ایک روشن مثال
ایم کیو ایم سے فکری، نظریاتی اور طرزِ سیاست کا اختلاف رکھنے کا ہر شہری اور جماعت کو حق حاصل ہے
بارہویں صدی کی آخری دہائیوں کے دوران شاہ جلال الدین ابوالقاسم ایران کے حکمران تھے۔ان کے دورِ حکومت میں شمال سے ہونے والے حملوں میں شدت پیدا ہوگئی تھی۔ایک روز انھوں نے کابینہ کا اجلاس طلب کیا اور طویل مشاورت کے بعد یہ طے کیا کہ ان حملوں اور شورش سے بچنے کے لیے ملک کی شمالی سرحد پر مضبوط قلعے تعمیرکیے جائیں۔اس مقصد کے لیے ایک وزیر کو ذمے داریاں سونپی گئیں۔وزیرِ باتدبیر نے اس پورے علاقے میں مکتب ومدرسے قائم کردیے۔
چند ماہ بعد بادشاہ نے ان قلعوں کے معائنے کی خواہش ظاہرکی جو وزیرِ باتدبیر نے تعمیر کیے تھے۔وزیر بادشاہ کو نیشاپور کے نزدیک ایک مکتب میں لے گیا۔ بادشاہ نے غصے میں لال پیلاہوکرپوچھا کہ یہ تو مکتب ہے، قلعہ کہاں ہے؟وزیر نے جواباً جوکچھ کہا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔اس نے عرض کیا کہ حضور اینٹوں، پتھروں اور گارے سے بنے مضبوط سے مضبوط قلعے کو بھی مسخر کیا جاسکتا ہے، لیکن میں نے جو قلعے(مکتب ومدرسے) تعمیر کیے انھیں مسخر کرنا دشمن کے بس کی بات نہیں۔
وزیر کا کہا ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے۔کیونکہ نسلِ انسانی کا ارتقاء فروغِ علم سے مشروط چلا آ رہا ہے۔ انسان کی صدیوں کی ذہنی، فکری اور علمی مشقتوںکے نتیجے میںصنعتی انقلاب بپا ہوا، جس نے سیاسی، سماجی اور ثقافتی ارتقاء کی رفتار کو تیز تر کردیا۔آج انسان جس مقام پر پہنچا ہے اور جن ان گنت سہولیات سے فیض یاب ہو رہا ہے، وہ اس تحقیق و تجربے کی دین ہے، جو علم کے بغیر ممکن نہیں۔ اگر1096ء میں آکسفورڈ اور1209ء میں کیمبرج جامعات قائم نہ ہوتیں، تو دنیا سائنس و ٹیکنالوجی میں اس مقام تک نہ پہنچ پاتی،جہاں آج پہنچ چکی ہے اور شاید صنعتی انقلاب میں بھی تاخیر ہوجاتی یا وہ کسی اور خطے میں نمودار ہوجاتا۔ اس حقیقت کو بھی جھٹلایا نہیں جاسکتا کہ تحریک پاکستان کو مہمیز سرسید کی قائم کردہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے لگائی۔
پاکستان کی ابتدائی دودہائیوں تک اس ملک کو چلانے والوں کی اکثریت اس جامعہ سے فارغ التحصیل ماہرین اور افرادی قوت پر مشتمل تھی۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ قیام پاکستان کے وقت اس خطے میں (جو آج پاکستان ہے) صرف ایک جامعہ ہواکرتی تھی، جو پنجاب یونیورسٹی کہلاتی ہے۔ دو میڈیکل کالج تھے جن میں سے ایک ڈائو میڈیکل کالج کراچی میں اور دوسرا کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج لاہور میں تھا۔کل 1200ڈاکٹرز حصے میں آئے تھے۔یہی کچھ حال انجینئرنگ کی تعلیم کا تھا، صرفNEDانجینئرنگ کالج قیام پاکستان سے پہلے ایک پارسی نوشیروان ایڈن جی ڈنشا کے نام پر قائم کیا گیا تھا۔باقی تمام فنی تعلیمی ادارے قیامِ پاکستان کے بعد قائم ہوسکے۔
قیام پاکستان سے اب تک ان گنت اسکول، کالج، جامعات اور پروفیشنل تعلیمی ادارے قائم ہوچکے ہیں۔لیکن آج بھی پاکستان میں شرح خواندگی کسی بھی طور تسلی بخش قرار نہیں دی جاسکتی۔اس کی ایک وجہ کمتر شرح کے ساتھ معیار تعلیم کا پست ہونا ہے۔خواتین میں خواندگی کی شرح مزید کم ہے۔ بلوچستان میں صرف7فیصد خواتین کسی حد تک زیور تعلیم سے آراستہ ہیں۔پاکستان میں نظمِ حکمرانی کو بہتر بنانے، عوام کو ان کے حقوق کا شعور دلانے اور ایک شائستہ اور باوقار معاشرے کی تشکیل کے لیے تعلیم پرمزید توجہ دینے اور تعلیمی بجٹ میں مسلسل اضافہ کی ضرورت ہے۔
اس سلسلے میں کچھ سیاسی جماعتوں نے اپنے منشور میں تعلیم ، صحت اورسماجی ترقی کو اولین ترجیح قرار دینے کے ساتھ ان شعبہ جات میں عملی خدمات سر انجام دینے کا بیڑا بھی اٹھا رکھا ہے۔گنتی کی ان چند جماعتوںمیں ایم کیو ایم بھی شامل ہے،جس نے1984ء میں ایک طلبہ تنظیم سے سیاسی جماعت کی شکل اختیار کی ۔ ایم کیو ایم اپنی ذیلی تنظیم خدمت خلق فائونڈیشن کے زیر اہتمام جدید سہولیات سے آراستہ اسپتال کے علاوہ میت گاڑیاں اورایمبولینس سروس مہیا کرنے کے علاوہ ایک معیاری اسکول بھی چلارہی ہے۔ اب اس جماعت نے اپنے قائد الطاف حسین کے والد نذیر حسین مرحوم کے نام سے موسوم بین الاقوامی معیار کی ایک یونیورسٹی شروع کی ہے۔
اس جامعہ کی افتتاحی تقریب میں شرکت کا موقع ملا۔ مہمانوں میں بھی مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے اہل دانش شامل تھے۔اس جامعہ میں ابتدائی طور پر دو شعبہ جات شروع کیے گئے ہیں، جن میں آرکیٹیکچر اور Built Environment شامل ہیں۔ یہ بتایا گیا کہ وقت گذرنے کے ساتھ دیگر شعبہ جات کا اضافہ ہوتا رہے گا۔
اس بات میں کسی شک وشبے کی گنجائش نہیں کہ اعلیٰ تعلیم کے اس ادارے کے ابتدائی خاکہ سے تکمیل تک کے تمام مراحل کے پس پشت ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کی سوچ، تصورات اورویژن کار فرما رہا ہے۔جنہوں نے اپنے خیالات کو عملی شکل دینے کے لیے اپنے ساتھیوں اور ہمدردوں کومتحرک اور فعال کیا۔اس سے قبل ایم کیو ایم خدمتِ خلق فائونڈیشن کے زیراہتمام ایمبولنس سروس اور میت گاڑیوں کے علاوہ دیگر کئی سماجی شعبہ جات میں کئی برسوں سے خدمات سرانجام دیتی چلی آرہی ہے۔ چند برس قبل اسی ادارے کے تحت نذیر حسین اسپتال بھی قائم کیاجاچکا ہے۔ گوکہ یونیورسٹی ایم کیو ایم کے قائد کے فکری تخیلات کا نتیجہ ہے، لیکن دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ اسے ایک بورڈ آف گورنرز چلائے گااور الطاف حسین کا یونیورسٹی کے انتظامی امور سے کوئی تعلق نہیں ہوگا۔
اس دعوے پر اس لیے بھی یقین کیا جاسکتاہے، کیونکہ چند برسوں سے ایم کیو ایم کے زیر اہتمام Academy The Sunکے نام سے ایک اسکول چل رہا ہے، جو شہر کے چند معیاری تعلیمی اداروں میں سے ایک ہے۔اس اسکول کا انتظام و انصرام بھی ایک بورڈ آف گورنرز چلاتاہے۔جس کے انتظامی امور میں مداخلت تو دور کی بات ہے، الطاف حسین اس اسکول میں کسی بچے یا بچی کے داخلہ کی سفارش بھی نہیں کرسکتے۔لہٰذا جو کچھ دیکھا، محسوس کیا اور سنا ،اس کے مطابق ایم کیو ایم کے زیرِ اہتمام قائم اداروں میں میرٹ کو فوقیت دی جاتی ہے،جوکہ ایک صحت مند رجحان ہے،جس کی جس قدر حوصلہ افزائی کی جائے وہ کم ہے۔
اس کے علاوہ ایم کیو ایم کے قائد کو کتب بینی اور کتب نویسی کا بھی شوق ہے۔وہ اپنی گونا گوں مصروفیات میں سے وقت نکال کر کتابیں اورمضامین تحریر کرتے رہتے ہیں۔ چند ماہ قبل ان کی نئی کتاب ''فلسفہ محبت '' کا پورے ملک میں اجراء ہوا۔ حال ہی میںاس کتاب کا سندھی ترجمہ بھی شایع ہوچکا ہے۔ الطاف حسین سے قبل ہمیں پاکستان کے سیاسی منظر نامے میں شہید ذوالفقار علی بھٹو نظر آتے ہیں جو اپنی مصروفیات میں سے مطالعہ اور کتب نویسی کے لیے لازمی طورپر کچھ وقت نکال لیتے تھے۔ انھوں نے تو جیل کی کال کوٹھری میںبھی ایک کتاب تحریر کردی، جس کا نام '' اگر مجھے قتل کیا گیا(If I am assassinated)" تھا۔ ان کی اس روایت کو ان کی شہید بیٹی نے زندہ رکھا اور کئی کتب تحریر کرگئیں۔
ایم کیو ایم کے قائد کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ وہ اپنے کارکنوں کی فکری تربیت کے علاوہ ان میں قلمکاری کی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کی بھی کوشش کرتے رہتے ہیں۔جو کارکن کوئی کتاب تحریر کرتا ہے تو اسے ہرقسم کا تعاون فراہم کرنے کے علاوہ اس کی کتابوں کے اجراء کی تقریبات بھی منعقد کرواتے ہیں۔جو حوصلہ افزائی کا ایک اچھا طریقہ ہے۔کیونکہ اس طرح وہ سیاسی کارکنوں کو جو عملی جدوجہد کا حصہ ہونے کے باعث غیر محسوس طور پرسیاسی تاریخ مرتب کررہے ہوتے ہیں۔ انھیںاپنی اس جدوجہد کو دستاویزی شکل دینے کا موقع مل جاتا ہے،جوایک طرح کی زبانی تاریخ (Oral History) ہوتی ہے، جس سے مستقبل کے محقق اور سیاسی کارکن استفادہ کرتے ہیں۔
ایم کیو ایم سے فکری، نظریاتی اور طرزِ سیاست کا اختلاف رکھنے کا ہر شہری اور جماعت کو حق حاصل ہے۔لیکن فروغ علم اور سماجی شعبے میںخدمت کی جو راہ اپنائی ہے، اس کی صرف توصیف ہی نہیں بلکہ دیگر سیاسی جماعتوں کو اس شمع کو مزید روشن کرنے کی ضرورت ہے۔ معاشرے اسی وقت آگے کی طرف بڑھتے ہیں ،جب اہل دانش، تجزیہ نگار اور سیاسی حریف سیاسی جماعتوں کے اچھے کاموں کی حوصلہ افزائی اور غلط کاموں پر کھل کر تنقید کرتے ہیں۔ تعلیمی ادارے کا قیام ان تمام حلقوں کے لیے طمانیت کا باعث ہوتا ہے، جو معاشرے کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے خواہشمند ہوتے ہیں۔
چند ماہ بعد بادشاہ نے ان قلعوں کے معائنے کی خواہش ظاہرکی جو وزیرِ باتدبیر نے تعمیر کیے تھے۔وزیر بادشاہ کو نیشاپور کے نزدیک ایک مکتب میں لے گیا۔ بادشاہ نے غصے میں لال پیلاہوکرپوچھا کہ یہ تو مکتب ہے، قلعہ کہاں ہے؟وزیر نے جواباً جوکچھ کہا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔اس نے عرض کیا کہ حضور اینٹوں، پتھروں اور گارے سے بنے مضبوط سے مضبوط قلعے کو بھی مسخر کیا جاسکتا ہے، لیکن میں نے جو قلعے(مکتب ومدرسے) تعمیر کیے انھیں مسخر کرنا دشمن کے بس کی بات نہیں۔
وزیر کا کہا ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے۔کیونکہ نسلِ انسانی کا ارتقاء فروغِ علم سے مشروط چلا آ رہا ہے۔ انسان کی صدیوں کی ذہنی، فکری اور علمی مشقتوںکے نتیجے میںصنعتی انقلاب بپا ہوا، جس نے سیاسی، سماجی اور ثقافتی ارتقاء کی رفتار کو تیز تر کردیا۔آج انسان جس مقام پر پہنچا ہے اور جن ان گنت سہولیات سے فیض یاب ہو رہا ہے، وہ اس تحقیق و تجربے کی دین ہے، جو علم کے بغیر ممکن نہیں۔ اگر1096ء میں آکسفورڈ اور1209ء میں کیمبرج جامعات قائم نہ ہوتیں، تو دنیا سائنس و ٹیکنالوجی میں اس مقام تک نہ پہنچ پاتی،جہاں آج پہنچ چکی ہے اور شاید صنعتی انقلاب میں بھی تاخیر ہوجاتی یا وہ کسی اور خطے میں نمودار ہوجاتا۔ اس حقیقت کو بھی جھٹلایا نہیں جاسکتا کہ تحریک پاکستان کو مہمیز سرسید کی قائم کردہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے لگائی۔
پاکستان کی ابتدائی دودہائیوں تک اس ملک کو چلانے والوں کی اکثریت اس جامعہ سے فارغ التحصیل ماہرین اور افرادی قوت پر مشتمل تھی۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ قیام پاکستان کے وقت اس خطے میں (جو آج پاکستان ہے) صرف ایک جامعہ ہواکرتی تھی، جو پنجاب یونیورسٹی کہلاتی ہے۔ دو میڈیکل کالج تھے جن میں سے ایک ڈائو میڈیکل کالج کراچی میں اور دوسرا کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج لاہور میں تھا۔کل 1200ڈاکٹرز حصے میں آئے تھے۔یہی کچھ حال انجینئرنگ کی تعلیم کا تھا، صرفNEDانجینئرنگ کالج قیام پاکستان سے پہلے ایک پارسی نوشیروان ایڈن جی ڈنشا کے نام پر قائم کیا گیا تھا۔باقی تمام فنی تعلیمی ادارے قیامِ پاکستان کے بعد قائم ہوسکے۔
قیام پاکستان سے اب تک ان گنت اسکول، کالج، جامعات اور پروفیشنل تعلیمی ادارے قائم ہوچکے ہیں۔لیکن آج بھی پاکستان میں شرح خواندگی کسی بھی طور تسلی بخش قرار نہیں دی جاسکتی۔اس کی ایک وجہ کمتر شرح کے ساتھ معیار تعلیم کا پست ہونا ہے۔خواتین میں خواندگی کی شرح مزید کم ہے۔ بلوچستان میں صرف7فیصد خواتین کسی حد تک زیور تعلیم سے آراستہ ہیں۔پاکستان میں نظمِ حکمرانی کو بہتر بنانے، عوام کو ان کے حقوق کا شعور دلانے اور ایک شائستہ اور باوقار معاشرے کی تشکیل کے لیے تعلیم پرمزید توجہ دینے اور تعلیمی بجٹ میں مسلسل اضافہ کی ضرورت ہے۔
اس سلسلے میں کچھ سیاسی جماعتوں نے اپنے منشور میں تعلیم ، صحت اورسماجی ترقی کو اولین ترجیح قرار دینے کے ساتھ ان شعبہ جات میں عملی خدمات سر انجام دینے کا بیڑا بھی اٹھا رکھا ہے۔گنتی کی ان چند جماعتوںمیں ایم کیو ایم بھی شامل ہے،جس نے1984ء میں ایک طلبہ تنظیم سے سیاسی جماعت کی شکل اختیار کی ۔ ایم کیو ایم اپنی ذیلی تنظیم خدمت خلق فائونڈیشن کے زیر اہتمام جدید سہولیات سے آراستہ اسپتال کے علاوہ میت گاڑیاں اورایمبولینس سروس مہیا کرنے کے علاوہ ایک معیاری اسکول بھی چلارہی ہے۔ اب اس جماعت نے اپنے قائد الطاف حسین کے والد نذیر حسین مرحوم کے نام سے موسوم بین الاقوامی معیار کی ایک یونیورسٹی شروع کی ہے۔
اس جامعہ کی افتتاحی تقریب میں شرکت کا موقع ملا۔ مہمانوں میں بھی مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے اہل دانش شامل تھے۔اس جامعہ میں ابتدائی طور پر دو شعبہ جات شروع کیے گئے ہیں، جن میں آرکیٹیکچر اور Built Environment شامل ہیں۔ یہ بتایا گیا کہ وقت گذرنے کے ساتھ دیگر شعبہ جات کا اضافہ ہوتا رہے گا۔
اس بات میں کسی شک وشبے کی گنجائش نہیں کہ اعلیٰ تعلیم کے اس ادارے کے ابتدائی خاکہ سے تکمیل تک کے تمام مراحل کے پس پشت ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کی سوچ، تصورات اورویژن کار فرما رہا ہے۔جنہوں نے اپنے خیالات کو عملی شکل دینے کے لیے اپنے ساتھیوں اور ہمدردوں کومتحرک اور فعال کیا۔اس سے قبل ایم کیو ایم خدمتِ خلق فائونڈیشن کے زیراہتمام ایمبولنس سروس اور میت گاڑیوں کے علاوہ دیگر کئی سماجی شعبہ جات میں کئی برسوں سے خدمات سرانجام دیتی چلی آرہی ہے۔ چند برس قبل اسی ادارے کے تحت نذیر حسین اسپتال بھی قائم کیاجاچکا ہے۔ گوکہ یونیورسٹی ایم کیو ایم کے قائد کے فکری تخیلات کا نتیجہ ہے، لیکن دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ اسے ایک بورڈ آف گورنرز چلائے گااور الطاف حسین کا یونیورسٹی کے انتظامی امور سے کوئی تعلق نہیں ہوگا۔
اس دعوے پر اس لیے بھی یقین کیا جاسکتاہے، کیونکہ چند برسوں سے ایم کیو ایم کے زیر اہتمام Academy The Sunکے نام سے ایک اسکول چل رہا ہے، جو شہر کے چند معیاری تعلیمی اداروں میں سے ایک ہے۔اس اسکول کا انتظام و انصرام بھی ایک بورڈ آف گورنرز چلاتاہے۔جس کے انتظامی امور میں مداخلت تو دور کی بات ہے، الطاف حسین اس اسکول میں کسی بچے یا بچی کے داخلہ کی سفارش بھی نہیں کرسکتے۔لہٰذا جو کچھ دیکھا، محسوس کیا اور سنا ،اس کے مطابق ایم کیو ایم کے زیرِ اہتمام قائم اداروں میں میرٹ کو فوقیت دی جاتی ہے،جوکہ ایک صحت مند رجحان ہے،جس کی جس قدر حوصلہ افزائی کی جائے وہ کم ہے۔
اس کے علاوہ ایم کیو ایم کے قائد کو کتب بینی اور کتب نویسی کا بھی شوق ہے۔وہ اپنی گونا گوں مصروفیات میں سے وقت نکال کر کتابیں اورمضامین تحریر کرتے رہتے ہیں۔ چند ماہ قبل ان کی نئی کتاب ''فلسفہ محبت '' کا پورے ملک میں اجراء ہوا۔ حال ہی میںاس کتاب کا سندھی ترجمہ بھی شایع ہوچکا ہے۔ الطاف حسین سے قبل ہمیں پاکستان کے سیاسی منظر نامے میں شہید ذوالفقار علی بھٹو نظر آتے ہیں جو اپنی مصروفیات میں سے مطالعہ اور کتب نویسی کے لیے لازمی طورپر کچھ وقت نکال لیتے تھے۔ انھوں نے تو جیل کی کال کوٹھری میںبھی ایک کتاب تحریر کردی، جس کا نام '' اگر مجھے قتل کیا گیا(If I am assassinated)" تھا۔ ان کی اس روایت کو ان کی شہید بیٹی نے زندہ رکھا اور کئی کتب تحریر کرگئیں۔
ایم کیو ایم کے قائد کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ وہ اپنے کارکنوں کی فکری تربیت کے علاوہ ان میں قلمکاری کی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کی بھی کوشش کرتے رہتے ہیں۔جو کارکن کوئی کتاب تحریر کرتا ہے تو اسے ہرقسم کا تعاون فراہم کرنے کے علاوہ اس کی کتابوں کے اجراء کی تقریبات بھی منعقد کرواتے ہیں۔جو حوصلہ افزائی کا ایک اچھا طریقہ ہے۔کیونکہ اس طرح وہ سیاسی کارکنوں کو جو عملی جدوجہد کا حصہ ہونے کے باعث غیر محسوس طور پرسیاسی تاریخ مرتب کررہے ہوتے ہیں۔ انھیںاپنی اس جدوجہد کو دستاویزی شکل دینے کا موقع مل جاتا ہے،جوایک طرح کی زبانی تاریخ (Oral History) ہوتی ہے، جس سے مستقبل کے محقق اور سیاسی کارکن استفادہ کرتے ہیں۔
ایم کیو ایم سے فکری، نظریاتی اور طرزِ سیاست کا اختلاف رکھنے کا ہر شہری اور جماعت کو حق حاصل ہے۔لیکن فروغ علم اور سماجی شعبے میںخدمت کی جو راہ اپنائی ہے، اس کی صرف توصیف ہی نہیں بلکہ دیگر سیاسی جماعتوں کو اس شمع کو مزید روشن کرنے کی ضرورت ہے۔ معاشرے اسی وقت آگے کی طرف بڑھتے ہیں ،جب اہل دانش، تجزیہ نگار اور سیاسی حریف سیاسی جماعتوں کے اچھے کاموں کی حوصلہ افزائی اور غلط کاموں پر کھل کر تنقید کرتے ہیں۔ تعلیمی ادارے کا قیام ان تمام حلقوں کے لیے طمانیت کا باعث ہوتا ہے، جو معاشرے کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے خواہشمند ہوتے ہیں۔