افغانستان میں ’ناقص انٹرنیٹ سروس‘ لڑکیوں کی تعلیم کی راہ میں رکاوٹ بن گئی
طالبان نے طالبات کو انفرادی حیثیت میں تعلیم جاری رکھنے کی اجازت دی ہے اور انٹرنیٹ کی آزادی بھی ہے
افغانستان میں تاحال سیکنڈری اسکول کی لڑکیوں کے اسکول جانے پر پابندی عائد ہی ہے لیکن انٹرنیٹ کی بدترین سہولیات کے باعث آن لائن کلاسز لینے والی لڑکیاں بھی تعلیم سے محروم ہیں۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق افغانستان میں تعطیلات کے بعد 21 مارچ سے نئے تعلیمی سال کا باضابطہ آغاز ہوگیا تاہم سیکنڈری اسکول کی لڑکیوں کو اسکول آنے کی اجازت نہیں دی گئی۔
جس پر طالبات نے اب گھر میں ہی آن لائن کلاسز لینا شروع کردیں تاکہ تعلیمی سفر جاری رہ سکے لیکن یہ اقدام بھی کارگر ثابت نہیں ہوسکا کیوں کہ افغانستان میں انٹرنیٹ کی سہولیات نہایت ناقص ہیں۔
دہائیوں سے جنگ زدہ ملک کا انفرا اسٹریکچر تباہ ہے اور کمیونیکیشن کے ذرائع مفقود ہیں۔ انٹرنیٹ بہت سست رفتار میں دستیاب ہے جس سے ویڈیو کالز اور نصاب کی ترسیل ممکن نہیں ہو پا رہی ہے۔
طالبات مایوسی کا شکار ہیں اور تعلیم جاری نہ رکھ پانے پر افسردہ ہیں۔
1996 سے 2001 تک طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے انٹرنیٹ سروس بند تھی تاہم 11 ستمبر 2001 کو امریکی حملوں کے بعد جب طالبان کو اقتدار سے ہٹایا گیا تو ملک میں انٹرنیٹ بحال ہونا شروع ہوا۔
عالمی بینک نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا تھا کہ افغانستان میں امریکی فوج کی موجودگی اور اس کی حمایت یافتہ حکومت ہونے کے باوجود صرف 18 فیصد آبادی کو انٹرنیٹ تک رسائی حاصل تھی۔
ورچوئل یونیورسٹی کے عہدیدار نے بتایا کہ ایک طرف انٹرنیٹ کی ناقص سہولیات تو دوسری طرف آن لائن اسکولوں اور کلاسز میں طالبات کی بڑھتی ہوئی تعداد کے باعث انٹرنیٹ اس کا بوجھ نہیں سنبھال پا رہا ہے اور بار بار معطل ہوجاتا ہے۔
علاوہ ازیں ملک میں بجلی کا نظام بھی اچھا نہیں، بار بار ہونے والی لوڈ شیڈنگ سے کئی مسائل کھڑے ہو رہے ہیں اور سب سے زیادہ نقصان طالبات کا ہو رہا ہے جن کے اسکول اور یونیورسٹی آنے پر پابندی ہے۔
واضح رہے کہ طالبان نے اقتدار میں آنے کے بعد تاحال لڑکیوں کی تعلیم اور خواتین کی ملازمتوں پر پابندی عائد کر رکھی ہے تاہم لڑکیوں کو گھر پر انفرادی طور پر تعلیم حاصل کرنے کی اجازت ہے اور انٹرنیٹ پر پابندی عائد نہیں کی گئی۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق افغانستان میں تعطیلات کے بعد 21 مارچ سے نئے تعلیمی سال کا باضابطہ آغاز ہوگیا تاہم سیکنڈری اسکول کی لڑکیوں کو اسکول آنے کی اجازت نہیں دی گئی۔
جس پر طالبات نے اب گھر میں ہی آن لائن کلاسز لینا شروع کردیں تاکہ تعلیمی سفر جاری رہ سکے لیکن یہ اقدام بھی کارگر ثابت نہیں ہوسکا کیوں کہ افغانستان میں انٹرنیٹ کی سہولیات نہایت ناقص ہیں۔
دہائیوں سے جنگ زدہ ملک کا انفرا اسٹریکچر تباہ ہے اور کمیونیکیشن کے ذرائع مفقود ہیں۔ انٹرنیٹ بہت سست رفتار میں دستیاب ہے جس سے ویڈیو کالز اور نصاب کی ترسیل ممکن نہیں ہو پا رہی ہے۔
طالبات مایوسی کا شکار ہیں اور تعلیم جاری نہ رکھ پانے پر افسردہ ہیں۔
1996 سے 2001 تک طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے انٹرنیٹ سروس بند تھی تاہم 11 ستمبر 2001 کو امریکی حملوں کے بعد جب طالبان کو اقتدار سے ہٹایا گیا تو ملک میں انٹرنیٹ بحال ہونا شروع ہوا۔
عالمی بینک نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا تھا کہ افغانستان میں امریکی فوج کی موجودگی اور اس کی حمایت یافتہ حکومت ہونے کے باوجود صرف 18 فیصد آبادی کو انٹرنیٹ تک رسائی حاصل تھی۔
ورچوئل یونیورسٹی کے عہدیدار نے بتایا کہ ایک طرف انٹرنیٹ کی ناقص سہولیات تو دوسری طرف آن لائن اسکولوں اور کلاسز میں طالبات کی بڑھتی ہوئی تعداد کے باعث انٹرنیٹ اس کا بوجھ نہیں سنبھال پا رہا ہے اور بار بار معطل ہوجاتا ہے۔
علاوہ ازیں ملک میں بجلی کا نظام بھی اچھا نہیں، بار بار ہونے والی لوڈ شیڈنگ سے کئی مسائل کھڑے ہو رہے ہیں اور سب سے زیادہ نقصان طالبات کا ہو رہا ہے جن کے اسکول اور یونیورسٹی آنے پر پابندی ہے۔
واضح رہے کہ طالبان نے اقتدار میں آنے کے بعد تاحال لڑکیوں کی تعلیم اور خواتین کی ملازمتوں پر پابندی عائد کر رکھی ہے تاہم لڑکیوں کو گھر پر انفرادی طور پر تعلیم حاصل کرنے کی اجازت ہے اور انٹرنیٹ پر پابندی عائد نہیں کی گئی۔