روس یوکرین جنگ کے شعلوں کو بجھایا جائے
یہ جنگ نہ صرف یہ کہ مغربی ممالک پر اثر انداز ہوئی بلکہ اس سے ترقی پذیراور غریب ممالک پربھی تباہ کُن اثرات مرتب ہوئے
روسی صدر ولادی میر پوتن نے کہا ہے کہ عدم پھیلاؤ کے نظام کی خلاف ورزی کیے بغیر ہم بیلا روس میں ٹیکٹیکل جوہری ہتھیار رکھیں گے۔
کیونکہ امریکا نے جوہری ہتھیار یورپی اتحادیوں کی سرزمین پر نصب کررکھے ہیں جب کہ دوسری جانب یوکرین کے صدر نے اگلے مورچوں پر صورتحال کو ، امن اور آزادی کی جدوجہد میں فیصلہ کن مرحلے کے مترادف قرار دیتے ہوئے کہا کہ لڑائی فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوچکی ہے۔
رواں برس عالمی معیشت کا ایک تہائی سے زیادہ حصہ معاشی سکڑاؤ کا شکار ہو سکتا ہے ، جب کہ دنیا کی تین بڑی معیشتوں امریکا ، یورپی یونین اور چین کی معاشی ترقی کی راہ میں رکاوٹیں برقرار رہیں گی۔
روس اور یوکرین کے درمیان ایک برس سے جاری جنگ نے خطے اور عالمی جغرافیائی سیاسی اور اقتصادی نظام کو ہلا کر رکھ دیا ہے جس میں تیل اور گیس کی بڑھتی ہوئی قیمت بھی اہم وجہ ہے۔ ٹیکٹیکل جوہری ہتھیار بنیادی طور پر ایسے چھوٹے ہتھیار ہیں جو میدان جنگ میں ایک حکمت عملی کے طور پر استعمال ہوتے ہیں اور جو ان بڑے بموں سے بہت کم طاقتور ہوتے ہیں جو ماسکو، واشنگٹن یا لندن جیسے بڑے شہروں کو تباہ کرنے کے لیے درکار ہوتے ہیں۔
ایسے ہتھیاروں کو ہوائی جہازوں سے گرایا جا سکتا ہے۔ زمین سے میزائلوں ، بحری جہازوں یا آبدوزوں پر فائر کیا جا سکتا ہے یا زمینی افواج کے ذریعے استعمال کیا جا سکتا ہے۔دوسری جانب روسی دھمکی کے باوجود عالمی برادری یوکرین کی مدد کررہی ہے۔
روس اور بیلا روس کی مشترکہ جنگی مشقیں جاری ہیں جس کے باعث کیف سمیت دیگر شہروں میں روس کے فضائی حملوں کے خدشات بڑھ گئے ہیں۔ ایک برس قبل روس نے 24 فروری 2022کو یوکرین پر حملہ کیا تھا۔
ایک برس بعد یوکرین اور اس کے مغربی اتحادیوں نے جوہری مذاکرات کو روس کی ناکام فوجی مہم کے تناظر میں ختم کر دیا ہے جب کہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے مانیٹرنگ مشن کا کہنا ہے کہ 'جنگ میں 8 ہزار سے زائد سویلین ہلاک جب کہ 13 ہزار سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔ جنگ میں 487 بچے بھی ہلاک جب کہ 954 زخمی ہوئے ہیں۔
روس کے صدر ولادیمیر پوتن نے متعدد بار مغرب کو خبردار کیا ہے کہ جارحیت کی صورت میں روس جواباً جوہری ہتھیاروں سے بھی حملہ کر سکتا ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ روس کے پاس ایسے کون سے ہتھیار ہیں اور امریکی قیادت میں قائم اتحاد نیٹو اس کا کیونکر جواب دے سکتا ہے؟ تجزیہ کاروں کے مطابق اس انتہائی نوعیت کے فیصلے کا انحصار اس بات پر ہے کہ ولادیمیر پوتن روس اور اپنے اقتدار کے لیے کس حد تک خطرہ محسوس کرتے ہیں۔
پوتن ، یوکرین کی جنگ کو روس اور مغرب کے درمیان بقا کی جنگ کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ ان کے بقول مغربی قوتیں روس کو تباہ اور اس کے وسیع قدرتی وسائل پر قبضہ کرنا چاہتی ہیں۔
پوتن مغرب کو خبردار کر چکے ہیں کہ جب وہ کہتے ہیں کہ روس کے دفاع کے لیے وہ جوہری ہتھیار استعمال کرنے کے لیے تیار ہیں تو محض لفاظی نہیں کر رہے ہوتے۔ کچھ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پوتن صرف دھمکا رہے ہیں لیکن امریکا پوتن کو سنجیدگی سے لے رہا ہے۔
یوکرین کے 18 فیصد حصے پر روس کے قبضے کے دعوے سے جوہری حملے کے خطرات کی گنجائش بڑھ جاتی ہے کیونکہ پوتن ان علاقوں پر کوئی بھی حملہ روس پر حملہ تصور کر سکتے ہیں۔ روس کا ایٹمی ہتھیاروں سے متعلق یہ نقطہ نظر کہ 'روایتی ہتھیاروں سے روسی فیڈریشن کے خلاف جارحیت کے بعد جب ریاست کے وجود کو خطرہ لاحق ہو' جوہری حملے کی اجازت دیتا ہے۔
کچھ تجزیہ کاروں کے مطابق پوتن اس وقت محض لفاظی کر رہے ہیں ، لیکن اب سے ایک ہفتے یا ایک مہینے بعد کیا ہوگا، اس بارے میں کچھ کہنا مشکل ہے۔ خاص طور پر جب پوتن سمجھیں گے کہ (روایتی) جنگ کارگر نہیں رہی۔ اب تک روسی حکام میں سے کسی نے بھی ان جوہری ہتھیاروں کے ساتھ حملے کا مطالبہ نہیں کیا جو امریکا، روس، یورپ اور ایشیا کے شہروں کو تباہ کرنے کے لیے بنائے گئے تھے۔
یہاں دوسرا سوال پیدا ہوتا ہے کہ امریکا کیا کرے گا؟ عالمی سپر پاور کے طور پر امریکا کسی بھی روسی جوہری حملے کے ردعمل کا فیصلہ کرے گا۔ روس اور امریکا دنیا کے 90 فیصد ایٹمی اثاثوں کے مالک ہیں۔ یہ ہتھیار سرد جنگ کے دوران تیار کیے گئے تھے۔
امریکی صدر جوبائیڈن کے پاس غیر فوجی ردعمل ، جوہری حملے کے ساتھ جواب یا پھر ایک روایتی حملے کے ساتھ جواب دینے کے آپشنز موجود ہیں۔
امریکی قومی سلامتی کے مشیر کہہ چکے ہیں کہ امریکا نے روس کو خبردار کیا ہے کہ اگر اس نے جوہری ہتھیاروں کا استعمال کیا تو اس کے 'تباہ کن نتائج' ہوں گے جب کہ ریٹائرڈ جنرل اور سی آئی اے کے سابق سربراہ ڈیوڈ پیٹریاس نے کہا کہ 'اگر روس نے جوہری ہتھیار استعمال کیے تو امریکا اور اس کے نیٹو اتحادی یوکرین میں روسی فوجیوں اور ان کے ساز و سامان کو تباہ کر دیں گے اور اس کا بحیرہ اسود کا پورا بیڑہ غرق کر دیں گے۔' دوسری جانب پوتن نے امریکا کو یاد دلایا کہ اب تک صرف امریکا نے ہی جنگ میں جوہری ہتھیار استعمال کیے ہیں۔
فیڈریشن آف امریکن سائنٹسٹس کے مطابق جوہری وار ہیڈز کی تعداد کے لحاظ سے روس دنیا کی سب سے بڑی ایٹمی طاقت ہے۔ روس کے پاس پانچ ہزار 977 وار ہیڈز ہیں جب کہ امریکا کے پاس پانچ ہزار 428 ہیں۔
اس وقت ساٹھ لاکھ سے زائد یوکرینی عوام نے قریبی ممالک میں پناہ لے رکھی ہے جس کے باعث سفارتی دباؤ بڑھ گیا ہے۔
عالمی غذائی تحفظ کے لیے بھی تشویش بڑھ رہی ہے، پوتن کی جانب سے یوکرین کے چار علاقوں کے الحاق کی خبروں نے عالمی رہنماؤں کو ایک بار پھر دھچکا دیا ہے کیونکہ جنگ کا کوئی واضح خاتمہ نظر نہیں آرہا۔
یوکرینی صدر کا چند روز قبل موقف سامنے آیا تھا کہ ہماری ایک فتح یہ بھی کہ ہم دنیا کی دوسری سب سے بڑی فوج سے برسرپیکار ہیں اور یہ دکھانے کے قابل ہیں کہ اصل طاقت ہتھیاروں میں نہیں بلکہ اتحاد میں ہے۔ یہ بھی ہماری فتح ہے کہ ہم یورپ اور پوری دنیا کو متحد کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ روس کے یوکرین پر حملے نے عالمی معیشت کو غیر مستحکم کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔
یہ جنگ نہ صرف یہ کہ مغربی ممالک پر اثر انداز ہوئی، بلکہ اس سے ترقی پذیر اور غریب ممالک پر بھی تباہ کُن اثرات مرتب ہوئے، جو پہلے معاشی بحران کی شکل میں سامنے آئے اور پھر اُس کے نتیجے میں سیاسی عدم استحکام نے سَر اُٹھایا۔ صدر پیوتن نے ایک طرف یوکرین پر حملہ کیا، تو دوسری طرف تیل، گیس اور گندم کی فراہمی بھی روک دی، جس سے عالمی مارکیٹ ہل کر رہ گئی۔
روس دنیا میں گندم کا سب سے بڑا ایکسپورٹر ہے، جب کہ تیل کی سپلائی میں بھی اُس کا اہم اور نمایاں حصہ ہے۔اُدھر یوکرین بھی دنیا میں کھانے کے تیل، خاص طور پر سن فلاور آئل کا سب سے بڑا ایکسپورٹر ہے، جب کہ وہ بہت سے ممالک کو گندم بھی برآمد کرتا ہے، جن میں پاکستان بھی شامل ہے۔ یوں جنگ کی وجہ سے اِن اشیائے ضروریہ کا رُک جانا دنیا کے لیے شدید مشکلات کا سبب بنا۔ اوپیک پلس کے اجلاس میں قیمتیں مستحکم رکھنے کے لیے تیل سپلائی میں اضافہ نہ کرنے کا فیصلہ ہوا۔
اِس اقدام کے منفی اثرات سامنے آئے اور امریکا کے شدید دباؤ کے باوجود سپلائی نہ بڑھ سکی، یہاں تک کہ خود امریکی صدر نے دباؤ ڈالنے کے لیے مشرقِ وسطیٰ کا دَورہ کیا، جو بڑی حد تک بے نتیجہ رہا کہ کسی نے اُن کی بات تسلیم نہ کی۔ظاہر ہے، تیل کی قیمتوں میں اضافے نے ہر چیز مہنگی کردی۔
روسی صدر پیوتن اِس بحران سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اُٹھانے کے لیے کوشاں رہے اور اب بھی اُن کی کوششیں جاری ہیں۔اس مقابلے میں اُن کا ٹکراؤ مغربی طاقتوں سے ہے، جو اُن پر ایک کے بعد دوسری پابندی لگاتے جا رہی ہیں۔ تاہم، لگتا یہ ہے کہ روس،چین اور بھارت کی مدد سے ان پابندیوں کے اثرات زائل کرنے میں اب تک کام یاب رہا ہے۔
وہ سال بَھر تیل کی سستے داموں فروخت سے مغرب کا مقابلہ کرتا رہا۔ ابتک اس جنگ کے عالمی سطح پر سنگین اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ ہم اس ضمن میں خوراک کی سلامتی سے لے کر انرجی جیو پالیسی تک متعدد عنوانات کے ماتحت نمایاں اثرات کا ذکر کر سکتے ہیں۔ ترکیہ کی کوششوں سے عالمی سطح پر تباہ کن اثرات میں تحفیف لانے میں معاونت فراہم کی گئی ہے تو بھی جنگ میں طوالت آنے پر اس کے منفی اثرات میں مزید سختی آنے کا کہا جا سکتا ہے۔
اسی طرح جنگ میں طوالت آنے سے چین جیسے نئے اداکاروں کے بھی روس کے حق میں مداخلت کرنے کے احتمال میں بھی اضافہ ہونے کو بالائے طاق رکھنے کی ضرورت ہے۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ روس یوکرین جنگ نے اگر مزید طوالت اختیار کی یا اس میں زیادہ شدت پیدا ہوئی تواس کے عالمی سیاست اور معیشت پر منفی اثرات سے بچنا کسی ملک کے لیے بھی ممکن نہیں رہے گا ، اس جنگ کے شعلوں کو مزید ہوا دینے کے بجائے اسے بجھانے کی کوششوں میں تیزی لانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
کیونکہ امریکا نے جوہری ہتھیار یورپی اتحادیوں کی سرزمین پر نصب کررکھے ہیں جب کہ دوسری جانب یوکرین کے صدر نے اگلے مورچوں پر صورتحال کو ، امن اور آزادی کی جدوجہد میں فیصلہ کن مرحلے کے مترادف قرار دیتے ہوئے کہا کہ لڑائی فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوچکی ہے۔
رواں برس عالمی معیشت کا ایک تہائی سے زیادہ حصہ معاشی سکڑاؤ کا شکار ہو سکتا ہے ، جب کہ دنیا کی تین بڑی معیشتوں امریکا ، یورپی یونین اور چین کی معاشی ترقی کی راہ میں رکاوٹیں برقرار رہیں گی۔
روس اور یوکرین کے درمیان ایک برس سے جاری جنگ نے خطے اور عالمی جغرافیائی سیاسی اور اقتصادی نظام کو ہلا کر رکھ دیا ہے جس میں تیل اور گیس کی بڑھتی ہوئی قیمت بھی اہم وجہ ہے۔ ٹیکٹیکل جوہری ہتھیار بنیادی طور پر ایسے چھوٹے ہتھیار ہیں جو میدان جنگ میں ایک حکمت عملی کے طور پر استعمال ہوتے ہیں اور جو ان بڑے بموں سے بہت کم طاقتور ہوتے ہیں جو ماسکو، واشنگٹن یا لندن جیسے بڑے شہروں کو تباہ کرنے کے لیے درکار ہوتے ہیں۔
ایسے ہتھیاروں کو ہوائی جہازوں سے گرایا جا سکتا ہے۔ زمین سے میزائلوں ، بحری جہازوں یا آبدوزوں پر فائر کیا جا سکتا ہے یا زمینی افواج کے ذریعے استعمال کیا جا سکتا ہے۔دوسری جانب روسی دھمکی کے باوجود عالمی برادری یوکرین کی مدد کررہی ہے۔
روس اور بیلا روس کی مشترکہ جنگی مشقیں جاری ہیں جس کے باعث کیف سمیت دیگر شہروں میں روس کے فضائی حملوں کے خدشات بڑھ گئے ہیں۔ ایک برس قبل روس نے 24 فروری 2022کو یوکرین پر حملہ کیا تھا۔
ایک برس بعد یوکرین اور اس کے مغربی اتحادیوں نے جوہری مذاکرات کو روس کی ناکام فوجی مہم کے تناظر میں ختم کر دیا ہے جب کہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے مانیٹرنگ مشن کا کہنا ہے کہ 'جنگ میں 8 ہزار سے زائد سویلین ہلاک جب کہ 13 ہزار سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔ جنگ میں 487 بچے بھی ہلاک جب کہ 954 زخمی ہوئے ہیں۔
روس کے صدر ولادیمیر پوتن نے متعدد بار مغرب کو خبردار کیا ہے کہ جارحیت کی صورت میں روس جواباً جوہری ہتھیاروں سے بھی حملہ کر سکتا ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ روس کے پاس ایسے کون سے ہتھیار ہیں اور امریکی قیادت میں قائم اتحاد نیٹو اس کا کیونکر جواب دے سکتا ہے؟ تجزیہ کاروں کے مطابق اس انتہائی نوعیت کے فیصلے کا انحصار اس بات پر ہے کہ ولادیمیر پوتن روس اور اپنے اقتدار کے لیے کس حد تک خطرہ محسوس کرتے ہیں۔
پوتن ، یوکرین کی جنگ کو روس اور مغرب کے درمیان بقا کی جنگ کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ ان کے بقول مغربی قوتیں روس کو تباہ اور اس کے وسیع قدرتی وسائل پر قبضہ کرنا چاہتی ہیں۔
پوتن مغرب کو خبردار کر چکے ہیں کہ جب وہ کہتے ہیں کہ روس کے دفاع کے لیے وہ جوہری ہتھیار استعمال کرنے کے لیے تیار ہیں تو محض لفاظی نہیں کر رہے ہوتے۔ کچھ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پوتن صرف دھمکا رہے ہیں لیکن امریکا پوتن کو سنجیدگی سے لے رہا ہے۔
یوکرین کے 18 فیصد حصے پر روس کے قبضے کے دعوے سے جوہری حملے کے خطرات کی گنجائش بڑھ جاتی ہے کیونکہ پوتن ان علاقوں پر کوئی بھی حملہ روس پر حملہ تصور کر سکتے ہیں۔ روس کا ایٹمی ہتھیاروں سے متعلق یہ نقطہ نظر کہ 'روایتی ہتھیاروں سے روسی فیڈریشن کے خلاف جارحیت کے بعد جب ریاست کے وجود کو خطرہ لاحق ہو' جوہری حملے کی اجازت دیتا ہے۔
کچھ تجزیہ کاروں کے مطابق پوتن اس وقت محض لفاظی کر رہے ہیں ، لیکن اب سے ایک ہفتے یا ایک مہینے بعد کیا ہوگا، اس بارے میں کچھ کہنا مشکل ہے۔ خاص طور پر جب پوتن سمجھیں گے کہ (روایتی) جنگ کارگر نہیں رہی۔ اب تک روسی حکام میں سے کسی نے بھی ان جوہری ہتھیاروں کے ساتھ حملے کا مطالبہ نہیں کیا جو امریکا، روس، یورپ اور ایشیا کے شہروں کو تباہ کرنے کے لیے بنائے گئے تھے۔
یہاں دوسرا سوال پیدا ہوتا ہے کہ امریکا کیا کرے گا؟ عالمی سپر پاور کے طور پر امریکا کسی بھی روسی جوہری حملے کے ردعمل کا فیصلہ کرے گا۔ روس اور امریکا دنیا کے 90 فیصد ایٹمی اثاثوں کے مالک ہیں۔ یہ ہتھیار سرد جنگ کے دوران تیار کیے گئے تھے۔
امریکی صدر جوبائیڈن کے پاس غیر فوجی ردعمل ، جوہری حملے کے ساتھ جواب یا پھر ایک روایتی حملے کے ساتھ جواب دینے کے آپشنز موجود ہیں۔
امریکی قومی سلامتی کے مشیر کہہ چکے ہیں کہ امریکا نے روس کو خبردار کیا ہے کہ اگر اس نے جوہری ہتھیاروں کا استعمال کیا تو اس کے 'تباہ کن نتائج' ہوں گے جب کہ ریٹائرڈ جنرل اور سی آئی اے کے سابق سربراہ ڈیوڈ پیٹریاس نے کہا کہ 'اگر روس نے جوہری ہتھیار استعمال کیے تو امریکا اور اس کے نیٹو اتحادی یوکرین میں روسی فوجیوں اور ان کے ساز و سامان کو تباہ کر دیں گے اور اس کا بحیرہ اسود کا پورا بیڑہ غرق کر دیں گے۔' دوسری جانب پوتن نے امریکا کو یاد دلایا کہ اب تک صرف امریکا نے ہی جنگ میں جوہری ہتھیار استعمال کیے ہیں۔
فیڈریشن آف امریکن سائنٹسٹس کے مطابق جوہری وار ہیڈز کی تعداد کے لحاظ سے روس دنیا کی سب سے بڑی ایٹمی طاقت ہے۔ روس کے پاس پانچ ہزار 977 وار ہیڈز ہیں جب کہ امریکا کے پاس پانچ ہزار 428 ہیں۔
اس وقت ساٹھ لاکھ سے زائد یوکرینی عوام نے قریبی ممالک میں پناہ لے رکھی ہے جس کے باعث سفارتی دباؤ بڑھ گیا ہے۔
عالمی غذائی تحفظ کے لیے بھی تشویش بڑھ رہی ہے، پوتن کی جانب سے یوکرین کے چار علاقوں کے الحاق کی خبروں نے عالمی رہنماؤں کو ایک بار پھر دھچکا دیا ہے کیونکہ جنگ کا کوئی واضح خاتمہ نظر نہیں آرہا۔
یوکرینی صدر کا چند روز قبل موقف سامنے آیا تھا کہ ہماری ایک فتح یہ بھی کہ ہم دنیا کی دوسری سب سے بڑی فوج سے برسرپیکار ہیں اور یہ دکھانے کے قابل ہیں کہ اصل طاقت ہتھیاروں میں نہیں بلکہ اتحاد میں ہے۔ یہ بھی ہماری فتح ہے کہ ہم یورپ اور پوری دنیا کو متحد کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ روس کے یوکرین پر حملے نے عالمی معیشت کو غیر مستحکم کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔
یہ جنگ نہ صرف یہ کہ مغربی ممالک پر اثر انداز ہوئی، بلکہ اس سے ترقی پذیر اور غریب ممالک پر بھی تباہ کُن اثرات مرتب ہوئے، جو پہلے معاشی بحران کی شکل میں سامنے آئے اور پھر اُس کے نتیجے میں سیاسی عدم استحکام نے سَر اُٹھایا۔ صدر پیوتن نے ایک طرف یوکرین پر حملہ کیا، تو دوسری طرف تیل، گیس اور گندم کی فراہمی بھی روک دی، جس سے عالمی مارکیٹ ہل کر رہ گئی۔
روس دنیا میں گندم کا سب سے بڑا ایکسپورٹر ہے، جب کہ تیل کی سپلائی میں بھی اُس کا اہم اور نمایاں حصہ ہے۔اُدھر یوکرین بھی دنیا میں کھانے کے تیل، خاص طور پر سن فلاور آئل کا سب سے بڑا ایکسپورٹر ہے، جب کہ وہ بہت سے ممالک کو گندم بھی برآمد کرتا ہے، جن میں پاکستان بھی شامل ہے۔ یوں جنگ کی وجہ سے اِن اشیائے ضروریہ کا رُک جانا دنیا کے لیے شدید مشکلات کا سبب بنا۔ اوپیک پلس کے اجلاس میں قیمتیں مستحکم رکھنے کے لیے تیل سپلائی میں اضافہ نہ کرنے کا فیصلہ ہوا۔
اِس اقدام کے منفی اثرات سامنے آئے اور امریکا کے شدید دباؤ کے باوجود سپلائی نہ بڑھ سکی، یہاں تک کہ خود امریکی صدر نے دباؤ ڈالنے کے لیے مشرقِ وسطیٰ کا دَورہ کیا، جو بڑی حد تک بے نتیجہ رہا کہ کسی نے اُن کی بات تسلیم نہ کی۔ظاہر ہے، تیل کی قیمتوں میں اضافے نے ہر چیز مہنگی کردی۔
روسی صدر پیوتن اِس بحران سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اُٹھانے کے لیے کوشاں رہے اور اب بھی اُن کی کوششیں جاری ہیں۔اس مقابلے میں اُن کا ٹکراؤ مغربی طاقتوں سے ہے، جو اُن پر ایک کے بعد دوسری پابندی لگاتے جا رہی ہیں۔ تاہم، لگتا یہ ہے کہ روس،چین اور بھارت کی مدد سے ان پابندیوں کے اثرات زائل کرنے میں اب تک کام یاب رہا ہے۔
وہ سال بَھر تیل کی سستے داموں فروخت سے مغرب کا مقابلہ کرتا رہا۔ ابتک اس جنگ کے عالمی سطح پر سنگین اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ ہم اس ضمن میں خوراک کی سلامتی سے لے کر انرجی جیو پالیسی تک متعدد عنوانات کے ماتحت نمایاں اثرات کا ذکر کر سکتے ہیں۔ ترکیہ کی کوششوں سے عالمی سطح پر تباہ کن اثرات میں تحفیف لانے میں معاونت فراہم کی گئی ہے تو بھی جنگ میں طوالت آنے پر اس کے منفی اثرات میں مزید سختی آنے کا کہا جا سکتا ہے۔
اسی طرح جنگ میں طوالت آنے سے چین جیسے نئے اداکاروں کے بھی روس کے حق میں مداخلت کرنے کے احتمال میں بھی اضافہ ہونے کو بالائے طاق رکھنے کی ضرورت ہے۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ روس یوکرین جنگ نے اگر مزید طوالت اختیار کی یا اس میں زیادہ شدت پیدا ہوئی تواس کے عالمی سیاست اور معیشت پر منفی اثرات سے بچنا کسی ملک کے لیے بھی ممکن نہیں رہے گا ، اس جنگ کے شعلوں کو مزید ہوا دینے کے بجائے اسے بجھانے کی کوششوں میں تیزی لانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔