جمہوری اسپرٹ برقرار رکھی جائے

ڈیموکریٹس کو سوچنا چاہیے کہ جمہوریت آسان طرز حکومت نہیں، بلکہ سخت مشکل نظم حکومت و معاشرت کا نام جمہوریت ہے

ڈیموکریٹس کو سوچنا چاہیے کہ جمہوریت آسان طرز حکومت نہیں، بلکہ سخت مشکل نظم حکومت و معاشرت کا نام جمہوریت ہےفوٹو: فائل

سر ونسٹن چرچل کا مشہورمقولہ ہے کہ '' جمہوریت کے خلاف سب سے بہترین دلیل پانچ منٹ کی وہ گفتگو ہے جو اوسط درجے کے ووٹر سے کی جائے۔'' اسی چرچل کا مزید کہنا ہے کہ جمہوریت بدترین طرز حکومت ہے ، ماسوائے ان نظاموں کے جن کو اب تک آزمایا جاچکا ہے۔اس تناظر میں اگر قومی امور سے وابستہ اداروں ، آئینی و قانونی ماہرین اور سیاسی و جمہوری حلقوں میں برپا آج کل کے اس پرشور سیناریو کا جائزہ لیا جائے کہ جمہوریت خطرے میں ہے تو اس اندیشہ ہائے دور دراز سے خوفزدہ ہونے کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی بلکہ قومی سیاست میں گذشتہ چند برسوں کے جمہوری عمل نے جو خوش آیند پیش رفت کی ہے وہ سنجیدہ مطالعے کی متقاضی ہے جس سے یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ جمہوریت کو لاحق امکانی خطرات کا ادراک یا اس کا شعور عوام کے لیے نعمت غیر مترقبہ ہے اور یہ عوامی سیاسی شعور کی بالیدگی اور جمہوریت کے تحفظ کی سمت اٹھنے والی مثبت اور توانا آوازیں ہیں جو رائے دہندگان کی جمہوری جدوجہد سے کمٹمنٹ کا اعلان کررہی ہیں۔

مثال کے طور پر پیپلزپارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر کا کہنا ہے کہ آرمی چیف کا حالیہ بیان اور کور کمانڈر کانفرنس سے آنیوالی بعض خبروں سے تنائو پیدا ہو رہا ہے، اگر سیاسی حکومت کو کوئی خطرہ ہو تو سیاسی جماعتیں اس کا ساتھ دیں جب کہ قومی اسپیکرز کانفرنس کے اعلان اسلام آباد میں کہا گیا ہے کہ عدلیہ اور فوج پارلیمنٹ کے امور میں مداخلت نہیں کر رہیں، ہر ادارہ اپنے اپنے آئینی دائرہ کار کے اندر رہتے ہوئے کام کر رہا ہے۔ انھوں نے مطالبہ کیا کہ جمہوری اقدار کے فروغ کے لیے ضروری ہے کہ جمہوریت، انسانی حقوق اور پارلیمانی روایات کے موضوعات کو قومی نصاب کا لازمی جزو بنایا جائے، جنوبی ایشیا میں پائیدار امن کے لیے مسئلہ کشمیر کا حل وقت کی اہم ضرورت ہے، اسپیکرز نے اس عزم کا اعلان کیا کہ آئین کی معطلی اور کسی غیرآئینی اقدام کا حصہ بنیں گے اور نہ ہی اس کی حمایت کرینگے ۔ اس پورے مثبت بیانیے میں جمہوری کمٹمنٹ کی بات کی گئی ہے اور ممکنہ طالع آزمائی کے خلاف جمہوریت کے تحفظ کے جس عزم کا اظہار کیا گیا ہے وہ عصری حقیقتوں سے متصادم نہیں ہے۔

ڈیموکریٹس کو سوچنا چاہیے کہ جمہوریت آسان طرز حکومت نہیں، بلکہ سخت مشکل نظم حکومت و معاشرت کا نام جمہوریت ہے۔ ہماری سیاسی تاریخ گواہی دیتی ہے کہ جب بھی آئینی دائرہ کار سے نکلنے کی مہم جوئی ہوئی،جمہوری اصولوں کو پامال کیا گیا اور آئینی پیرا میٹرز سے تجاوز کیا گیا تو جمہوریت پر لاحق خطرات نے سر اٹھایا اورآمریت کی راہ ہموار ہوئی، یوں جمہوریت کے تحفٖظ کی جدوجہد میں آئین کے عدم احترام ، پارلیمانی اقدار و روایات کی پابندی کے بجائے من مانی کرنے کا راستہ اختیار کرنے کا نتیجہ قوم کو چار مارشل لائوں کے عذاب کی صورت میں سہنا پڑا۔ ان بنیادی حقائق اور ماضی کے تلخ تجربات کا یہاں حوالہ دینا غلط نہ ہوگا۔ ان حقائق میں ایک بڑی حقیقت یہ ہے کہ جمہوری حکومت اور سیاسی جماعتوں کو خود بھی آئین و قانون کی پاسداری کرنی چاہیے، ایسا طرز عمل نہیں اپنانا چاہیے جس سے انجام کار جمہوری عمل کو نقصان پہنچے۔


جمہوری اصولوں پر چلتے ہوئے مسلمہ اصولوں کی پیروی سے نہ صرف کاروبار مملکت کی انجام دہی میں آسانیاں پیدا ہوتی ہیں بلکہ قومی یک جہتی ، رواداری ، تحمل و برداشت اور مخالف جماعتوں کے اراکین کے اختلاف رائے کو ان کا جمہوری حق تسلیم کرنے کی روایات کو توانائی ملتی ہے۔ اس وقت ملک کو افہام وتفہیم کی ضرورت ہے، فوج اور حکومت کے مابین دو طرفہ جذبہ خیر سگالی ناگزیر ہے، بدامنی کی موجودہ فضا میں کون سا ایسا جمہوری ملک ہوگا جو اپنی فوج کے خلاف منفی جذبات کی تشہیر کا متحمل ہو سکتا ہے۔ ایک جمہوری طرز حکومت کو داخلی انتشار، انتہا پسندی ، بدامنی اور شورش سے پیدا ہونے والے خطرات سے محفوظ رکھنے کی ذمے داری جن عسکری جوانوں کے کندھے پر ڈالی جاتی ہے وہ بھی جمہوری عمل کے تحفظ کے جذبہ سے سرشار ہوکر قوم کی آواز پر لبیک کہتے ہیں۔

دانش و حکمت کا تقاضا ہے کہ جمہوریت کی بازیافت کے حالیہ عمل کا ادراک کیا جائے، قوم کو جمہوریت کی اس کشتی کو ساحل مراد پر لانے کے لیے بڑی قربانیاں دینی پڑی ہیں، یہ قافلہ منزل کی طرف گرم سفر ہے، اس میں حد درجہ احتیاط ضروری ہے۔ صرف حزب اقتدار کو نہیں بلکہ اپوزیشن جماعتوں اور پوری سول سوسائٹی کو جمہوری اور ریاستی اداروں کے تقدس ،وقار اور ان کے دائرہ کار میں عدم مداخلت کی نئی روایت کی بنیاد ڈالنی چاہیے۔ جہاں تک سینیٹر فرحت اﷲ بابرکی اس بات کا تعلق ہے کہ پیدا شدہ تنائو سے جمہوریت کے لیے خطرہ محسوس ہو رہا ہے جب کہ وفاقی وزیر داخلہ نے تنائو کی تصدیق بھی کر دی ہے، اور ان حالات میں اگرکسی نے ایڈونچر کیا ، یا اس کا خطرہ بھی محسوس ہو تو سب سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی کو اکٹھا ہو جانا چاہیے اور جمہوری حکومت کا ساتھ دینا چاہیے۔ ان معروضات پر برہمی نہیں سنجیدگی سے سوچ وبچار درکار ہے،ان کا یہ کہنا کہ کسی جمہوریت مخالف اقدام یا مہم جوئی کی صورت میں ان کی جماعت حکومت کی بھرپور حمایت کریگی جمہوری اسپرٹ کی مکمل غمازی کرتا ہے۔

ادھر اسپیکرز کانفرنس میں فیصلہ کیا گیا کہ کوئی بھی وزیر اہم ایشو پر پریس کانفرنس سے پہلے ایوان میں پالیسی بیان دے گا، اسپیکر اسمبلی سردار ایاز صادق نے کہا کہ پارلیمنٹ کی کارروائی پیپرلیس بنائی جا رہی ہے۔ 17 ویں اسپیکرز کانفرنس کے اختتام کے بعد ایازصادق نے کہا کہ جمہوریت کے تسلسل اور وقت کے ساتھ ساتھ اس میں بہتری ہوگی اور یہ عزم ظاہر کیا کہ پارلیمانی فرائض کی بجاآوری کے لیے قومی اور صوبائی اسمبلیاں باہمی افہام وتفہیم کے ساتھ قانون سازی کا عمل جاری رکھیں گی ۔ پہلی دفعہ قومی اسمبلی کا ترقیاتی آڈٹ ہوگا ، قومی اسمبلی کے اخراجات میں کمی کردی گئی ہے اخراجات کی کمی کاآغاز اسپیکرچیمبر سے کیا گیا ہے ۔ اسپیکر نے کہا کہ میں نے یہ نہیں کہا تھا کہ اسپیکرکی رولنگ کوکسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا ۔ یہ تمام تر خوش آیند جمہوری اعلانات ہیں ۔اسی طرح عدالتی امور اور فیصلوں پر بھی تضاد بیانی اور مہم جوئی سے اجتناب جمہوریت دوستی ہوگی، انصاف کی فراہمی کی اسی اسپرٹ کے ساتھ مشرف کیس سے نمٹا جائے جو ٹیسٹ کیس ہے۔
Load Next Story