بنا کر بحال کر دیا گیا ہے جس سے وہاں کی زندگی معمول کی جانب لوٹ رہی ہے۔ ادھر سندھ کے علاقے کشمور میں تنگوانی شاخ میں پچاس فٹ چوڑا شگاف پڑنے سے متعدد دیہات زیر آب آ گئے اور پانی شہر کی جانب بڑھ رہا ہے جسکے باعث شہریوں نے نقل مکانی شروع کر دی۔ اوباڑو کے قریب سیم نالے میں شگاف پڑنے سے رونتی روڈ زیر آب آ گیااور رونتی اور اوباڑو شہر کا رابطہ منقطع ہو گیا۔
بدین میں برساتی پانی نہ نکالے جانے کے خلاف گلارچی کے وارڈ تین اورجاکھرہ کالونی کے رہائشیوں نے پریس کلب کے باہر احتجاج کیا۔ خیر پور میں پیر کوکو اورشاری شہید کے پہاڑوں کے ندی نالوں میں طغیانی برقرار ہے جس سے مزید چالیس دیہات زیر آب آ گئے، سیکڑوں افراد اب بھی سیلابی ریلے میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ثنا نیوز کے مطابق سیلابی پانی شہباز ایئر بیس اور شہر کی طرف بڑھ رہا ہے جس پر ایئر بیس سے نفری کا انخلا شروع کر دیا گیا ہے اورطیارے اڑان کیلیے تیار ہیں۔ دوسری جانب سیلابی ریلا کندھ کوٹ کے اکثر دیہات کو ڈبوتا ہوا تنگونی میں داخل ہوا اور بدترین تباہی پھیلادی۔
شہر میں پہلے ہی سات سات فٹ پانی موجود تھا۔ تنگوانی نہرمیں پچاس فٹ شگاف بھی پڑگیا جس سے صورتحال ابتر ہوگئی اور لوگوں کو انڈس ہائی وے پر پناہ لینا پڑی۔ کندھ کوٹ اور تنگوانی ریلوے ٹریک مکمل طور پر ڈوب گئے ہیں۔ نصیرآباد میں سیلابی ریلے سے مختلف مقامات سے 10 لاشیں ملیں ہوئیں، مرنے والوں کی تعداد 86 ہو گئی ہے۔
انتظامیہ کی طرف سے چوٹی سمیت دیگر علاقوں کے مکینوں کو محفوظ مقام پر منتقل ہونے کی ہدایت کر دی گئی، بلوچستان کے پہاڑی علاقوں سے آنے والے سیلابی ریلوں سے جیکب آباد شہر کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے، نصیرآباد میں سیلابی ریلے سے مزید 10 لاشیں ملیں، جسکے بعد مرنے والوں کی تعداد 86 ہو گئی۔ تفصیلات کے مطابق رود کوہیوں کی وجہ سے ڈیرہ غازی خان کے مضافات ایک بار پھر ڈوبنے کا اندیشہ ہے جبکہ ڈی جی کینال کے پُر کیے گئے شگاف کو بھی خطرہ ہے، رود کوہی سوری لُنڈ کے پانی نے نوتک پاڑہ کے علاقوں میں تباہی پھیلاتے ہوئے متعدد بستیوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور مکینوں کے مطابق پانی کالا شہر کے نزدیک پہنچ گیا۔
تحصیل کوٹ چھٹہ کے اسسٹنٹ کمشنر نے چوٹی اور دیگر علاقوں کی رود کوہیوں کے نزدیک آبادیوں کو محفوظ مقام پر منتقل ہونے کی ہدایت کردی۔ ڈسٹرکٹ کوآرڈی نیشن آفیسر غازی امان اللہ خان کے مطابق ضلع راجن پور کے رودکوہیوں کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں زمینی راستوں کو بحال کر دیا گیا ہے۔ تحصیل روجھان کے علاقہ لال گڑھ کا زمینی راستہ عارضی پل بنا کر بحال کر دیا گیا ہے جس سے وہاں کی زندگی معمول کی جانب لوٹ رہی ہے۔ ادھر سندھ کے علاقے کشمور میں تنگوانی شاخ میں پچاس فٹ چوڑا شگاف پڑنے سے متعدد دیہات زیر آب آ گئے اور پانی شہر کی جانب بڑھ رہا ہے جسکے باعث شہریوں نے نقل مکانی شروع کر دی۔ اوباڑو کے قریب سیم نالے میں شگاف پڑنے سے رونتی روڈ زیر آب آ گیااور رونتی اور اوباڑو شہر کا رابطہ منقطع ہو گیا۔
بدین میں برساتی پانی نہ نکالے جانے کے خلاف گلارچی کے وارڈ تین اورجاکھرہ کالونی کے رہائشیوں نے پریس کلب کے باہر احتجاج کیا۔ خیر پور میں پیر کوکو اورشاری شہید کے پہاڑوں کے ندی نالوں میں طغیانی برقرار ہے جس سے مزید چالیس دیہات زیر آب آ گئے، سیکڑوں افراد اب بھی سیلابی ریلے میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ثنا نیوز کے مطابق سیلابی پانی شہباز ایئر بیس اور شہر کی طرف بڑھ رہا ہے جس پر ایئر بیس سے نفری کا انخلا شروع کر دیا گیا ہے اورطیارے اڑان کیلیے تیار ہیں۔ دوسری جانب سیلابی ریلا کندھ کوٹ کے اکثر دیہات کو ڈبوتا ہوا تنگونی میں داخل ہوا اور بدترین تباہی پھیلادی۔
شہر میں پہلے ہی سات سات فٹ پانی موجود تھا۔ تنگوانی نہرمیں پچاس فٹ شگاف بھی پڑگیا جس سے صورتحال ابتر ہوگئی اور لوگوں کو انڈس ہائی وے پر پناہ لینا پڑی۔ کندھ کوٹ اور تنگوانی ریلوے ٹریک مکمل طور پر ڈوب گئے ہیں۔ نصیرآباد میں سیلابی ریلے سے مختلف مقامات سے 10 لاشیں ملیں ہوئیں، مرنے والوں کی تعداد 86 ہو گئی ہے۔