پشاور ریڈیو اور پشتو زبان

ادب وثقافت سے متعلق اور بہت سے محکمے اور ادارے تو صوبے سے فرار ہوچکے ہیں

barq@email.com

پہلے اس قیدی کا لطیفہ سنئے جو جیل میں قسطوں میں فرار ہو رہا تھا، ہوا یوں کہ پہلے ایک قیدی کے دانتوں میں کوئی تکلیف ہوگئی تو اسپتال میں اس کے سارے دانت نکال لیے گئے، کچھ عرصے کے بعد اپینڈکس ہوا تو اپینڈکس نکال لیا، پھر کچھ عرصے بعد تلی بھی نکال لی گئی،پھر کہیں سے گرکر وہ زخمی ہوا تو ٹانگیں کاٹ دی، آخر کار اس کے ہاتھوں کو بھی کوئی عارضہ ہوگیا تو ڈاکٹر نے جیلرسے کہا کہ اس کے ہاتھ بھی کاٹنا پڑیں گے۔

جیلرکافی عرصہ چپ رہا، پھر ڈاکٹر سے بولا ،ڈاکٹر صاحب مجھے کیوں ایسا لگ رہاہے کہ یہ قیدی قسطوں میں جیل سے فرار ہورہاہے ۔اوریہ بات ہمیں ریڈیو پشاورکی سالگرہ کے موقع پر ہونے والی تقریب میں یاد آگئی۔

ادب وثقافت سے متعلق اور بہت سے محکمے اورادارے تو صوبے سے فرار ہوچکے ہیں صرف حسب ضرورت اس کے وزیر اورعملہ ہی یہاں مقیم ہے ،عملہ تو ایک ماہ کام نہ کرنے کامعاوضہ وصول کرنے آتاہے اوروزیرصرف بیانات کادھندہ چلاتاہے ۔

یہ ریڈیو اسٹیشن نہ جانے کیوں ابھی تک موجود رہاہے کیوںکہ کام تو سارا اسلام آباد سے ہوتا دکھائی دیتاہے یہاں کا عملہ نہ جانے کیاکرتا رہتاہے حالانکہ یہ اسٹیشن جب انگریزوں نے قائم کیا تھا تو اس وقت صرف دہلی اور پشاورکے اسٹیشن تھے اور پشاورکااسٹیشن خالص پشتو اورپشتونوں کے لیے تھا۔

انگریزتو ہوشیار اور تجربہ کارلوگ تھے اور وہ جانتے تھے کہ پشاورسنٹر کے حلقہ سماعت کے لوگ صرف پشتو جانتے ہیں اورلٹریسی کم ہونے کی وجہ سے صرف ریڈیو ہی ان کی آگاہی کاذریعہ ہے چنانچہ سارے پروگرام پشتو ہی میں ہوتے تھے لیکن پھر۔

آیا وہ زمانہ جب جہاں میں جام نکلے

دیسی انگریزوں کا زمانہ آگیا،اس لیے پشتوکھٹنکے لگی،اوراب یہ بھی وقت ہے کہ ریڈیوکی سالگرہ کا پروگرام ہوتا ہے تو اس میں پشتو نام کو بھی نہیں ہوتی،اس اسٹیشن نے بڑے بڑے براڈ کاسٹر اورنابغہ روزگار قسم کے فن کار پیداکیے ہیں۔


اس کی بنیاد انیس سو پینتیس میں اسلم خٹک نے ڈالی تھی اورسارا ریڈیواسٹیشن ایک خیمے پر مشتمل تھا اوراس نے عوام کو اتنا گرویدہ بنا لیاتھا کہ سارے کام چھوڑ کر ریڈیوکے گرد بیٹھ جاتے تھے اورریڈیو کاکہاہوا مستند مانا جاتا تھا۔ لیکن اس سال گرہ والے پروگرام میں ہم نے دیکھا کہ ایک تو پشتو کا نام ونشان نہیں تھا بلکہ ان لوگوں کابھی کہیں ذکر نہ تھا۔

جنہوں نے اس اسٹیشن کو دل وجگر کاخون دے کر بہترین ریڈیو اسٹیشن بنایا ۔میرا خیال ہے کہ اب اس اسٹیشن سے ''پشاور'' کا نام بھی ہٹادیاجائے ،ارے ہاں ہم تو بھول گئے پھر یہ جو نکھٹواس میں بھرے گئے ہیں وہ کہاں جائیںگے، دوسرے اسٹیشنوں میں تو کام بھی دیکھا جاتاہے اورٹیلنٹ بھی ۔

ہمیں یاد ہے کہ بھٹو کے وقت میں یہ فیصلہ کیاگیا تھا کہ پشاورمیں ساٹھ فیصد پشتو کے پروگرام ہوں گے باقی چالیس فی صد پروگرام ہندکو،دوسری علاقائی زبانوں بشمول اردو کے ہوں گے۔

لیکن آج کل پشتو کے پروگرام دس فی صد کے قریب رہ گئے ہیں اورنوے فی صد دوسری زبانوں کے پروگرام ہیں بلکہ جس سالگرہ کا ہم نے ذکر کیاہے جو گزشتہ دنوں برپا ہوئی ہے، وہ معیار میںچائے کی پیالی میں طوفان جیسی تھی ، اس سے اندازہ ہوگیا کہ پشتو بہت جلد ایک فی صد پر آجائے گی،مکمل طورپر ختم ہونے سے پہلے ۔

اب یہ پتہ لگانا مشکل ہے کہ یہ تعصب ہے، نااہلی ہے،لاعلمی ہے یا پشتو بولنے والوں پروا ہی نہیں ہے ۔ ایسا لگتاہے جیسے اس ہمارے صوبے سے سارے پشتو بولنے والے کہیں نقل مکانی کرگئے ہوں یا کہیں اور سے دیگر زبانیں بشمول اردو والے آکر ہمارے صوبے میں بس گئے ہوں ،حالانکہ دوسرے ممالک سے جو پشتو کی نشریات ہوتی ہیں۔

وہ روزبروزبڑھ رہی ہیں، شاید یہ افغانستان میں پشتو بولنے والے کے لیے ہوں، وائس آف امریکا ،بی بی سی،ماسکو، وائس آف جرمنی ، وائس آف امریکا کے تو تین الگ الگ پروگرام چلتے ہیں۔ ریڈیو ''ڈیوہ'' ریڈیومشال اورٹی وی ڈیوہ اوراپنا ریڈیو جو دنیا میں پہلی بار پشتو میں شروع کیاگیاتھا، اب اس کے بارے میں کوئی جانتابھی نہیں کہ ہے بھی یانہیں۔

خدابخشے بہت سی خوبیاں تھیں مرنے والے میں۔
Load Next Story