مالا بار مینشن قائدِ اعظم

قائد 1934میں برِ صغیر واپس آئے تو ان کی بیگم صاحبہ وفات پا چکی تھیں

gfhlb169@gmail.com

قائدِ اعظم اپنی تعلیم مکمل کر کے وطن واپس لوٹے تو بمبئی میں سکونت اختیار کی۔آپ نے وہیں اپنے کیریئر کا آغاز کیا۔ممبئی سے ہی وکالت کے میدان میں اترے اور بہت جلد وکالت میں اپنا مقام بنا لیا۔کچھ ہی عرصے میں انھوں نے سیاست میں اہم مقام حاصل کر لیا حالانکہ اُن کے پاس کوئی بیساکھی نہیں تھی۔وہ کسی بڑے گھر میں پیدا نہیں ہوئے تھے۔

انھوں نے وہ کر دکھایا جس پر ہر کوئی آج تک انگشت بدنداں ہے۔ جناب گاندھی جہاں پیدا ہوئے ان کے والدِ محترم اس ریاست کے دیوان تھے۔ جناب پنڈت جواہر لال نہرو کانگریس کے چوٹی کے لیڈر اور ہندوستان بھر میں سب سے امیر وکیل کے ہاں پیدا ہوئے۔قائد کو ایسی کوئی بیساکھی،کوئی سہولت میسر نہیں تھی۔

کامیاب وکالت کی وجہ سے قائد نے ممبئی میں مالا بار ہل پر ڈھائی ایکڑ پر محیط ایک بنگلہ خریدا۔آپ اپنی دوسری بیگم کے ساتھ اسی بنگلے میں رہائش پذیررہے۔غالباً 1929میں قائدِ اعظم یہاں کی سیاست سے دلبرداشتہ ہو کر برطانیہ منتقل ہو گئے۔

قائد 1934میں برِ صغیر واپس آئے تو ان کی بیگم صاحبہ وفات پا چکی تھیں۔قائد نے فیصلہ کیا کہ مالابار ہل کے پرانے بنگلے کو مسمار کرواکے وہاں یورپین اور برِ صغیر کے فنِ تعمیر کے امتزاج کا حامل ایک جدید گھر تعمیر کروایا جائے۔قائد کا یہ گھر پرانے ماؤنٹ پلیزنٹ روڈ پر مہاراشٹر کے وزیرِ اعلیٰ کی موجودہ سرکاری رہائش گاہ کے قریب واقع ہے۔

اس کو ساؤتھ کورٹ اور مالابار مینشن بھی کہا جاتا ہے۔قائدِ اعظم نے یہ گھر 1934 میں تعمیر کروانا شروع کیا اور یہ 1936میں بن کر تیار ہوا۔اس کی تعمیر کے لیے اس وقت کے مشہور آرکیٹیکٹ کلاڈ بیٹلی کی خدمات لی گئیں۔کلاڈ برطانیہ میں پیدا ہوئے،وہیں تعلیم مکمل کی لیکن ہندوستان میں کام کرتے رہے۔قائد نے اس مکان کی تعمیر میں بہت دلچسپی لی اور ایک ایک اینٹ کی چنائی پر نظر رکھی۔

اس بنگلے کی تعمیر کے لیے مرمری ٹائلیں اٹلی سے خاص طور پر درآمد کی گئیں جب کہ وڈ ورک کے لیے اخروٹ کی لکڑی کو ترجیح دی ۔جس زمانے میں محض چند ہزار روپے میں ایک اچھا خاصا بڑا گھر تعمیر ہو جاتا تھا اس زمانے میں اس بنگلہ کی تعمیر پر دو لاکھ روپے سے اوپر ایک خطیر رقم خرچ ہوئی۔اس گھر سے آپ کو بہت لگاؤ تھا۔

قائد کی سیاسی مصروفیات میں جب بہت اضافہ ہو گیا تو دہلی میں آپ کا زیادہ وقت گزرنے لگا۔ایسے میں ضرورت محسو س ہوئی کہ لمبے لمبے عرصے کے لیے ہوٹل میں قیام کے بجائے دہلی میں بھی ایک قیام گاہ ہو۔ جب یہ طے ہو گیا تو اورنگ زیب روڈ پر ایک خوبصورت گھر کا انتخاب کیا جو ڈیڑھ ایکڑ پر محیط تھا۔

اورنگ زیب روڈ کا نام اب تبدیل کر دیا گیا ہے اور اب اسے بھارت کے مشہور ایٹمی سائنسدان اور سابق صدر اے پی جی ابوالکلام کے نام سے منسوب کر دیا گیا ہے۔

10اورنگ زیب روڈ پر منتقل ہونے سے پہلے قائد دہلی میں امپیریل ہوٹل میں عارضی رہائش رکھتے تھے۔قیامِ پاکستان سے کچھ عرصہ قبل قائد نے اورنگ زیب روڈ والا گھر اپنے ایک اچھے جاننے والے ہندو سیٹھ رام کشن ڈالمیا کے ہاتھ ڈھائی لاکھ روپے میں بیچ دیا۔ڈالمیا قائد کے دوست تھے ۔یہ گھر اب ڈچ سفارت خانے کے پاس ہے۔

مالابار مینشن 1936میں مکمل ہوا تو قائدِ اعظم اس میں اپنی بہن فاطمہ جناح کے ہمراہ خوشی خوشی منتقل ہو گئے۔کہتے ہیں گھر بنانا ایک بات ہے جب کہ گھر میں سکون کے ساتھ رہنا نصیب کی بات ہے۔


قائد پہلے چار سال تو اس میں سکون سے رہے لیکن پھر جب مسلم لیگ کے اجلاس منعقدہ الہ آباد میں الگ ملک کے لیے قرارداد منظور ہو جانے کے بعد مسلم لیگ بہت متحرک ہو گئی تو قائدِ اعظم کی سرگرمیوں میں بے پناہ اضافہ ہو گیا۔

آپ کبھی ایک شہر ہوتے تو کبھی دوسرے شہر۔ پاکستان کے قیام کے سلسلے میں قائد کی چند بہت ہی اہم میٹنگز مالا بار مینشن میں ہی ہوئیں لیکن اب ان کا زیادہ وقت دہلی میں گزرنے لگا۔جہاں جناب گاندھی کو جواہر لال نہرو جیسا قد آور اور ہونہار ساتھی مل گیا تھا،قائد کی ٹیم میں ایسی نامور شخصیت موجود نہیں تھی جس کے حوالے تمام معاملات کر دیے جاتے اور خود قائد مالابار مینشن میں آرام فرماتے۔قائد کو یہاں رہنے کا پورا موقع نہیں مل رہا تھا۔

اس لیے انھوںنے سوچا کہ اس وسیع و عریض بنگلے کو بیچ دیا جائے۔ریاست حیدر آباد دکن کے نواب نظام حیدر آباد نے بنگلے کو خریدنے کی خواہش ظاہر کرتے ہوئے اس کے لیے ساڑھے سات لاکھ روپے کی آفر کی۔ قائد نے اس آفر کو نا منظور کرتے ہوئے نظام کو لکھا کہ اس بنگلے کی صرف زمین کی قیمت 15لاکھ سے زائد ہے۔تقسیمِ ہند سے دو سال قبل قائد کو ایک اور بڑی آفر ملی لیکن انھوں نے یہ آفر بھی قبول نہیں کی۔

ایسا دکھائی دیتا ہے کہ دہلی میں اپنی بے پناہ مصروفیات اور نحیف کندھوں پر بہت بھاری ذمے واریوں کی وجہ سے قائد ممبئی والا گھر بیچنا بھی چاہتے تھے لیکن ممبئی سے لگاؤ اور مالابار مینشن سے جڑی یادوں کی وجہ سے کسی پیش کش کو قبول بھی نہیں کر رہے تھے۔

پرانے گھر کو مسمار کر کے نیا گھر تو بن گیا تھا لیکن پرانے گھر میں ان کی دوسری بیگم کی یادیں بسی ہوئی تھیں۔اس گھر کے وسیع لانوں میں وہ اور رتی ٹہلتے اور خوشگوار وقت بتاتے رہے تھے۔بہر حال یہ پر شکوہ بنگلہ نہ بک سکا اور 7اگست 1947 کو قائدِ اعظم اپنی بہن کے ہمراہ گورنر جنرل کا منصب سنبھالنے کراچی آ گئے۔

تقسیمِ ہند کے نتیجے میں دو ریاستیں،پاکستان اور بھارت وجود میں آ گئیں۔دونوں طرف سے ماس مائیگریشن کی وجہ سے خالی کردہ جائیدادوں کو دونوں حکومتوں نے سرحد پار سے آنے والوں کو الاٹ کرنا شروع کر دیا۔پاکستان بننے سے ایک دن پہلے ہی جناب نہرو نے ایک سیاسی رہنما شری پرکاش کو پاکستان میں بھارت کا سفیر تعینات کر دیا جنھوں نے چودہ اگست کو کراچی پہنچ کر اگلے دن ایک ہوٹل میں سفارت خانہ کھول لیا۔

بھارتی ریسرچ اسکالر اجی جاوید لکھتی ہیں کہ جناح صاحب ممبئی والے اپنے گھر کو evacuee پراپرٹی بننے اور بھارتی حکومت کے قبضے میں جاتے نہیں دیکھنا چاہتے تھے۔وہ کہتی ہیں کہ ایک دن سارے پروٹوکول کو بالائے تاک رکھتے ہوئے قائد شری پرکاش کے ہاں پہنچ گئے اور اسے کہا کہ ''جواہر لال سے کہو کہ اس طرح میرا دل نہ توڑے۔میں کچھ عرصے بعد ممبئی لوٹنا چاہتا ہوں اور مالابار مینشن میں ہی زندگی کے آخری دن گزارنا چاہتا ہوں۔

فی الحال اس گھر کو کسی یورپی کو دے دیا جائے''۔نہرو صاحب نے کسی حد تک اس پر دھیان دیا اور گھر کو کرائے پر اُٹھانے کے لیے 3ہزار ماہوار کی پیش کش کی لیکن تھوڑے ہی عرصے میں قائد کی طبیعت بہت بگڑ گئی۔قائد نے یہ گھر محترمہ فاطمہ جناح کو سونپ دیا اور خود رحلت فرما گئے۔

بھارت میں اس گھر کو پہلے Evacuee پراپرٹی اور 1965کی جنگ کے بعد Enemy پراپرٹی بنا دیا گیا لیکن بھارتی عدالت نے قرار دیا کہ بھارتی حکومت اس گھر کی کسٹوڈین تو ہو سکتی ہے لیکن مالک نہیں بن سکتی۔حکومتِ پاکستان نے بھی اس گھر کو کلیم کرتے ہوئے درخواست کی کہ ممبئی میں پاکستان کا قونصلیٹ بنانے کے لیے یہ گھر پاکستانی سفارت خانے کے حوالے کر دیا جائے۔

بی جے پی،شیو سینا کے مقامی سربراہ نے اس کو مسمار کر کے قبضہ کرکے جگہ کو پاک کرنے کا کہا ہے۔قائد کی بیٹی نے بھی اپنی زندگی میں اپنے پردادا کے ہندو ہونے کی بنا پر ہندو روایت کا سہارا لیتے ہوئے یہ گھر کلیم کیا تھا۔بھارتی عدالت نے ان میں سے کوئی کلیم منظور نہیں کیا۔ معاملہ فیصلے کے لیے ابھی تک عدالت میں ہے۔

تقسیمِ برِ صغیر کے بعد یہ گھر کچھ عرصے کے لیے برطانوی ہائی کمیشن کے حوالے کیا گیا لیکن پچھلے 71سال سے خالی ہے،وہ گھر جو قائد نے اتنی چاہت سے بنوایا تھا وہ گھر شاید کسی اور کو مکین کے طور پر قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔
Load Next Story