علموں بس کریں او یار

نواز شریف اب تیسری بار اس ملک کے وزیر اعظم بنے ہیں۔ انھیں اس منصب پر بیٹھے ہوئے ابھی ایک سال بھی مکمل نہیں ہوا

nusrat.javeed@gmail.com

مارچ 1977ء کے انتخابات میں دھاندلی کے نام پر بھٹو حکومت کے خلاف جب عوامی تحریک چل رہی تھی تو میں نے اس کی شدت کو لاہور اور کراچی میں اپنے پورے عروج پر دیکھا۔ ان دونوں شہروں میں کئی مقامات پر لوگ بڑے جذبے سے کرفیو کے ہوتے ہوئے بھی سڑکوں پر آکر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مفلوج بنا کر رکھ دیتے تھے۔ ذاتی طور پر ان دنوں میں اس تحریک سے قطعی لاتعلق تھا۔ اسے بس ایک تماشائی کے طور پر دیکھنے کے بعد گھر چلا جاتا۔ کل وقتی صحافت کے بجائے ویسے بھی ان دنوں مجھے ڈرامے وغیرہ لکھنے کا شوق تھا۔ بھٹو کا اپنی اپوزیشن اور آزاد صحافت کے ساتھ جو سلوک تھا اس کے بارے میں میرے شدید تحفظات تھے مگر اتنا غصہ بھی جمع نہیں ہوا تھا کہ احتجاجی ہجوموں میں شریک ہوکر پتھر اٹھا لیتا۔

انتخابات میں دھاندلی کے نام پر چلائی یہ تحریک بالآخر پاکستان میں ''نظام مضطفےؐ ' 'کو لاگو کرنے کی دعوے دار بن گئی۔ اس نظام کے ساتھ اُن دنوں کی نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی میں جو اِن دنوں عوامی نیشنل پارٹی بن چکی ہے موجود چند ''سیکولر'' حضرات کے وابستگی نے مجھے بڑا حیران کیا۔ پھر اس تحریک میں کچھ ایسے صحافی رہ نما بھی شریک ہوگئے جو خود کو کمیونسٹ، سوشلسٹ وغیرہ کہا کرتے تھے۔ ان میں سے چند ایک لوگوں کے ساتھ طویل ملاقاتوں کے دوران میں نے پورے خلوص سے ان کی تحریکِ نظام مصطفیٰؐ کے ساتھ وابستگی کی وجوہات جاننا چاہیں تو مجھے بتایا گیا کہ مارچ 1977ء کے انتخابات کے ذریعے کسی نہ کسی طرح بھاری اکثریت حاصل کرنے کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کے اصل ارادے پارلیمانی نظام کو صدارتی نظام میں تبدیل کرنے کے ہیں۔

صدارتی نظام متعارف کروانے کے بعد وہ اس ملک کے بااختیار صدر بن کر اس ملک کوایک فاشسٹ کی طرح چلائیں گے اور فاشزم کے امکانات کے خلاف دائیں اور بائیں بازو کو اپنے نظریاتی اختلافات بھلاکر مشترکہ جدوجہد کرنا ضروری ہوجاتا ہے۔ میں ان کے دلائل سن کر خاموش ہوجاتا۔ بنیادی طور پر اس لیے بھی کہ ان دنوں میرا سیاست اور عالمی تاریخ کے بارے میں علم اور مشاہدہ کافی ناقص اور کمتر تھا۔ ''فاشزم کے خطرے'' کے خلاف چلائی اس تحریک کے نتیجے میں لیکن بالآخر جنرل ضیاء برآمد ہوئے تو اس کے طویل آمرانہ دور میں مجھے اپنے ''لبرل'' اور ''سیکولر'' دوستوں کے دلائل بہت یاد آتے رہتے اور انگریزی کا وہ محاورہ بھی جو دعویٰ کرتا ہے کہ بظاہر نیک ارادوں کے ساتھ کیا جانے والا سفر اکثر آپ کو جہنم کی طرف لے جاتا ہے۔

1985ء کے بعد سے میں نے اپنے ملک میں ریاستی ایوانوں میں مچی ہل چل کو بہت قریب سے دیکھا ہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو اپنے پہلے دورِ اقتدار میں ''کرپٹ'' کے ساتھ ساتھ ''غدار اور سیکیورٹی رسک'' بھی قرار پائیں۔ مگر ان کی پہلی حکومت کو ان الزامات کے تحت برطرف کرنے والے غلام اسحاق خان نے نواز شریف کی پہلی حکومت سے نجات پانے کے لیے ان ہی کی جماعت سے رجوع کیا۔ ان دنوں اصلی اور صاف ستھری جمہوریت کے بہت بڑے چیمپئن بنے روئیداد خان صاحب پیپلز پارٹی کے نمایاں لوگوں سے اس ضمن میں روابط استوار کرنے میں پیش پیش ہوا کرتے تھے۔ ان ہی کی معاونت سے غلام اسحاق خان نے اپریل 1992ء میں نواز شریف کی پہلی حکومت کو برطرف کیا۔ جسٹس نسیم کی سپریم کورٹ نے مگر اسے بحال کردیا۔


بحالی کے باوجود یہ حکومت ٹک نہ پائی۔ غلام اسحاق خان کو استعفیٰ دے کر گھر جانا پڑا اور نواز شریف نئے انتخابات کے لیے تیار ہوگئے۔ ان انتخابات کے نتیجے میں لیکن محترمہ ایک بار پھر اس ملک کی وزیر اعظم بن گئیں۔ اس حکومت کے خلاف بھی سازشیں جاری رہیں اور پیپلز پارٹی کے بنائے صدر سردار فاروق لغاری نے اپنی ہی پارٹی کی حکومت کو گھر بھیج دیا۔ نواز شریف ایک بار پھر وزیراعظم بن گئے اور وہ بھی بھاری اکثریت کے ساتھ۔ پارلیمان میں اپنے تاریخی مینڈیٹ کے باوجود نواز شریف کی دوسری حکومت کو قرار نصیب نہ ہوا۔ پہلا جھگڑا جسٹس سجاد علی شاہ سے ہوا۔ ان سے سپریم کورٹ کے اندر ہونے والے ایک COUPکے ذریعے نجات پائی گئی تو لغاری صاحب بھی استعفیٰ دے کر گھر چلے گئے۔ پھر معاملات جنرل جہانگیر کرامت سے بگڑ گئے۔

ان سے استعفیٰ لے کر جنرل مشرف کو لایا گیا تو کارگل ہوگیا۔ کارگل کے بعد کی کہانی آپ سب اچھی طرح جانتے ہیں۔ مگر اس کی وجہ سے جنرل مشرف اور نواز شریف کے درمیان بڑھتے ہوئے تنائو کے دوران مجھے 1977ء کی طرح کئی ''لبرل'' حضرات اس بات پر قائل کرتے پائے گئے کہ اپنی بھاری اکثریت کے باعث نواز شریف فاشزم کی راہ پر چل نکلے ہیں۔ ان کا فاشزم اس لیے بھی زیادہ خطرناک ہوسکتا ہے کہ وہ اس کا جواز نفاذ شریعت کے نام پر ڈھونڈتے ہوئے ''امیر المومنین'' بننا چاہ رہے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ ''امیر المومنین'' نہ بن پائے۔ Enlightened Moderateہونے کے دعوے دار جنرل مشرف نے ان کا تختہ الٹنے کے بعد کئی برسوں تک پورے اختیارات کے ساتھ اس ملک پر حکمرانی کی۔

نواز شریف اب تیسری بار اس ملک کے وزیر اعظم بنے ہیں۔ انھیں اس منصب پر بیٹھے ہوئے ابھی ایک سال بھی مکمل نہیں ہوا۔ مگر اسلام آباد کے کئی ڈرائنگ روموں میں یہ بات چل نکلی ہے کہ جنرل کیانی اور افتخار چوہدری کے چلے جانے کے بعد وہ مکمل اختیار والے حکمران بننا چاہ رہے ہیں۔ فی الوقت مگر اپنے ''اصل کارڈ'' نہیں کھیل رہے۔ ساری توجہ اسحاق ڈار کے ذریعے معیشت کو ذرا بہتر دکھانے پر مرکوز کیے ہوئے ہیں۔ سعودی عرب سے انھیں ڈیڑھ بلین ڈالر کی خطیر رقم تحفے میں مل گئی ہے۔ دو ارب ڈالر حکومت پاکستان نے عالمی منڈی میں بانڈ بیچ کر اکٹھے کرلیے ہیں۔ ڈالر کی قدر میں شاندار کمی ہوگئی ہے۔ اب ترجیح اس بات کو دی جارہی ہے کہ نج کاری کے نام پر اپنے قریبی دوستوں کو تمام اہم صنعتی اور کاروباری اداروں کا اجارہ دار بنا دیا جائے۔ وہ اجارہ دار بن گئے تو نواز شریف اور ان کے ہمنوا اپنے ہر مخالف کو ''خرید'' لیا کریں گے۔ قدم بڑھائو اور نواز شریف سے جان چھڑاؤ۔

ذاتی طور پر مجھے نواز شریف کے طرزحکمرانی کے بارے میں کافی تحفظات ہیں۔ آزاد میڈیا کی بدولت میں ان کا وقتاً فوقتاً کافی شدت کے ساتھ اظہار بھی کرتا رہتا ہوں۔ اس سب کے باوجود مگر 1985ء سے پاکستان کی بساطِ اقتدار پر ہوتے کھیلوں کو بڑے قریب سے دیکھتے ہوئے مجھے اکثر یہ دھڑکا لگا رہتا ہے کہ نواز شریف کے ممکنہ یا مبینہ ''فاشزم'' کو روکتے ہوئے کہیں ہم ایک بار پھر جولائی 1977یا اکتوبر1999ء کی طرف لوٹ جانے کو بے چین تو نہیں ہو رہے۔ مجھے اس عمر میں یہ زعم بھی لاحق ہوگیا ہے کہ میں جولائی 1977ء یا اکتوبر 1999ء کی طرف لوٹ جانے کے امکانات کو کافی ٹھوس دلائل کے ساتھ رد کرسکتا ہوں۔ دلائل مگر دلائل ہی رہتے ہیں۔ اصل بات اقتدار ہے اور اس سے متعلقہ ہماری اشرافیہ کے مختلف النوع گروہ۔ ان گروہوں کے پاس ہر طرح کی طاقت وقوت بھی موجود ہے اور اقتدار کے فیصلے دلائل سے نہیں طاقت سے ہوا کرتے ہیں۔ بلھے شاہ نے افراتفری کے ایسے ماحول سے اُکتا کر ہی شاید ''علموں بس کریں اویار'' کی دہائی دے ڈالی تھی۔
Load Next Story