پہلے ریاست
قصہ مختصر اس ملک کو اگر آگے بڑھانا ہے تو ہر ایک چیز کا جائزہ لینا ہوگا
ہم کو اب مان لینا چاہیے کہ ہم سے چل نہ سکا یہ ملک، اعتراف کرنے سے راہیں کھلتی ہیں۔ جو آئین تھا اسے ہم توڑتے رہے، جب توڑنا مشکل ہوا تواس سے کھیلتے رہے اور اب کافکا کی اس کہاوت کی طرح ہے کہ جب کوئی آوارگی کرتے کرتے ایک دن بند گلی میں پھنس جاتا ہے۔
ہمارے دشمن بہت ہوںگے لیکن اب دوست بہت کم ہیں لیکن جس بات نے کام تمام کیا، وہ بالادست طبقے کا تیار کردہ ریاستی بیانیہ تھا، تاریخ مسخ کرنا اور جو آواز بلند کرے، اسے غدار قرار دینا ، آج وہ جو غدار تھے وہ اس وقت پاکستان کے ساتھ کھڑے ہیں اور جو محب وطن تھے، وہ دولت اور مسلح جنگجو جتھے لے کرکھڑے ہیں کہ فوج مداخلت کرے، ہمیں اقتدار دلوائے، ورنہ جائے یہ ملک بھاڑ میں۔ یہ کوئی بیانیہ نہیں تھا بلکہ ایک دھوکا تھا ، اب چہرے پر چڑھایا ہوا نقاب اتر چکا ہے۔
الیکشن کمیشن نے کسی بھی طرح آئین شکنی نہیں کی۔ سپریم کورٹ نے کہا، نوے دن کے اندر انتخابات ہونے چاہییے، سرخم تسلیم کیا، الیکشن کمیشن نے شیڈول کا اعلان کیا سیکشن 57 کے تحت اور پھر سیکشن 58 کے تحت اسے ملتوی کیا ،ملتوی کرنے کی وجوہات سیکشن 58 میں درج ہیں اور انھی بنیادوں پر دو سال بلدیاتی انتخابات ملتوی کرنے کو خود سپریم کورٹ نے بھی جائز قرار دیا تھا۔ ہاں اس کے لیے سپریم کورٹ جایا جاسکتا ہے کہ آیا الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 58 کا جو معیار ہے وہ پورا ہوتا ہے کہ نہیں؟ مگر الیکشن کمیشن کے انتخابات ملتوی کرنے کے اقدام کو توہین عدالت نہیں کہا جاسکتا۔
جتنا عرصہ خان صاحب نے اقتدار میں گزارا، اس سے بھی کم عرصہ بینظیر یا نواز شریف نے گزارا، گزارنے کے بعد انقلاب کی باتیں نہیں کیا کرتے تھے، جلاؤ گھیراو نہیں کیا کرتے تھے۔
انتخابات ہوں گے، اپنے مقررہ وقت پر، اب اگر جو دو اسمبلیاں تحلیل کرکے دو صوبوں کے انتخابات چاہتا تھا، خود یہ بات سپریم کورٹ کے دو جج صاحبان نے بھی کی تھی، اسی نو رکنی بینچ نے جو سو موٹو کو بنیاد بنا کے بنائی گئی تھی کہ آیا یہ جو اسمبلیاں تحلیل کی گئی ہیں وہ اس معیار پر بھی اترتی ہیں جو آئین کے آرٹیکل 112 میں مروج کیا گیا ہے۔ نو ججوں میں غالبا پانچ ججوں نے یہ بھی کہا تھا کہ سپریم کورٹ کی جورسڈکشن نہیں بنتی کہ وہ خود بخود نوٹس لے اور یہ ماجرہ سنے۔
کورٹ جب فیصلے دے دیتی ہے اس کے بعد یہ فیصلے پبلک کی امانت ہوتے ہیں ۔ ان کیسوں کو قانون کے تدریسی عمل میں تنقید کے پراسز سے گذرنا ہوتا ہے۔ جسٹس منیر جب چیف جسٹس تھے تب تھے مگر اب وہ پاکستان کی آئین کی تاریخ کا حصہ ہیں، وہ چار جج صاحبان بھی جنھوں نے مولوی مشتاق کے فیصلے کو درست قرار دیا تھا ، باقی تین جج صاحبان نے اسے غلط قرار دیا تھا۔ کم از کم اتنا تو بنتا تھا کہ بھٹو کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کیا جاتا۔ تبھی تو ابو الکلام آزاد نے کہا تھا کہ تاریخ میں سب سے بڑی نا انصافیاں میدان جنگ میں ہوتی ہیں یا پھر عدالتوں میں۔
جو الیکشن ہوں گے وہ تو ہوں گے، ابھی نہ سہی اکتوبر میں سہی، مگر یہ کسی کتاب میں نہیں لکھا کہ خان صاحب آئین اور قانون سے بالاتر ہیں۔ وہ توڑ پھوڑ کریں، عدالتوں میں نہ پہنچیں، پولیس پر پٹرول بم پھینکیں وہ خود صادق اور امین ہیں، باقی سب چور ہیں۔ جو چور ہیں ان کی نظر میں وہ عدالتوں میں جاتے رہے ہیں، برا یا بھلا مگر ان پر الزام اب تک ثابت نہیں ہوئے۔
آپ چور ہیں کہ نہیں اس کا فیصلہ خان صاحب خود نہیں کریں گے بلکہ عدالتیں کریں گی، ورنہ نیب کے جج جسٹس ارشد نے جو فیصلے سنائے تھے، یہ ان کا اعتراف ہے کہ پریشر میں سنائے تھے۔ خود نسیم حسن شاہ بھی اعتراف کر گئے کہ بھٹو کی سزائے موت کو بحال رکھنے کا فیصلہ انھوں نے جنرل ضیا الحق کے پریشر میں دیا تھا۔ اس وقت جو اس ملک میں بحران ہیں، ایک ایسے وقت جب دنیا تیزی سے ایک نئی سرد جنگ کی طرف گامزن ہوتی نظر آ رہی ہے، کل تک جو ہم امریکا اور چین سے برابر کے تعلقات رکھتے تھے۔
اب یہ بات امریکا کو اچھی نہیں لگتی ، چین نے بہت بڑا کام کیا، دنیا کے امن کے لیے جب اس نے ایران اور سعودی عرب کی آپس میں دوستی کروادی، مگر ہم ایران سے تعلقات بہتر نہیں کرسکتے، اس لیے کہ سعودی عرب کو برا لگے گا او امریکا کو بھی۔چلو اب یہ قدغن تو ختم ہوئی کہ ہم ہندوستان سے دوستی نہیں کرسکتے کیونکہ ہمارے درمیان کشمیر کا تنازعہ ہے۔ یہ بات کوئی اگر نہ مانے وہ اس کی مرضی مگر بلاول بھٹو پاکستان کی خارجہ پالیسی کو بہت خوبصورت انداز میں آگے لے جارہے ہیں، جو جمود تھا جو تنہائی کا احساس تھا وہ ٹوٹ گیا۔
یہ سب مسائل اپنی جگہ مگر جو بنیادی مسئلہ ہے وہ معاشی ہے۔ اس حوالے سے ہمیں سر جوڑ کے بیٹھنا پڑے گا اور جس طرح کی سیاست خان صاحب نے متعارف کرائی ہے ، جلائو ، گھیراؤ، توڑ پھوڑ خود اس سے معاشی بحران اور بڑھتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اکتوبر اب دور کتنا ہے، چھ مہینہ یا پانچ مہینہ؟ تو پھر کیوں نہ انتخابات ایک ساتھ ہوں اور اربوں روپے بچائے جائیں بلکہ اور بھی بہت بڑی فضول خرچی ہوگی۔ خود جو الیکشن میں کھڑے ہوں گے ان کے اخراجات بھی بڑھ جائیں گے۔
مجھے نہیں پتا کہ آگے کیا ہونے جارہا ہے۔ بظاہر یہ جھگڑا اگر پارلیمنٹ اور عدلیہ میں بڑھتا ہے تو صورتحال وہی بنتی ہوئی نظر آرہی ہے جو چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے زمانے میں بنی تھی۔ عدلیہ کو اپنے فیصلوں پر عمل کروانے کے لیے انتظامیہ کی ضرورت پڑتی ہے اور اس وقت پار لیمنٹ اور اسٹبلشمنٹ ایک ہی پیج پر نظر آرہی ہیں۔ ایسے زمانوں میں بے نظیر انتظار کرتی تھیں کہ کب نواز شریف اوراسٹبلشمنٹ میں ٹکرائو پیدا ہوتا ہے تو خود نواز شریف انتظار کرتے تھے کہ کب بے نظیر اور اسٹبلشمنٹ میں جھگڑا ہوتا ہے۔
خان صاحب سب راستے بند کررہے ہیں، وہ انتظا رکرنے کے چکر میں نہیں کیونکہ ان کے خلاف جو کیسز بن رہے ہیں، ان میں بہت ٹھوس ثبوت ہیں۔ وہ ایک دن بھی جیل جانے کے لیے تیار نہیں اور ان کی اسی نفسیاتی کیفیت کو حکومت ان کے خلاف خوب استعمال کررہی ہے،وہ جس قدر انارکی پیدا کرنا چاہتے ہیں، وہ ان کی بس کی بات نہیں ، وہ دکانیں بند کرنے کی کال بھی نہیں دے سکتے جو کراچی میں بانی ایم کیو ایم دیا کرتے تھے،مگر وہ ٹھہر نہ سکے۔
ریاست کے آہنی ہاتھوں کے سامنے گر گئے بلاآخر۔ چلو ہم نے مانا ،خان صاحب ساتھ سابق جنرلز بھی ہیں، جنرل ضیاء الحق، جنرل عبدالرحمان کے فرزندان بھی ہیں، طالبان مشکل اور مضبوط گروپ ضرورہے مگر ریاست کے سامنے کھڑے نہیں ہوسکتے، اس کے باوجود بھی کہ ریاست اس وقت بہت بڑے بحرانوں سے گزررہی ہے۔
قصہ مختصر اس ملک کو اگر آگے بڑھانا ہے تو ہر ایک چیز کا جائزہ لینا ہوگا۔ سب سے پہلے اس بیانیہ کا جو پچھتر سال سے لاگو ہے، جدید سوچ رکھنے والی نئی سیاسی قیادت پیدا کرنی ہوگی جو پاکستان کے مڈل کلاس اور عام طبقے کے مفادات کا تحفظ کرے، تاریخ کو درست کرے، آئین میں آمروں کی ترامیم کو ختم کرے، ہم اس گھسی پٹی پرانی اشرافیہ سے ملک نہیں چلا سکتے۔
یہ وہ اشرافیہ ہے جو انگریزوں کے دور سے آج تک مروج ہے بلکہ ہندوستان اور بنگلہ دیش ایسی اشرافیہ سے اپنی جان چھڑا چکا ہے۔ یہ ملک نہ پیپلز پارٹی سے چلے گا نہ مسلم لیگ نون سے اگر وہ اسی گھسے پٹے بیانیہ کو اب بھی لے کر چلتے ہیں۔ ہمارے دشمن چاہتے ہیں کہ اس ملک پر جنرل ایوب ، جنرل یحیی ، جنرل ضیا الحق اور جنرل مشرف کی سوچ غالب رہے۔
ہمارے دشمن بہت ہوںگے لیکن اب دوست بہت کم ہیں لیکن جس بات نے کام تمام کیا، وہ بالادست طبقے کا تیار کردہ ریاستی بیانیہ تھا، تاریخ مسخ کرنا اور جو آواز بلند کرے، اسے غدار قرار دینا ، آج وہ جو غدار تھے وہ اس وقت پاکستان کے ساتھ کھڑے ہیں اور جو محب وطن تھے، وہ دولت اور مسلح جنگجو جتھے لے کرکھڑے ہیں کہ فوج مداخلت کرے، ہمیں اقتدار دلوائے، ورنہ جائے یہ ملک بھاڑ میں۔ یہ کوئی بیانیہ نہیں تھا بلکہ ایک دھوکا تھا ، اب چہرے پر چڑھایا ہوا نقاب اتر چکا ہے۔
الیکشن کمیشن نے کسی بھی طرح آئین شکنی نہیں کی۔ سپریم کورٹ نے کہا، نوے دن کے اندر انتخابات ہونے چاہییے، سرخم تسلیم کیا، الیکشن کمیشن نے شیڈول کا اعلان کیا سیکشن 57 کے تحت اور پھر سیکشن 58 کے تحت اسے ملتوی کیا ،ملتوی کرنے کی وجوہات سیکشن 58 میں درج ہیں اور انھی بنیادوں پر دو سال بلدیاتی انتخابات ملتوی کرنے کو خود سپریم کورٹ نے بھی جائز قرار دیا تھا۔ ہاں اس کے لیے سپریم کورٹ جایا جاسکتا ہے کہ آیا الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 58 کا جو معیار ہے وہ پورا ہوتا ہے کہ نہیں؟ مگر الیکشن کمیشن کے انتخابات ملتوی کرنے کے اقدام کو توہین عدالت نہیں کہا جاسکتا۔
جتنا عرصہ خان صاحب نے اقتدار میں گزارا، اس سے بھی کم عرصہ بینظیر یا نواز شریف نے گزارا، گزارنے کے بعد انقلاب کی باتیں نہیں کیا کرتے تھے، جلاؤ گھیراو نہیں کیا کرتے تھے۔
انتخابات ہوں گے، اپنے مقررہ وقت پر، اب اگر جو دو اسمبلیاں تحلیل کرکے دو صوبوں کے انتخابات چاہتا تھا، خود یہ بات سپریم کورٹ کے دو جج صاحبان نے بھی کی تھی، اسی نو رکنی بینچ نے جو سو موٹو کو بنیاد بنا کے بنائی گئی تھی کہ آیا یہ جو اسمبلیاں تحلیل کی گئی ہیں وہ اس معیار پر بھی اترتی ہیں جو آئین کے آرٹیکل 112 میں مروج کیا گیا ہے۔ نو ججوں میں غالبا پانچ ججوں نے یہ بھی کہا تھا کہ سپریم کورٹ کی جورسڈکشن نہیں بنتی کہ وہ خود بخود نوٹس لے اور یہ ماجرہ سنے۔
کورٹ جب فیصلے دے دیتی ہے اس کے بعد یہ فیصلے پبلک کی امانت ہوتے ہیں ۔ ان کیسوں کو قانون کے تدریسی عمل میں تنقید کے پراسز سے گذرنا ہوتا ہے۔ جسٹس منیر جب چیف جسٹس تھے تب تھے مگر اب وہ پاکستان کی آئین کی تاریخ کا حصہ ہیں، وہ چار جج صاحبان بھی جنھوں نے مولوی مشتاق کے فیصلے کو درست قرار دیا تھا ، باقی تین جج صاحبان نے اسے غلط قرار دیا تھا۔ کم از کم اتنا تو بنتا تھا کہ بھٹو کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کیا جاتا۔ تبھی تو ابو الکلام آزاد نے کہا تھا کہ تاریخ میں سب سے بڑی نا انصافیاں میدان جنگ میں ہوتی ہیں یا پھر عدالتوں میں۔
جو الیکشن ہوں گے وہ تو ہوں گے، ابھی نہ سہی اکتوبر میں سہی، مگر یہ کسی کتاب میں نہیں لکھا کہ خان صاحب آئین اور قانون سے بالاتر ہیں۔ وہ توڑ پھوڑ کریں، عدالتوں میں نہ پہنچیں، پولیس پر پٹرول بم پھینکیں وہ خود صادق اور امین ہیں، باقی سب چور ہیں۔ جو چور ہیں ان کی نظر میں وہ عدالتوں میں جاتے رہے ہیں، برا یا بھلا مگر ان پر الزام اب تک ثابت نہیں ہوئے۔
آپ چور ہیں کہ نہیں اس کا فیصلہ خان صاحب خود نہیں کریں گے بلکہ عدالتیں کریں گی، ورنہ نیب کے جج جسٹس ارشد نے جو فیصلے سنائے تھے، یہ ان کا اعتراف ہے کہ پریشر میں سنائے تھے۔ خود نسیم حسن شاہ بھی اعتراف کر گئے کہ بھٹو کی سزائے موت کو بحال رکھنے کا فیصلہ انھوں نے جنرل ضیا الحق کے پریشر میں دیا تھا۔ اس وقت جو اس ملک میں بحران ہیں، ایک ایسے وقت جب دنیا تیزی سے ایک نئی سرد جنگ کی طرف گامزن ہوتی نظر آ رہی ہے، کل تک جو ہم امریکا اور چین سے برابر کے تعلقات رکھتے تھے۔
اب یہ بات امریکا کو اچھی نہیں لگتی ، چین نے بہت بڑا کام کیا، دنیا کے امن کے لیے جب اس نے ایران اور سعودی عرب کی آپس میں دوستی کروادی، مگر ہم ایران سے تعلقات بہتر نہیں کرسکتے، اس لیے کہ سعودی عرب کو برا لگے گا او امریکا کو بھی۔چلو اب یہ قدغن تو ختم ہوئی کہ ہم ہندوستان سے دوستی نہیں کرسکتے کیونکہ ہمارے درمیان کشمیر کا تنازعہ ہے۔ یہ بات کوئی اگر نہ مانے وہ اس کی مرضی مگر بلاول بھٹو پاکستان کی خارجہ پالیسی کو بہت خوبصورت انداز میں آگے لے جارہے ہیں، جو جمود تھا جو تنہائی کا احساس تھا وہ ٹوٹ گیا۔
یہ سب مسائل اپنی جگہ مگر جو بنیادی مسئلہ ہے وہ معاشی ہے۔ اس حوالے سے ہمیں سر جوڑ کے بیٹھنا پڑے گا اور جس طرح کی سیاست خان صاحب نے متعارف کرائی ہے ، جلائو ، گھیراؤ، توڑ پھوڑ خود اس سے معاشی بحران اور بڑھتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اکتوبر اب دور کتنا ہے، چھ مہینہ یا پانچ مہینہ؟ تو پھر کیوں نہ انتخابات ایک ساتھ ہوں اور اربوں روپے بچائے جائیں بلکہ اور بھی بہت بڑی فضول خرچی ہوگی۔ خود جو الیکشن میں کھڑے ہوں گے ان کے اخراجات بھی بڑھ جائیں گے۔
مجھے نہیں پتا کہ آگے کیا ہونے جارہا ہے۔ بظاہر یہ جھگڑا اگر پارلیمنٹ اور عدلیہ میں بڑھتا ہے تو صورتحال وہی بنتی ہوئی نظر آرہی ہے جو چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے زمانے میں بنی تھی۔ عدلیہ کو اپنے فیصلوں پر عمل کروانے کے لیے انتظامیہ کی ضرورت پڑتی ہے اور اس وقت پار لیمنٹ اور اسٹبلشمنٹ ایک ہی پیج پر نظر آرہی ہیں۔ ایسے زمانوں میں بے نظیر انتظار کرتی تھیں کہ کب نواز شریف اوراسٹبلشمنٹ میں ٹکرائو پیدا ہوتا ہے تو خود نواز شریف انتظار کرتے تھے کہ کب بے نظیر اور اسٹبلشمنٹ میں جھگڑا ہوتا ہے۔
خان صاحب سب راستے بند کررہے ہیں، وہ انتظا رکرنے کے چکر میں نہیں کیونکہ ان کے خلاف جو کیسز بن رہے ہیں، ان میں بہت ٹھوس ثبوت ہیں۔ وہ ایک دن بھی جیل جانے کے لیے تیار نہیں اور ان کی اسی نفسیاتی کیفیت کو حکومت ان کے خلاف خوب استعمال کررہی ہے،وہ جس قدر انارکی پیدا کرنا چاہتے ہیں، وہ ان کی بس کی بات نہیں ، وہ دکانیں بند کرنے کی کال بھی نہیں دے سکتے جو کراچی میں بانی ایم کیو ایم دیا کرتے تھے،مگر وہ ٹھہر نہ سکے۔
ریاست کے آہنی ہاتھوں کے سامنے گر گئے بلاآخر۔ چلو ہم نے مانا ،خان صاحب ساتھ سابق جنرلز بھی ہیں، جنرل ضیاء الحق، جنرل عبدالرحمان کے فرزندان بھی ہیں، طالبان مشکل اور مضبوط گروپ ضرورہے مگر ریاست کے سامنے کھڑے نہیں ہوسکتے، اس کے باوجود بھی کہ ریاست اس وقت بہت بڑے بحرانوں سے گزررہی ہے۔
قصہ مختصر اس ملک کو اگر آگے بڑھانا ہے تو ہر ایک چیز کا جائزہ لینا ہوگا۔ سب سے پہلے اس بیانیہ کا جو پچھتر سال سے لاگو ہے، جدید سوچ رکھنے والی نئی سیاسی قیادت پیدا کرنی ہوگی جو پاکستان کے مڈل کلاس اور عام طبقے کے مفادات کا تحفظ کرے، تاریخ کو درست کرے، آئین میں آمروں کی ترامیم کو ختم کرے، ہم اس گھسی پٹی پرانی اشرافیہ سے ملک نہیں چلا سکتے۔
یہ وہ اشرافیہ ہے جو انگریزوں کے دور سے آج تک مروج ہے بلکہ ہندوستان اور بنگلہ دیش ایسی اشرافیہ سے اپنی جان چھڑا چکا ہے۔ یہ ملک نہ پیپلز پارٹی سے چلے گا نہ مسلم لیگ نون سے اگر وہ اسی گھسے پٹے بیانیہ کو اب بھی لے کر چلتے ہیں۔ ہمارے دشمن چاہتے ہیں کہ اس ملک پر جنرل ایوب ، جنرل یحیی ، جنرل ضیا الحق اور جنرل مشرف کی سوچ غالب رہے۔