پنجاب کے پی الیکشن کیس میں فل کورٹ بنانے کی استدعا مسترد
چیف جسٹس نے الیکشن التوا کیس میں فل کورٹ سے متعلق وضاحت بھی کردی
چیف جسٹس نے کہا ہے کہ کل تک جیلوں میں رہنے والے آج اسمبلی میں تقاریر کر رہے ہیں، کیونکہ وہ عوام کے نمائندے ہیں۔
چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے پنجاب ،کے پی انتخابات التوا کیخلاف عمران خان کی درخواست کی سماعت کی۔
پاکستان بار کونسل کی فل کورٹ کی استدعا
پاکستان بار کونسل کے چیئرمین ایگزیکٹیو کونسل عدالت میں پیش ہوئے اور چیف جسٹس کو فل کورٹ بنانے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ فل کورٹ بنائیں یا کم از کم فل کورٹ میٹنگ کی جائے۔
ججز کے آپس میں تعلقات اچھے ہیں
چیف جسٹس نے ان سے کہا کہ اس پر ہم سوچ رہے ہیں، ججز کے آپس میں تعلقات اچھے ہیں، باہمی اعتراف اور شائستہ گفتگو پہلے بھی ہوئی اور بعد میں بھی، سیاسی معاملات سامنے آئے جس پر میڈیا اور پریس کانفرنسز سے تیل ڈالا گیا، عدالت نے سارے معاملے پر تحمل کا مظاہرہ کیا، کچھ لوگ چند ججز پر تنقید کررہے ہیں کچھ دوسرے ججز پر تنقید کررہے ہیں، ہم اس معاملہ کو بھی دیکھیں گے، سماعت کے بعد کچھ ملاقاتیں کروں گا، تو قع ہے کہ پیر کا سورج اچھی نوید لے کر طلوع ہوگا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت سے گزارش ہے کہ پہلے درجہ حرارت کم کریں۔
ہاؤس کے سربراہ کو اسمبلی تحلیل کا اختیار ہے
چیف جسٹس نے کہا کہ ججز کو دفاترسے نکال کر گھروں میں قید کیا گیا، معجزہ ہوا کہ ججز واپس دفاتر آگئے، 90 کی دہائی میں کئی بہترین ججز واپس نہیں آسکے، آئین،جمہوریت کو زندہ رکھنا ہے، کل تک جیلوں میں رہنے والے آج اسمبلی میں تقاریر کر رہے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ عوام کے نمائندے ہیں، اسمبلی کی مدت ہوتی ہے اور ہاؤس کے سربراہ کو تحلیل کا اختیار ہے، نوے دن کا وقت اپریل میں ختم ہو رہا ہے۔
صدر کو حالات سے آگاہ کیا ہوتا تو شاید 30 اپریل تاریخ نہ آتی
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ صدر نے نوے دن کی مدت کے پندرہ دن بعد تاریخ دی، صدر کو الیکشن کمیشن نے حالات نہیں بتائے تھے، صدر کو حالات سے آگاہ کیا ہوتا تو شاید 30 اپریل تاریخ نہ آتی، عدالت کے سامنے مسئلہ 8 اکتوبر کی تاریخ کا ہے، عدالت کو ٹھوس وجہ بتائیں یا ڈائیلاگ شروع کریں۔
حکومت کو ماضی بھلانا پڑے گا
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ایک فریق پارٹی چیرمین کی گارنٹی دے رہا ہے، شاید حکومت کو بھی ماضی بھلانا پڑے گا، اسمبلیوں کی مدت ویسے بھی اگست بھی مکمل ہورہی ہے، اگر حکومت اور اپوزیشن کے مذاکرات ہوں تو کچھ دن وقفہ کرلیں گے، اگر مذاکرات نہیں ہونے تو آئینی کردار ادا کریں گے، عدالتی فیصلہ بااختیار ہوگا، جس میں ہر فریق کے ہر نقطے کا ذکر کریں گے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ موجودہ درخواست کی بنیاد یکم مارچ کا عدالتی حکم ہے، 9 رکنی بینچ کے دو اراکین نے رضاکارانہ بینچ سے علیدگی اختیار کی۔
چاہتا تو تمام ججز کو بھی تبدیل کر سکتا تھا
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو کس نے کہا کہ دو ججز بینچ سے الگ ہوئے تھے، عدالت کا 27 فروری کا حکم پڑھیں اس میں کہاں لکھا ہے؟ معاملہ چیف جسٹس کو بینچ کی ازسر نو تشکیل کے لیے بھیجا گیا تھا، چاہتا تو تمام ججز کو بھی تبدیل کر سکتا تھا، اگر آپ وہی کرنا چاہتے ہیں جس سے مسئلہ بنا تو یہ ہماری پرائیوسی میں مداخلت ہوگی، سماعت روکنے والا حکم ہم ججز آپس میں زیر بحث لائیں گے، آپ درجہ حرارت کم کرنے والی آپشن پر ہی رہیں، جلد ہی ان معاملات کو سلجھا دیں گے۔
فل کورٹ میرے ذہن میں تھا
فل بینچ کے حوالے سے چیف جسٹس نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ فل کورٹ والا معاملہ میرے ذہن میں تھا، ایک بات یہ ہے کہ معمول کے مقدمات متاثر نہ ہوں، بعض اوقات تمام ججز دستیاب نہیں ہوتے، گزشتہ ہفتے کوئٹہ ، کراچی اور لاہور میں بھی بینچ تھے ، اس ہفتے بھی لاہور میں بینچ تھا۔
جسٹس مظاہر نقوی کو شامل کرنا خاموش پیغام دینا تھا
چیف جسٹس نے کہا کہ نو رکنی بینچ تشکیل دیتے وقت تمام ججز کے بارے میں سوچا، جسٹس اطہر من اللہ کو آئین سے ہم آہنگ پایا، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس منیب اختر آئین کے ماہر ہیں، جسٹس اعجاز الاحسن بھی آئین کے ماہر ہیں، آپ پوچھ سکتے ہیں جسٹس مظاہر نقوی کیوں شامل کیے گئے، جسٹس مظاہر نقوی کو شامل کرنا خاموش پیغام دینا تھا، دو سال جسٹس فائز عیسیٰ کیس چلا اور عدالت کو سزا ملی ، جسٹس فائز عیسیٰ کے لیے بھی مقدمہ سزا ہی تھا۔
مزید پڑھیں: انتخابات التوا کیس؛ 4 رکنی بینچ ٹوٹنے کے بعد سپریم کورٹ کا 3 رکنی بینچ تشکیل
چیف جسٹس نے کہا کہ سیاسی معاملہ چل رہا ہے جس بنیاد پر دیگر ججز کو نشانہ بنایا گیا، تمام ججز کو سنی سنائی باتوں پر نشانہ بنایا جا رہا ہے، سپریم کورٹ متحد تھی کچھ معاملات میں اب بھی ہے، عدلیہ کس طرح متاثر ہو رہی ہے، کوئی نہیں دیکھتا ، اہم عہدوں پر تعینات لوگ کس طرح عدلیہ کو نشانہ بنا رہے ہیں، مجھے کہا جا رہا ہے کہ ایک اور جج کو سزا دوں، جا کر پہلے ان شواہد کا جائزہ لیں، سپریم کورٹ میں بیس سال کی نسبت بہترین ججز ہیں، جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس شاہد وحید کے فیصلے پڑھیں، جسٹس شاہد وحید نے بہترین اختلافی نوٹ لکھا، آڈیو لیک کی بنیاد پر کیسے نشانہ بنایا جائے، قانون پر بات کریں تو میں بطور جج سنوں گا، میرے ججز کے بارے میں بات کریں گے تو میرا سامنا کرنا پڑے گا، ٹیکس کا معاملہ ہے تو متعلقہ افسر کو کہیں ٹریس کریں، ٹیکس معاملے پر کیسے جج کا ٹرائل کریں۔
چیف جسٹس کی آواز بھر آئی
چیف جسٹس کی کمرہ عدالت میں جذبات سے آواز بھر آئی۔ انہوں نے کہا کہ جسٹس اقبال حمید الرحمان کو استعفی سے روکا تھا، حمیدالرحمان نے کہا مرحوم باپ کو کیا منہ دکھاؤں گا، ادھر ادھر کی باتوں سے میں جذباتی ہوگیا تھا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ معاشی حالات پر عدالت کو آگاہ کروں گا، معاملہ بیس ارب کا نہیں پوری معیشت کا ہے، ملک کو پندرہ سو ارب خسارے کا سامنا ہے، تیس جون تک شرح سود بائیس فیصد تک جا سکتی ہے، جس سے قرضوں میں اضافہ ہوتا ہے۔
جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ حکومت کے پاس اس وقت کتنا پیسہ موجود ہے، فیڈرل کونسلیڈیٹڈ فنڈز میں کتنی رقم موجود ہے، پندرہ سو ارب خسارے میں بیس ارب سے کتنا اضافہ ہوگا، الیکشن اخراجات شاید خسارے کے ایک فیصد سے بھی کم ہے، فیڈرل کونسلیڈیٹڈ فنڈز کس کے کنٹرول میں ہوتا ہے؟
یہ بھی پڑھیں: حافظ قرآن کیس میں وہ باتیں زیربحث آئیں جو کیس کا حصہ ہی نہ تھیں، جسٹس شاہد
اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ فنڈز وزارت خزانہ کے کنٹرول میں ہوتا ہے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ رولز کے مطابق تو کونسلیڈیٹڈ فنڈز اسٹیٹ بینک میں ہوتا ہے، اسٹیٹ بینک کو بلا کر پوچھ لیتے ہیں ان کے پاس کتنا پیسہ ہے، الیکشن کمیشن حکومت کی جانب دیکھ رہا ہے ، کمیشن کہتا ہے کہ فنڈز مل جائیں تو تیس اپریل کو الیکشن کروا سکتے ہیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ کیا عدالت اس موقعے پر فل کورٹ کی استدعا قبول کریگی؟ ۔
چیف جسٹس نے جواب دیا کہ 3 دن تک عدالت نے مکمل سماعت کی جو قیمتی وقت گزر چکا مزید ججز شامل کرنےسے ضائع ہوگا، نئےججز کو کیس شروع سے سننے اور سمجھنے میں وقت لگے گا، کوئی ضابطہ اور قانون فل کورٹ بنانے کی اجازت نہیں دیتا۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ سپریم کورٹ رولز واضح ہیں کہ 184/3 کے مقدمات دو سے زیادہ رکنی بنچ سنے گا، حکومت یہ تاثر دے کہ من پسند بینچ بن رہے ہیں تو یہ کتنا سنگین الزام ہے، سپریم کورٹ کہہ چکی چیف جسٹس بینچ بنانے کے ماسٹر ہیں۔
اٹارنی جنرل نے وضاحت کی کہ حکومت کی نیت من پسند ججز کو ذکر کرنے کی نہیں تھی ، فل کورٹ سے تمام ججز کے لکھے فیصلے پر کوئی اعتراض نہیں کرسکے گا۔
اس پر جسٹس منیب اختر نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ ججز کسی مقابلہ حسن میں نہیں عدالت میں بیٹھتے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ عوام جاننا چاہتے ہیں الیکشن کب ہوں گے، انتخابات تک تمام فریقین سے پرامن رہنے کی گارنٹی چاہتے ہیں۔
سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل کی فل کورٹ بنانے کی درخواست فی الحال مسترد کرتے ہوئے سیکرٹری دفاع اور سیکرٹری خزانہ کو آٸندہ سماعت پر طلب کر لیا۔ چیف جسٹس نےکہا کہ انتخابات کیلئے وسائل ہم فراہم کریں گے، ضرورت پڑی تو آرمڈ فورسز کو بھی بلوائیں گے۔
کیس کی سماعت پیر ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کردی گئی۔
چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے پنجاب ،کے پی انتخابات التوا کیخلاف عمران خان کی درخواست کی سماعت کی۔
پاکستان بار کونسل کی فل کورٹ کی استدعا
پاکستان بار کونسل کے چیئرمین ایگزیکٹیو کونسل عدالت میں پیش ہوئے اور چیف جسٹس کو فل کورٹ بنانے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ فل کورٹ بنائیں یا کم از کم فل کورٹ میٹنگ کی جائے۔
ججز کے آپس میں تعلقات اچھے ہیں
چیف جسٹس نے ان سے کہا کہ اس پر ہم سوچ رہے ہیں، ججز کے آپس میں تعلقات اچھے ہیں، باہمی اعتراف اور شائستہ گفتگو پہلے بھی ہوئی اور بعد میں بھی، سیاسی معاملات سامنے آئے جس پر میڈیا اور پریس کانفرنسز سے تیل ڈالا گیا، عدالت نے سارے معاملے پر تحمل کا مظاہرہ کیا، کچھ لوگ چند ججز پر تنقید کررہے ہیں کچھ دوسرے ججز پر تنقید کررہے ہیں، ہم اس معاملہ کو بھی دیکھیں گے، سماعت کے بعد کچھ ملاقاتیں کروں گا، تو قع ہے کہ پیر کا سورج اچھی نوید لے کر طلوع ہوگا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت سے گزارش ہے کہ پہلے درجہ حرارت کم کریں۔
ہاؤس کے سربراہ کو اسمبلی تحلیل کا اختیار ہے
چیف جسٹس نے کہا کہ ججز کو دفاترسے نکال کر گھروں میں قید کیا گیا، معجزہ ہوا کہ ججز واپس دفاتر آگئے، 90 کی دہائی میں کئی بہترین ججز واپس نہیں آسکے، آئین،جمہوریت کو زندہ رکھنا ہے، کل تک جیلوں میں رہنے والے آج اسمبلی میں تقاریر کر رہے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ عوام کے نمائندے ہیں، اسمبلی کی مدت ہوتی ہے اور ہاؤس کے سربراہ کو تحلیل کا اختیار ہے، نوے دن کا وقت اپریل میں ختم ہو رہا ہے۔
صدر کو حالات سے آگاہ کیا ہوتا تو شاید 30 اپریل تاریخ نہ آتی
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ صدر نے نوے دن کی مدت کے پندرہ دن بعد تاریخ دی، صدر کو الیکشن کمیشن نے حالات نہیں بتائے تھے، صدر کو حالات سے آگاہ کیا ہوتا تو شاید 30 اپریل تاریخ نہ آتی، عدالت کے سامنے مسئلہ 8 اکتوبر کی تاریخ کا ہے، عدالت کو ٹھوس وجہ بتائیں یا ڈائیلاگ شروع کریں۔
حکومت کو ماضی بھلانا پڑے گا
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ایک فریق پارٹی چیرمین کی گارنٹی دے رہا ہے، شاید حکومت کو بھی ماضی بھلانا پڑے گا، اسمبلیوں کی مدت ویسے بھی اگست بھی مکمل ہورہی ہے، اگر حکومت اور اپوزیشن کے مذاکرات ہوں تو کچھ دن وقفہ کرلیں گے، اگر مذاکرات نہیں ہونے تو آئینی کردار ادا کریں گے، عدالتی فیصلہ بااختیار ہوگا، جس میں ہر فریق کے ہر نقطے کا ذکر کریں گے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ موجودہ درخواست کی بنیاد یکم مارچ کا عدالتی حکم ہے، 9 رکنی بینچ کے دو اراکین نے رضاکارانہ بینچ سے علیدگی اختیار کی۔
چاہتا تو تمام ججز کو بھی تبدیل کر سکتا تھا
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو کس نے کہا کہ دو ججز بینچ سے الگ ہوئے تھے، عدالت کا 27 فروری کا حکم پڑھیں اس میں کہاں لکھا ہے؟ معاملہ چیف جسٹس کو بینچ کی ازسر نو تشکیل کے لیے بھیجا گیا تھا، چاہتا تو تمام ججز کو بھی تبدیل کر سکتا تھا، اگر آپ وہی کرنا چاہتے ہیں جس سے مسئلہ بنا تو یہ ہماری پرائیوسی میں مداخلت ہوگی، سماعت روکنے والا حکم ہم ججز آپس میں زیر بحث لائیں گے، آپ درجہ حرارت کم کرنے والی آپشن پر ہی رہیں، جلد ہی ان معاملات کو سلجھا دیں گے۔
فل کورٹ میرے ذہن میں تھا
فل بینچ کے حوالے سے چیف جسٹس نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ فل کورٹ والا معاملہ میرے ذہن میں تھا، ایک بات یہ ہے کہ معمول کے مقدمات متاثر نہ ہوں، بعض اوقات تمام ججز دستیاب نہیں ہوتے، گزشتہ ہفتے کوئٹہ ، کراچی اور لاہور میں بھی بینچ تھے ، اس ہفتے بھی لاہور میں بینچ تھا۔
جسٹس مظاہر نقوی کو شامل کرنا خاموش پیغام دینا تھا
چیف جسٹس نے کہا کہ نو رکنی بینچ تشکیل دیتے وقت تمام ججز کے بارے میں سوچا، جسٹس اطہر من اللہ کو آئین سے ہم آہنگ پایا، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس منیب اختر آئین کے ماہر ہیں، جسٹس اعجاز الاحسن بھی آئین کے ماہر ہیں، آپ پوچھ سکتے ہیں جسٹس مظاہر نقوی کیوں شامل کیے گئے، جسٹس مظاہر نقوی کو شامل کرنا خاموش پیغام دینا تھا، دو سال جسٹس فائز عیسیٰ کیس چلا اور عدالت کو سزا ملی ، جسٹس فائز عیسیٰ کے لیے بھی مقدمہ سزا ہی تھا۔
مزید پڑھیں: انتخابات التوا کیس؛ 4 رکنی بینچ ٹوٹنے کے بعد سپریم کورٹ کا 3 رکنی بینچ تشکیل
چیف جسٹس نے کہا کہ سیاسی معاملہ چل رہا ہے جس بنیاد پر دیگر ججز کو نشانہ بنایا گیا، تمام ججز کو سنی سنائی باتوں پر نشانہ بنایا جا رہا ہے، سپریم کورٹ متحد تھی کچھ معاملات میں اب بھی ہے، عدلیہ کس طرح متاثر ہو رہی ہے، کوئی نہیں دیکھتا ، اہم عہدوں پر تعینات لوگ کس طرح عدلیہ کو نشانہ بنا رہے ہیں، مجھے کہا جا رہا ہے کہ ایک اور جج کو سزا دوں، جا کر پہلے ان شواہد کا جائزہ لیں، سپریم کورٹ میں بیس سال کی نسبت بہترین ججز ہیں، جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس شاہد وحید کے فیصلے پڑھیں، جسٹس شاہد وحید نے بہترین اختلافی نوٹ لکھا، آڈیو لیک کی بنیاد پر کیسے نشانہ بنایا جائے، قانون پر بات کریں تو میں بطور جج سنوں گا، میرے ججز کے بارے میں بات کریں گے تو میرا سامنا کرنا پڑے گا، ٹیکس کا معاملہ ہے تو متعلقہ افسر کو کہیں ٹریس کریں، ٹیکس معاملے پر کیسے جج کا ٹرائل کریں۔
چیف جسٹس کی آواز بھر آئی
چیف جسٹس کی کمرہ عدالت میں جذبات سے آواز بھر آئی۔ انہوں نے کہا کہ جسٹس اقبال حمید الرحمان کو استعفی سے روکا تھا، حمیدالرحمان نے کہا مرحوم باپ کو کیا منہ دکھاؤں گا، ادھر ادھر کی باتوں سے میں جذباتی ہوگیا تھا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ معاشی حالات پر عدالت کو آگاہ کروں گا، معاملہ بیس ارب کا نہیں پوری معیشت کا ہے، ملک کو پندرہ سو ارب خسارے کا سامنا ہے، تیس جون تک شرح سود بائیس فیصد تک جا سکتی ہے، جس سے قرضوں میں اضافہ ہوتا ہے۔
جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ حکومت کے پاس اس وقت کتنا پیسہ موجود ہے، فیڈرل کونسلیڈیٹڈ فنڈز میں کتنی رقم موجود ہے، پندرہ سو ارب خسارے میں بیس ارب سے کتنا اضافہ ہوگا، الیکشن اخراجات شاید خسارے کے ایک فیصد سے بھی کم ہے، فیڈرل کونسلیڈیٹڈ فنڈز کس کے کنٹرول میں ہوتا ہے؟
یہ بھی پڑھیں: حافظ قرآن کیس میں وہ باتیں زیربحث آئیں جو کیس کا حصہ ہی نہ تھیں، جسٹس شاہد
اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ فنڈز وزارت خزانہ کے کنٹرول میں ہوتا ہے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ رولز کے مطابق تو کونسلیڈیٹڈ فنڈز اسٹیٹ بینک میں ہوتا ہے، اسٹیٹ بینک کو بلا کر پوچھ لیتے ہیں ان کے پاس کتنا پیسہ ہے، الیکشن کمیشن حکومت کی جانب دیکھ رہا ہے ، کمیشن کہتا ہے کہ فنڈز مل جائیں تو تیس اپریل کو الیکشن کروا سکتے ہیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ کیا عدالت اس موقعے پر فل کورٹ کی استدعا قبول کریگی؟ ۔
چیف جسٹس نے جواب دیا کہ 3 دن تک عدالت نے مکمل سماعت کی جو قیمتی وقت گزر چکا مزید ججز شامل کرنےسے ضائع ہوگا، نئےججز کو کیس شروع سے سننے اور سمجھنے میں وقت لگے گا، کوئی ضابطہ اور قانون فل کورٹ بنانے کی اجازت نہیں دیتا۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ سپریم کورٹ رولز واضح ہیں کہ 184/3 کے مقدمات دو سے زیادہ رکنی بنچ سنے گا، حکومت یہ تاثر دے کہ من پسند بینچ بن رہے ہیں تو یہ کتنا سنگین الزام ہے، سپریم کورٹ کہہ چکی چیف جسٹس بینچ بنانے کے ماسٹر ہیں۔
اٹارنی جنرل نے وضاحت کی کہ حکومت کی نیت من پسند ججز کو ذکر کرنے کی نہیں تھی ، فل کورٹ سے تمام ججز کے لکھے فیصلے پر کوئی اعتراض نہیں کرسکے گا۔
اس پر جسٹس منیب اختر نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ ججز کسی مقابلہ حسن میں نہیں عدالت میں بیٹھتے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ عوام جاننا چاہتے ہیں الیکشن کب ہوں گے، انتخابات تک تمام فریقین سے پرامن رہنے کی گارنٹی چاہتے ہیں۔
سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل کی فل کورٹ بنانے کی درخواست فی الحال مسترد کرتے ہوئے سیکرٹری دفاع اور سیکرٹری خزانہ کو آٸندہ سماعت پر طلب کر لیا۔ چیف جسٹس نےکہا کہ انتخابات کیلئے وسائل ہم فراہم کریں گے، ضرورت پڑی تو آرمڈ فورسز کو بھی بلوائیں گے۔
کیس کی سماعت پیر ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کردی گئی۔