کیا پاکستانی نوجوان ملک کے مستقبل سے مایوس ہو رہے ہیں
رائے عامہ کے ایک جائزے کے مطابق پاکستان چھوڑنے کی خواہش رکھنے والے نوجوانوں میں غیر معمولی اضافہ ہو رہا ہے
نوجوان طبقہ کسی بھی معاشرے کی قوت ہوتا ہے، اسی کے دم قدم سے زندگی کی لہر دوڑتی ہے، یہی ترقی و خوشحالی کا سب سے بڑا عنصر ہوتا ہے۔
کوئی ان معاشروں کا جائزہ لے جہاں یہ طبقہ کم تعداد میں ہوتا ہے اور پھر وہاں اس کمی کے اثرات کیا مرتب ہوتے ہیں۔ جس معاشرے میں بچے اور بوڑھے بڑھ جائیں ، وہاں غربت اور اس قسم کے دیگر مسائل کی بھرمار ہوتی ہے مثلاً براعظم افریقہ میں 15سال سے کم عمر بچوں کی شرح 40 فیصد اور 65 سال سے زائد عمر کے بزرگوں کی شرح تین فیصد ہے ۔ مجموعی طور پر ان کی شرح 43 فیصد ہے۔
اس کے برعکس یورپ میں پندرہ سال سے کم عمر اور پینسٹھ برس سے زائد عمر والوں کی شرح محض 35 فیصد ہے ۔ شمالی امریکا میں بھی35 فیصد ، ایشیا میں 34 فیصد ، لاطینی امریکا میں بھی یہی شرح ہے۔ اب ان اعدادوشمار کی روشنی میں ان معاشروں کے حالات پر غور کریں تو آپ پر اسباب واضح ہو جائیں گے۔
پاکستان میں 64 فیصد آبادی کی عمر 30 برس سے کم ہے ۔ ہر سال 40 لاکھ نوجوان روزگار کی عمر میں داخل ہوتے ہیں جن میں سے صرف 39 فیصد کو روزگار نصیب ہوتا ہے ۔ تقریباً نصف پاکستانی نوجوانوں کے پاس تعلیم ہے نہ ہی روزگار اور نہ ہی انھیں کوئی ٹریننگ ملتی ہے۔
ایسے میں انھیں پاکستان میں رہتے ہوئے اپنا مستقبل تاریک نظر آتا ہے ۔ وہ بیرون ملک جانے کے خواب دیکھنا شروع کردیتے ہیں ، چاہے وہ غیر ملک اٹلی یا ایسا ہی کوئی دوسرا ملک کیوں نہ ہو ، جو خود معاشی بحرانوں کا مسلسل شکار ہے۔
تاہم پاکستان چھوڑنے کے خواب دیکھنے والے کہتے ہیں کہ معاشی بحرانوں میں گھرے غیر ملک بھی پاکستان سے بہتر ہی ہوں گے ۔ یہی وجہ ہے کہ پچھلے برسوں سے نوجوانوں میں ملک چھوڑ کر بیرون ملک جانے کا رجحان زور پکڑتا جا رہا ہے۔ سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ پڑھے لکھے اور ہنر مند نوجوان بھی ملک میں رہنے کو تیار نہیں ہیں۔ وہ بھی حالات سے سخت مایوس ہو رہے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ آخر کیوں؟ ان کی مایوسی سے پاکستان کو کیا نقصان پہنچ رہا ہے ؟ اور ان کی مایوسی کا علاج کیا ہے؟
' برین ڈرین' کیوں ہو رہا ہے ؟
اگر آپ جاننا چاہتے ہیں کہ برین ڈرین کیوں ہو رہا ہے اور ہمارے لوگ یورپ و دیگر ممالک میں جا کر دوسرے درجے کا شہری کیوں بننا پسند کر رہے ہیں ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ پاکستان میں 'برین ڈرین' 1950ء ہی سے شروع ہے ۔ ملک کے ذہین پروفیشنلز لوگ بلند معیار زندگی کی خاطر دوسرے ملکوں کی شہریت لیتے ہیں یا پھر دوسرے درجے کا شہری بننا قبول کر لیتے ہیں جس کی بنیادی وجہ زیادہ آمدن کے ساتھ بچوں کا محفوظ مستقبل ، دنیا بھر میں سفر کی سہولیات، سوشل سکیورٹی وغیرہ شامل ہیں ۔
دنیا کے تمام معاشروں میں اس قسم کا برین ڈرین ہوتا ہے ۔ کہیں کم اور کہیں زیادہ ۔ بعض حکومتیں اپنے لوگوں کو بیرون ملک بھیج کر فخر کا اظہار کرتی ہیں کہ اس انداز میں ملک میں زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہو گا ۔ یہ بات درست ہے ، یقیناً زرمبادلہ میں اضافہ ہوتا ہے، ہنر مند طبقہ سرپلس ہو جائے تو اسے بیرون ملک جانا ہی چاہیے لیکن اگر معاشرے کے سارے ہنرمند دوسرے معاشروں میں چلے جائیں تو اس معاشرے کے پلے کیا رہ جائے گا؟
حالیہ ایک سروے کے مطابق ہمارے پاسپورٹ ڈائریکٹوریٹ کو2021 ء سے ایک خطرناک رجحان دیکھنے کو ملا ۔ رجحان یہ ہے کہ ہمارا پاسپورٹ ڈائریکٹوریٹ پہلے پاکستان اور بیرون ممالک میں روزانہ کم و بیش 20 ہزار پاسپورٹ بناتا تھا لیکن گزشتہ سال سے یہ تعداد بڑھ کر 30 ہزار روزانہ تک پہنچ گئی ہے ۔
پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس (PIDE) کی ایک رپورٹ کے مطابق روزانہ بڑی تعداد میں نوجوان پاسپورٹ کے حصول کے لئے درخواستیں جمع کرارہے ہیں ۔ پاسپورٹ بنوانے والوں میں زیادہ تر نوجوان ہوتے ہیں ۔
اعداد و شمار کے مطابق صرف 2022ء میں سات لاکھ 65 ہزار لوگ پاکستان چھوڑ کر دیگر ممالک میں چلے گئے ہیں ۔ ان میں ڈاکٹرز، انجینئرز اور آئی ٹی ماہرین کی بہت بڑی تعداد شامل تھی ۔
یاد رہے کہ سن 2021ء میں پاکستان چھوڑنے والوں کی تعداد 225000 تھی جبکہ 2020ء میں امیگرینٹس کی تعداد 288000 تھی ۔ 2019ء میں سوا چھ لاکھ پاکستانی باہر گئے ۔
اس سے پہلے2018ء میں تین لاکھ 82 ہزار ، 2017ء میں چار لاکھ 96 ہزار ، 2016ء میں آٹھ لاکھ 39ہزار ، 2015ء میں نو لاکھ 46ہزار ، 2014ء میں سات لاکھ 52ہزار ، 2013ء میں چھ لاکھ 22 ہزار ، 2012ء میں چھ لاکھ 38ہزار ، 2011ء میں چار لاکھ 56ہزار ، 2010ء میں تین لاکھ 62ہزار اور 2009ء میں چار لاکھ سے کچھ زیادہ پاکستانی بہ سلسلہ روزگار بیرون ملک گئے ۔
'بیورو آف امیگریشن' کے مطابق پاکستان چھوڑ کر بیرون ملک جانے والوں کی زیادہ تر تعداد مشرق وسطیٰ کے ممالک بالخصوص سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات منتقل ہو گئی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ یورپ کا رخ کرنے والے پاکستانیوں میں زیادہ تر رومانیہ کا رخ کرتے ہیں۔ ان اعدادوشمار کی بنیاد پر تجزیہ کیا جائے تو اس کا ایک مثبت پہلو یہ ہے کہ پاکستانی بیرون ملک جا کر زرمبادلہ پاکستان بھیجتے ہیں، جو ملکی معیشت کی بہتری میں ایک فیکٹر ثابت ہوتا ہے تاہم اس تصویر کا دوسرا رخ خاصا پریشان کن ہے۔
لوگ اپنی قابلیت ، ہنرمندی سے ملک و قوم کو براہ راست فائدہ پہنچانے کے بجائے دنیا کی دیگر اقوام کی خدمت کے لئے چل نکلتے ہیں ۔ بیرون ملک جانے سے پہلے وہ جن خیالات کا اظہار کرتے ہیں ، وہ ہمارے ملک کی ایک ڈراؤنی تصویر دکھاتے ہیں۔
' بیورو آف امیگریشن ' کے ایک افسر نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ خراب ملکی معیشت اور سیاسی عدم استحکام پاکستان کی ورک فورس پر اثرانداز ہو رہی ہے ۔ لاکھوں نوجوان مہنگائی ، بے روزگاری اور غیر یقینی معاشی و سیاسی صورت حال کے سبب فکرمند ہوکر بیرون ملک روزگار کی تلاش میں نکل جاتے ہیں ۔
یہ مایوسی اور بدقسمتی ہی ہے کہ ہمارے نوجوان پاکستان چھوڑ کر دوسرے ممالک جانا چاہتے ہیں ۔ اس کا مطلب واضح ہے کہ پاکستان میں نوجوانوں کو اپنا مستقبل بہتر نظر نہیں آ رہا ۔
ان میں سے کسی کو معاشی مسائل کا سامنا ہے اور کسی کو سکیورٹی چیلنجز درپیش ہیں ۔ متعدد نوجوان سمجھتے ہیں کہ انھیں اس ملک میں عزت نہیں ملتی ، تاہم پاکستان سے برین ڈرین کی سب سے بڑی وجہ ہے خراب معاشی صورت حال ہے۔
پاکستان میں نوجوانوں کی اکثریت کس درجے میں بے روزگار ہے، اس کا مظاہرہ چند ہفتے قبل اسلام آباد میں دیکھنے کو ملا جہاں محکمہ پولیس کی1667 آسامیوں پر 30 ہزار سے زائد نوجوانوں نے ٹیسٹ دیا ۔ جب کہ ان ساڑھے سولہ سو سے زائد آسامیوں کے لئے درخواستیں نہ جانے کتنی زیادہ آئی ہوں گی۔
پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس (PIDE) نے2022 ء میں نوجوانوںکا ایک سروے کیا جس میں بتایا گیا کہ37 فیصد سے زائد پڑھے لکھے نوجوان پاکستان چھوڑنا چاہتے ہیں۔
2021 ء میں جو سروے آیا تھا ، اس کے مطابق 30 فیصد لوگ پاکستان چھوڑنا چاہتے تھے۔ بہت سارے نوجوان مشرق وسطیٰ میں مزدوری کے لئے جانا چاہتے ہیں۔
یہ سروے اس لحاظ سے اہم ہے کہ نوجوانوں کی یہ تعداد دن بدن اس لئے بڑھ رہی ہے کہ پاکستان میں ملازمت کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں ۔ روزگار کی خاطر بیرون ملک جانے والے ان نوجوانوں میں زیادہ شرح بلوچستان کے جوانوں کی ہے۔ ان کی خواہش ہے کہ وہ بیرون ملک ہی آباد ہو جائیں۔ چاہے 'اسٹڈی ویزا' پر چلے جائیں اور وہاں جا کر نوکری/ مزدوری وغیرہ شروع کر دیں۔ پاکستانی نوجوان سمجھتے ہیں کہ سکون قبر میں نہیں بلکہ یورپ و دیگر ممالک میں ہے۔
ملکی حالات سب کے سامنے ہیں۔ خراب معیشت ، بے روزگاری ، اظہار رائے کی آزادی، شدت پسندی، بنیادی انسانی حقوق کی پامالی وغیرہ بھی سب کے سامنے ہے ۔ ہمارے نوجوان جب یہ سارا منظر نامہ دیکھتے ہیں تو انھیں مستقبل میں بہتری محسوس نہیں ہوتی ، یوں وہ کسی بھی قیمت پر اور کسی بھی حال میں حتیٰ کہ جان کی پروا کئے بغیر غیرقانونی طریقے سے بھی یورپ و دیگر ممالک جانے کی کوشش کرتے ہیں۔
یہ افراد اچھی زندگی گزارنے کے خواب ، بہتر مستقبل کی خاطر غیر قانونی طریقے سے خطرناک رستے سے یورپ کا سفر شروع کرتے ہیں ۔
بعض بے رحم انسانی سمگلرز ، ایجنٹس ان جوانوں کو غیر قانونی راستوں سے کنٹینرز میں بھر کر حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتے ہیں۔ ان میں سے بعض جان سے چلے جاتے ہیں اور بعض پکڑے جانے کے بعد جیلوں میں سزا کاٹ رہے ہیں۔ وہ خوش قسمت لوگ جو یورپ پہنچ جائیں وہاں پر ویزہ ، گرین کارڈ، اسائلم ، جیل، زبان، روزگار جیسے لاتعداد مسائل کا سامنا کرتے ہیں ۔
بیرون ملک جانے کی خواہش رکھنے والے یا کوشش کرنے والے زیادہ تر نوجوان عمر کے لحاظ سے 18 سے 30 سال کے درمیان ہے ۔ ان نوجوانوں کی ملک سے باہر نکلنے کی جو وجوہات بیان کی گئی ہیں ان میں قابل ذکر وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں انھیں وہ عزت نہیں ملتی، جس کے وہ مستحق ہیں ۔
سندھ کے نوجوانوں میں بڑی وجہ غیر محفوظ ہونا ہے ۔ خیبر پختون خوا سے بیرون ملک جانے کا رجحان خواتین میں زیادہ ہے ۔ صنفی بنیاد پر تفریق کے سبب وہ کسی ایسی جگہ جانا چاہتی ہیں ، جہاں انہیں آزادی سے رہنا نصیب ہو ۔ جبکہ پنجاب سے جانے والوں کی وجوہات معاشی ہیں ۔
فرسٹریشن والی صورت حال
پنجاب ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے مطابق پنجاب کے گورنمنٹ کالجز میں ٹیچرز کی شدید کمی ہے۔ بہت سے کالجز ایسے ہیں جہاں میتھ ، فزکس اور کیمسٹری کے ٹیچرز نہیں ہیں ۔ ان کالجز کے پرنسپلز کے پاس ایم فل نوجوان آتے ہیں جو منتیں کرتے ہیں کہ ہمیں نائب قاصد کی نوکری پر رکھ لیں یا چوکیدار کی جاب دے دیں ۔ اس کے بعد ہم وہ مضامین بھی پڑھا دیں گے جن کے ٹیچرز موجود نہیں ہیں۔ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ یہ کس قدر سنگین فرسٹریشن والی صورتحال ہے۔
اگر ہم موازنہ کریں اس صورتحال سے جو بے روزگار نوجوانوں کو درپیش ہے ۔ انہیں ایک ایسی تاریکی نظر آتی ہے جس کا ہمیں ادراک نہیں ۔ جہاں سے بھی انھیں امید کی روشنی نظر آئے گی ، چاہے وہ امید سچی ہو یا جھوٹی، جائز ہو یا ناجائز ، نوجوان اسی طرف چل پڑتے ہیں۔
اسی طرح بعض اوقات یہ نوجوان شدت پسند گروہوں میں شامل ہو جاتے ہیں اور پھر وہ اپنا غصہ نکالتے ہیں۔ طالبان اور داعش میں بھی بہت سے پڑھے لکھے نوجوان شامل ہیں جن کی اکثریت ڈاکٹرز اور انجینئرز پر مشتمل ہے ۔ اگر فرسٹریشن کے شکار نوجوان ان تنظیموں کی طرف نہ بھی جائیں تو وہ معاشرے میں مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہو جاتے ہیں، اور چوریوں، ڈکیتیوں کی وارداتوں میں اضافہ ہو جاتا ہے ۔
پاکستان میں حالات یہ ہیں کہ پہلے کراچی میں اسٹریٹ کرائمز کی تعداد بہت زیادہ تھی، اب راولپنڈی اور اسلام آباد جیسے شہروں میں بھی اسٹریٹ کرائمزغیر معمولی طور پر بڑھ چکے ہیں۔
ان جرائم میں نوجوانوں کی اکثریت ملوث ہے ۔ ہم عمومی طور پر مسائل پر جذباتی ہوتے ہیں لیکن ان کے اسباب پر غور کرنے کی زحمت نہیں کرتے۔ ہمارے حکمران بالکل ہی نہیں کرتے ۔ تاہم سوال یہ ہے کہ وہ اس صورت حال سے نظریں چرائیں گے تو یہ اس قدر خطرناک بن جائے گی کہ پھر طبقہ اشرافیہ بھی لاکھ حفاظتی دائروں میں محفوظ نہیں رہے گا۔
کوئی ان معاشروں کا جائزہ لے جہاں یہ طبقہ کم تعداد میں ہوتا ہے اور پھر وہاں اس کمی کے اثرات کیا مرتب ہوتے ہیں۔ جس معاشرے میں بچے اور بوڑھے بڑھ جائیں ، وہاں غربت اور اس قسم کے دیگر مسائل کی بھرمار ہوتی ہے مثلاً براعظم افریقہ میں 15سال سے کم عمر بچوں کی شرح 40 فیصد اور 65 سال سے زائد عمر کے بزرگوں کی شرح تین فیصد ہے ۔ مجموعی طور پر ان کی شرح 43 فیصد ہے۔
اس کے برعکس یورپ میں پندرہ سال سے کم عمر اور پینسٹھ برس سے زائد عمر والوں کی شرح محض 35 فیصد ہے ۔ شمالی امریکا میں بھی35 فیصد ، ایشیا میں 34 فیصد ، لاطینی امریکا میں بھی یہی شرح ہے۔ اب ان اعدادوشمار کی روشنی میں ان معاشروں کے حالات پر غور کریں تو آپ پر اسباب واضح ہو جائیں گے۔
پاکستان میں 64 فیصد آبادی کی عمر 30 برس سے کم ہے ۔ ہر سال 40 لاکھ نوجوان روزگار کی عمر میں داخل ہوتے ہیں جن میں سے صرف 39 فیصد کو روزگار نصیب ہوتا ہے ۔ تقریباً نصف پاکستانی نوجوانوں کے پاس تعلیم ہے نہ ہی روزگار اور نہ ہی انھیں کوئی ٹریننگ ملتی ہے۔
ایسے میں انھیں پاکستان میں رہتے ہوئے اپنا مستقبل تاریک نظر آتا ہے ۔ وہ بیرون ملک جانے کے خواب دیکھنا شروع کردیتے ہیں ، چاہے وہ غیر ملک اٹلی یا ایسا ہی کوئی دوسرا ملک کیوں نہ ہو ، جو خود معاشی بحرانوں کا مسلسل شکار ہے۔
تاہم پاکستان چھوڑنے کے خواب دیکھنے والے کہتے ہیں کہ معاشی بحرانوں میں گھرے غیر ملک بھی پاکستان سے بہتر ہی ہوں گے ۔ یہی وجہ ہے کہ پچھلے برسوں سے نوجوانوں میں ملک چھوڑ کر بیرون ملک جانے کا رجحان زور پکڑتا جا رہا ہے۔ سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ پڑھے لکھے اور ہنر مند نوجوان بھی ملک میں رہنے کو تیار نہیں ہیں۔ وہ بھی حالات سے سخت مایوس ہو رہے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ آخر کیوں؟ ان کی مایوسی سے پاکستان کو کیا نقصان پہنچ رہا ہے ؟ اور ان کی مایوسی کا علاج کیا ہے؟
' برین ڈرین' کیوں ہو رہا ہے ؟
اگر آپ جاننا چاہتے ہیں کہ برین ڈرین کیوں ہو رہا ہے اور ہمارے لوگ یورپ و دیگر ممالک میں جا کر دوسرے درجے کا شہری کیوں بننا پسند کر رہے ہیں ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ پاکستان میں 'برین ڈرین' 1950ء ہی سے شروع ہے ۔ ملک کے ذہین پروفیشنلز لوگ بلند معیار زندگی کی خاطر دوسرے ملکوں کی شہریت لیتے ہیں یا پھر دوسرے درجے کا شہری بننا قبول کر لیتے ہیں جس کی بنیادی وجہ زیادہ آمدن کے ساتھ بچوں کا محفوظ مستقبل ، دنیا بھر میں سفر کی سہولیات، سوشل سکیورٹی وغیرہ شامل ہیں ۔
دنیا کے تمام معاشروں میں اس قسم کا برین ڈرین ہوتا ہے ۔ کہیں کم اور کہیں زیادہ ۔ بعض حکومتیں اپنے لوگوں کو بیرون ملک بھیج کر فخر کا اظہار کرتی ہیں کہ اس انداز میں ملک میں زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہو گا ۔ یہ بات درست ہے ، یقیناً زرمبادلہ میں اضافہ ہوتا ہے، ہنر مند طبقہ سرپلس ہو جائے تو اسے بیرون ملک جانا ہی چاہیے لیکن اگر معاشرے کے سارے ہنرمند دوسرے معاشروں میں چلے جائیں تو اس معاشرے کے پلے کیا رہ جائے گا؟
حالیہ ایک سروے کے مطابق ہمارے پاسپورٹ ڈائریکٹوریٹ کو2021 ء سے ایک خطرناک رجحان دیکھنے کو ملا ۔ رجحان یہ ہے کہ ہمارا پاسپورٹ ڈائریکٹوریٹ پہلے پاکستان اور بیرون ممالک میں روزانہ کم و بیش 20 ہزار پاسپورٹ بناتا تھا لیکن گزشتہ سال سے یہ تعداد بڑھ کر 30 ہزار روزانہ تک پہنچ گئی ہے ۔
پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس (PIDE) کی ایک رپورٹ کے مطابق روزانہ بڑی تعداد میں نوجوان پاسپورٹ کے حصول کے لئے درخواستیں جمع کرارہے ہیں ۔ پاسپورٹ بنوانے والوں میں زیادہ تر نوجوان ہوتے ہیں ۔
اعداد و شمار کے مطابق صرف 2022ء میں سات لاکھ 65 ہزار لوگ پاکستان چھوڑ کر دیگر ممالک میں چلے گئے ہیں ۔ ان میں ڈاکٹرز، انجینئرز اور آئی ٹی ماہرین کی بہت بڑی تعداد شامل تھی ۔
یاد رہے کہ سن 2021ء میں پاکستان چھوڑنے والوں کی تعداد 225000 تھی جبکہ 2020ء میں امیگرینٹس کی تعداد 288000 تھی ۔ 2019ء میں سوا چھ لاکھ پاکستانی باہر گئے ۔
اس سے پہلے2018ء میں تین لاکھ 82 ہزار ، 2017ء میں چار لاکھ 96 ہزار ، 2016ء میں آٹھ لاکھ 39ہزار ، 2015ء میں نو لاکھ 46ہزار ، 2014ء میں سات لاکھ 52ہزار ، 2013ء میں چھ لاکھ 22 ہزار ، 2012ء میں چھ لاکھ 38ہزار ، 2011ء میں چار لاکھ 56ہزار ، 2010ء میں تین لاکھ 62ہزار اور 2009ء میں چار لاکھ سے کچھ زیادہ پاکستانی بہ سلسلہ روزگار بیرون ملک گئے ۔
'بیورو آف امیگریشن' کے مطابق پاکستان چھوڑ کر بیرون ملک جانے والوں کی زیادہ تر تعداد مشرق وسطیٰ کے ممالک بالخصوص سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات منتقل ہو گئی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ یورپ کا رخ کرنے والے پاکستانیوں میں زیادہ تر رومانیہ کا رخ کرتے ہیں۔ ان اعدادوشمار کی بنیاد پر تجزیہ کیا جائے تو اس کا ایک مثبت پہلو یہ ہے کہ پاکستانی بیرون ملک جا کر زرمبادلہ پاکستان بھیجتے ہیں، جو ملکی معیشت کی بہتری میں ایک فیکٹر ثابت ہوتا ہے تاہم اس تصویر کا دوسرا رخ خاصا پریشان کن ہے۔
لوگ اپنی قابلیت ، ہنرمندی سے ملک و قوم کو براہ راست فائدہ پہنچانے کے بجائے دنیا کی دیگر اقوام کی خدمت کے لئے چل نکلتے ہیں ۔ بیرون ملک جانے سے پہلے وہ جن خیالات کا اظہار کرتے ہیں ، وہ ہمارے ملک کی ایک ڈراؤنی تصویر دکھاتے ہیں۔
' بیورو آف امیگریشن ' کے ایک افسر نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ خراب ملکی معیشت اور سیاسی عدم استحکام پاکستان کی ورک فورس پر اثرانداز ہو رہی ہے ۔ لاکھوں نوجوان مہنگائی ، بے روزگاری اور غیر یقینی معاشی و سیاسی صورت حال کے سبب فکرمند ہوکر بیرون ملک روزگار کی تلاش میں نکل جاتے ہیں ۔
یہ مایوسی اور بدقسمتی ہی ہے کہ ہمارے نوجوان پاکستان چھوڑ کر دوسرے ممالک جانا چاہتے ہیں ۔ اس کا مطلب واضح ہے کہ پاکستان میں نوجوانوں کو اپنا مستقبل بہتر نظر نہیں آ رہا ۔
ان میں سے کسی کو معاشی مسائل کا سامنا ہے اور کسی کو سکیورٹی چیلنجز درپیش ہیں ۔ متعدد نوجوان سمجھتے ہیں کہ انھیں اس ملک میں عزت نہیں ملتی ، تاہم پاکستان سے برین ڈرین کی سب سے بڑی وجہ ہے خراب معاشی صورت حال ہے۔
پاکستان میں نوجوانوں کی اکثریت کس درجے میں بے روزگار ہے، اس کا مظاہرہ چند ہفتے قبل اسلام آباد میں دیکھنے کو ملا جہاں محکمہ پولیس کی1667 آسامیوں پر 30 ہزار سے زائد نوجوانوں نے ٹیسٹ دیا ۔ جب کہ ان ساڑھے سولہ سو سے زائد آسامیوں کے لئے درخواستیں نہ جانے کتنی زیادہ آئی ہوں گی۔
پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس (PIDE) نے2022 ء میں نوجوانوںکا ایک سروے کیا جس میں بتایا گیا کہ37 فیصد سے زائد پڑھے لکھے نوجوان پاکستان چھوڑنا چاہتے ہیں۔
2021 ء میں جو سروے آیا تھا ، اس کے مطابق 30 فیصد لوگ پاکستان چھوڑنا چاہتے تھے۔ بہت سارے نوجوان مشرق وسطیٰ میں مزدوری کے لئے جانا چاہتے ہیں۔
یہ سروے اس لحاظ سے اہم ہے کہ نوجوانوں کی یہ تعداد دن بدن اس لئے بڑھ رہی ہے کہ پاکستان میں ملازمت کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں ۔ روزگار کی خاطر بیرون ملک جانے والے ان نوجوانوں میں زیادہ شرح بلوچستان کے جوانوں کی ہے۔ ان کی خواہش ہے کہ وہ بیرون ملک ہی آباد ہو جائیں۔ چاہے 'اسٹڈی ویزا' پر چلے جائیں اور وہاں جا کر نوکری/ مزدوری وغیرہ شروع کر دیں۔ پاکستانی نوجوان سمجھتے ہیں کہ سکون قبر میں نہیں بلکہ یورپ و دیگر ممالک میں ہے۔
ملکی حالات سب کے سامنے ہیں۔ خراب معیشت ، بے روزگاری ، اظہار رائے کی آزادی، شدت پسندی، بنیادی انسانی حقوق کی پامالی وغیرہ بھی سب کے سامنے ہے ۔ ہمارے نوجوان جب یہ سارا منظر نامہ دیکھتے ہیں تو انھیں مستقبل میں بہتری محسوس نہیں ہوتی ، یوں وہ کسی بھی قیمت پر اور کسی بھی حال میں حتیٰ کہ جان کی پروا کئے بغیر غیرقانونی طریقے سے بھی یورپ و دیگر ممالک جانے کی کوشش کرتے ہیں۔
یہ افراد اچھی زندگی گزارنے کے خواب ، بہتر مستقبل کی خاطر غیر قانونی طریقے سے خطرناک رستے سے یورپ کا سفر شروع کرتے ہیں ۔
بعض بے رحم انسانی سمگلرز ، ایجنٹس ان جوانوں کو غیر قانونی راستوں سے کنٹینرز میں بھر کر حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتے ہیں۔ ان میں سے بعض جان سے چلے جاتے ہیں اور بعض پکڑے جانے کے بعد جیلوں میں سزا کاٹ رہے ہیں۔ وہ خوش قسمت لوگ جو یورپ پہنچ جائیں وہاں پر ویزہ ، گرین کارڈ، اسائلم ، جیل، زبان، روزگار جیسے لاتعداد مسائل کا سامنا کرتے ہیں ۔
بیرون ملک جانے کی خواہش رکھنے والے یا کوشش کرنے والے زیادہ تر نوجوان عمر کے لحاظ سے 18 سے 30 سال کے درمیان ہے ۔ ان نوجوانوں کی ملک سے باہر نکلنے کی جو وجوہات بیان کی گئی ہیں ان میں قابل ذکر وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں انھیں وہ عزت نہیں ملتی، جس کے وہ مستحق ہیں ۔
سندھ کے نوجوانوں میں بڑی وجہ غیر محفوظ ہونا ہے ۔ خیبر پختون خوا سے بیرون ملک جانے کا رجحان خواتین میں زیادہ ہے ۔ صنفی بنیاد پر تفریق کے سبب وہ کسی ایسی جگہ جانا چاہتی ہیں ، جہاں انہیں آزادی سے رہنا نصیب ہو ۔ جبکہ پنجاب سے جانے والوں کی وجوہات معاشی ہیں ۔
فرسٹریشن والی صورت حال
پنجاب ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے مطابق پنجاب کے گورنمنٹ کالجز میں ٹیچرز کی شدید کمی ہے۔ بہت سے کالجز ایسے ہیں جہاں میتھ ، فزکس اور کیمسٹری کے ٹیچرز نہیں ہیں ۔ ان کالجز کے پرنسپلز کے پاس ایم فل نوجوان آتے ہیں جو منتیں کرتے ہیں کہ ہمیں نائب قاصد کی نوکری پر رکھ لیں یا چوکیدار کی جاب دے دیں ۔ اس کے بعد ہم وہ مضامین بھی پڑھا دیں گے جن کے ٹیچرز موجود نہیں ہیں۔ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ یہ کس قدر سنگین فرسٹریشن والی صورتحال ہے۔
اگر ہم موازنہ کریں اس صورتحال سے جو بے روزگار نوجوانوں کو درپیش ہے ۔ انہیں ایک ایسی تاریکی نظر آتی ہے جس کا ہمیں ادراک نہیں ۔ جہاں سے بھی انھیں امید کی روشنی نظر آئے گی ، چاہے وہ امید سچی ہو یا جھوٹی، جائز ہو یا ناجائز ، نوجوان اسی طرف چل پڑتے ہیں۔
اسی طرح بعض اوقات یہ نوجوان شدت پسند گروہوں میں شامل ہو جاتے ہیں اور پھر وہ اپنا غصہ نکالتے ہیں۔ طالبان اور داعش میں بھی بہت سے پڑھے لکھے نوجوان شامل ہیں جن کی اکثریت ڈاکٹرز اور انجینئرز پر مشتمل ہے ۔ اگر فرسٹریشن کے شکار نوجوان ان تنظیموں کی طرف نہ بھی جائیں تو وہ معاشرے میں مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہو جاتے ہیں، اور چوریوں، ڈکیتیوں کی وارداتوں میں اضافہ ہو جاتا ہے ۔
پاکستان میں حالات یہ ہیں کہ پہلے کراچی میں اسٹریٹ کرائمز کی تعداد بہت زیادہ تھی، اب راولپنڈی اور اسلام آباد جیسے شہروں میں بھی اسٹریٹ کرائمزغیر معمولی طور پر بڑھ چکے ہیں۔
ان جرائم میں نوجوانوں کی اکثریت ملوث ہے ۔ ہم عمومی طور پر مسائل پر جذباتی ہوتے ہیں لیکن ان کے اسباب پر غور کرنے کی زحمت نہیں کرتے۔ ہمارے حکمران بالکل ہی نہیں کرتے ۔ تاہم سوال یہ ہے کہ وہ اس صورت حال سے نظریں چرائیں گے تو یہ اس قدر خطرناک بن جائے گی کہ پھر طبقہ اشرافیہ بھی لاکھ حفاظتی دائروں میں محفوظ نہیں رہے گا۔