کوچۂ سخن

تنہائی کو رحل بنایا، حیرت کو فانوس کیا؛<br /> پہلی بار خدا کو ہم نے یاد نہیں، محسوس ِکیا

فوٹو: فائل

غزل
ڈرنا چھوڑو ڈرنے سے کیا ہوتا ہے
ہاتھ آنکھوں پر دھرنے سے کیا ہوتا ہے
اس کی خاطر چاہے کوئی مر جائے
وہ بولے گا مرنے سے کیا ہوتا ہے
ہوں جس پر ہر ایرے غیرے کی نظریں
اس بے کار سنورنے سے کیا ہوتا ہے
دیکھ پرانی تصویروں اور مووی میں
گھر کے لوگ بکھرنے سے کیا ہوتا ہے
موسم رنگ بدل دیتے ہیں چیزوں کا
ماہ و سال گزرنے سے کیا ہوتا ہے
وقت پہ کوئی کام نہیں آتا ہے حسنؔ
کارڈ اکٹھے کرنے سے کیا ہوتا ہے
(احتشام حسن۔ بہاولپور)


۔۔۔
غزل
جو حکم اس نے دیا ، کاٹ کر زباں رکھ دی
ہتھیلیوں میں سجا کر متاعِ جاں رکھ دی
وہ جس کے حسن سے معیار روشنی کو ملا
اسی کے نام پہ میں نے بھی داستاں رکھ دی
اڑا دیا ہے فضاؤں میں دردِ دل کا غبار
تمام زندگی کر کے دھواں دھواں رکھ دی
تمام شب ہُوا افسردہ جس گھڑی بھی میں
سرہانے پھر کوئی تصویرِ دوستاں رکھ دی
یہ کون پتھروں کے راج میں ہے شیشہ گر
یہ کس نے جرأتوں کی کھول کے دکاں رکھ دی
ذرا سی دیر میں ظلمت کے دُور کرنے کو
جہاں بھی چاہیے تھی روشنی وہاں رکھ دی
(حمزہ ہاشمی سوز۔ لاہور)


۔۔۔
غزل
ہجر اُس کا مرے اعصاب پہ یوں طاری تھا
بعد مرنے کے بھی آنکھوں سے لہو جاری تھا
اتنی جلدی صفِ ماتم سے نکل آئے ہو
یار تجھ کو تو بہت زعمِ عزاداری تھا
کیا بتاؤں تجھے فرقت کے دنوں کی حالت
مجھ پہ ہر روز قیامت کی طرح بھاری تھا
ہم بضد تھے کہ ہمیں وصل کی سرشاری ملے
وہ مگر وعدہ وفا کرنے سے انکاری تھا
میں نے اُس وقت بھی تجھ کو تہِ دل سے چاہا
شغل جس دور میں لوگوں کا ریاکاری تھا
کس لیے تیرے تغافل سے بدل جاتا میں
مسئلہ میرا محبت میں وفاداری تھا
گھر بھی کب تھا مرے آرام و سکوں کا باعث
دشت بھی میرے لیے قریہ ٔ بیزاری تھا
اُسے مارا گیا مسلک کی بنا پر ازور ؔ
جس کا پیغام زمانے میں رواداری تھا
(ازور شیرازی۔سرگودھا)


۔۔۔
غزل
یہی بہت ہے کہ دنیا کے رد میں اس نے مجھے
قبول کر تو لیا ہے حسد میں اس نے مجھے
جہاں میں ہوں یہاں پہلے بھی دفن تھا کوئی
رکھا ہے اور کسی کی لحد میں اس نے مجھے
مجھے پتہ نہ چلا آج تک کہ کون ہوں میں
شمار ہی نہ کیا نیک و بد میں اس نے مجھے
بھلا میں کون سے حملے میں مارا جاؤں گا
کہاں بلایا ہے اپنی مدد میں اس نے مجھے
جواب صفر سے آگے نہیں بڑھا میرا
ہزار جمع کیا اک عدد میں اس نے مجھے
میں جا چکا ہوں، شباہت مری نہیں جاتی
رکھا ہوا ہے کہیں خال و خد میں اس نے مجھے
جدا کیا بھی تو بس صرف نام کی حد تک
رہائی دی بھی تو پنجرے کی حد میں اس نے مجھے
دماغ اپنی طرف کھینچتا رہا لیکن
روانہ کر دیا دل کی رسد میں اس نے مجھے
(حمزہ یعقوب۔ مظفر گڑھ)


۔۔۔
غزل
مل کے نظروں سے ہی شکار کریں
آ ُؤ آ نکھو ں کا کارو بارکر یں
کر کے پورے حقوق بندوں کے
آؤ خود کو بھی با وقار کریں
یار دولت تو ایک فتنہ ہے
اب خدا پر ہی انحصار کریں
جنگ جاری ہے آج دشمن سے
اپنے حصے کا آؤوار کریں
شعر اچھا ہے پر یہ رسمی ہے
تھوڑی جدت بھی اختیار کریں
کاش اتنا بتا کے تم جاتے
بھول جائیں کہ انتظار کریں
جا کے دریا پہ آج ہم سارے
نیکیاں ہی سحرؔ شمار کریں
(اسد رضا سحر۔ احمد پور سیال، جھنگ)


۔۔۔
غزل
نہ چاہتے ہوئے جاں سے گزرنا پڑتا ہے
کھِلے ہوؤں کو بہرطور جھڑنا پڑتا ہے
تقاضے خوب سمجھتا ہوں دنیاداری کے
سو اُس کو دیکھ کے رستہ بدلنا پڑتا ہے
بِنا دلیل تری بات لوگ سنتے ہیں
ہمیں تو سارے جہاں سے الجھنا پڑتا ہے
مسافتِ رہِ دنیا میں کیا تھکن کا جواز
کہ پاؤں ساتھ نہ دیں پھر بھی چلنا پڑتا ہے
کسی کو دھیان میں رکھنا ہے اپنی مجبوری
عجیب کارِ زیاں ہے جو کرنا پڑتا ہے
(فرخ عدیل ۔چوک اعظم)


۔۔۔
غزل


پیوست اپنے دل میں تب خار دیکھتا ہوں
دشمن کی صف میں اپنے جب یار دیکھتا ہوں
نیلام ہو چکے ہیں تیر وکمان اپنے
دستِ عدو میں اپنی تلوار دیکھتا ہوں
دن رات اُگ رہی ہیں فصلیں سَروں کی لیکن
انسان سے میں خالی سنسار دیکھتا ہوں
بے چینیاں ہیں پھیلیں لشکر کی خیر مولا
اپنی صفوں میں گھستے غدار دیکھتا ہوں
بنیاد ہل چکی ہے انصاف کی وطن میں
منصف کے سر سے گرتی دستار دیکھتا ہوں
کپڑا مکان روٹی سب کو نہیں میسر
اپنے وطن سے دیگر اُس پار دیکھتا ہوں
ہر سال چہرے بدلے ہیں قسمت نہیں ہے بدلی
عاجز تماش بینی ہر بار دیکھتا ہوں
(ڈاکٹرمحمدالیاس عاجز۔ سیالکوٹ)


۔۔۔
غزل
تیرے چہرے پہ گلوں جیسا نکھار آجائے
تیری باتوں میں ہی خوشبو کا وقار آجائے
ہم وہ انساں ہیں جو اجناس کی منڈی سے ملیں
کاش بے سود امیدوں کا خریدار آ جائے
دھوکا کھاتی ہے ترے نام سے گلشن کی ہوا
ترے آنے سے گلستاں میں بہار آ جائے
کیا غضب کی ہے کرامت کہ جسے مان لیا
نام بیمار جو لے تیرا قرار آ جائے
دوستوں نے تو مری موت کا سامان کیا
دشمنِ جان کہیں تجھ کو نہ پیار آ جائے
شہر والوں کے یہ مے خانے بہت خوب مگر
گاؤں کی تازہ ہوا سے بھی خمار آ جائے
مجھ کو بس خوف سا رہتا ہے یہی جانِ شہاب
نام تیرے نہ ستاروں کا شمار آ جائے
(شہاب اللہ شہاب منڈا، دیر لوئر، خیبر پختون خوا)


۔۔۔
غزل
کیوں بھلا دل پہ کوئی ظلم کوئی جبر کرے؟
دل پیمبر تو نہیں ہے جو سدا صبر کرے
جس نگہ سے نہ پڑے دل پہ محبت کی پھوار
کیونکر آنکھوں کو کوئی اس کے لئے ابر کرے
دلِ بدکار پریشان ہے، مفتی سے کہو!
ختم اس میں سے سبھی خوف و غمِ قبر کرے
ریل کی پٹری، کنواں، زہر نہ پنکھا دیکھو
زندگی تم پہ بھلے حد سے سوا جبر کرے
ختم ہو جائیں گے باصرؔ کے سبھی رنج و الم
اس سے بولو کہ قضا آنے تلک صبر کرے
(عبد اللہ باصر۔گوجرانوالہ)


۔۔۔
غزل
تنہائی کو رحل بنایا، حیرت کو فانوس کیا
پہلی بار خدا کو ہم نے یاد نہیں، محسوس ِکیا
غیب کے باغ کا نقشہ کھینچا کچھ نادیدہ رنگوں سے
اک منظر کے اندر لا کر اک منظر محبوس کیا
بے تابی کے زہر میں گھولا صبر کی میٹھی بوندوں کو
تب جا کر سمجھے کیوں رب نے نبیوں کو مبعوث کیا
عشق کی آیت دل پر اتری، آنکھ پر اشکوں کی رحمت
ڈر نے کی تجویز یہ نیندیں، خوابوں نے کابوس کیا
مجذوبوں میں کاٹی وہ جو رات اہانت والی تھی
رقص برہنہ ہو کر ہم نے تا صبح ِ ناموس کیا
سوز لیا داؤد سے تو جھلاہٹ اسرافیل سے لی
اک لہجہ مضراب بنایا اک لہجہ ناقوس کیا
اپنی مَیں کو مارا، روٹھے لوگوں کو آوازیں دیں
آج تو اپنے آپ کو میں نے جی بھر کر مایوس کیا
عمر ضمیر ؔنہ ضائع ہونے دی وحشت کے جنگل میں
سوکھے پتوں کا دکھ سمجھے، پیڑوں کو مانوس کیا
(ضمیر قیس۔ملتان)


۔۔۔
غزل
حصار غم سے اے ہمدم نکلنا کیسے ممکن ہے
لکھا ہے جو مقدر میں بدلنا کیسے ممکن ہے
گرے کہسار سے انساں تو ممکن ہے سنبھل جائے
گرے گر نظر انساں سے سنبھلنا کیسے ممکن ہے
نشاں جو ثبت ماتھے پر وہ اس سے مٹ نہیں سکتا
تو، دل میں خواہش زر کا مچلنا کیسے ممکن ہے
جلا شمع عمل کی تو تبھی بدلائوممکن ہے
فقط گفتار سے کچھ بھی، بدلنا کیسے ممکن ہے
نزاکت خود کو خوابوں سے بہلایا مدتوں ہم نے
ہمارا خود فریبی سے نکلنا کیسے ممکن ہے
( نزاکت ریاض۔ پنڈمہری)


۔۔۔
غزل
کیا برا ہم اگر خراب ہوئے
انبیاء کے پسر خراب ہوئے
وہ ہمیں دیکھ کر سدھر گیا ہے
ہم جسے دیکھ کر خراب ہوئے
اک خرابی محلے میں آئی
اور پھر گھر کے گھر خراب ہوئے
یاد رکھتا ہے کون اچھوں کو
بس یہی سوچ کر خراب ہوئے
روز بابا کے بین سنتا ہوں
میرے بچے کدھر خراب ہوئے
بے ارادہ نکل پڑی آندھی
پنچھیوں کے سفر خراب ہوئے
یہ محبت کا شاخسانہ ہے
ہم نہیں تھے مگر خراب ہوئے
چڑھ گیا عشق انا کی بھینٹ منیر
ہم اِدھر، وہ اُدھر خراب ہوئے
(منیر انجم ۔سرگودھا)


سنڈے میگزین کے شاعری کے صفحے پر اشاعت کے لیے آپ اپنا کلام، اپنے شہر کے نام اورتصویر کے ساتھ ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں۔ موزوں اور معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
انچارج صفحہ ''کوچہ سخن ''
روزنامہ ایکسپریس، 5 ایکسپریس وے،
کورنگی روڈ ، کراچی

Load Next Story