مفت آٹا اور عوام کی حالت زار
آٹے کے حصول کےلیے لوگ اپنی جانیں گنوا رہے ہیں لیکن حکومت کی بے حسی جاری ہے
پہلے جو لوگ بھوک سے مر رہے تھے اب وہ حکومت کی طرف سے ملنے والے مفت آٹے کی جستجو میں مر رہے ہیں۔ روزانہ کی بنیاد پر نہایت دلخراش مناظر دیکھنے کو مل رہے ہیں، لوگ مفت آٹے کے حصول کےلیے ٹرکوں پر چڑھ جاتے ہیں جہاں سے گر کر زخمی ہوتے ہیں، کہیں بھگدڑ کی وجہ سے اموات ہورہی ہیں، کہیں لوگوں کے آپس میں لڑائی جھگڑے ہورہے ہیں اور کہیں پولیس کی طرف سے ان پر لاٹھی چارج کیا جارہا ہے۔
غریب آٹا لینے کےلیے جب پہنچتے ہیں تو انہیں وہاں معلوم ہوتا ہے کہ آٹا طلب سے کم ہے جس کی وجہ سے کئی لوگ محروم رہ جائیں گے، اس لیے وہ اس کے حصول کےلیے ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ عام حالات میں تو چھیناجھپٹی کرنے والوں کو اچھا نہیں سمجھا جاتا لیکن کیا کریں جو اپنی بھوک مٹانے کےلیے کچھ چھین رہے ہوں انہیں برا بھی نہیں سمجھا جاسکتا۔ ظاہر ہے ایک شخص کو معلوم ہے کہ اگر وہ اپنا حق چھین کر نہیں لے گا تو وہ اس سے محروم ہوجائے گا۔ تو وہ کیا کرے گا؟ اگر اسے اس کا حق باعزت طریقے سے دے دیا جائے تو وہ کیونکر چھینے گا؟ لیکن یہاں حکومت کی ناقص پالیسیوں نے عوام کو فاقوں پر مجبور کردیا ہے، جس کی وجہ سے وہ اپنا حق چھیننے پر مجبور ہیں۔
ایک طرف ان کی بھوک ہے جس کا نتیجہ بیماری اور موت ہے جبکہ دوسری طرف روٹی چھیننے کا آپشن ہے۔ ظاہر ہے کہ وہ بھوک سے مرنے اور بچوں کو بھوک سے تڑپتا دیکھنے کے بجائے روٹی چھیننے کو ترجیح دیں گے۔ بلکہ ایک طرح سے یہ ان کا حق بھی بن جاتا ہے کہ بھوک سے مرنے سے بہتر ہے وہ روٹی چھین کر کھالیں۔ لیکن یہاں ایک مسئلہ اور بھی ہے کہ وہ جن لوگوں سے آٹا چھین رہے ہیں وہ بیچارے خود بھی انہی کی طرح مجبور ہوتے ہیں۔ وہ بھی بھوک کے ہاتھوں مجبور ہوکر ہی آٹا لینے کےلیے قطاروں میں لگتے ہیں۔ جب آٹا ہاتھ آتا ہے تو کوئی اور چھین کر لے جاتا ہے، جو نہایت کربناک صورتحال ہے۔ اب تک کئی لوگ آٹے کے حصول کےلیے اپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔
حکومت نے جیسے تیسے عوام کو مفت آٹے کی فراہمی تو یقینی بنادی، جو کہ احسن اقدام ہے لیکن پھر اپنی روایتی نااہلی کو برقرار رکھتے ہوئے اس کی تقسیم کا کوئی مؤثر طریقہ کار وضع نہیں کیا۔ رجسٹریشن کا پیچیدہ طریقہ، آٹے کی طلب کے مقابلے میں بہت کم فراہمی، جس کی وجہ سے لوگ سارا سارا دن روزے کی حالت میں قطاروں میں کھڑے ہوکر خالی ہاتھ گھروں کو لوٹ جاتے ہیں۔ اس کےلیے کوئی طریقہ کار نہیں بنایا گیا، جس نے ملک کے غریبوں کو مزید مسائل میں دھکیل دیا ہے۔
حکومت نے پہلے ہی نااہلیوں کی طویل داستان رقم کردی ہے۔ ملک میں مہنگائی کا ایک طوفان برپا ہوچکا ہے جو دن بدن بڑھ رہا ہے۔ پٹرول کی قیمت اس قدر بڑھ چکی ہے کہ عوام موٹر سائیکل تک چلانے سے عاجز آگئے ہیں۔ حکومت نے کچھ عرصہ قبل اعلان تو کیا تھا کہ موٹرسائیکلوں اور آٹھ سو سی سی تک کی گاڑیوں کےلیے سستا پٹرول فراہم کیا جائے گا، لیکن نہ جانے اس پر عمل کب ہوگا؟ جب پٹرول مہنگا کرنا ہو تو فوری اطلاق ہوجاتا ہے لیکن سستا کرنے کےلیے وہ کوئی طریقہ کار وضع نہیں کر پا رہے اور اس کو مزید لٹکایا جارہا ہے۔
بیروزگاری نے ملک میں بری طرح پنجے گاڑ رکھے ہیں جس نے لوگوں کو بھوکے رہنے پر مجبور کردیا ہے۔ جو لوگ ذرا آسودہ حال ہیں ان کا ذہن اس بات کو تسلیم کرنے پر تیار نہیں کہ کسی کے گھر میں فاقہ بھی ہوسکتا ہے یا کوئی شخص ایسا بھی ہے جو بنیادی ضرورت کی اشیا سے بھی محروم ہے۔ لیکن حقیقت یہی ہے کہ اس وقت ملک میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جو فاقہ کشی پر مجبور ہوچکے ہیں۔ بچوں کی تعلیم اور علم و ہنر تو رہے ایک طرف، بچوں کا کھانا اور لباس ہی پورا نہیں کر پا رہے۔
یہی وجہ ہے کہ جب حکومت کی طرف سے مفت آٹے کا اعلان ہوا تو ایسے غریب لوگ آٹے کے حصول کےلیے پہنچ گئے لیکن وہاں جو صورتحال بنی اس سے تو ایسا محسوس ہوتا ہے حکومت نے سستے آٹے کے نام پر عوام کے ساتھ مذاق کیا ہے اور انہیں ذلیل و رسوا کرنے کا ایک بہانہ بنایا ہے۔ حکومت کا یہ اقدام یقیناً قابل ستائش ہوتا اگر وہ اس کی تقسیم کےلیے ایک بہترین طریقہ کار بھی وضع کرتی، لوگوں کو مفت آٹا عزت اور سہولت کے ساتھ ملتا۔ بہتر تو یہی تھا کہ حکومت آٹے کو گلی محلوں تک پہنچاتی اور چھوٹی چھوٹی گاڑیوں میں چھوٹے چھوٹے محلوں تک جاتا، جہاں رش کم ہوتا اور لوگ باآسانی وہاں سے آٹا حاصل کرلیتے۔ اس سے بھی بہتر یہ ہوتا کہ یہ آٹا دکانوں پر رکھوایا جاتا اور وہاں سے عوام کو فراہم کیا جاتا۔ اس طرح عزت سے مفت کے بجائے سستا آٹا دے دیا جاتا تو وہ مفت آٹے سے زیادہ مفید ہوتا اور عوام کےلیے اس کا حصول بھی آسان ہوتا۔ نہایت سستا آٹا دکانوں پر دستیاب ہوتا تو لوگ وہاں سے باآسانی خرید بھی سکتے تھے اور حکومت پر بھی زیادہ بوجھ نہ پڑتا۔ لہٰذا حکومت سے مطالبہ ہے کہ وہ آٹے کی تقسیم کےلیے مؤثر طریقہ کار وضع کرے تاکہ عوام عزت کے ساتھ باآسانی اپنی قریبی دکانوں یا گاڑیوں سے آٹا حاصل کرسکیں اور غریب عوام کا مزید تماشا بھی نہ بنے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
غریب آٹا لینے کےلیے جب پہنچتے ہیں تو انہیں وہاں معلوم ہوتا ہے کہ آٹا طلب سے کم ہے جس کی وجہ سے کئی لوگ محروم رہ جائیں گے، اس لیے وہ اس کے حصول کےلیے ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ عام حالات میں تو چھیناجھپٹی کرنے والوں کو اچھا نہیں سمجھا جاتا لیکن کیا کریں جو اپنی بھوک مٹانے کےلیے کچھ چھین رہے ہوں انہیں برا بھی نہیں سمجھا جاسکتا۔ ظاہر ہے ایک شخص کو معلوم ہے کہ اگر وہ اپنا حق چھین کر نہیں لے گا تو وہ اس سے محروم ہوجائے گا۔ تو وہ کیا کرے گا؟ اگر اسے اس کا حق باعزت طریقے سے دے دیا جائے تو وہ کیونکر چھینے گا؟ لیکن یہاں حکومت کی ناقص پالیسیوں نے عوام کو فاقوں پر مجبور کردیا ہے، جس کی وجہ سے وہ اپنا حق چھیننے پر مجبور ہیں۔
ایک طرف ان کی بھوک ہے جس کا نتیجہ بیماری اور موت ہے جبکہ دوسری طرف روٹی چھیننے کا آپشن ہے۔ ظاہر ہے کہ وہ بھوک سے مرنے اور بچوں کو بھوک سے تڑپتا دیکھنے کے بجائے روٹی چھیننے کو ترجیح دیں گے۔ بلکہ ایک طرح سے یہ ان کا حق بھی بن جاتا ہے کہ بھوک سے مرنے سے بہتر ہے وہ روٹی چھین کر کھالیں۔ لیکن یہاں ایک مسئلہ اور بھی ہے کہ وہ جن لوگوں سے آٹا چھین رہے ہیں وہ بیچارے خود بھی انہی کی طرح مجبور ہوتے ہیں۔ وہ بھی بھوک کے ہاتھوں مجبور ہوکر ہی آٹا لینے کےلیے قطاروں میں لگتے ہیں۔ جب آٹا ہاتھ آتا ہے تو کوئی اور چھین کر لے جاتا ہے، جو نہایت کربناک صورتحال ہے۔ اب تک کئی لوگ آٹے کے حصول کےلیے اپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔
حکومت نے جیسے تیسے عوام کو مفت آٹے کی فراہمی تو یقینی بنادی، جو کہ احسن اقدام ہے لیکن پھر اپنی روایتی نااہلی کو برقرار رکھتے ہوئے اس کی تقسیم کا کوئی مؤثر طریقہ کار وضع نہیں کیا۔ رجسٹریشن کا پیچیدہ طریقہ، آٹے کی طلب کے مقابلے میں بہت کم فراہمی، جس کی وجہ سے لوگ سارا سارا دن روزے کی حالت میں قطاروں میں کھڑے ہوکر خالی ہاتھ گھروں کو لوٹ جاتے ہیں۔ اس کےلیے کوئی طریقہ کار نہیں بنایا گیا، جس نے ملک کے غریبوں کو مزید مسائل میں دھکیل دیا ہے۔
حکومت نے پہلے ہی نااہلیوں کی طویل داستان رقم کردی ہے۔ ملک میں مہنگائی کا ایک طوفان برپا ہوچکا ہے جو دن بدن بڑھ رہا ہے۔ پٹرول کی قیمت اس قدر بڑھ چکی ہے کہ عوام موٹر سائیکل تک چلانے سے عاجز آگئے ہیں۔ حکومت نے کچھ عرصہ قبل اعلان تو کیا تھا کہ موٹرسائیکلوں اور آٹھ سو سی سی تک کی گاڑیوں کےلیے سستا پٹرول فراہم کیا جائے گا، لیکن نہ جانے اس پر عمل کب ہوگا؟ جب پٹرول مہنگا کرنا ہو تو فوری اطلاق ہوجاتا ہے لیکن سستا کرنے کےلیے وہ کوئی طریقہ کار وضع نہیں کر پا رہے اور اس کو مزید لٹکایا جارہا ہے۔
بیروزگاری نے ملک میں بری طرح پنجے گاڑ رکھے ہیں جس نے لوگوں کو بھوکے رہنے پر مجبور کردیا ہے۔ جو لوگ ذرا آسودہ حال ہیں ان کا ذہن اس بات کو تسلیم کرنے پر تیار نہیں کہ کسی کے گھر میں فاقہ بھی ہوسکتا ہے یا کوئی شخص ایسا بھی ہے جو بنیادی ضرورت کی اشیا سے بھی محروم ہے۔ لیکن حقیقت یہی ہے کہ اس وقت ملک میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جو فاقہ کشی پر مجبور ہوچکے ہیں۔ بچوں کی تعلیم اور علم و ہنر تو رہے ایک طرف، بچوں کا کھانا اور لباس ہی پورا نہیں کر پا رہے۔
یہی وجہ ہے کہ جب حکومت کی طرف سے مفت آٹے کا اعلان ہوا تو ایسے غریب لوگ آٹے کے حصول کےلیے پہنچ گئے لیکن وہاں جو صورتحال بنی اس سے تو ایسا محسوس ہوتا ہے حکومت نے سستے آٹے کے نام پر عوام کے ساتھ مذاق کیا ہے اور انہیں ذلیل و رسوا کرنے کا ایک بہانہ بنایا ہے۔ حکومت کا یہ اقدام یقیناً قابل ستائش ہوتا اگر وہ اس کی تقسیم کےلیے ایک بہترین طریقہ کار بھی وضع کرتی، لوگوں کو مفت آٹا عزت اور سہولت کے ساتھ ملتا۔ بہتر تو یہی تھا کہ حکومت آٹے کو گلی محلوں تک پہنچاتی اور چھوٹی چھوٹی گاڑیوں میں چھوٹے چھوٹے محلوں تک جاتا، جہاں رش کم ہوتا اور لوگ باآسانی وہاں سے آٹا حاصل کرلیتے۔ اس سے بھی بہتر یہ ہوتا کہ یہ آٹا دکانوں پر رکھوایا جاتا اور وہاں سے عوام کو فراہم کیا جاتا۔ اس طرح عزت سے مفت کے بجائے سستا آٹا دے دیا جاتا تو وہ مفت آٹے سے زیادہ مفید ہوتا اور عوام کےلیے اس کا حصول بھی آسان ہوتا۔ نہایت سستا آٹا دکانوں پر دستیاب ہوتا تو لوگ وہاں سے باآسانی خرید بھی سکتے تھے اور حکومت پر بھی زیادہ بوجھ نہ پڑتا۔ لہٰذا حکومت سے مطالبہ ہے کہ وہ آٹے کی تقسیم کےلیے مؤثر طریقہ کار وضع کرے تاکہ عوام عزت کے ساتھ باآسانی اپنی قریبی دکانوں یا گاڑیوں سے آٹا حاصل کرسکیں اور غریب عوام کا مزید تماشا بھی نہ بنے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔