آئی ایم ایف کی وضاحت
آئی ایم ایف کے تمام مطالبات کے ماننے کے باوجود عملے کی سطح پر ہونے والے معاہدے میں تاخیر ہو رہی ہے
آئی ایم ایف نے حکومت پاکستان کی طرف سے دو صوبوں کے انتخابات میں تاخیرکو آئی ایم ایف کے قرضہ پروگرام سے جوڑنے کے تاثر کو مسترد کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ عالمی ادارے کا پاکستان کی اندرونی سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔
چند دن قبل آئی ایم ایف کی نمایندہ ایسٹر پریز روئز نے کہا تھا کہ اسلام آباد سے مذاکرات معاشی مسائل کے حل اور مالی استحکام پر ہو رہے ہیں اور ان کے ملکی جوہری پروگرام سے تعلق جوڑنے کی قیاس آرائیوں میں کوئی سچائی یا حقیقت نہیں۔
آئی ایم ایف کی طرف سے وضاحتی بیان کے بعد بلاشبہ افواہوں کا سلسلہ دم توڑ جائے گا، ہمیں جو کچھ بھی کرنا ہے، خود کرنا ہے۔ حکمران اتحاد کے سارے وعدے اور دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے ہیں۔ حکومت سیاسی استحکام لاسکی نہ معاشی بحران دورکر پائی ہے، آئی ایم ایف اپنی کڑی شرائط منوانے پر تلا ہوا ہے۔
اتحادی حکومت کو حقائق عوام سے چھپانے کے بجائے بتانے چاہییں ،کیونکہ ہر بار ہفتہ دس دن کی نئی تاریخ دی جاتی ہے ، جب کہ نئی تاریخ پر آئی ایم ایف مزید مطالبات سامنے لے آتا ہے ، یہ آنکھ مچولی بند ہونی چاہیے ، اگر آئی ایم ایف کے متبادل بھی کوئی پلان ہے تو وہ عوام کے سامنے لایا جائے ، ملک میں سیاسی استحکام لا کر جب تک طویل جامع منصوبہ بندی نہیں کی جائے گی۔
اس وقت تک صورتحال بہتر نہیں ہو پائے گی۔ اس معاشی بحران میں غریب کے ساتھ متوسط طبقہ سب سے زیادہ پس رہا ہے، یہ کوئی ارباب اختیار کو بتائے کہ آئی ایم ایف کی شرائط اور معاہدہ اپنی جگہ ، لیکن اہم فیصلے عوامی مفاد اور زمینی حقائق کو مد نظر رکھ کر ہی کیے جانے چاہیے ، لیکن یہ عوامی مفادات کا خیال کیسے رکھ سکتے ہیں ، جب کہ عالمی مالیاتی ادارے سے مذاکرات کرنے والے وفود میں ایک بھی ایسا شخص شامل نہیں ہے ، جو کہ غریب اور سفید پوش طبقے کی درست نمایندگی کرسکے۔
انھیں تو آٹے، دال کا بھاؤ بھی معلوم نہیں ہوتا ہے۔ یہ عوام کی نمایندگی کے دعویدار عالمی معاہدوں کی پاسداری ضرور کریں، مگر نئے معاہدے کرتے وقت ملک کے بائیس کروڑ عوام کے مسائل و مشکلات کو بھی سامنے رکھیں ، عوام کا احساس کرنا اور عوام کو ریلیف فراہم کرنا،آئی ایم ایف کی نہیں، موجودہ حکمران اتحاد کی ذمے داری ہے۔
ملک کو درپیش شدید معاشی مشکلات میں حکومت غریب عوام کی مدد کرنے کی نیت سے تمام ممکنہ اقدامات کر نے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس حوالے سے تازہ اقدام موٹر سائیکل، رکشا اور چھوٹی گاڑیوں کے لیے پچاس روپے فی لیٹر سبسڈی دینے کا اعلان ہے۔
حکومت کی جانب سے عوامی ریلیف کے اقدام خوش آیند ، مگر ملک کی مالیاتی صورتحال دیکھتے ہوئے آئی ایم ایف پہلے ہی سبسڈی پر قدغن لگا رہا ہے تو حکومت پٹرول جیسے آئٹم پر سبسڈی کیسے مہیا کر پائے گی؟
اس میں شک نہیں کہ اس مشکل دور میں عوام کو ایک روپے کا بھی کوئی ریلیف مل سکے تو ضرور ملنا چاہیے، لیکن یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ اس طرح کی شارٹ ٹرم پالیسیوں سے اب تک غریب مستحقین نے کتنا فائدہ اُٹھایا ہے اور سرمایہ داروں کو کتنا فائدہ پہنچایا جاتا رہا ہے۔
دوسری جانب حکومت نے فری آٹا اسکیم بھی شروع کی ہے لیکن اس فری آٹے کے حصول میں غریب کی کتنی تذلیل ہو رہی ہے اور کتنے مر رہے ہیں، یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ حکمرانوں نے ریلیف کے نام پر غریب عوام کو بھکاری بنا کر رکھ دیا ہے۔
ہمارا مقصد حکومت پر بے جا تنقید کرنا ہرگز نہیں ، بلکہ حکمران اور ارباب اختیار کی توجہ اس جانب مبذول کرانا ہے کہ اس طرح کی مشروط سبسڈیز سے عام آدمی بہتر طور پر مستفید ہو سکتا ہے نہ ہی مہنگائی میں کوئی کمی لائی جاسکتی ہے۔
اس سے موٹر سائیکل یا چھوٹی گاڑی رکھنے والے شہری تو شاید کسی حد تک مستفید ہو جائیں، لیکن جن غریبوں اور مزدوروں کے پاس اپنی سواری نہیں، انھیں اس سبسڈی سے کیا فائدہ ہو گا؟ اگر حکومت سو ، پچاس روپے کی مشروط سبسڈی کے بجائے ہر خاص وعام کے لیے پٹرولیم مصنوعات کی قیمت میں تیس سے چالیس روپے بھی کم کردے تو مختلف اشیا کے نرخ میں کمی لائی جاسکتی ہے۔
اسی طرح غریب کو مفت آٹے کی فراہمی کے بجائے اوپن مارکیٹ میں آٹے کی قیمت کم کر دی جائے تو اس سے ملک بھر کے عوام مستفید ہو سکیں گے ، کیونکہ آئے روز بڑھتی مہنگائی سے کوئی ایک نہیں، ہرکوئی پریشان حال ہے۔
پاکستان میں مہنگائی ریکارڈ بلند سطح پر پہنچ چکا ہے کیونکہ موجودہ حکومت رکے ہوئے قرض پروگرام کی بحالی کے لیے آئی ایم ایف کو مطمئن کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے اور حال ہی میں ای سی سی نے بجلی کے نئے نرخوں کی منظوری دے دی ہے۔
بجلی کے اوسط نرخوں اور اضافی لاگت کی ایڈجسٹمنٹ پر لگائے گئے خصوصی فنانسنگ سرچارج کے ساتھ، IMF کی ایک بڑی شرط پوری ہوگئی ہے اور اس اقدام کا مقصد صارفین سے تقریباً 335 ارب روپے حاصل کرنا ہے۔ تاہم، یہ اقدام پاور سیکٹر کے صارفین سے لاگت میں اضافے کے لیے ایڈجسٹمنٹ پر انحصار کرتا ہے اور خصوصی سبسڈیز کی واپسی کا مطلب یہ بھی ہے کہ یہ عوام کے لیے ایک اور بوجھ ہے۔
اس وقت، ڈیفالٹ سے بچنے کے لیے آئی ایم ایف کے اقدامات کو پورا کرنا ہی آگے بڑھنے کا واحد راستہ ہے اور اس لیے ایسی رجعت پسند پالیسیاں ناگزیر ہیں۔ یہ پروگرام پاکستان کی خراب کارکردگی والے پاور سیکٹر اور اس کے انتہائی زیادہ گردشی قرضوں کو ٹھیک کر رہا ہے۔
برآمدات پر مبنی صنعتوں سے یہ برآمدی سبسڈی واپس لینے کا مقصد نہ صرف گردشی قرضے کو ختم کرنا ہے بلکہ مستقبل میں اس کے طویل مدتی جمع ہونے کو بھی روکنا ہے۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ آئی ایم ایف کے تمام مطالبات کے ماننے کے باوجود عملے کی سطح پر ہونے والے معاہدے میں تاخیر ہو رہی ہے۔
حال ہی میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ حکومت نے قرض پروگرام کی بحالی کے لیے امریکی مدد لینے کا فیصلہ کیا ہے ، اگر ایسا تھا تو حکومت کو پہلے ہی امریکا سے رابطہ کرنا چاہیے تھا تاکہ آئی ایم ایف کی سخت شرائط میں نرمی کی جا سکتی۔ یہ صرف وقت ہی بتائے گا کہ ہم فنڈ سے کب اچھی خبر سننے جا رہے ہیں کیونکہ اس معاملے پر ابھی بھی کافی دھند ہے۔
پاکستان کے وفاقی ادارہ برائے شماریات کے مطابق کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتوں میں سالانہ بنیادوں پر 42.9 فیصد اضافہ ہوا۔ کھانے پینے کی تازہ اشیاء مثلا سبزیوں، پھلوں، گوشت، اناج اور مشروبات کی قیمتوں میں گزشتہ سال کے مقابلے میں 61.6 فیصد اضافہ دیکھا گیا۔
پاکستان نے ماضی میں آئی ایم ایف کے متعدد پروگرام لیے ہیں جن میں سے صرف دو پروگرام ہی مکمل ہوسکے ہیں۔ ایک پروگرام جنرل( ر) پرویز مشرف کے دور میں دیا گیا جو کہ آئی ایم ایف کی روایات سے ہٹ کر تخفیف غربت کا پروگرام تھا۔
دوسرا پروگرام مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے دور میں مکمل ہوا۔ اس پروگرام میں آئی ایم ایف نے 16 اہداف پورے نہ کرنے کے باوجود پاکستان کو رعایت دی ، کیونکہ اس وقت پاکستان یورپی اور امریکی ایما پر دہشت گردی کے خلاف جنگ کا حصہ تھا اس لیے آئی ایم ایف کے بورڈ اور اسٹاف نے متعدد اصلاحات نہ ہونے کے باوجود نہ صرف پورا قرض فراہم کیا بلکہ اچھی معیشت کی تعریف بھی کی۔اِس وقت خطے میں خصوصاً افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے بعد مغربی طاقتوں کو کسی قسم کی سیاسی مداخلت یا فوج کشی کی ضرورت مستقبل قریب میں دکھائی نہیں دے رہی ہے۔ اس لیے آئی ایم ایف کا رویہ بھی سخت سے سخت تر ہوتا جارہا ہے۔
آئی ایم ایف پروگرام کے حوالے سے تمام اگر، مگر اپنی جگہ لیکن یہ بات اہم ہے کہ دنیا آئی ایم ایف کی اصلاحات پر عمل کیے بغیر پاکستان کی مالی معاونت کرنے کو تیار نہیں ہے۔
سعودی عرب کے وزیر خزانہ نے ورلڈ اکنامک فورم پر بیان دیتے ہوئے کہا کہ اب اس نے دوست ملکوں کی معاونت کے طریقہ کار کو تبدیل کردیا ہے۔ وہ براہ راست مالی مدد کے بجائے دوست ملکوں کے ساتھ شراکت داری کرنا چاہتا ہے۔ سعودی عرب پاکستان میں 10 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کو تیار ہے۔ یعنی پاکستان کو آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق معیشت کو ٹھیک کرنا ہوگا تاکہ نہ صرف عالمی فنڈ بلکہ اس کے ساتھ کثیر الملکی مالیاتی ادارے اور دوست ممالک بھی پاکستان کو فنڈنگ کرسکیں۔
پاکستان کو جون تک تین ارب ڈالرکا قرض چکانا ہے جب کہ چار ارب ڈالر کی منتقلی متوقع ہے۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ آئی ایم ایف چاہتا ہے کہ پاکستان کے دوست ممالک اپنے ان وعدوں کو حتمی شکل دیں جو انھوں نے اسلام آباد کو اپنے فنڈز بڑھانے میں مدد فراہم کرنے کے لیے کیے ہیں۔ معاشی مشکلات پر قابو پانے کے لیے پاکستان دوست ممالک سے بھی رابطے میں ہے تاکہ وہاں سے نرم شرائط پر قرض یا امداد حاصل کر کے زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ کرے۔
ہمیں بہت سے سخت، لیکن درست فیصلے خود سے کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ پاکستان روز، روز کے معاشی اور سیاسی بحرانوں سے نکل کر خوشحالی کے راستے کا مسافر بن سکے اور عام پاکستانی کی زندگی میں سکون آ سکے۔ ایک دوسرے کو گرانے اور دیوار سے لگانے میں بہت سا وقت ضایع ہو چکا ہے، اب ہمیں آگے بڑھنے کے لیے افہام و تفہیم سے از سرِ نو صف بندی کرنا ہوگی،اس میں ہی ملک و عوام کے ساتھ سب کے لیے بہتری ہے۔
چند دن قبل آئی ایم ایف کی نمایندہ ایسٹر پریز روئز نے کہا تھا کہ اسلام آباد سے مذاکرات معاشی مسائل کے حل اور مالی استحکام پر ہو رہے ہیں اور ان کے ملکی جوہری پروگرام سے تعلق جوڑنے کی قیاس آرائیوں میں کوئی سچائی یا حقیقت نہیں۔
آئی ایم ایف کی طرف سے وضاحتی بیان کے بعد بلاشبہ افواہوں کا سلسلہ دم توڑ جائے گا، ہمیں جو کچھ بھی کرنا ہے، خود کرنا ہے۔ حکمران اتحاد کے سارے وعدے اور دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے ہیں۔ حکومت سیاسی استحکام لاسکی نہ معاشی بحران دورکر پائی ہے، آئی ایم ایف اپنی کڑی شرائط منوانے پر تلا ہوا ہے۔
اتحادی حکومت کو حقائق عوام سے چھپانے کے بجائے بتانے چاہییں ،کیونکہ ہر بار ہفتہ دس دن کی نئی تاریخ دی جاتی ہے ، جب کہ نئی تاریخ پر آئی ایم ایف مزید مطالبات سامنے لے آتا ہے ، یہ آنکھ مچولی بند ہونی چاہیے ، اگر آئی ایم ایف کے متبادل بھی کوئی پلان ہے تو وہ عوام کے سامنے لایا جائے ، ملک میں سیاسی استحکام لا کر جب تک طویل جامع منصوبہ بندی نہیں کی جائے گی۔
اس وقت تک صورتحال بہتر نہیں ہو پائے گی۔ اس معاشی بحران میں غریب کے ساتھ متوسط طبقہ سب سے زیادہ پس رہا ہے، یہ کوئی ارباب اختیار کو بتائے کہ آئی ایم ایف کی شرائط اور معاہدہ اپنی جگہ ، لیکن اہم فیصلے عوامی مفاد اور زمینی حقائق کو مد نظر رکھ کر ہی کیے جانے چاہیے ، لیکن یہ عوامی مفادات کا خیال کیسے رکھ سکتے ہیں ، جب کہ عالمی مالیاتی ادارے سے مذاکرات کرنے والے وفود میں ایک بھی ایسا شخص شامل نہیں ہے ، جو کہ غریب اور سفید پوش طبقے کی درست نمایندگی کرسکے۔
انھیں تو آٹے، دال کا بھاؤ بھی معلوم نہیں ہوتا ہے۔ یہ عوام کی نمایندگی کے دعویدار عالمی معاہدوں کی پاسداری ضرور کریں، مگر نئے معاہدے کرتے وقت ملک کے بائیس کروڑ عوام کے مسائل و مشکلات کو بھی سامنے رکھیں ، عوام کا احساس کرنا اور عوام کو ریلیف فراہم کرنا،آئی ایم ایف کی نہیں، موجودہ حکمران اتحاد کی ذمے داری ہے۔
ملک کو درپیش شدید معاشی مشکلات میں حکومت غریب عوام کی مدد کرنے کی نیت سے تمام ممکنہ اقدامات کر نے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس حوالے سے تازہ اقدام موٹر سائیکل، رکشا اور چھوٹی گاڑیوں کے لیے پچاس روپے فی لیٹر سبسڈی دینے کا اعلان ہے۔
حکومت کی جانب سے عوامی ریلیف کے اقدام خوش آیند ، مگر ملک کی مالیاتی صورتحال دیکھتے ہوئے آئی ایم ایف پہلے ہی سبسڈی پر قدغن لگا رہا ہے تو حکومت پٹرول جیسے آئٹم پر سبسڈی کیسے مہیا کر پائے گی؟
اس میں شک نہیں کہ اس مشکل دور میں عوام کو ایک روپے کا بھی کوئی ریلیف مل سکے تو ضرور ملنا چاہیے، لیکن یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ اس طرح کی شارٹ ٹرم پالیسیوں سے اب تک غریب مستحقین نے کتنا فائدہ اُٹھایا ہے اور سرمایہ داروں کو کتنا فائدہ پہنچایا جاتا رہا ہے۔
دوسری جانب حکومت نے فری آٹا اسکیم بھی شروع کی ہے لیکن اس فری آٹے کے حصول میں غریب کی کتنی تذلیل ہو رہی ہے اور کتنے مر رہے ہیں، یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ حکمرانوں نے ریلیف کے نام پر غریب عوام کو بھکاری بنا کر رکھ دیا ہے۔
ہمارا مقصد حکومت پر بے جا تنقید کرنا ہرگز نہیں ، بلکہ حکمران اور ارباب اختیار کی توجہ اس جانب مبذول کرانا ہے کہ اس طرح کی مشروط سبسڈیز سے عام آدمی بہتر طور پر مستفید ہو سکتا ہے نہ ہی مہنگائی میں کوئی کمی لائی جاسکتی ہے۔
اس سے موٹر سائیکل یا چھوٹی گاڑی رکھنے والے شہری تو شاید کسی حد تک مستفید ہو جائیں، لیکن جن غریبوں اور مزدوروں کے پاس اپنی سواری نہیں، انھیں اس سبسڈی سے کیا فائدہ ہو گا؟ اگر حکومت سو ، پچاس روپے کی مشروط سبسڈی کے بجائے ہر خاص وعام کے لیے پٹرولیم مصنوعات کی قیمت میں تیس سے چالیس روپے بھی کم کردے تو مختلف اشیا کے نرخ میں کمی لائی جاسکتی ہے۔
اسی طرح غریب کو مفت آٹے کی فراہمی کے بجائے اوپن مارکیٹ میں آٹے کی قیمت کم کر دی جائے تو اس سے ملک بھر کے عوام مستفید ہو سکیں گے ، کیونکہ آئے روز بڑھتی مہنگائی سے کوئی ایک نہیں، ہرکوئی پریشان حال ہے۔
پاکستان میں مہنگائی ریکارڈ بلند سطح پر پہنچ چکا ہے کیونکہ موجودہ حکومت رکے ہوئے قرض پروگرام کی بحالی کے لیے آئی ایم ایف کو مطمئن کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے اور حال ہی میں ای سی سی نے بجلی کے نئے نرخوں کی منظوری دے دی ہے۔
بجلی کے اوسط نرخوں اور اضافی لاگت کی ایڈجسٹمنٹ پر لگائے گئے خصوصی فنانسنگ سرچارج کے ساتھ، IMF کی ایک بڑی شرط پوری ہوگئی ہے اور اس اقدام کا مقصد صارفین سے تقریباً 335 ارب روپے حاصل کرنا ہے۔ تاہم، یہ اقدام پاور سیکٹر کے صارفین سے لاگت میں اضافے کے لیے ایڈجسٹمنٹ پر انحصار کرتا ہے اور خصوصی سبسڈیز کی واپسی کا مطلب یہ بھی ہے کہ یہ عوام کے لیے ایک اور بوجھ ہے۔
اس وقت، ڈیفالٹ سے بچنے کے لیے آئی ایم ایف کے اقدامات کو پورا کرنا ہی آگے بڑھنے کا واحد راستہ ہے اور اس لیے ایسی رجعت پسند پالیسیاں ناگزیر ہیں۔ یہ پروگرام پاکستان کی خراب کارکردگی والے پاور سیکٹر اور اس کے انتہائی زیادہ گردشی قرضوں کو ٹھیک کر رہا ہے۔
برآمدات پر مبنی صنعتوں سے یہ برآمدی سبسڈی واپس لینے کا مقصد نہ صرف گردشی قرضے کو ختم کرنا ہے بلکہ مستقبل میں اس کے طویل مدتی جمع ہونے کو بھی روکنا ہے۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ آئی ایم ایف کے تمام مطالبات کے ماننے کے باوجود عملے کی سطح پر ہونے والے معاہدے میں تاخیر ہو رہی ہے۔
حال ہی میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ حکومت نے قرض پروگرام کی بحالی کے لیے امریکی مدد لینے کا فیصلہ کیا ہے ، اگر ایسا تھا تو حکومت کو پہلے ہی امریکا سے رابطہ کرنا چاہیے تھا تاکہ آئی ایم ایف کی سخت شرائط میں نرمی کی جا سکتی۔ یہ صرف وقت ہی بتائے گا کہ ہم فنڈ سے کب اچھی خبر سننے جا رہے ہیں کیونکہ اس معاملے پر ابھی بھی کافی دھند ہے۔
پاکستان کے وفاقی ادارہ برائے شماریات کے مطابق کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتوں میں سالانہ بنیادوں پر 42.9 فیصد اضافہ ہوا۔ کھانے پینے کی تازہ اشیاء مثلا سبزیوں، پھلوں، گوشت، اناج اور مشروبات کی قیمتوں میں گزشتہ سال کے مقابلے میں 61.6 فیصد اضافہ دیکھا گیا۔
پاکستان نے ماضی میں آئی ایم ایف کے متعدد پروگرام لیے ہیں جن میں سے صرف دو پروگرام ہی مکمل ہوسکے ہیں۔ ایک پروگرام جنرل( ر) پرویز مشرف کے دور میں دیا گیا جو کہ آئی ایم ایف کی روایات سے ہٹ کر تخفیف غربت کا پروگرام تھا۔
دوسرا پروگرام مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے دور میں مکمل ہوا۔ اس پروگرام میں آئی ایم ایف نے 16 اہداف پورے نہ کرنے کے باوجود پاکستان کو رعایت دی ، کیونکہ اس وقت پاکستان یورپی اور امریکی ایما پر دہشت گردی کے خلاف جنگ کا حصہ تھا اس لیے آئی ایم ایف کے بورڈ اور اسٹاف نے متعدد اصلاحات نہ ہونے کے باوجود نہ صرف پورا قرض فراہم کیا بلکہ اچھی معیشت کی تعریف بھی کی۔اِس وقت خطے میں خصوصاً افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے بعد مغربی طاقتوں کو کسی قسم کی سیاسی مداخلت یا فوج کشی کی ضرورت مستقبل قریب میں دکھائی نہیں دے رہی ہے۔ اس لیے آئی ایم ایف کا رویہ بھی سخت سے سخت تر ہوتا جارہا ہے۔
آئی ایم ایف پروگرام کے حوالے سے تمام اگر، مگر اپنی جگہ لیکن یہ بات اہم ہے کہ دنیا آئی ایم ایف کی اصلاحات پر عمل کیے بغیر پاکستان کی مالی معاونت کرنے کو تیار نہیں ہے۔
سعودی عرب کے وزیر خزانہ نے ورلڈ اکنامک فورم پر بیان دیتے ہوئے کہا کہ اب اس نے دوست ملکوں کی معاونت کے طریقہ کار کو تبدیل کردیا ہے۔ وہ براہ راست مالی مدد کے بجائے دوست ملکوں کے ساتھ شراکت داری کرنا چاہتا ہے۔ سعودی عرب پاکستان میں 10 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کو تیار ہے۔ یعنی پاکستان کو آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق معیشت کو ٹھیک کرنا ہوگا تاکہ نہ صرف عالمی فنڈ بلکہ اس کے ساتھ کثیر الملکی مالیاتی ادارے اور دوست ممالک بھی پاکستان کو فنڈنگ کرسکیں۔
پاکستان کو جون تک تین ارب ڈالرکا قرض چکانا ہے جب کہ چار ارب ڈالر کی منتقلی متوقع ہے۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ آئی ایم ایف چاہتا ہے کہ پاکستان کے دوست ممالک اپنے ان وعدوں کو حتمی شکل دیں جو انھوں نے اسلام آباد کو اپنے فنڈز بڑھانے میں مدد فراہم کرنے کے لیے کیے ہیں۔ معاشی مشکلات پر قابو پانے کے لیے پاکستان دوست ممالک سے بھی رابطے میں ہے تاکہ وہاں سے نرم شرائط پر قرض یا امداد حاصل کر کے زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ کرے۔
ہمیں بہت سے سخت، لیکن درست فیصلے خود سے کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ پاکستان روز، روز کے معاشی اور سیاسی بحرانوں سے نکل کر خوشحالی کے راستے کا مسافر بن سکے اور عام پاکستانی کی زندگی میں سکون آ سکے۔ ایک دوسرے کو گرانے اور دیوار سے لگانے میں بہت سا وقت ضایع ہو چکا ہے، اب ہمیں آگے بڑھنے کے لیے افہام و تفہیم سے از سرِ نو صف بندی کرنا ہوگی،اس میں ہی ملک و عوام کے ساتھ سب کے لیے بہتری ہے۔