عہد جدید کا اہم تقاضا ایک سوالیہ نشان

طلبا میں سائنس کا حقیقی مذاق پیدا کرنے کے لیے سائنس کے مدرسین کو تدریس کے ترقی یافتہ طریقے اختیارکرنا ضروری ہے...

drtayyabsinghanvi100@gmail.com

انسان کی اعلیٰ ترین خوبی یہ ہے کہ وہ صحیح غور و فکر کرنے کی قابلیت رکھتا ہو۔ انسان اور حیوان کا بڑا فرق یہ ہے کہ حیوان کے مقابلے میں انسان میں غور و فکر کی فطری قابلیت بہت زیادہ ہوتی ہے۔ انسان کی فطری صلاحیت فکر کو ترقی دینے کا نام ''تعلیم'' ہے۔ تعلیم کا بڑا مقصد یہ ہے کہ انسان میں غور و فکر کی جو فطری صلاحیت ہے اس کی اعلیٰ نشو و نما ہو۔ ماہرین نفسیات نے یہ نتائج حاصل کیے ہیں کہ انسان میں صحیح استدلال اور صحیح غور و فکر نیز درست قوت فیصلہ کی صلاحیت پیدا کرنے کے لیے محض حصول علم ہی کافی نہیں ہے۔ ماہرین تعلیم کے لیے یہ اہم مسئلہ ہے کہ صحیح غور و فکر کی طاقت ایک نوعمر میں کس طرح پیدا کی جا سکتی ہے۔ ماہرین سائنس کا دعویٰ ہے کہ سائنس کی تعلیم صحیح غور و فکر کی قابلیت پیدا کرتی ہے۔ ماہرین سائنس دنیا کے بہترین مفکرین ثابت ہوئے ہیں۔ ان کا طریق فکر استقرائی بھی رہا ہے اور استخراجی بھی۔

طلبا میں سائنس کا حقیقی مذاق پیدا کرنے کے لیے سائنس کے مدرسین کو تدریس کے ترقی یافتہ طریقے اختیارکرنا ضروری ہے، نوعمروں میں اپچ اور تخلیق کا جذبہ اس وقت بیدار ہوتا ہے جب ان میں سائنس کا والہانہ ذوق پیدا ہو جائے۔ درسگاہوں میں جو مضامین نصاب میں داخل کیے گئے ہیں ان میں سائنس کی اہمیت و افادیت مسلمہ ہے۔ گزشتہ ایک صدی سے زیادہ کے تعلیمی تجربات نے یہ امر واضح کر دیا ہے کہ سائنس کے ذریعے بچوں کے قوائے عقلی میں خاطر خواہ نشو و نما ہو جاتی ہے۔ سائنس کی تعلیم تجربے کی اہمیت ذہن نشین کرتی ہے۔ مشاہدات کی بنا پر نتائج اخذ کرنا سکھاتی ہے۔ ذاتی خیال آرائیاں اور من گھڑت اصول بنانے کی عادت نہیں پیدا ہونے دیتی۔ آزاد خیالی، اعلیٰ بصیرت اور منطقی استدلال پیدا ہوتا ہے، فطرت کے تغیرات کے اسباب و علل واضح ہوتے ہیں اور اس سے دماغ جستجوئے پیہم کے انداز پر کام کرتا ہے۔ قوت متخیلہ کی اعلیٰ تربیت ہوتی ہے۔ قوت فیصلہ صحیح کام کرنے لگتی ہے۔

ذہنی و جسمانی نشوونما کے مسئلے پر غورکرنے والے بعض مفکرین کا خیال ہے کہ جس طرح جسمانی ورزش کے لیے چند قواعد ہیں جن پر عمل کرنے سے ایک انسان جسیم ہو سکتا ہے اور فن پہلوانی کے تمام کمالات حاصل کر سکتا ہے۔ اسی طرح علوم کی تحصیل کر کے ایک شخص بہترین ذہنی و دماغی قوتوں کا مالک بن سکتا ہے۔ لہٰذا بحیثیت مجموعی اگر کوئی ایسا مضمون ہے جو ذہنی تربیت کے فرائض زیادہ سے زیادہ انجام دے سکے تو وہ مضمون سائنس ہی ہے۔ اس میں تمام جبلتوں کی تربیت کے مواقعے موجود ہیں۔ جبلت جستجو، جبلت ساخت، جبلت ذخیرہ اندوزی اور جبلت خودی کے اظہار کے لیے تو یہ مضمون بہترین ہیں۔ اختراع کی بنیاد تقلید ہے۔ سابقہ ماہرین سائنس نے جو تجربات کیے ہیں ان کا دوبارہ عمل کرنا تقلیدی رجحانات کی تربیت ہے اور ان تجربات کے عمل کرنے پر ہی ایجادی رجحانات کار فرما ہوتے ہیں اور انسان کے ایجادی رجحانات کی نشوونما کے لیے سائنس سے بڑھ کر کوئی دوسرا مضمون نہیں ہو سکتا۔

اگر ہم اپنی تعلیم کو ایجادی تعلیم بنانا چاہتے ہیں تا کہ نونہالان قوم کے ایجادی قویٰ بروئے کار لائیں تو ہمیں سائنس کی تعلیم کو ہر دلعزیز بنانا ہو گا۔ سائنس کی تعلیم کو اس قدر دلچسپ بنایا جا سکتا ہے کہ بچے اس کے مشاغل میں بے حد فرحت حاصل کریں اور یہ مشاغل ان کے لیے بہترین کھیل ثابت ہوں۔ اس طرح سائنس کی تعلیم کے مشاغل تفریحی، ایجادی اور پرکیفی مشاغل بن جاتے ہیں اور علم نفسیات نے یہ واضح کر دیا ہے کہ ایسے مشاغل ہی ذہنی نشوونما کا سبب ہوتے ہیں۔ بچوں میں سائنسی ایجادات کو سمجھنے کا فطری ذوق ہوتا ہے۔ وہ اپنے سائنسی ماحول کو اچھی طرح سمجھنا چاہتے ہیں اور اگر ان سائنسی اشیا کے متعلق جو وہ روزانہ استعمال کرتے ہیں، ضروری معلومات بہم نہ پہنچائی جائیں تو وہ ذہنی تربیت سے محروم رہتے ہیں۔


اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری قوم ہوش مند، صاحب فراست اور بہترین دماغی قوت کی مالک ہو تو ہمیں ہر بچے کی تعلیم میں سائنس کو لازمی طور پر داخل کرنا ہو گا۔ تمدن میں سائنس کی ہمہ گیری اس قدر تیز رفتاری سے ہوتی جا رہی ہے کہ اس دور کے بچے سائنس سے ناواقف رہنے کی صورت میں ذہنی اعتبار سے یقینا پست رہیں گے۔ بچے میں جبلت تجسس کا اظہار جس قدر شدت سے ہوتا ہے اس کا انداز ماہرین نفسیات نے بڑے وسیع پیمانے پر کیا ہے۔ اس جبلت کی مناسب نشوونما صرف سائنس کی تعلیم کے ذریعے ہی ہو سکتی ہے۔ اگر بچے کو سائنس کی تعلیم سے محروم رکھا جائے تو اس کی جبلت تجسس مردہ ہو جاتی ہے جس سے اس سائنسی دور کے بچوں کی ذہنی حالت نہایت پست ہو جانا لازمی ہے لہٰذا انسان کے تمام قوائے عقلی کی نشوونما کے لیے سائنس کی تعلیم بے حد مفید ثابت ہو سکتی ہے۔

اگر انسانی تاریخ کا بغور مطالعہ کیا جائے تو یہ حقیقت بخوبی واضح ہو جاتی ہے کہ اسلام سے بڑھ کر کوئی دوسری عالم گیر تحریک رونما نہیں ہوئی جس نے اقوام عالم پر نہایت مہتم بالشان ذہنی انقلاب انجام دیا ہو۔ مصر اور بابل، یونان اور روما، چین اور ہندوستان ہر ایک میں علیحدہ علیحدہ تمدن کی ترقی اسلام سے قبل ضرور ہوتی رہی لیکن ان تمام ممالک میں جو ذہنی ترقی ہوئی تھی وہ مقامی نوعیت کی رہی البتہ صرف اسلامی تحریک کو ہی یہ شرف حاصل ہوا کہ اس نے بین الاقوامی تمدن پر ایک دیرپا اثر ڈالا۔ اسلامی نظام زندگی مساوات عالمگیر برادری، انسانی ہمدردی، انصاف و صداقت کی ان ٹھوس بنیادوں پر قائم ہے کہ جب اسلام کی تعلیم اس کے اصلی رنگ میں پیش کی گئی تو ہر جگہ اس کا خیر مقدم کیا گیا اور بہت جلد اسلام دنیا کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک پھیل گیا۔

اسلام نے جو فلسفہ زندگی پیش کیا وہ انسان کو توہمات سے پاک کرتا ہے اس میں بلند خیالی و روشن دماغی پیدا کرتا ہے۔ اسلام ایک فطری دین ہے۔ اس لیے اس کے پیروؤں میں حقیقت کی تلاش کا صحیح ذوق پیدا ہونا لازمی ہے۔ قدرتی مظاہرات کے مطالعے کے ساتھ ساتھ فطرت کے راز ہائے سربستہ سے واقف ہونے کا ذوق سلیم پیدا ہو جاتا ہے۔ محدود خودغرضانہ زندگی سے آزاد ہو کر وسیع النظر زندگی ہر مسلم کی خصوصیت ہوتی ہے ۔ جستجو وتلاش میں وہ سکون محسوس کرتا ہے۔

غرض یہ کہ اسلام کی اشاعت کے ساتھ ساتھ سائنس کی تحقیقات کا بلند ذوق مسلمانوں میں ظاہر ہوتا ہے چنانچہ سائنس کی ترقی میں اہل اسلام کا حصہ بہت بلند ہے بلکہ یہ کہنا مبالغہ نہیں کہ اگر مسلمانوں نے سائنس کی ترقی کی خدمات انجام نہ دی ہوتی تو سائنس آج اس دور ترقی میں نہ پایا جاتا، مسلمانوں نے طبیعات، کیمیا، حیوانیات، نباتیات، انجینئرنگ، زراعت، تعمیرات، طب، جراحی، علم ہیئت (فلکیات)، ریاضیات، جہازرانی غرض یہ کہ سائنس کی مختلف شاخوں میں ایسے معرکتہ الآرا کارنامے چھوڑے جن کی بنیادوں پر آج سائنس کی عمارت تیار ہو رہی ہے، یہ حقیقی امر تمدن اسلامی کی ایک تاریخی صداقت ہے کہ سائنس کے پودے کو مسلمانوں نے لگایا، اس کی آبیاری مسلمانوں نے کی، اس کے نشوونما پانے پر اہل یورپ نے اس کی ایک شاخ مسلمانوں سے اسپین میں حاصل کی اور اس طرح یہ نخل نو بہار یورپ میں برگ و بار لایا۔

آج اسلامی دنیا میں بالعموم اور پاکستان میں بالخصوص حیات نو کے آثار بیدار ہو رہے ہیں۔ جدید تمدن کی تعمیر میں سائنس کا بڑا حصہ ہے اور زندگی کے اس نئے شعور کا تقاضا یہی ہے کہ مسلمان اپنی کھوئی ہوئی میراث کو دوبارہ پالیں اور اس میں گرا نمایہ اضافہ کر کے دوبارہ اپنے بزرگان سلف کا نام روشن کریں، اے کاش! کہ ہم عہد جدید کے اس اہم تقاضے کو سمجھیں اور اس پر پورا اتر سکیں، ایسی صورتحال میں ملک کے سب سے اہم تعلیمی ادارے ہائرایجوکیشن کمیشن (HEC) کو طویل عرصے سے لاوارث چھوڑے رکھنا اور اس کی حالت زار ہمارے معیار تعلیم اور عملی ترقی پر سوالیہ نشان ہے۔
Load Next Story