معیشت کیسے بہتر ہوسکتی ہے
ہم بطور قوم خراب حالت کی زد میں آچکے ہیں کہ اب اس صورتحال سے نکلنے کے لیے غیر معمولی قومی سوچ کی ضرورت ہے
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ ملک کو بہت بڑا معاشی چیلنج درپیش ہے، سیاسی قیادت، تمام اداروں اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کو ملک کا کھویا ہوا مقام واپس دلانے کے لیے دن، رات ایک کرنا ہوگا۔
ان خیالات کا اظہار انھوں نے راولپنڈی میں مفت آٹا فراہمی مراکز کے معائنے کے دوران گفتگو کرتے ہوئے کیا۔
اس وقت سب اہم سوال یہی ہے کہ معیشت کیسے بہتر ہوسکتی ہے، ملک کی اقتصادی ترقی کے لیے سیاسی استحکام ناگزیر ہے جس ملک میں آئین میں طے شدہ حدود و قیود کی پاسداری نہ کی جائے اس میں سیاسی عدم استحکام انتشار اور انارکی میں تبدیل ہوکر معیشت کے ساتھ ساتھ قومی وحدت کو بھی لے ڈوبتا ہے۔
یہ نہیں کہا جاسکتا کہ حکومت اِس ضمن میں کچھ نہیں کر رہی، بلکہ یہ کہنا مناسب ہوگا کہ اُس کا فوکس معیشت ہی ہے۔
خواہ اِس بات سے کوئی کتنا ہی اختلاف کیوں نہ کرے ، مگر حقیقت یہی ہے کہ وزیرِ اعظم شہباز شریف اور اُن کی ٹیم کو بگڑتی اقتصادی صُورتِ حال کا پوری طرح ادراک ہے اور یہ بھی کہ اس وجہ سے حکومتی اتحاد مقبولیت بھی کھوتا جا رہا ہے، خاص طور پر مہنگائی نے عوام کو بُری طرح پیس ڈالا ہے۔ ڈالر مسلسل اوپر جا رہا ہے اور روپے کی قدر کم ہو رہی ہے۔
زرِ مبادلہ کے ذخائر میں ریکارڈ کمی کی وجہ سے درآمدات پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ گو کہ حکومت نے معاشی حالات میں بہتری کے لیے کچھ اقدامات کیے ہیں اور اُسے کامیابی بھی ہوئی، لیکن ابھی تک عام آدمی کو کوئی ریلیف نہیں مل سکا، جس کی وجہ سے حکومت سخت تنقید کی زد میں ہے اور گورننس پر سوالات اُٹھ رہے ہیں۔
ڈالر کو قابو میں لائے بغیر اور اس کی اسمگلنگ روکے بغیر اور جب تک امپورٹڈ آئٹمز پر بھاری سرمایہ خرچ کرنے کی روش ترک نہیں کی جائے گی، اس وقت تک بہتری نہیں ہو سکتی۔
حکومت کے لیے سب سے آسان ہے کہ آئی ایم ایف سے ہدایات لے اور کمزور طبقے کی جیب سے پیسے نکالنا شروع کر دے چونکہ وہ بے زبان ہیں بول نہیں سکتے اگر بولنے کی طاقت رکھتے بھی ہیں تو ان کے بولنے سے طاقتور حلقوں اور حکومتوں کو فرق نہیں پڑتا یہی وجہ ہے کہ ڈالر کی اسمگلنگ اور امپورٹڈ آئٹمز پر سرمایہ لٹانے کی حکمت عملی تبدیل نہیں ہو رہی۔
وہ سیاست دان جنھیں آج عوام کی تکلیف سب سے زیادہ محسوس ہو رہی ہے انھوں نے بھی اس اہم ترین مسئلے کے لیے کچھ نہیں کیا۔ سابق حکومت کی متعلقہ وزارتوں کی کارکردگی بھی اس حوالے سے صفر ہے۔
آج آئی ایم ایف کہ شرائط دیکھیں تو یہ احساس ہوتا ہے کہ ڈالر کی قلت اور بڑھتی ہوئی قیمت پر شور مچانے والے ہی درحقیقت موجودہ حالات کے ذمے دار ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ حکمرانوں نے امپورٹ بل کم کرنے، اپنی انڈسٹری کو مضبوط کرنے کے کوئی کام نہیں کیا۔ ستم ظریفی ہے کہ یہ لوگ باہر سے منگوانے والی اپنے استعمال کی اشیا کو آخر تک بچانے کی کوششیں کر رہے ہیں ۔
دوسری جانب معاشی زبوں حالی کو اقتدار میں آنے کے لیے استعمال کرنا انتہائی خطرناک ہوگا۔ آئی ایم ایف کے معاملے میں بھی پی ٹی آئی نے یہی کوشش کی کہ یہ پروگرام کسی طرح معطل ہوجائے، یہ سوچے بغیر کہ اِس سے مُلک کو کس قدر نقصان ہو سکتا ہے۔
جب آئی ایم ایف ریویو قریب ہے، تو تحریک انصاف والے پنجاب اور کے پی کے اسمبلیاں توڑ کر مُلک کو غیر مستحکم دِکھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ انھیں مُلکی معیشت سے زیادہ اپنی اَنا کی تسکین اور ضد عزیز ہے، حالاں کہ وہ خود اِسی قسم کے مالیاتی حالات اپنے دَور میں بھگت چُکے ہیں۔
یہ اندازِ سیاست صرف سیاسی جماعتوں کی ناکامی نہیں، بلکہ مُلک اور ریاست کے لیے بھی انتہائی نقصان دہ ہے ، اگر ضرورت ہو ، تو انتخابات کروانے میں کوئی مضائقہ نہیں ، لیکن اِس امر پر اتفاق سب سے اہم ہے کہ قومی معاشی پالیسی کا تسلسل برقرار رہے گا اور اس پر کوئی کھیل تماشا نہیں ہوگا۔ ہر بار صفر سے شروع کرنا، عوام اور سیاست، دونوں کی ناکامی ہے، عوام کو اپنے ووٹ کے ذریعے ایسی سیاست کی ہرگز اجازت نہیں دینی چاہیے۔
مُلک کو کسی انقلاب یا آزادی کی ضرورت نہیں، اِسے اقتصادی ترقی کی راہ پر گامزن ہونے کی ضرورت ہے۔
موجودہ حالات میں یہ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان اپنے اندرونی مسائل پو قابو پاسکتا ہے؟ اصلاحات لانے میں اس حکومت کی ہچکچاہٹ بھی گزشتہ حکومتوں جیسی ہے۔ اصلاحات لانا سخت فیصلہ ہوگا اور اس کی بھاری قیمت بھی چکانی ہوگی۔
وقتی طور پر ان سے ملک کے متعدد شعبوں مشکلات کا سامنا ہوگا۔ حکومتیں اپنے ووٹرز اور عوامی مقبولیت کھو جانے کے ڈر سے یہ قیمت ادا کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہے۔ماضی کی حکومتیں اصلاحات لانے سے کتراتی رہیں جس کی وجہ سے معاملات مزید خراب ہوتے گئے۔
یہی وجہ ہے کہ اب بڑے پیمانے پر اصلاحات کی ضرورت ہے۔ کیا کوئی حکومت اصلاحات لانے کے لیے سیاسی قیمت ادا کرسکتی ہے؟ کیا حکومت اور حزبِ اختلاف اصلاحات کے لیے ایک صفحے پر آسکیں گے؟ یہ دونوں منظر نامے ہی ناممکن نظر آرہے ہیں۔
سوال یہ بھی ہے کہ بڑے پیمانے پر آخر کیا اصلاحات کی جائیں گی؟ سب سے پہلے ہمیں معیشت کے شعبوں میں بنیادی اصلاحات کو یقینی بنانا ہوگا۔ قانونی اصلاحات، جائیداد کے حقوق اور مارکیٹوں کے حوالے سے اصلاحات کو بھی شامل کرنا ہوگا۔
ٹیکس کے نظام، خصوصی طور پر پراپرٹی ٹیکس اور دیگر مقامی ٹیکسوں میں اہم تبدیلیاں کرنا ہوں گی۔ علاوہ ازیں اخراجات کی ترجیحات میں بھی بہت سی تبدیلیاں لانا ہوں گی۔ تعلیم، صحت اور سماجی بہبود کی پالیسیوں میں بھی اہم تبدیلیوں کی ضرورت ہوگی۔
اعلیٰ تعلیم کی پالیسیوں میں ترمیم کی ضرورت ہوگی۔ بلکہ اس ملک میں شاید ہی ایسا کوئی محکمہ ہو جہاں اصلاحات کی ضرورت نہ ہو ، لیکن اصلاحات کے نفاذ سے پہلے ہمیں اس حوالے سے تفصیلی لائحہ عمل تیار کرنا ہوگا۔
موجودہ مباحث اور معاشرے میں ہونے والی گفتگو سے واضح ہوتا ہے کہ ہم نے شعبہ جاتی سطح پر کوئی اقدامات نہیں کیے ہیں ، اگر حکومت مستقبل میں گہری اصلاحات کو لے کر سنجیدہ ہوتی ہے تو ہمارے پاس تمام معلومات ہونی چاہیے کہ کیسے دیگر محکموں میں اصلاحات پر کامیاب عمل درآمد کو ممکن بنایا جاسکتا ہے۔تعلیم کے شعبے سے متعلق چند تجاویز میری نظروں سے گزریں۔
ہمارا تعلیمی نظام نہایت کمزور ہے۔ بہت سے بچے اسکول جانے سے محروم ہیں جب کہ سرکاری اور نجی اسکولوں میں موجود طلبا کو معیاری تعلیم کی سہولت میسر نہیں ہے۔ اس کے باوجود صرف نظام کی نجکاری اور تعلیمی واؤچرز وغیرہ دینے کی تجاویز ہی پیش کی جاتی ہیں۔
ان چیزوں کا اصل معاملات سے کوئی گہرا تعلق نہیں تھا۔ اگر تصور کریں کہ یہ اصلاحات ترتیب دے دی جاتی ہیں تو کیا ہماری بیوروکریسی میں یہ اہلیت موجود ہے کہ وہ ان اصلاحات پر عمل درآمد کو یقینی بنا سکے؟ یہ ایک اہم سوال ہے۔
پاکستان میں بیوروکریسی اور نظام کے معیار کے حوالے سے سنگین خدشات موجود ہیں، یہی وجہ ہے کہ ان اصلاحات کا نفاذ آسان عمل نہیں ہوگا۔اگر آپ پاکستان کے کسی بھی محکمے میں کی جانے والی اصلاحات کی تاریخ پر نظر ڈالیں گے تو معاملہ آپ کے سامنے واضح ہوجائے گا۔ پاکستان کے لیے آیندہ چند سال ہرگز آسان نہیں ہوں گے۔
قوی امکان یہی ہے کہ ہم متعلقہ اصلاحات لانے میں ناکام رہیں گے اور اقتصادی بحران کی لپیٹ میں رہیں گے ، لیکن اگر ہم اصلاحات لانے کے حوالے سے سنجیدہ ہو بھی جاتے ہیں تب بھی ہمیں متعلقہ محکموں کے حوالے سے معلومات اور اصلاحات کے نفاذ کے لیے اہلیت کے فقدان کا سامنا کرنا ہوگا۔ مختصر یہ کہ اگر ہم یہ راستہ چننے کی کوشش بھی کرتے ہیں تب بھی حالات و واقعات ہمارے حق میں نہیں ہوں گے اور ہمارا امتحان جاری رہے گا۔قومی معیشت کی بحالی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ سیاسی عدم استحکام ہے۔
ہمارے ہاں سیاست اْس مقام تک جا پہنچی ہے جہاں سیاسی عدم استحکام کے سوا کوئی اور نتیجہ نظر نہیں آرہا۔ پاکستان کا استحکام آئین و قانون کی حقیقی بالا دستی میں ہی پوشیدہ ہے اور اس ضرورت کو یقینی بنانے کے لیے عارضی، ناپائیدار فیصلوں اور اقدامات کے بجائے طویل المدتی اور مستحکم پالیسیاں اختیار کیے جانے کی ضرورت ہے۔
ملک میں جو سیاست ہورہی ہے، اسے کسی طرح بھی سراہا نہیں جاسکتا اور نہ ہی اسے جمہوری اصولوں سے ہم آہنگ قراردیا جاسکتا ہے۔ ریاست کی خارجہ اور داخلہ پالیسیاں معروضی حالات کے مطابق نہیں ہیں۔
ریاست کے ادارہ جاتی ڈھانچے کی اوورہالنگ کی ضرورت ہے۔ہم بطور قوم خراب حالت کی زد میں آچکے ہیں کہ اب اس صورتحال سے نکلنے کے لیے غیر معمولی قومی سوچ کی ضرورت ہے ، ورنہ مسائل کا پہاڑ اس قدر بڑھ جائے گا کہ کسی ایک جماعت یا کسی ایک لیڈر کے لیے عوامی ریلیف دینا یا انھیں مسائل سے نکالنا ناممکن ہو جائے گا۔
اس حوالے سے بطور قوم سنجیدگی اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ سیاست دان ملک کو اس صورتحال سے نکالنے میں کامیاب نہیں ہوتے تو یقینا یہ ان کی ناکامی ہو گی۔
ان خیالات کا اظہار انھوں نے راولپنڈی میں مفت آٹا فراہمی مراکز کے معائنے کے دوران گفتگو کرتے ہوئے کیا۔
اس وقت سب اہم سوال یہی ہے کہ معیشت کیسے بہتر ہوسکتی ہے، ملک کی اقتصادی ترقی کے لیے سیاسی استحکام ناگزیر ہے جس ملک میں آئین میں طے شدہ حدود و قیود کی پاسداری نہ کی جائے اس میں سیاسی عدم استحکام انتشار اور انارکی میں تبدیل ہوکر معیشت کے ساتھ ساتھ قومی وحدت کو بھی لے ڈوبتا ہے۔
یہ نہیں کہا جاسکتا کہ حکومت اِس ضمن میں کچھ نہیں کر رہی، بلکہ یہ کہنا مناسب ہوگا کہ اُس کا فوکس معیشت ہی ہے۔
خواہ اِس بات سے کوئی کتنا ہی اختلاف کیوں نہ کرے ، مگر حقیقت یہی ہے کہ وزیرِ اعظم شہباز شریف اور اُن کی ٹیم کو بگڑتی اقتصادی صُورتِ حال کا پوری طرح ادراک ہے اور یہ بھی کہ اس وجہ سے حکومتی اتحاد مقبولیت بھی کھوتا جا رہا ہے، خاص طور پر مہنگائی نے عوام کو بُری طرح پیس ڈالا ہے۔ ڈالر مسلسل اوپر جا رہا ہے اور روپے کی قدر کم ہو رہی ہے۔
زرِ مبادلہ کے ذخائر میں ریکارڈ کمی کی وجہ سے درآمدات پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ گو کہ حکومت نے معاشی حالات میں بہتری کے لیے کچھ اقدامات کیے ہیں اور اُسے کامیابی بھی ہوئی، لیکن ابھی تک عام آدمی کو کوئی ریلیف نہیں مل سکا، جس کی وجہ سے حکومت سخت تنقید کی زد میں ہے اور گورننس پر سوالات اُٹھ رہے ہیں۔
ڈالر کو قابو میں لائے بغیر اور اس کی اسمگلنگ روکے بغیر اور جب تک امپورٹڈ آئٹمز پر بھاری سرمایہ خرچ کرنے کی روش ترک نہیں کی جائے گی، اس وقت تک بہتری نہیں ہو سکتی۔
حکومت کے لیے سب سے آسان ہے کہ آئی ایم ایف سے ہدایات لے اور کمزور طبقے کی جیب سے پیسے نکالنا شروع کر دے چونکہ وہ بے زبان ہیں بول نہیں سکتے اگر بولنے کی طاقت رکھتے بھی ہیں تو ان کے بولنے سے طاقتور حلقوں اور حکومتوں کو فرق نہیں پڑتا یہی وجہ ہے کہ ڈالر کی اسمگلنگ اور امپورٹڈ آئٹمز پر سرمایہ لٹانے کی حکمت عملی تبدیل نہیں ہو رہی۔
وہ سیاست دان جنھیں آج عوام کی تکلیف سب سے زیادہ محسوس ہو رہی ہے انھوں نے بھی اس اہم ترین مسئلے کے لیے کچھ نہیں کیا۔ سابق حکومت کی متعلقہ وزارتوں کی کارکردگی بھی اس حوالے سے صفر ہے۔
آج آئی ایم ایف کہ شرائط دیکھیں تو یہ احساس ہوتا ہے کہ ڈالر کی قلت اور بڑھتی ہوئی قیمت پر شور مچانے والے ہی درحقیقت موجودہ حالات کے ذمے دار ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ حکمرانوں نے امپورٹ بل کم کرنے، اپنی انڈسٹری کو مضبوط کرنے کے کوئی کام نہیں کیا۔ ستم ظریفی ہے کہ یہ لوگ باہر سے منگوانے والی اپنے استعمال کی اشیا کو آخر تک بچانے کی کوششیں کر رہے ہیں ۔
دوسری جانب معاشی زبوں حالی کو اقتدار میں آنے کے لیے استعمال کرنا انتہائی خطرناک ہوگا۔ آئی ایم ایف کے معاملے میں بھی پی ٹی آئی نے یہی کوشش کی کہ یہ پروگرام کسی طرح معطل ہوجائے، یہ سوچے بغیر کہ اِس سے مُلک کو کس قدر نقصان ہو سکتا ہے۔
جب آئی ایم ایف ریویو قریب ہے، تو تحریک انصاف والے پنجاب اور کے پی کے اسمبلیاں توڑ کر مُلک کو غیر مستحکم دِکھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ انھیں مُلکی معیشت سے زیادہ اپنی اَنا کی تسکین اور ضد عزیز ہے، حالاں کہ وہ خود اِسی قسم کے مالیاتی حالات اپنے دَور میں بھگت چُکے ہیں۔
یہ اندازِ سیاست صرف سیاسی جماعتوں کی ناکامی نہیں، بلکہ مُلک اور ریاست کے لیے بھی انتہائی نقصان دہ ہے ، اگر ضرورت ہو ، تو انتخابات کروانے میں کوئی مضائقہ نہیں ، لیکن اِس امر پر اتفاق سب سے اہم ہے کہ قومی معاشی پالیسی کا تسلسل برقرار رہے گا اور اس پر کوئی کھیل تماشا نہیں ہوگا۔ ہر بار صفر سے شروع کرنا، عوام اور سیاست، دونوں کی ناکامی ہے، عوام کو اپنے ووٹ کے ذریعے ایسی سیاست کی ہرگز اجازت نہیں دینی چاہیے۔
مُلک کو کسی انقلاب یا آزادی کی ضرورت نہیں، اِسے اقتصادی ترقی کی راہ پر گامزن ہونے کی ضرورت ہے۔
موجودہ حالات میں یہ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان اپنے اندرونی مسائل پو قابو پاسکتا ہے؟ اصلاحات لانے میں اس حکومت کی ہچکچاہٹ بھی گزشتہ حکومتوں جیسی ہے۔ اصلاحات لانا سخت فیصلہ ہوگا اور اس کی بھاری قیمت بھی چکانی ہوگی۔
وقتی طور پر ان سے ملک کے متعدد شعبوں مشکلات کا سامنا ہوگا۔ حکومتیں اپنے ووٹرز اور عوامی مقبولیت کھو جانے کے ڈر سے یہ قیمت ادا کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہے۔ماضی کی حکومتیں اصلاحات لانے سے کتراتی رہیں جس کی وجہ سے معاملات مزید خراب ہوتے گئے۔
یہی وجہ ہے کہ اب بڑے پیمانے پر اصلاحات کی ضرورت ہے۔ کیا کوئی حکومت اصلاحات لانے کے لیے سیاسی قیمت ادا کرسکتی ہے؟ کیا حکومت اور حزبِ اختلاف اصلاحات کے لیے ایک صفحے پر آسکیں گے؟ یہ دونوں منظر نامے ہی ناممکن نظر آرہے ہیں۔
سوال یہ بھی ہے کہ بڑے پیمانے پر آخر کیا اصلاحات کی جائیں گی؟ سب سے پہلے ہمیں معیشت کے شعبوں میں بنیادی اصلاحات کو یقینی بنانا ہوگا۔ قانونی اصلاحات، جائیداد کے حقوق اور مارکیٹوں کے حوالے سے اصلاحات کو بھی شامل کرنا ہوگا۔
ٹیکس کے نظام، خصوصی طور پر پراپرٹی ٹیکس اور دیگر مقامی ٹیکسوں میں اہم تبدیلیاں کرنا ہوں گی۔ علاوہ ازیں اخراجات کی ترجیحات میں بھی بہت سی تبدیلیاں لانا ہوں گی۔ تعلیم، صحت اور سماجی بہبود کی پالیسیوں میں بھی اہم تبدیلیوں کی ضرورت ہوگی۔
اعلیٰ تعلیم کی پالیسیوں میں ترمیم کی ضرورت ہوگی۔ بلکہ اس ملک میں شاید ہی ایسا کوئی محکمہ ہو جہاں اصلاحات کی ضرورت نہ ہو ، لیکن اصلاحات کے نفاذ سے پہلے ہمیں اس حوالے سے تفصیلی لائحہ عمل تیار کرنا ہوگا۔
موجودہ مباحث اور معاشرے میں ہونے والی گفتگو سے واضح ہوتا ہے کہ ہم نے شعبہ جاتی سطح پر کوئی اقدامات نہیں کیے ہیں ، اگر حکومت مستقبل میں گہری اصلاحات کو لے کر سنجیدہ ہوتی ہے تو ہمارے پاس تمام معلومات ہونی چاہیے کہ کیسے دیگر محکموں میں اصلاحات پر کامیاب عمل درآمد کو ممکن بنایا جاسکتا ہے۔تعلیم کے شعبے سے متعلق چند تجاویز میری نظروں سے گزریں۔
ہمارا تعلیمی نظام نہایت کمزور ہے۔ بہت سے بچے اسکول جانے سے محروم ہیں جب کہ سرکاری اور نجی اسکولوں میں موجود طلبا کو معیاری تعلیم کی سہولت میسر نہیں ہے۔ اس کے باوجود صرف نظام کی نجکاری اور تعلیمی واؤچرز وغیرہ دینے کی تجاویز ہی پیش کی جاتی ہیں۔
ان چیزوں کا اصل معاملات سے کوئی گہرا تعلق نہیں تھا۔ اگر تصور کریں کہ یہ اصلاحات ترتیب دے دی جاتی ہیں تو کیا ہماری بیوروکریسی میں یہ اہلیت موجود ہے کہ وہ ان اصلاحات پر عمل درآمد کو یقینی بنا سکے؟ یہ ایک اہم سوال ہے۔
پاکستان میں بیوروکریسی اور نظام کے معیار کے حوالے سے سنگین خدشات موجود ہیں، یہی وجہ ہے کہ ان اصلاحات کا نفاذ آسان عمل نہیں ہوگا۔اگر آپ پاکستان کے کسی بھی محکمے میں کی جانے والی اصلاحات کی تاریخ پر نظر ڈالیں گے تو معاملہ آپ کے سامنے واضح ہوجائے گا۔ پاکستان کے لیے آیندہ چند سال ہرگز آسان نہیں ہوں گے۔
قوی امکان یہی ہے کہ ہم متعلقہ اصلاحات لانے میں ناکام رہیں گے اور اقتصادی بحران کی لپیٹ میں رہیں گے ، لیکن اگر ہم اصلاحات لانے کے حوالے سے سنجیدہ ہو بھی جاتے ہیں تب بھی ہمیں متعلقہ محکموں کے حوالے سے معلومات اور اصلاحات کے نفاذ کے لیے اہلیت کے فقدان کا سامنا کرنا ہوگا۔ مختصر یہ کہ اگر ہم یہ راستہ چننے کی کوشش بھی کرتے ہیں تب بھی حالات و واقعات ہمارے حق میں نہیں ہوں گے اور ہمارا امتحان جاری رہے گا۔قومی معیشت کی بحالی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ سیاسی عدم استحکام ہے۔
ہمارے ہاں سیاست اْس مقام تک جا پہنچی ہے جہاں سیاسی عدم استحکام کے سوا کوئی اور نتیجہ نظر نہیں آرہا۔ پاکستان کا استحکام آئین و قانون کی حقیقی بالا دستی میں ہی پوشیدہ ہے اور اس ضرورت کو یقینی بنانے کے لیے عارضی، ناپائیدار فیصلوں اور اقدامات کے بجائے طویل المدتی اور مستحکم پالیسیاں اختیار کیے جانے کی ضرورت ہے۔
ملک میں جو سیاست ہورہی ہے، اسے کسی طرح بھی سراہا نہیں جاسکتا اور نہ ہی اسے جمہوری اصولوں سے ہم آہنگ قراردیا جاسکتا ہے۔ ریاست کی خارجہ اور داخلہ پالیسیاں معروضی حالات کے مطابق نہیں ہیں۔
ریاست کے ادارہ جاتی ڈھانچے کی اوورہالنگ کی ضرورت ہے۔ہم بطور قوم خراب حالت کی زد میں آچکے ہیں کہ اب اس صورتحال سے نکلنے کے لیے غیر معمولی قومی سوچ کی ضرورت ہے ، ورنہ مسائل کا پہاڑ اس قدر بڑھ جائے گا کہ کسی ایک جماعت یا کسی ایک لیڈر کے لیے عوامی ریلیف دینا یا انھیں مسائل سے نکالنا ناممکن ہو جائے گا۔
اس حوالے سے بطور قوم سنجیدگی اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ سیاست دان ملک کو اس صورتحال سے نکالنے میں کامیاب نہیں ہوتے تو یقینا یہ ان کی ناکامی ہو گی۔