سنگریزوں میں چھپے موتی

ظاہر شاملائی اس ویڈیو کے مطابق ضلع بونیر تحصیل سالارجی کے گائوں چرغون ڈھکے کا رہائشی ہے....

Amjadislam@gmail.com

اس وقت میں تین غیر معمولی باصلاحیت عام لوگوں کا تذکرہ کرنا چاہتا ہوں جنہوں نے انجینئرنگ کے حوالے سے کوئی باقاعدہ اور قابل ذکر ڈگری نہ رکھنے کے باوجود صرف اپنی سوچ سے ایسے غیر معمولی نتائج اخذ کیے جن تک ان کے زمانے کے اعلیٰ ترین اور مستند انجینئر بھی اس طرح سے رسائی حاصل نہ کر سکے جس کا مظاہرہ ان سنگریزوں کے ڈھیروں میں چھپے ہوئے موتیوں نے کیا۔ کہا جاتا ہے کہ پچاس کی دہائی میں عوامی جمہوریہ چین میں دریائے یانگ سی پر ایک بہت بڑا پل تعمیر کیا جا رہا تھا جس کے لیے اس زمانے کے بہترین انجینئرز کو جمع کیا گیا جن کے طے کردہ نقشے اور طریقہ کار کے مطابق ایک منصوبہ وزیراعظم چواین لائی کی خدمت میں فائنل منظوری کے لیے پیش کیا گیا پلان ہر اعتبار سے درست اور بے عیب تھا لیکن چواین لائی نے ایک عام سے ڈپلوما ہولڈر سروے انسپکٹر کے مشورے پر اس کے ڈیزائن میں کچھ بنیادی نوعیت کی تبدیلیوں کا حکم دے دیا اور پھر وہ پل اسی گمنام اور معمولی سے سب انجینئر کے تجویز کردہ ڈیزائن کے مطابق ہی تعمیر کیا گیا۔

معلوم ہوا کہ اس سب انجینئر نے (جو اس منصوبے کی سروے ٹیم کا حصہ تھا اور اس کے ڈیزائن کی تفصیلات سے واقف تھا) چواین لائی کو خط لکھا کہ اگر اس پل پر سے گزرنے والی ٹریفک کو چار کے بجائے آٹھ رویہ کر دیا جائے تو مجموعی لاگت میں زیادہ سے زیادہ 10% کا فرق پڑے گا لیکن آیندہ بیس برس میں ٹریفک کا دبائو اس قدر بڑھ جائے گا کہ یا تو اس پل کو مزید چوڑا کرنا پڑے یا اس کی جگہ ایک نیا پل بنانا ہو گا دونوں صورتوں میں زرکی افراط کی شرح اور مہنگائی کے باعث اس تعمیر پر آج کے مقابلے میں چار سو گنا زیادہ خرچ ہو گا تو کیوں نہ ابھی سے بنیادی اسٹرکچر میں کچھ تبدیلیاں کرکے اسے مستقبل کی ضروریات کے حوالے سے تعمیر کیا جائے۔ اس شخص کی تخلیقی اور قوم پرستانہ سوچ اور چواین لائی کی معاملہ فہمی کا نتیجہ یہ نکلا کہ چینی عوام اس ثمر بار تبدیلی سے آج تک فیض اٹھا رہے ہیں ۔

اسی طرح آج سے کوئی تیس برس پہلے بھارت کے شہر چندی گڑھ جانے کا اتفاق ہوا تو وہاں کی قابل دید جگہوں میں ایک ایسا میوزیم تھا جس کا ذکر بھی بار بار سننے میں آیا جو اس نو تعمیر شہر کے ملبے اور فالتو اشیا کی مدد سے تعمیر کیا گیا تھا۔ معلوم ہوا کہ شملہ کی پہاڑیوں کے دامن میں بسائے جانے والے اس نئے شہر کی تعمیرات سے منسلک ایک سپروائزر نما شخص نے حکومت سے درخواست کی کہ اگر تعمیر سے بچ جانے والا فالتو اور بعض صورتوں میں شکستہ اور ناکارہ سامان اس کو دے دیا جائے تو وہ اس کی مدد سے ایک ایسی ''تعمیر'' کر سکتا ہے جس میں شائقین کی دلچسپی کے گوناگوں قسم کے مواقع ہوں گے اور یہ میوزیم اور تفریح گاہ ہونے کے ساتھ سیاحوں کی دلچسپی اور سرکاری آمدنی کا بھی ایک ذریعہ بن جائے گا۔


داد دینی چاہیے ان سیاسی اور سرکاری نمایندگان کو بھی جنہوں نے اس بظاہر شیخ چلی نما منصوبے کے امکانات کو سمجھا اور متعلقہ شخص کو اس عجیب و غریب منصوبے پر نہ صرف عمل کرنے کی اجازت دی بلکہ اسے مطلوبہ سہولیات بھی مہیا کیں۔حال ہی میں کسی نے مجھے ای میل کے ذریعے ایک ایسی ویڈیو بھجوائی ہے جس میں اسی طرح کے ایک نیم تعلیم یافتہ قبائلی علاقے سے تعلق رکھنے والے ذہین' محب وطن اور قابل فخر پاکستانی کے انٹرویو کے ساتھ ساتھ اس کے کارنامے کو بھی فلم بند کیا گیا ہے۔آج کل سوشل میڈیا پر بہت سی خبریں اور ویڈیوز ایسے بھی جاری کیے جا رہے ہیں جنھیں صحیح اور مصدقہ قرار دینا بوجوہ مشکل ہو جاتا ہے ۔ان کی صحت مشکوک اور غلط نکلتی ہے لیکن میرا تعلق فی الوقت اس ویڈیو سے زیادہ اس کے پیچھے موجود جذبے اور انفرادی کوشش کی اس لگن سے ہے جس میں مقامی طور اور محدود طور پر ہی سہی کم قیمت میں بجلی پیدا اور فراہم کی جا رہی ہے کہ اگر اس دعوے کی صداقت میں کوئی کمی بیشی ہو تب بھی اس سوچ کی اچھائی اور عملیت سے انکار ممکن نہیں۔

ظاہر شاملائی اس ویڈیو کے مطابق ضلع بونیر تحصیل سالارجی کے گائوں چرغون ڈھکے کا رہائشی ہے جس نے پن بجلی کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے بعد اپنے گائوں کو بجلی فراہم کرنے کے لیے 180 روپے کی معمولی رقم مگر شمار سے باہر جذبے کے ساتھ 2005 میں اپنے کام کا آغاز کیا، اس کے بیان کے مطابق شروع میں لوگ اس پر ہنستے اور اس کا مذاق اڑاتے تھے مگر وہ اپنے ارادے اور مشن پر قائم رہا پھر کچھ اہل دل لوگ اس کی مدد کو آگے بڑھے اور 2011 تک کے چھ برسوں میں وہ اپنی مجوزہ ٹربائن تعمیر اور چالو کرنے میں کامیاب ہو گیا۔

اس کے بیان کے مطابق ٹربائن کی تعمیر کی Location اس کے گائوں سے چار پانچ کلومیٹر دور اور اونچائی پر ہے جہاں تک انھیں سارا سامان کندھوں پر اٹھا کر لے جانا پڑتا تھا اب اس ٹربائن کے ذریعے گائوں کے تقریباً 150 گھروں کو صرف 200 روپے ماہانہ کے عوض شام چار بجے سے اگلے دن صبح دس بجے تک بجلی فراہم کی جاتی ہے جس کی وجہ سے نہ صرف بچے رات کے وقت پڑھ سکتے ہیں بلکہ اب لوگوں کو اپنے موبائل فون چارج کرنے کے لیے بھی روزانہ پندرہ میل کا سفر نہیں کرنا پڑتا، اس کا ارادہ ہے کہ مزید وسائل کی فراہمی پر وہ گائوں کے باقی دو ڈھائی سو گھروں کو بھی بجلی فراہم کرنے میں کامیاب ہو جائے گا۔

''اپنی مدد آپ'' جیسے اس طرح کے منصوبوں کو اگر بلدیاتی سطح پر مناسب مدد مل جائے تو وہ دن بہت قریب آ سکتا ہے جب پورا پاکستانی معاشرہ مل کر اور قدم سے قدم ملا کر ترقی کے سفر پر اعتماد اور محبت کے ساتھ رواں دواں ہو سکے گا۔ ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ ہم شو کیسوں میں چمکتے دمکتے ہوئے ہیروں موتیوں کے ساتھ ساتھ خاک میں گم ان سنگریزوں کے درمیان موجود ان موتیوں کی بھی تلاش اور حوصلہ افزائی کریں جن کے دل صرف اور صرف اپنے لوگوں کی محبت اور خوش حالی کے لیے دھڑکتے ہیں اور جو پاکستان کے عام اور غریب آدمی کی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے سوچتے اور عمل کرتے ہیں۔
Load Next Story