بینکوں کی لابی وزارت خزانہ پر حاوی بینکوں کیخلاف کارروائی میں تاخیر

وزارت خزانہ بیرونی کرنسی کے معاملے میں سازباز کی جائزہ رپورٹ 3ماہ سے دبائے بیٹھی ہے

وزارت خزانہ بیرونی کرنسی کے معاملے میں سازباز کی جائزہ رپورٹ 3ماہ سے دبائے بیٹھی ہے۔ فوٹو : فائل

وزارت خزانہ ایک جائزہ رپورٹ کو دبائے بیٹھی ہے جس میں مرکزی بینک نے بیرونی کرنسی کے معاملے میں سازباز کا جائزہ لیا تھا جس کے باعث ان تجارتی بینکوں کے خلاف تادیبی کارروائی تاخیر کا شکار ہے۔

گزشتہ 3ماہ سے وزارت خزانہ ایک جائزہ رپورٹ کو دبائے بیٹھی ہے جس میں مرکزی بینک نے بیرونی کرنسی کے معاملے میں سازباز کا جائزہ لیا تھا جس کے باعث ان تجارتی بینکوں کے خلاف تادیبی کارروائی تاخیر کا شکار ہے حالانکہ جائزہ رپورٹ میں واضح طور پر بتایا گیا تھا یہ بینک کرنسی مبادلے میں اس کی اصل قدر سے زائد وصول کررہے تھے۔

کم از کم 8کمرشل بینکوں کے خلاف کارروائی روک دی گئی ہے حالانکہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بار بار کمرشل بینکوں پر بھاری ٹیکس عائد کرنے کے عزم کا اظہار کیا تھا جنھوں نے مبینہ طور پر امریکی ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر کے ساتھ کھیل کر 25 ارب سے 50 ارب روپے کا منافع کمایا تھا۔

مرکزی بینک نے بدھ کے روز سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کو مطلع کیا کہ اسٹیٹ بینک نے معاملے کا جائزہ لیا اور 27 دسمبر 2022 کو فنانس ڈویژن کو اپنی رپورٹ پیش کی۔رپورٹ جمع کرانے کی تاریخ اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ وفاقی حکومت اور مرکزی بینک جان بوجھ کر بینکوں کے خلاف کارروائی میں تاخیر کر رہے ہیں۔


وفاقی حکومت کے پاس گزشتہ ماہ منی بجٹ کے ذریعے اضافی ٹیکس لگانے کا موقع تھا جسے وہ جرمانے کے بدلے عائد کرنے کا دعویٰ کرتی رہی ہے۔لیکن کمیٹی کو اسٹیٹ بینک کے تحریری جواب سے یہ تاثر ملا کہ مرکزی بینک کمرشل بینکوں کی جانب سے اوور چارجنگ کا تعین کرنے کے باوجود ان کے خلاف جلد کوئی فیصلہ کن کارروائی کرنے کے موڈ میں نہیں تھا۔

ایگزیکٹو ڈائریکٹر اسٹیٹ بینک ارشد محمود بھٹی نے اجلاس میں کہا کہ ڈالر کی قلت تھی اور درآمد کنندگان محدود پیمانے پر دستیاب ڈالرز کے حصول کیلیے کوشاں تھے لیکن یہ بینک ایک معقول شرح مبادلہ لینے کے بجائے اس سے زیادہ چارج کرتے رہے،اسٹیٹ بینک کے نمائندے اور نہ ہی ایڈیشنل سیکریٹری خزانہ امجد محمود نے بینکوں کے خلاف تعزیری کارروائی کرنے کی کوئی تاریخ دی۔

وزارت خزانہ کے حکام بار بار کہہ رہے ہیں کہ ٹیکسوں کی مد میں 37 ارب روپے کی وصولی کے لیے حکومت بینکوں کی جانب سے غیر ملکی زرمبادلہ کی آمدنی پر بننے والی رقم پر 41 فیصد تک اضافی انکم ٹیکس عائد کرنا چاہتی ہے۔اسٹیٹ بینک کے مطابق اگر حکومت مالیاتی آپشن کے ساتھ آگے بڑھنے کا ارادہ نہیں رکھتی ہے تو SBP اپنے نگران فریم ورک کے مطابق نفاذ کی کارروائی شروع کرے گا۔

گزشتہ سال ستمبر میں ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کو بتایا تھا کہ نیشنل بینک آف پاکستان، الائیڈ بینک لمیٹڈ سمیت دیگر بینکس کو شوکاز نوٹس جاری کیے گئے ہیں۔ حبیب میٹرو بینک اور یونائیٹڈ بینک حکام لمیٹڈ قائمہ کمیٹی کے سامنے پیش ہوئے۔

یہ سماعت اس دن ہوئی جب بدھ کے روز پاکستانی روپے کی قدر میں مزید کمی ہوئی اور ایک ڈالر کے مقابلے میں تقریباً 284 روپے تک جا پہنچا۔امجد محمود نے کہا کہ وفاقی حکومت محتاط رویہ اپنا رہی ہے کیونکہ کسی بھی اقدام کا اثر بینکنگ انڈسٹری پر پڑے گا۔
Load Next Story