ہمہ جہت ادیبہ رئیس فاطمہ

ممتاز اور اہم ادبی و فلمی شخصیات پر بھی رئیس فاطمہ نے قلم اٹھایا ہے اور جم کر لکھا ہے

nasim.anjum27@gmail.com

رئیس فاطمہ ممتاز صحافی اور فکشن رائٹر ہیں اب تک وہ 17 کتابیں تصنیف و تالیف کر چکی ہیں، ان دنوں جو کتاب میرے زیر مطالعہ رہی، اس کا عنوان ہے ''رئیس فاطمہ، احوال و آثار'' اسے سید معراج جامی نے مرتب کیا ہے اور سرورق بھی ان کا ہی بنایا ہوا ہے۔

کتاب ضخامت کے اعتبار سے 336 صفحات کا احاطہ کرتی ہے اور رئیس فاطمہ کے احوال و آثار کی مفصل معلومات ملتی ہے۔ انھوں نے انتساب اپنے مرحوم شوہر اختر جونا گڑھی اور اپنے اکلوتے بیٹے راحیل اختر کے نام لکھا ہے۔کتاب مختلف حصوں میں تقسیم ہے۔

فہرست کی ابتدا رئیس فاطمہ کے مضمون '' سفر تمام ہوا '' (دیباچہ) کے عنوان سے ہوئی ہے، مذکورہ تحریر میں ادبی سرگرمیوں اور اپنے ایکسیڈنٹ اور تیمار داروں کا ذکر کیا ہے۔ رئیس فاطمہ کی تحریر کی یہ خوبی ہے کہ سادہ ، دلکش اور حقیقت پر مبنی ہے، وہ سچ اور سچ پر یقین رکھتی ہیں ان کا لہجہ کھرا اور حقیقت مندانہ ہے۔

مصنفہ کی تحریریں اس بات کی غماز ہیں کہ وہ نڈر اور بے باک مصنفہ ہیں۔پوری کتاب پڑھ ڈالیے، سوائے چند مضامین و مقالات کے ہر لفظ درد اور شوہر کی مفارقت کے رنگ میں رنگ گیا ہے، خود بھی روتی ہیں اور قاری کو بھی رلاتی ہیں۔اپنے بیٹے راحیل اختر کی وجہ سے غمزدہ ہیں، ان کے دکھ کو ایک ماں ہی سمجھ سکتی ہے کہ اولاد ماں کی سانسوں میں بستی ہے۔

رئیس فاطمہ کے صاحب زادے اسلام آباد میں رہائش پذیر ہیں جب کہ وہ کراچی میں بستی ہیں۔ دلوں میں فاصلے نہ ہوں تو سمندر پار کے فاصلے بھی ختم ہو جاتے ہیں، انھوں نے کئی نظمیں بھی تخلیق کی ہیں۔ ایک نظم جس کا عنوان ہے ''میرے بیٹے تم جیو ہزاروں سال۔''

وہ میرے پاس نہیں، آنکھ سے اوجھل بھی نہیں
یوں مرا اس سے الگ گزرا ، کوئی دن بھی نہیں

بھول جائے وہ مجھے میں نے یہی چاہا تھا
اب جو بھولا ہے تو کیوں چین ، کسی کل بھی نہیں

رئیس فاطمہ کے تعارف کے ذریعے قاری کو ان کے حالات زندگی سے آگاہی ملتی ہے۔ ان کا آبائی وطن الٰہ آباد ہے، ددھیال کا تعلق پشاور سے اور ننھیال کا دہلی سے تھا۔ نانا سید محمد علی چشتی قادری عالم دین اور ان کی کئی کتابیں شایع ہو چکی ہیں، جس طرح نانا دینی بصیرت سے مالا مال تھے ، اسی طرح مصنفہ کے دادا بھی علم و ہنر میں باکمال اور صاحب کتب تھے، تو گویا رئیس فاطمہ کو علم و ادب ورثے میں ملا تھا۔ اسی مضمون میں ان کی کتابوں کی تعداد اور ان کی تخلیقی اور تدریسی صلاحیتوں کے بارے میں اعلیٰ حضرات کی آرا درج ہیں۔

قرۃ العین حیدر کے افسانوں پر رئیس فاطمہ نے جو تنقیدی کتاب تحریر کی تھی، اس کی تقریب رونمائی انجمن ترقی اردو کے دفتر میں منعقد ہوئی تھی، مقررین کے مضامین رئیس فاطمہ کے فن ان کے وسیع مطالعے کے غماز تھے۔ تمام مضامین قرۃ العین حیدر کے حوالے سے شامل کتاب ہیں۔ ان اہم ادبی و علمی شخصیات میں جمیل الدین عالی، انتظار حسین ڈاکٹر انور سدیر کی نگارشات نے مصنفہ کی تجزیاتی صلاحیت کو منصفانہ اور مدللانہ طور پر نمایاں کیا ہے، جس سے مصنفہ کا تحقیقی پہلو سامنے آتا ہے۔


انھوں نے افسانے اور ناولٹ بھی لکھے ہیں جو کہ کتابی شکل میں اشاعت کے مرحلوں سے گزر چکے ہیں، وہ پختہ کار قلم کار ہیں، جو بھی لکھتی ہیں فنی رچاؤ کے ساتھ ان کے افسانے بیانیہ افسانوں کے زمرے میں آتے ہیں، وہ سماج کے بدنما کرداروں کو بہت نفاست کے ساتھ سامنے لائی ہیں۔

ادیب سہیل نے اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ ''رئیس فاطمہ کی افسانہ طرازی کا پسندیدہ اسلوب بیانیہ ہے، اس وقت بھی جب اردو فکشن میں ساٹھ کی دہائی سے ایمائیت، علامت، تجریدآور کہانی (Anti Story) کے تجربات کی گرد اڑائی جا رہی تھی اور کہانی کاروں کا ایک بڑا طبقہ اس جانب بے تحاشا بھاگ رہا تھا اور اس وقت بھی جب 80 کی دہائیوں میں وہی فکشن نگار قاری کی گمشدگی کا واویلا کر رہے تھے اور قاری کی گمشدگی کے اسباب تلاش کرنے کے لیے پٹنہ اور دہلی میں سیمینار منعقد کر رہے تھے جن میں بالآخر یہ طے پایا کہ قارئین کو واپس لانے کے لیے کہانی میں کہانی پن کے ساتھ بیانیہ جڑا ہوتا ہے لہٰذا بیانیہ اسلوب کو لانا لازمی ہے۔

افسانہ طرازی کے ان مختلف مدارج میں رئیس فاطمہ اپنے بیانیہ طرزِ اظہار پر ثابت قدم رہیں، بیانیہ کا یہ طرزِ اظہار رئیس فاطمہ کے طویل افسانہ ''شاخ نہال غم'' میں پوری آب و تاب کے ساتھ دیکھا جاسکتا ہے۔''

رئیس فاطمہ کے کالم پڑھنے کا اعزاز مجھے اس لیے حاصل ہے کہ روزنامہ ''ایکسپریس'' میں سن 2000 سے میں بھی کالم لکھ رہی ہوں، کتاب میں ان کے کالموں کے حوالے سے وقیع مضامین تشنگی علم کی پیاس بجھانے والوں کو میسر آتے ہیں، وہ ہمہ جہت قلم کار ہیں، انھوں نے ناول اور افسانے ہی نہیں لکھے بلکہ انھوں نے سفرنامے بعنوانات ''میرے خوابوں کی سرزمین، خواب نگر کی گلیاں'' تحریر کیے ہیں، ان کی یہ دونوں کتابیں ان کی خوبصورت یادوں کی مظہر ہیں۔

پروفیسر یٰسین معصوم نے بہت معلومات افزا مضمون قلم بند کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:''وہ کہانی نویس اور کالم نگار بھی ہیں اور جب سے وہ اپنے خوابوں کی سرزمین کی سیاحت کرکے آئی ہیں (دلی، احمد آباد، آگرہ، جے پور، اجمیر اور جوناگڑھ) وہ سفرنامہ نگار کی حیثیت سے بھی سامنے آئی ہیں، ان کی تمنا ہے کہ وہ یہ کہہ سکیں:

ایک صحرا کی خاک چھانی ہے
ایک سمندر کھنگالنا ہے ابھی

سفرنامہ نگار نے جس چاہت سے سفر کیا، جس لگن سے اس دھرتی پہ قدم رکھا، جس مٹی کی خوشبو کو اپنی سانسوں میں مہکایا، جس دل سے دلی کو گلے لگایا اس کی خاک کو آنکھوں کا سرمہ بنایا وہ ان کے خوابوں کا اجالا ہے۔ وہ تاریخی عمارات، محلات، باغات، مقابر، مساجد، درگاہیں، قلعے ہی نہیں بلکہ اس کی گلیوں اور کوچوں میں بھی پھرتی رہیں اور بصارت کے ساتھ بصیرت بھی کھلاتی رہیں۔''

پروفیسر صاحب کا مضمون اس بات کا گواہ ہے کہ رئیس فاطمہ نے اپنی خواہشات کی تکمیل اور اپنے پرکھوں کی قبورکی زیارات، محلے، گلیاں، تاریخی مقامات کا دیدار کرنے کے لیے سفر کیا، اپنے عزیز و اقارب سے ملاقات کو اپنی خوش بختی سمجھ کر وہ دیار غیر روانہ ہوئیں اور بہت ساری انمول خوشیوں اور یادوں کا خزانہ لے کر لوٹیں جو تاحیات ان کے ساتھ رہے گا۔

رئیس فاطمہ کالم نگاری کے حوالے سے اپنی خصوصی شناخت رکھتی ہیں، ان کے کالم معاشرتی، سماجی اور سیاسی حالات کی نشان دہی کرتے ہیں، انھوں نے خانگی معاملات پر بھی کالم لکھے ہیں جن کی تعداد بہت زیادہ ہے خصوصاً ساس بہو کے اختلافات، بڑھتی عمر کی لڑکیوں کے شادی کے مسائل، والدین اور اولاد کے فرائض، اولاد کا غیر ذمے دارانہ رویہ جو والدین کو جیتے جی لحد میں اتار دیتا ہے۔

ممتاز اور اہم ادبی و فلمی شخصیات پر بھی رئیس فاطمہ نے قلم اٹھایا ہے اور جم کر لکھا ہے۔کتاب میں دو افسانے بھی شامل ہیں جوکہ اپنی بنت اور اسلوب بیان کے اعتبار سے بہترین افسانے کہلانے کے مستحق ہیں۔ اتنے ڈھیر سارے ادبی امور انجام دینے پر میں انھیں مبارک باد پیش کرتی ہوں۔
Load Next Story