پروفیسر سلامت اختر
ایک استاد، مصنف، سماجی راہ نما اور تحریک پاکستان کے کارکن کی کہانی
کسی تحریک اور فکر سے وابستہ اور محرک لوگ مجھے ہمیشہ متاثر کرتے ہیں۔ اُن کی زندگی، جدوجہد، فلسفہ حیات، روزمرہ کے واقعات اور افکار کو بڑی دل چسپی اور تجسس سے جاننے کی جستجو رہتی ہے۔
ایسے لوگ درحقیقت ہجوم سے الگ ہوکر سوچتے ہیں، وہ اپنی ذات سے بلند ہو کر معاشرے کی فلاح اور دوسروں کی بقاء کے لیے جیتے ہیں۔
بچپن سے یہ خواہش رہی کہ کسی ایسی تحریک کا حصہ بنوں اور ایسے لوگوں کی زندگی کے بارے میں قریب سے جان سکوں۔
نہ ایسا حالات کو منظور تھا نہ وقت نے اجازت دی، ہاں اس شوق نے تھوڑا سا مختلف انتخاب کرلیا اور میں تحریر، تصویر اور تقریر کے ذریعے اس جنون کو پورا کرنے کی کوشش میں لگ گیا۔
آج کے مضمون میں ایک استاد، مصنف اور سماجی وتحریکی راہ نما کی قابل ذکر کہانی آپ کے ساتھ شیئر کریں گے۔ یہ شخصیت پروفیسر سلامت اختر ہیں جو تحریک پاکستان کے کارکن اور تحقیق کے روشن معمار ہیں۔
میری بڑی خواہش تھی کہ میں زندگی میں ان سے انٹرویو کر سکوں لیکن اُن کی طبیعت ناساز ہو نے کی وجہ سے ایسا ممکن نہ ہو سکا۔ وہ 2 نومبر،2022کو چند سال علالت کے بعد راول پنڈی میں انتقال کر گئے۔
پروفیسر سلامت اختر8 دسمبر 1940 کو ایک گاؤں دھمتھل، نارووال میں فوجی پس منظر کے حامل معزز مسیحی گھرانے میں پیدا ہوئے۔
اُنہوں نے ابتدائی تعلیم ایک درخت کے نیچے قائم اسکول سے حاصل کی۔ میٹرک سی ٹی آئی، اسکول سیالکوٹ سے کیا۔ گورڈن کالج راولپنڈی سے آنرز کے ساتھ گریجویشن کیا اور پوسٹ گریجویشن، ایم اے انگلش اور ایم اے تاریخ، پنجاب یونیورسٹی سے کیا۔
اُن کے والد کا نام بوٹا خان اور والدہ کا نام نواب بی بی تھا۔ اُن کے والد ایک بہادر سپاہی تھے، جنہوں نے دوسری عالمی جنگ میں حصہ لیا تھا۔ انہیں اس وقت برطانوی حکومت کی جانب سے کئی اعزازات سے نوازا گیا تھا۔
اُن کے دادا بھی برطانوی فوج میں خدمات سرانجام دے چکے تھے۔ پروفیسر سلامت اختر تین بہنوں کے اکلوتے بھائی تھے۔ اُن کی شادی یکم جنوری 1966کو نذیر بیگم سے ہوئی۔ خُدا نے اُنہیں چار بٹیاں اور تین بیٹے عطا کیے۔
اُنہیں اپنے 48 سال پر مشتمل درس وتدریس کے کیریئر کے دوران پاکستان کے نام ور تعلیمی اداروں میں خدمات انجام دینے کا اعزاز حاصل ہے، جن میں جس میں رنگ محل کرسچن ہائی اسکول لاہور، گورڈن کالج راولپنڈی، گورنمنٹ کالج جھنگ، گورنمنٹ سرسید ڈگری کالج گجرات، گورنمنٹ ڈگری کالج کہوٹہ اور ایف سی کالج (اے چارٹرڈ یونیورسٹی) لاہور شامل ہیں۔
پروفیسر سلامت اختر اپنے طلبہ میں صرف تدریس کے لیے ہی نہیں بلکہ کردارسازی اور نظم وضبط کی وجہ سے بھی معروف تھے۔ اُنہوں نے درس وتدریس کے علاوہ قومی سطح پر مختلف شعبوں میں پاکستان کی خدمت کرنے والی تنظیموں میں اپنی خدمت سرانجام دیں۔
تحریک پاکستان کے کارکن
وہ دُنیا بھرکو یہ بتاتے ہوئے فخر محسوس کر تے تھے کہ وہ تحریک پاکستان کے ایک متحرک کارکن تھے۔ اُنہوں نے لوئر مڈل اسکول دھمتھل میں لکڑی کی بندوقوں کے ساتھ اُس پریڈ کی قیادت کی جس میں نعرے لگائے تھے ''لے کے رہیں گی پاکستان''، پاکستان زندہ باد۔ اُنہوں نے پاکستان کے مسئلے پر دھمتھل میں سکھوں اور مسیحیوں کی جنگ میں بھی بھرپور حصہ لیا تھا۔
وہ بتاتے ہیں کہ اُنہوں نے زخمی مسلمانوں، ہندوؤں اور سکھوں کی دیکھ بھال میں اپنے چچا صادق مسیح کا ساتھ دیا تھا۔ اُن کے خاندان نے ایک مسلم خاندان کو 6 ماہ تک اپنے گھر میں رکھا۔ وہ 23 جون 1947 کو پنجاب اسمبلی میں پاکستان کے حق میں مسیحی راہ نماؤں کے ووٹ دینے کے بھی گواہ تھے۔
کیمونٹی کے لیے خدمات
پروفیسر سلامت اختر بڑے فخر سے کہا کرتے تھے کہ ایک مسیحی پیدائشی طور پر سماجی مذہبی کارکن ہوتا ہے۔
اس لیے میرے والدین اور اساتذہ نے میرے اندر مذہب سے محبت کو پروان چڑھایا۔ میں نے ہمیشہ کو شش کی کہ اپنی عملی زندگی میں مسیحی تعلیمات کے مطابق زندگی بسر کروں۔ پروفیسر سلامت اختر نے ہمیشہ اپنی کیمونٹی کے حقوق اور مطالبات کی جدوجہد میں مرکزی کردار ادا کیا۔
1972 میں حکومت نے چرچ کے زیر انتظام اسکولوں اور کالجوں کی جائیدادیں کو قومی تحلیل میں لیا تو اُنہوں نے اس ضمن میں بھرپور تحریک کا آغاز کی، بلکہ اُنہوں نے پروفیسر سلامت اختر بمقابلہ حکومت کے عنوان سے ایک کیس بھی فائل کیا۔
اُنہوں ملک گیر احتجاجی تحریک میں عدالت میں پنجاب کی اور چرچ کے راہ نماؤں کی بھرپور حمایت کی۔ اُن کی کئی دہائیوں کی محنت اور بھرپور کاوشوں کی بدولت پنجاب حکومت نے چرچ کی جائیدادیں اور تعلیمی اداروں کو مالکان حقوق واپس کیے۔
سیاسی خدمات
پروفیسر سلامت اختر بتاتے ہیں کہ اُنہوں نے 1956 میں گورڈن کالج راولپنڈی میں بطور طالب علم مصر پر حملہ کرنے والی قوتوں کے خلاف ایک جلوس میں شرکت کی۔ 1971 میں بھارت اور روسی معاہدے کے خلاف اسلام آباد میں روسی سفارت خانے کے سامنے بھوک ہڑتال کی۔ اُنہوں نے مارشل ایڈمنسٹریٹر سمیت پاکستان کے تمام آمروں کا سامنا کیا۔
اُنہوں نے کرسچن اسکولوں اور کالجوں کی ڈی نیشنلائزیشن کے لیے قومی سطح پر تقریب کا اہتمام کیا۔ اس سے قبل وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو سے اُن کی ملاقات ہوئی جس میں اُنہوں نے اس تحریک کو ختم کرنے کی پیشکش کی لیکن پروفیسر صاحب نے اس کو مسترد کر دیا، جس کے بعد ملک گیر احتجاج پر پولیس نے فائزنگ کی۔
جس میں کئی مسیحیوں نے قربانیوں دیں اور خاص طور پر آر ایم جیمز اور نواز مسیح نے جان قربان کردی۔ (واضح رہے کہ نواز مسیح کی وفات کے وقت اُن کے ہاں بیٹے کی پیدائش ہوئی جس کا نام نوازسلامت رکھا گیا، جب کہ ایک اور بیٹے کانام جیمس رکھا) سابق وزیر کرنل (ریٹائرڈ) ایس کے ٹریسلر کے تعاون سے پولیس بھرتی میں 5% کوٹا حاصل کیا اور بشپ جان جوزف کے ساتھ ایک فعال رکن کے طور پرکام کیا۔
اس کے علاوہ قومی اور بین الاقوامی سطح پر مختلف سیمینارز اور کانفرنسوں میں پاکستان کے مسیحیوں، طالب علموں، خواتین، کسانوں، وکلاء کے مسائل کو اُجاگر کیا۔ اُنہوں نے کھلاڑیوں، ڈاکٹروں، صحافیوں، کچی آبادی کے مکین اور غیرانسانی ماحول میں رہنے والے پسے ہوئے مزدور کے حقوق کے لیے آواز بلند کی۔ اُنہوں نے پاکستانی مسیحیوں کی سیاسی اور سماجی نمائندگی کے لیے ''آل پاکستان کرسچن لیگ'' قائم کی۔
ادبی خدمات
پروفیسر سلامت اختر درس وتدریس اور بھرپور سیاسی سرگرمیوں کے علاوہ ایک متحرک لکھاری بھی تھے بلکہ اُن کا تحریری اور تحقیقی کام اُن کا اصل اثاثہ ہے۔
1997 میں پاکستان کی گولڈن جوبلی کے موقع پر کرسچن اسٹڈی سینٹر راولپنڈی کی طرف سے شائع ہونے والی اُن کی معرکہ آراء کتاب ''تحریک پاکستان کے گم نام کردار'' کو قومی اور بین الاقوامی سطح پر خواب سراہا گیا۔
ڈاکٹر اسلم سید، چیئرمین شعبہ تاریخ قائداعظم یونیورسٹی نے اسے ایم اے ہسٹری اور ایم ایس سی پاکستان اسٹڈیز کے لیے حوالے کی کتاب قرار دیا۔
اُن کی دیگر کتابوں میں ''لہوکی مشعلیں''، ''تحریک پاکستان کا ایک سیاح باب'' اور ''پاکستان کے وفادار مسیحی'' بھی شامل ہیں، جنہیں مختلف یونیورسٹیوں کے متعدد طلباء ایم فل اور پی ایچ ڈی کے مقالوں میں حوالہ جات کے طور استعمال کرتے ہیں۔ مختلف موضوعات پر اُن کے مضامین نیشنل اور گلوبل پریس میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ اُنہوں نے متعدد رسالوں کی ادارت بھی کی۔
اعزارت اور ایوارڈز
پروفیسر سلامت اختر اس لحاظ سے خوش قسمت تھے کہ اُنہیں اپنی کمیونٹی اور مسلمان حلقوں میں بھرپور پذیرائی ملی۔ اُن کو سماجی، تعلیمی اور سیاسی خدمات پر کئی گولڈ میڈل، شیلڈز اور ایوارڈز سے نوازا گیا۔
اُنہیں سونے کے تمغے سینٹ انتھونی ویلفیئر یوتھ گروپ راولپنڈی، ڈیموکریٹک جرنلسٹس ایسوسی ایشن اسلام آباد، تاجلی میڈیا فاؤنڈیشن لاہور، دی ساون انٹرنیشنل لاہور نے دیے۔ آل پاکستان کرسچن گلڈ نے اُنہیں، جوشوا فضل الدین لٹریری ایوارڈ سے نوازا۔ پاکستان کرسچن آرٹس کونسل راولپنڈی، کرسچن ٹیلنٹ فورم راولپنڈی، پاکستان کرسچن سٹیزن فورم اسلام آباد، کرسچن سروسز فاؤنڈیشن راولپنڈی، دی ویکلی تجدید راولپنڈی اور ہم سخن انٹرنیشنل لندن نے بھی شیلڈز اور ایوارڈز دیے۔
پنجابی یونیورسٹی پٹیالہ انڈیا، وزیر اعظم آزاد کشمیر سردار عتیق احمد خان اور ڈاکٹر پیٹر۔ایچ۔آرماکوسٹ ریکٹر، ایف سی کالج کی جانب سے بھی خصوصی شیلڈز سے دی گئیں۔
نام ور مصنف اور تحریکِ شناخت کے بانی رضاکار اعظم معراج اپنی کتاب ''شناخت نامہ'' میں لکھتے ہیں کہ ''میری نظر میں ان کی سیاسی جدو جہد اگر نہ بھی ہوتی اور انہوں نے اگر اور کچھ نہ بھی کیا ہوتا تو تب بھی ان کی تخلیق 'تحریک پاکستان کے گم نام کردار' ہی پاکستان قوم پر اتنا بڑا احسان ہے کہ جس سے ہماری آنے والی نسلیں روشنی حاصل کرکے اس ملک و قوم کو بانیاں پاکستان کے خوابوں کے مطابق بنا سکتی ہیں، کیوںکہ اُنہوں نے تحریک پاکستان کے ایسے غیرمسلم گمنام کرداروں کو اُجاگر کیا ہے جن کے منظرعام پر آنے سے بانیاں پاکستان کی پاکستان کے بارے میں بصیرت اور دوراندیشی کو ظاہر ہوتی ہے۔ یہ کتاب نہ صرف پاکستانی مسیحیوں کے لیے ایک تاریخی دستاویز ہے بلکہ پاکستانی قوم کے لیے بھی اتنی ہی تاریخی اہمیت کی حامل ہے۔''
اُن کی بیٹی ربیقہ منیر نے کہا کہ''آج سے پچاس سال پہلے معاشرے میں لڑکیوں کی تعلیم کو اتنا اہم نہیں سمجھا جاتا تھا، مگر میرے والد کی سوچ معاشرے کے برعکس تھی بلکہ وہ ایک مختلف اور مثبت شخصیت کے مالک تھے۔
انہوں نے نہ صرف اپنے بیٹوں کو اعلیٰ تعلیم دلوائی بلکہ اپنی بیٹیوں کو بھی ماسٹرز تک تعلیم حاصل کروائی۔ یہ اعلیٰ تعلیم اور اُن کی محنت کا ہی نتیجہ تھا کہ میں کئی سال تک ایک نام ور اسکول میں بطور پرنسپل فرائض انجام دیتی رہی۔ میں آج بھی گھر سے باہر نکلوں تو والد صاحب کی یہ بات ذہن میں رہتی ہے۔
انہوں نے ہمیں سکھایا تھا کہ بیٹا ہمیشہ شیر بن کر باہر کے حالات کا مقابلہ کرنا ہے۔ مجھے فخر ہے کہ میں پروفیسرسلامت اختر کی بیٹی ہوں۔ کاش، سب لڑکیوں کے باپ، پروفیسر سلامت اختر جیسے ہوں۔''
اُن کے بیٹے نوازسلامت نے کہا کہ ''دُنیا کے لیے پروفیسر سلامت اختر ایک سماجی اور سیاسی لیڈر تھے۔ ہمارے لیے وہ ایک نہایت شفیق اور محبت کرنے والے والد تھے۔ انہوں نے اپنی کمیونٹی کے حقوق کے لیے نہ صرف آواز اٹھائی بلکہ بے پناہ ذاتی مشکلات کا بھی سامنا کیا۔ ان کی آواز کو روکنے کے لیے نت نئے ہتھ کنڈے اختیار کیے جاتے تھے۔
کبھی گھر کی بجلی کاٹ دی جاتی، کبھی دوردراز علاقوں میں پوسٹنگ کردی جاتی، تو کبھی مہینوں مہینوں تنخواہ بند کر دی جاتی تھی۔ ان سب مشکلات کے باوجود ہم نے اپنے والد صاحب کے حوصلے کبھی پست ہوتے نہیں دیکھے تھے۔ اُن کی شخصیت اور تربیت نے میرے اندر بھی لوگوں کی خدمت کا جذبہ پیدا کیا۔ میری کوشش ہے کہ میں اُن کی اس جدوجہد کو جاری رکھ سکوں۔''
پروفیسر سلامت اختر کی زندگی بے شمار پہلوؤں سے قابل تقلید ہے۔ وہ اپنے موقف کے سچے، کردار کے کھرے اور بات کے پکے انسان تھے، جنہوں نے ہمیشہ اُصولوں اور سچائی پر عمل کیا۔ اُنہیں کئی تحریکوں میں اُس وقت کے حکومتی اور دیگر ذرائع سے ذاتی فوائد کی پیشکش ہوئی لیکن اُنہوں نے اجتماعی بھلائی کی خاطر تمام چیزوں کو ٹھکرا دیا۔
آج کے کئی نام ور لوگ اُن کے شاگرد رہے۔ اس وقت بھی ملک بھر میں اُن کئی طالب علم بطور سیاست داں، جج، وکیل، ڈاکٹر، پروفیسر اور فوجی افسر اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ ایک دفعہ پروفیسر صاحب کسی کیس کے سلسلے میں عدالت گئے۔ جج نے اپنے استاد پروفیسر سلامت اختر کو عدالت میں داخل ہوتے دیکھا تو اپنی نشست سے احتراماً کھڑے ہو گئے اور اپنے چیمبر میں کیس کی سماعت کی۔
پاکستانی مسیحیوں کی سیاسی اور سماجی بہتری کے لیے اُنہوں نے ''آل پاکستان کرسچین لیگ'' کے نام سے ایک سیاسی جماعت بنائی اور تحریک کا آغاز کیا۔ یہ پروفیسر سلامت اختر ہی تھے جنہوں نے اقلیتوں کے لیے دوہرے ووٹ کا نظریہ پیش کیا۔ اُن تمام خدمات کی وجہ سے اُنہیں ''بابا مسیحی قوم'' کہا جاتا تھا۔
ایک مرتبہ پروفیسر سلامت اختر کسی جلسے میں پُر جوش انداز میں تقریر کرکے اسٹیج سے اترے تو حبیب جالب نے یہ الفاظ کہے:
عدو کے لیے تو قیامت رہے گا
سلامت ہمارا سلامت رہے گا
پروفیسر سلامت اختر جیسے لوگ اس معاشرے کے حقیقی لوگ تھے جنہوں نے اس مٹی میں جنم لیا، اس دھرتی کو سنورانے کے لیے اپنا خون پسینا ایک کیا اور اس زمین کی خاک کے سپر د ہوئے۔ ایسے لوگ ہی روشنی کے مینار اور قوموں کے مستقبل کے معمار ہوتے ہیں جو اپنے افکار اور کردار سے نسلوں کو سنوار جاتے ہیں۔ پروفیسر صاحب، آپ ہمارے دلوں میں تاقیامت سلامت رہیں گے۔
ایسے لوگ درحقیقت ہجوم سے الگ ہوکر سوچتے ہیں، وہ اپنی ذات سے بلند ہو کر معاشرے کی فلاح اور دوسروں کی بقاء کے لیے جیتے ہیں۔
بچپن سے یہ خواہش رہی کہ کسی ایسی تحریک کا حصہ بنوں اور ایسے لوگوں کی زندگی کے بارے میں قریب سے جان سکوں۔
نہ ایسا حالات کو منظور تھا نہ وقت نے اجازت دی، ہاں اس شوق نے تھوڑا سا مختلف انتخاب کرلیا اور میں تحریر، تصویر اور تقریر کے ذریعے اس جنون کو پورا کرنے کی کوشش میں لگ گیا۔
آج کے مضمون میں ایک استاد، مصنف اور سماجی وتحریکی راہ نما کی قابل ذکر کہانی آپ کے ساتھ شیئر کریں گے۔ یہ شخصیت پروفیسر سلامت اختر ہیں جو تحریک پاکستان کے کارکن اور تحقیق کے روشن معمار ہیں۔
میری بڑی خواہش تھی کہ میں زندگی میں ان سے انٹرویو کر سکوں لیکن اُن کی طبیعت ناساز ہو نے کی وجہ سے ایسا ممکن نہ ہو سکا۔ وہ 2 نومبر،2022کو چند سال علالت کے بعد راول پنڈی میں انتقال کر گئے۔
پروفیسر سلامت اختر8 دسمبر 1940 کو ایک گاؤں دھمتھل، نارووال میں فوجی پس منظر کے حامل معزز مسیحی گھرانے میں پیدا ہوئے۔
اُنہوں نے ابتدائی تعلیم ایک درخت کے نیچے قائم اسکول سے حاصل کی۔ میٹرک سی ٹی آئی، اسکول سیالکوٹ سے کیا۔ گورڈن کالج راولپنڈی سے آنرز کے ساتھ گریجویشن کیا اور پوسٹ گریجویشن، ایم اے انگلش اور ایم اے تاریخ، پنجاب یونیورسٹی سے کیا۔
اُن کے والد کا نام بوٹا خان اور والدہ کا نام نواب بی بی تھا۔ اُن کے والد ایک بہادر سپاہی تھے، جنہوں نے دوسری عالمی جنگ میں حصہ لیا تھا۔ انہیں اس وقت برطانوی حکومت کی جانب سے کئی اعزازات سے نوازا گیا تھا۔
اُن کے دادا بھی برطانوی فوج میں خدمات سرانجام دے چکے تھے۔ پروفیسر سلامت اختر تین بہنوں کے اکلوتے بھائی تھے۔ اُن کی شادی یکم جنوری 1966کو نذیر بیگم سے ہوئی۔ خُدا نے اُنہیں چار بٹیاں اور تین بیٹے عطا کیے۔
اُنہیں اپنے 48 سال پر مشتمل درس وتدریس کے کیریئر کے دوران پاکستان کے نام ور تعلیمی اداروں میں خدمات انجام دینے کا اعزاز حاصل ہے، جن میں جس میں رنگ محل کرسچن ہائی اسکول لاہور، گورڈن کالج راولپنڈی، گورنمنٹ کالج جھنگ، گورنمنٹ سرسید ڈگری کالج گجرات، گورنمنٹ ڈگری کالج کہوٹہ اور ایف سی کالج (اے چارٹرڈ یونیورسٹی) لاہور شامل ہیں۔
پروفیسر سلامت اختر اپنے طلبہ میں صرف تدریس کے لیے ہی نہیں بلکہ کردارسازی اور نظم وضبط کی وجہ سے بھی معروف تھے۔ اُنہوں نے درس وتدریس کے علاوہ قومی سطح پر مختلف شعبوں میں پاکستان کی خدمت کرنے والی تنظیموں میں اپنی خدمت سرانجام دیں۔
تحریک پاکستان کے کارکن
وہ دُنیا بھرکو یہ بتاتے ہوئے فخر محسوس کر تے تھے کہ وہ تحریک پاکستان کے ایک متحرک کارکن تھے۔ اُنہوں نے لوئر مڈل اسکول دھمتھل میں لکڑی کی بندوقوں کے ساتھ اُس پریڈ کی قیادت کی جس میں نعرے لگائے تھے ''لے کے رہیں گی پاکستان''، پاکستان زندہ باد۔ اُنہوں نے پاکستان کے مسئلے پر دھمتھل میں سکھوں اور مسیحیوں کی جنگ میں بھی بھرپور حصہ لیا تھا۔
وہ بتاتے ہیں کہ اُنہوں نے زخمی مسلمانوں، ہندوؤں اور سکھوں کی دیکھ بھال میں اپنے چچا صادق مسیح کا ساتھ دیا تھا۔ اُن کے خاندان نے ایک مسلم خاندان کو 6 ماہ تک اپنے گھر میں رکھا۔ وہ 23 جون 1947 کو پنجاب اسمبلی میں پاکستان کے حق میں مسیحی راہ نماؤں کے ووٹ دینے کے بھی گواہ تھے۔
کیمونٹی کے لیے خدمات
پروفیسر سلامت اختر بڑے فخر سے کہا کرتے تھے کہ ایک مسیحی پیدائشی طور پر سماجی مذہبی کارکن ہوتا ہے۔
اس لیے میرے والدین اور اساتذہ نے میرے اندر مذہب سے محبت کو پروان چڑھایا۔ میں نے ہمیشہ کو شش کی کہ اپنی عملی زندگی میں مسیحی تعلیمات کے مطابق زندگی بسر کروں۔ پروفیسر سلامت اختر نے ہمیشہ اپنی کیمونٹی کے حقوق اور مطالبات کی جدوجہد میں مرکزی کردار ادا کیا۔
1972 میں حکومت نے چرچ کے زیر انتظام اسکولوں اور کالجوں کی جائیدادیں کو قومی تحلیل میں لیا تو اُنہوں نے اس ضمن میں بھرپور تحریک کا آغاز کی، بلکہ اُنہوں نے پروفیسر سلامت اختر بمقابلہ حکومت کے عنوان سے ایک کیس بھی فائل کیا۔
اُنہوں ملک گیر احتجاجی تحریک میں عدالت میں پنجاب کی اور چرچ کے راہ نماؤں کی بھرپور حمایت کی۔ اُن کی کئی دہائیوں کی محنت اور بھرپور کاوشوں کی بدولت پنجاب حکومت نے چرچ کی جائیدادیں اور تعلیمی اداروں کو مالکان حقوق واپس کیے۔
سیاسی خدمات
پروفیسر سلامت اختر بتاتے ہیں کہ اُنہوں نے 1956 میں گورڈن کالج راولپنڈی میں بطور طالب علم مصر پر حملہ کرنے والی قوتوں کے خلاف ایک جلوس میں شرکت کی۔ 1971 میں بھارت اور روسی معاہدے کے خلاف اسلام آباد میں روسی سفارت خانے کے سامنے بھوک ہڑتال کی۔ اُنہوں نے مارشل ایڈمنسٹریٹر سمیت پاکستان کے تمام آمروں کا سامنا کیا۔
اُنہوں نے کرسچن اسکولوں اور کالجوں کی ڈی نیشنلائزیشن کے لیے قومی سطح پر تقریب کا اہتمام کیا۔ اس سے قبل وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو سے اُن کی ملاقات ہوئی جس میں اُنہوں نے اس تحریک کو ختم کرنے کی پیشکش کی لیکن پروفیسر صاحب نے اس کو مسترد کر دیا، جس کے بعد ملک گیر احتجاج پر پولیس نے فائزنگ کی۔
جس میں کئی مسیحیوں نے قربانیوں دیں اور خاص طور پر آر ایم جیمز اور نواز مسیح نے جان قربان کردی۔ (واضح رہے کہ نواز مسیح کی وفات کے وقت اُن کے ہاں بیٹے کی پیدائش ہوئی جس کا نام نوازسلامت رکھا گیا، جب کہ ایک اور بیٹے کانام جیمس رکھا) سابق وزیر کرنل (ریٹائرڈ) ایس کے ٹریسلر کے تعاون سے پولیس بھرتی میں 5% کوٹا حاصل کیا اور بشپ جان جوزف کے ساتھ ایک فعال رکن کے طور پرکام کیا۔
اس کے علاوہ قومی اور بین الاقوامی سطح پر مختلف سیمینارز اور کانفرنسوں میں پاکستان کے مسیحیوں، طالب علموں، خواتین، کسانوں، وکلاء کے مسائل کو اُجاگر کیا۔ اُنہوں نے کھلاڑیوں، ڈاکٹروں، صحافیوں، کچی آبادی کے مکین اور غیرانسانی ماحول میں رہنے والے پسے ہوئے مزدور کے حقوق کے لیے آواز بلند کی۔ اُنہوں نے پاکستانی مسیحیوں کی سیاسی اور سماجی نمائندگی کے لیے ''آل پاکستان کرسچن لیگ'' قائم کی۔
ادبی خدمات
پروفیسر سلامت اختر درس وتدریس اور بھرپور سیاسی سرگرمیوں کے علاوہ ایک متحرک لکھاری بھی تھے بلکہ اُن کا تحریری اور تحقیقی کام اُن کا اصل اثاثہ ہے۔
1997 میں پاکستان کی گولڈن جوبلی کے موقع پر کرسچن اسٹڈی سینٹر راولپنڈی کی طرف سے شائع ہونے والی اُن کی معرکہ آراء کتاب ''تحریک پاکستان کے گم نام کردار'' کو قومی اور بین الاقوامی سطح پر خواب سراہا گیا۔
ڈاکٹر اسلم سید، چیئرمین شعبہ تاریخ قائداعظم یونیورسٹی نے اسے ایم اے ہسٹری اور ایم ایس سی پاکستان اسٹڈیز کے لیے حوالے کی کتاب قرار دیا۔
اُن کی دیگر کتابوں میں ''لہوکی مشعلیں''، ''تحریک پاکستان کا ایک سیاح باب'' اور ''پاکستان کے وفادار مسیحی'' بھی شامل ہیں، جنہیں مختلف یونیورسٹیوں کے متعدد طلباء ایم فل اور پی ایچ ڈی کے مقالوں میں حوالہ جات کے طور استعمال کرتے ہیں۔ مختلف موضوعات پر اُن کے مضامین نیشنل اور گلوبل پریس میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ اُنہوں نے متعدد رسالوں کی ادارت بھی کی۔
اعزارت اور ایوارڈز
پروفیسر سلامت اختر اس لحاظ سے خوش قسمت تھے کہ اُنہیں اپنی کمیونٹی اور مسلمان حلقوں میں بھرپور پذیرائی ملی۔ اُن کو سماجی، تعلیمی اور سیاسی خدمات پر کئی گولڈ میڈل، شیلڈز اور ایوارڈز سے نوازا گیا۔
اُنہیں سونے کے تمغے سینٹ انتھونی ویلفیئر یوتھ گروپ راولپنڈی، ڈیموکریٹک جرنلسٹس ایسوسی ایشن اسلام آباد، تاجلی میڈیا فاؤنڈیشن لاہور، دی ساون انٹرنیشنل لاہور نے دیے۔ آل پاکستان کرسچن گلڈ نے اُنہیں، جوشوا فضل الدین لٹریری ایوارڈ سے نوازا۔ پاکستان کرسچن آرٹس کونسل راولپنڈی، کرسچن ٹیلنٹ فورم راولپنڈی، پاکستان کرسچن سٹیزن فورم اسلام آباد، کرسچن سروسز فاؤنڈیشن راولپنڈی، دی ویکلی تجدید راولپنڈی اور ہم سخن انٹرنیشنل لندن نے بھی شیلڈز اور ایوارڈز دیے۔
پنجابی یونیورسٹی پٹیالہ انڈیا، وزیر اعظم آزاد کشمیر سردار عتیق احمد خان اور ڈاکٹر پیٹر۔ایچ۔آرماکوسٹ ریکٹر، ایف سی کالج کی جانب سے بھی خصوصی شیلڈز سے دی گئیں۔
نام ور مصنف اور تحریکِ شناخت کے بانی رضاکار اعظم معراج اپنی کتاب ''شناخت نامہ'' میں لکھتے ہیں کہ ''میری نظر میں ان کی سیاسی جدو جہد اگر نہ بھی ہوتی اور انہوں نے اگر اور کچھ نہ بھی کیا ہوتا تو تب بھی ان کی تخلیق 'تحریک پاکستان کے گم نام کردار' ہی پاکستان قوم پر اتنا بڑا احسان ہے کہ جس سے ہماری آنے والی نسلیں روشنی حاصل کرکے اس ملک و قوم کو بانیاں پاکستان کے خوابوں کے مطابق بنا سکتی ہیں، کیوںکہ اُنہوں نے تحریک پاکستان کے ایسے غیرمسلم گمنام کرداروں کو اُجاگر کیا ہے جن کے منظرعام پر آنے سے بانیاں پاکستان کی پاکستان کے بارے میں بصیرت اور دوراندیشی کو ظاہر ہوتی ہے۔ یہ کتاب نہ صرف پاکستانی مسیحیوں کے لیے ایک تاریخی دستاویز ہے بلکہ پاکستانی قوم کے لیے بھی اتنی ہی تاریخی اہمیت کی حامل ہے۔''
اُن کی بیٹی ربیقہ منیر نے کہا کہ''آج سے پچاس سال پہلے معاشرے میں لڑکیوں کی تعلیم کو اتنا اہم نہیں سمجھا جاتا تھا، مگر میرے والد کی سوچ معاشرے کے برعکس تھی بلکہ وہ ایک مختلف اور مثبت شخصیت کے مالک تھے۔
انہوں نے نہ صرف اپنے بیٹوں کو اعلیٰ تعلیم دلوائی بلکہ اپنی بیٹیوں کو بھی ماسٹرز تک تعلیم حاصل کروائی۔ یہ اعلیٰ تعلیم اور اُن کی محنت کا ہی نتیجہ تھا کہ میں کئی سال تک ایک نام ور اسکول میں بطور پرنسپل فرائض انجام دیتی رہی۔ میں آج بھی گھر سے باہر نکلوں تو والد صاحب کی یہ بات ذہن میں رہتی ہے۔
انہوں نے ہمیں سکھایا تھا کہ بیٹا ہمیشہ شیر بن کر باہر کے حالات کا مقابلہ کرنا ہے۔ مجھے فخر ہے کہ میں پروفیسرسلامت اختر کی بیٹی ہوں۔ کاش، سب لڑکیوں کے باپ، پروفیسر سلامت اختر جیسے ہوں۔''
اُن کے بیٹے نوازسلامت نے کہا کہ ''دُنیا کے لیے پروفیسر سلامت اختر ایک سماجی اور سیاسی لیڈر تھے۔ ہمارے لیے وہ ایک نہایت شفیق اور محبت کرنے والے والد تھے۔ انہوں نے اپنی کمیونٹی کے حقوق کے لیے نہ صرف آواز اٹھائی بلکہ بے پناہ ذاتی مشکلات کا بھی سامنا کیا۔ ان کی آواز کو روکنے کے لیے نت نئے ہتھ کنڈے اختیار کیے جاتے تھے۔
کبھی گھر کی بجلی کاٹ دی جاتی، کبھی دوردراز علاقوں میں پوسٹنگ کردی جاتی، تو کبھی مہینوں مہینوں تنخواہ بند کر دی جاتی تھی۔ ان سب مشکلات کے باوجود ہم نے اپنے والد صاحب کے حوصلے کبھی پست ہوتے نہیں دیکھے تھے۔ اُن کی شخصیت اور تربیت نے میرے اندر بھی لوگوں کی خدمت کا جذبہ پیدا کیا۔ میری کوشش ہے کہ میں اُن کی اس جدوجہد کو جاری رکھ سکوں۔''
پروفیسر سلامت اختر کی زندگی بے شمار پہلوؤں سے قابل تقلید ہے۔ وہ اپنے موقف کے سچے، کردار کے کھرے اور بات کے پکے انسان تھے، جنہوں نے ہمیشہ اُصولوں اور سچائی پر عمل کیا۔ اُنہیں کئی تحریکوں میں اُس وقت کے حکومتی اور دیگر ذرائع سے ذاتی فوائد کی پیشکش ہوئی لیکن اُنہوں نے اجتماعی بھلائی کی خاطر تمام چیزوں کو ٹھکرا دیا۔
آج کے کئی نام ور لوگ اُن کے شاگرد رہے۔ اس وقت بھی ملک بھر میں اُن کئی طالب علم بطور سیاست داں، جج، وکیل، ڈاکٹر، پروفیسر اور فوجی افسر اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ ایک دفعہ پروفیسر صاحب کسی کیس کے سلسلے میں عدالت گئے۔ جج نے اپنے استاد پروفیسر سلامت اختر کو عدالت میں داخل ہوتے دیکھا تو اپنی نشست سے احتراماً کھڑے ہو گئے اور اپنے چیمبر میں کیس کی سماعت کی۔
پاکستانی مسیحیوں کی سیاسی اور سماجی بہتری کے لیے اُنہوں نے ''آل پاکستان کرسچین لیگ'' کے نام سے ایک سیاسی جماعت بنائی اور تحریک کا آغاز کیا۔ یہ پروفیسر سلامت اختر ہی تھے جنہوں نے اقلیتوں کے لیے دوہرے ووٹ کا نظریہ پیش کیا۔ اُن تمام خدمات کی وجہ سے اُنہیں ''بابا مسیحی قوم'' کہا جاتا تھا۔
ایک مرتبہ پروفیسر سلامت اختر کسی جلسے میں پُر جوش انداز میں تقریر کرکے اسٹیج سے اترے تو حبیب جالب نے یہ الفاظ کہے:
عدو کے لیے تو قیامت رہے گا
سلامت ہمارا سلامت رہے گا
پروفیسر سلامت اختر جیسے لوگ اس معاشرے کے حقیقی لوگ تھے جنہوں نے اس مٹی میں جنم لیا، اس دھرتی کو سنورانے کے لیے اپنا خون پسینا ایک کیا اور اس زمین کی خاک کے سپر د ہوئے۔ ایسے لوگ ہی روشنی کے مینار اور قوموں کے مستقبل کے معمار ہوتے ہیں جو اپنے افکار اور کردار سے نسلوں کو سنوار جاتے ہیں۔ پروفیسر صاحب، آپ ہمارے دلوں میں تاقیامت سلامت رہیں گے۔