حکومتی بے عملی سے توانائی کے مسائل میں اضافہ حل نظر نہیں آرہا

حکومت سیاسی نقصان اور عوامی ناپسندیدگی کے خوف سے جراتمندانہ فیصلے سے گریزاں

بڑھتی طلب کے دوران ایندھن کی قلت ذخیرہ اندوزی،بلیک مارکیٹنگ کا باعث بن سکتی ہے—فائل فوٹو

حکومتی بے عملی سے توانائی کے مسائل میں اضافہ ہو رہا ہے جب کہ حل نظر نہیں آرہا۔

حکومت اکثر وہ مسائل جن کو حل کرنے پر مسلسل دباؤ ہوتا ہے وہ اسے موخر کرنے میں عافیت سمجھتی ہے اس امید پر کہ وقت گزرنے کے ساتھ یہ مسئلہ خود بخود یا غیر متوقع حالات میں حل ہو جائے گا، وہ سیاسی نقصان اور عوامی ناپسندیدگی کے خوف سے جرات مندانہ فیصلے کرنے سے گریز کرتی ہے تاہم تاریخ نے ثابت کیا ہے کہ یہ نقطہ نظر الٹا گلے پڑتا ہے جس کی وجہ سے مسائل مزید بگڑتے ہیں۔

پچھلے 6ماہ سے پٹرولیم انڈسٹری کے نمائندے، تجزیہ کار اور ماہرین اس شعبے میں بڑھتے ہوئے بحران کے بارے میں خبردار کر رہے ہیں۔ لیٹر آف کریڈٹ (ایل سی) کھولنے اور دیگر مسائل کی وجہ سے تیل کی صنعت کو پہلے ہی مشکلات کا سامنا تھا۔ بدقسمتی سے ان انتباہات کے باوجود کوئی قابل ذکر اقدامات نہ اٹھائے گئے۔ بحران میں اہم کردار ادا کرنے والے مسائل میں سے ایک پاکستانی روپے کی قدر میں نمایاں کمی ہے۔

حالیہ دنوں میں زر مبادلہ کی شرح میں کمی آئی، فروری کے آخر میں امریکی ڈالر کے مقابلے روپیہ 260 روپے سے گر کر اس وقت تقریباً 279 روپے پر آ گیا ہے۔

خیال کیا جاتا ہے کہ غیر سرکاری شرح اس سے بھی زیادہ ہے۔ یہ پچھلے سال کے اسی وقت کے بالکل برعکس ہے جب روپیہ امریکی ڈالر کے مقابلے میں 179 روپے پر ٹریڈ کر رہا تھا۔ کرنسی کی شدید گراوٹ کے نتیجے میں تیل کی مارکیٹنگ کمپنیوں اور ریفائنریوں دونوں کو کافی نقصان ہوا ہے۔

پٹرولیم انڈسٹری کو درپیش موجودہ چیلنجز کے باوجود پالیسی ساز اس مسئلے کا حل تلاش کرنے سے باز دکھائی دیتے ہیں،تیل کی صنعت کو ہونے والے زر مبادلہ کے نقصانات بڑھ سکتے ہیں۔


ایکسچینج ریٹ کے معاملے کے علاوہ پٹرولیم انڈسٹری کو ایل سی کھولنے اور غیر ملکی بینکوں سے تصدیق حاصل کرنے میں مشکلات کی وجہ سے پٹرولیم مصنوعات اور خام تیل کی خریداری سے متعلق رکاوٹوں کا سامنا ہے، پاکستان کی حالیہ درجہ بندی میں کمی کے بعد یہ چیلنج مزید شدت اختیار کر سکتا ہے۔

کچھ کمپنیاں مبینہ طور پر ایندھن کی درآمد سے پرہیز کر رہی ہیں تاکہ زر مبادلہ کے خاطر خواہ نقصانات اور ایل سی سے متعلق پیچیدگیوں کو برداشت کیا جا سکے۔ اگر یہ رجحان جاری رہا تو ممکنہ طور پر اس کے نتیجے میں ایندھن کا بحران پیدا ہو سکتا ہے۔

ایسا لگتا ہے کہ حکومت یا تو بے خبر ہے یا پٹرولیم انڈسٹری کے زوال کے وسیع تر معیشت اور عوام پر پڑنے والے ممکنہ اثرات سے لاتعلق ہے۔ بڑھتی ہوئی طلب کے دوران ایندھن کی قلت ذخیرہ اندوزی اور بلیک مارکیٹنگ کا باعث بن سکتی ہے جس سے کاروبار کرنے کی لاگت میں اضافہ ہوتا ہے۔

قیمتوں میں اضافہ کر کے ان اخراجات کو صارفین تک پہنچا سکتے ہیں، اس طرح افراط زر میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ لامحالہ اس صورتحال کا خمیازہ صارفین ہی کو اٹھانا پڑے گا۔

اگر حکومت واقعی صارفین کو مہنگائی کے منفی اثرات سے بچانے کے لیے پرعزم ہے تو اسے ایسے اقدامات کا سہارا لینے کے بجائے زیادہ موثر حل کی نشاندہی کرنی چاہیے جو بالآخر معیشت کو نقصان پہنچا سکتے ہیں ایک ممکنہ نقطہ نظر میں ایک شفاف نظام کی تشکیل شامل ہو سکتی ہے۔

یہ ضروری ہے کہ حکام پٹرولیم انڈسٹری کو درپیش مسائل جیسے کہ ایل سی کی پیچیدگیاں، زرمبادلہ کے نقصانات کی وصولی کے لیے ایک طریقہ کار اور دیگر دیرینہ رکاوٹوں کو دور کرنے کیلیے فیصلہ کن اقدام کریں جو صنعت کی ترقی میں رکاوٹ ہیں۔
Load Next Story