عالم اسلام کا بدقسمت دیس
مغربی طاقتوں کی سازشوں اور اپنوں کے لالچ وہوس کا عبرت ناک قصّہ جنھوں نے ایک اسلامی مملکت کا بیڑا غرق کر دیا
''جب میں اپنے ساتھیوں کی ہمراہی میں بغداد کی جانب بڑھ رہا تھا تو مجھے یقین تھا کہ ہم (امریکی) حق پر ہیں۔ہم عراقی عوام کو ایک آمر وظالم حکمران سے نجات دلانے آئے ہیں۔
ہم سبھی(امریکی فوجی)بیس بائیس سال کے نوجوان تھے۔تب ہمارے وہم وگمان میں نہ تھا کہ ہماری حکومت نے جھوٹ بول کر جنگ شروع کی ہے۔تب ہم خود کو نجات دہندہ سمجھتے تھے۔ہمارے ذہن میں ان سوالوں کا نام ونشان نہ تھا کہ ''ہم یہاں کیا کرنے آئے ہیں؟'' یا ''کیا یہ جنگ انصاف پر مبنی ہے؟''
''کویت سے عراق آتے ہوئے راستے میں ہمیں عراقی فوج کے کئی دستے ملے جنھوں نے صرف کھانا ملنے پر لڑے بغیر ہتھیار ڈال دئیے۔یہ دیکھ کر اس خیال کو تقویت ملی کہ ہم عراقی معاشرے کو فاشسٹوں سے آزاد کرانے آئے ہیں۔
بغداد پہنچے تو عراقی مردوں، عورتوں اور بچوں نے ہمارا پُرتپاک استقبال کیا۔ہمیں دیکھ کر ہاتھ ہلائے۔ہم سب نے بھی اظہار ِمسرّت کیا۔
''بعد میں جب رات کی تاریکی میں ہم پر حملے ہونے لگے تو ہمارا یہی خیال تھا کہ یہ شیطان صفت اور فتنہ پرور لوگوں کی کارستانی ہے، وہ لوگ جنھیں ختم کرنے ہم عراق آئے تھے۔یہ وہ عراقی نہیں ہو سکتے جنھوں نے خندہ پیشانی سے ہمارا استقبال کیا تھا۔یہ تلخ سچائی بتدریج ہم پر آشکارا ہوئی کہ عراقی عوام ہمیں پسند نہیں کرتے اور امریکیوں کو حملہ آور اور قابض سمجھتے ہیں۔''
مسّرت چھین لی
یہ امریکی فوج کے سابق سارجنٹ ، کین گرفن کے چشم کشا جملے ہیں جو اپنے ساتھیوں کے ساتھ بیس برس قبل عراقی صدر، صدام حسین کی حکومت کا تختہ الٹنے عراق پہنچا تھا۔پچھلے ماہ کی 15 تاریخ کو امریکا کی زیرقیادت عراق پہ حملہ ہوئے بیس برس مکمل ہو گئے۔وہاں کین زخمی ہوا، اپنی ٹانگ کٹوا بیٹھا اور اب گھر میں زندگی گذار رہا ہے۔
عراق جنگ نے اس سے نارمل زندگی کی خوشی و مسّرت چھین لی اور کاموں میں دوسروں کا محتاج بنا دیا۔تاہم جنگ نے امریکی حکمران طبقے کے کئی مفادات بھی پورے کیے۔گو اسی طبقے کی وجہ سے آج بھی عراقی عوام خانہ جنگی، نسلی وفرقہ وارانہ فساد، حکومتی کرپشن اور غربت میں گھرے پریشانی وتکلیف والی زندگیاں گذار رہے ہیں۔
بگاڑ کا آغاز
ساڑھے چار کروڑ آبادی والے عالم اسلام کے اس اہم دیس، عراق کی حالت زار کو جنم دینے میں مغربی طاقتوں بالخصوص برطانیہ اور امریکا کا خاص کردار ہے۔آج تو ان مغربی طاقتوں کے حکمران انسانی حقوق اور انصاف و قانون کی نام لیوا بلکہ ٹھیکے دار بنے ہوئے ہیں، مگر عراق کی تاریخ ان کا عیّارانہ، مکروہ، لالچی اور داغدار اصل رخ بڑی بے باکی اور سفاکی سے آشکارا کرتی ہے۔
اگرچہ یہ المیّہ وجود میں لاتے ہوئے اپنوں نے بھی بقدر جثّہ اپنا حصہ ڈالا۔ آخر یہ انسان ہی ہیں جو اپنی فکرو عمل سے دوسرے انسانوں کی زندگیاں سنوار تے یا جہنم بنا دیتے ہیں۔عراق کو موجودہ خراب حالت میں پہنچانے کے عمل کا آغاز بھی چند اپنوں سے ہوتا ہے۔ یہ ہیں امیر مکہ المعروف شریف مکہ حسین بن علی اور اس کے تین بیٹے: علی، عبداللہ اور فیصل۔
عرب قوم پسندی کا شوشہ
مکہ کی امارت ترک عثمانی سلطنت کے عرب صوبے(ولایت)، حجاز کا حصہ تھی۔حرمین شریفین کا امیر ہونے کے باعث شریف مکہ کا عرب قبائل میں خاصا اثرورسوخ تھا۔ اس کے بیٹے عرب قوم پسندی کی تحریک سے متاثر تھے جس کا آغاز انیسویں صدی میں لبنانی وشامی عیسائی دانشوروں، بطرس البتانی، ناصف الیازجی اور اس کے بیٹے، ابراہیم نے کیا تھا۔
یہ دانشور مغربی قوتوں کے ایجنٹ تھے جو عثمانی ترک سلطنت کے عرب صوبوں (موجودہ سعودی عرب، شام، عراق، لبنان ، فلسطین اور اسرائیل)میں عرب عوام کو ترکوں کے خلاف بغاوت پر ابھارنا چاہتی تھیں۔
ان کا دعوی تھا کہ ترکوں نے عربوں کو مقامی وسائل سے محروم کر رکھا ہے۔وہ عربوں پہ ظلم کرتے ہیں۔اس بات میں کچھ صداقت تو تھی مگر اتنی نہیں کہ برادران اسلام آپس میں دست وگریبان ہو جائیں۔ترکوں نے عرب صوبوں میں کئی ترقیاتی کام کرائے تھے اور وہ عموماً قبائلی معاملات سے دور رہتے۔
انگریز ''قصائی''
جب ترک عثمانی حکومت کمزور ہوئی تو عرب قوم پسندی کے جراثیم کے زیر اثر امیر مکہ کے بیٹے عرب صوبوں میں اپنے خاندان ِشریف کی حکومت قائم کرنے کے خواب دیکھنے لگے۔بادشاہ بننے کی تمنا پوری کرنے کی خاطروہ ترکوں کے دشمن ، برطانیہ سے جا ملے اوراس سے خفیہ طور پر رابطے کیے۔فروری 1914ء میں عبداللہ چوری چھپے قاہرہ گیا اور وہاں برطانوی قونصل جنرل، لارڈ کچنر سے ملا جو سوڈان میں مسلمانوں کو قتل کرنے کی وجہ سے ''قصائی ''کہلانے لگا تھا۔
یہ بڑی عبرت ناک سچائی ہے کہ امارت ِمکہ کے مسلم حکمرانوں نے صرف اقتدار کی خاطر مسلمانوں کے قاتل سے ہاتھ ملا لیے۔لارڈ کچنر نے اسے امید دلائی کہ خاندان ِشریف مکہ کا خوابِ حکمرانی پورا کرنے کے لیے برطانیہ اس سے بھرپور تعاون کرے گا۔
سبز باغ
اسی سال پہلی جنگ عظیم شروع ہو گئی جس میں عثمانی ترکوں نے برطانیہ کے خلاف جرمنی کاساتھ دیا۔اسی لیے مشرق وسطی بھی جنگ کا نشانہ بن گیا۔
اب اتحادی قوتوں، برطانیہ، امریکا، فرانس اور روس نے مکہ کے حکمران شریف خاندان کویہ سبز باغ دکھایا کہ اگر اس نے عرب صوبوں میں بغاوت کرا دی تو جنگ (عظیم اول)میں کامیابی کی صورت ان صوبوں میں اس کی سلطنت بنا دی جائے گی۔بادشاہ بننے کے لالچ میں باپ بیٹیوں کے ساتھ مغربی طاقتوں کے بچھائے جال میںپھنس گیا۔
عثمانی ترک پچھلے چار سو سال سے عرب صوبوں میں حکومت کر رہے تھے۔ان کا انداز ِحکمرانی اچھائی اور برائی کا ملا جلا مرکب تھا۔
انیسویں صدی کے اواخر سے مغربی قوتوں کے عیسائی عرب ایجنٹ ان صوبوں میں عرب قوم پسندی کے جراثیم پھیلانے لگے۔انھوں نے پروپیگنڈا کیا کہ عرب ترکوں کے ظلم وستم کی وجہ سے غربت، جہالت اور بیماری میں مبتلا ہیں۔لہذا انھیں ترکوں کی غلامی کا طوق اپنی گردنوں سے اتار دینا چاہیے۔اس پروپیگنڈے سے عربوں میں ترکوں کے خلاف نفرت نے جنم لیا۔
یہی وجہ ہے، جب مغربی قوتوں کی فوج عرب صوبوں پر حملہ آور ہوئی تو کئی عربوں نے دفاع پہ مامور ترک فوج کا ساتھ نہیں دیا۔
اور یہ سچ ہے کہ کسی بھی جگہ دفاعی فوج کو عوام کی حمایت حاصل نہ ہو تو اس کا حوصلہ اور عسکری صلاحیتیں کمزور پڑ جاتی ہیں جیسے کہ مشرقی پاکستان میں ہوا۔حتی کہ جزیرہ نما عرب کی دوسری بڑی ریاست، نجد کے امیر،ابن سعود نے بھی عثمانی ترکوں کے خلاف دسمبر 1915ء میں انگریزوں سے دوستی کا معاہدہ کر لیا۔
بیک وقت دو محاذ
ایک طرف تو بیشتر عام عرب ترک فوج کے حامی نہیں رہے، دوسری طرف شریف مکہ کے زیراثر عرب قبائل ترکوں پہ حملے کرنے لگے۔یوں ترک فوج کو بیک وقت دو محاذوں پر سرگرم ہونا پڑا جس سے اس کی مشکلات بڑھ گئیں۔
شریف مکہ نے جون 1916ء سے ترکوں کے خلاف کئی عرب علاقوں میں باقاعدہ بغاوت شروع کرا دی ۔مقصد یہی تھا کہ ترک حکومت ختم کر کے عرب صوبوں میں اپنی بادشاہت قائم کر لی جائے۔ترک ایک ساتھ دو محاذوں پر نہیں لڑ پائے اور رفتہ رفتہ عرب صوبوں کے علاقوں پر برطانوی فوج کا قبضہ ہوتا چلا گیا۔
حتی کہ دسمبر 1917ء میں انگریز جنرل ایلن بی بیت المقدس پہ قبضہ کرنے میں کامیاب رہا۔اس فتح پر برطانوی وامریکی میڈیا نے خوشی ومسّرت کا جشن منایا اور جنرل ایلن کو عیسائیوں کا ہیرو قرار دیا۔اس نے وہ کام کر دکھایا تھا جو رچرڈ شیر دل انجام نہیں دے سکا تھا اور اب نئی صلیبی جنگ میں مسلم سلطنت کو شکست دے ڈالی۔
چال کامیاب رہی
حالات سے آشکارا ہے کہ عربوں اور ترکوں کو باہم لڑانے کی جو حکمت عملی برطانوی ، امریکی اور فرانسیسی اسٹیبلشمنٹوں نے بنائی، وہ کامیاب رہی۔(اسی حکمت عملی پر چلتے ہوئے آج بھی عالم اسلام میں فرقہ وارانہ خصوصاً شیعہ سنی اختلافات کو ہوا دی جاتی ہے تاکہ مغربی قوتیں اپنے مفادات پورے کر سکیں)اس حکمت عملی کے پیچھے امیر کبیر برطانوی و امریکی نژاد یہودی صنعت کاروں اور تاجروں کا اثرورسوخ اور پیسا بھی کارفرما تھا جو فلسطین پر برطانیہ کا قبضہ چاہتے تھے۔
مدعا یہ تھا کہ پھر برطانوی حکمران طبقے کی مدد سے وہاں یہودی ریاست قائم کی جا سکے۔اس پالیسی کی بلی2 نومبر 1917ء کو تھیلے سے باہر نکلی جب برطانوی اسٹیبلشمنٹ نے بذریعہ اعلان بالفور مشتہر کیا کہ وہ فلسطین میں یہودی ریاست بنانے کے لیے یہود کی مدد کرے گی۔
ہوس ِاقتدار
یہ حقیقت ہے کہ عرب اور ترک کو لڑانے کے لیے یہود ونصاری حکمران جو کوششیں کر رہے تھے، شریف مکہ اور اس کے بیٹوں نے اپنے عمل سے انھیں تقویت پہنچائی۔وہ اپنے ہم مذہب ترکوں کا مددگار بننے کے بجائے دشمنان ِاسلام کے حمایتی بن گئے، صرف اس لیے کہ اپنی ہوس ِاقتدار پوری کر سکیں۔
ان کی منزل یہ نہیں تھی کہ عرب صوبوں کے بادشاہ بن کر عوام کی خدمت کریں گے، وہ حکمران بن کر عیش وآرام سے زندگی گذارنا چاہتے تھے جو بیشتر حکمرانوں کا دیرینہ خواب ہوتا ہے۔بنیادی طور پہ ذاتی مفادات کی تکمیل ان کا مقصد تھا جس کے سبب وہ ترکوں کے مخالف بن گئے۔
حتی کہ مسلم دشمن قوتوں سے بھی انھوں نے دوستی کر لی۔شہزادہ فیصل نے تو اپنا اقتدار یقینی بنانے کے لیے صہیونی لیڈر اور اسرائیل کے پہلے صدر، خائم ویزمان سے بھی دوستی کا معاہدہ کر ڈالا تاکہ اپنے انگریز آقاؤں کی خوشنودی حاصل کر سکے۔
تنخواہیں ملتی رہیں
مغربی ماہرین کا دعوی ہے کہ عرب بغاوت برطانوی اسلحے اور مغربی قوتوں کی فراہم کردہ رقم کے باعث کامیاب ہوئی۔شریف مکہ اور اس کے بیٹے صرف نفری فراہم کرنے کے ذمے دار تھے۔اس نفری کو بھی عسکری تربیت دینے میں مغربی ایجنٹوں کا اہم کردار رہا جن میں کرنل لارنس کو بہت شہرت ملی۔
بہرحال بغاوت برپا کرنے کی خدمت بجا لانے کے عوض انھیں 1916ء تا 1920ء بھاری بھرکم معاوضہ ادا کیا گیا جو کئی لاکھ پونڈ تھا۔ مغربی طاقتوں کے دئیے سرمائے نے مکہ کے حاکم شریف خاندان کو دولتمند بنا دیا۔نیز عرب قبائل میں اس کا اثرورسوخ مذید بڑھ گیا۔اسی نئی طاقت کے سہارے بھی وہ بعد ازاں اردن، عراق اور حجاز کے حکمران بننے میں کامیاب رہا۔
کھلا میدان مل گیا
اگر عرب بغاوت رونما نہ ہوتی تو کیا تب بھی مغربی قوتیں ترک فوج کو شکست دے کر مشرق وسطی پہ قابض ہو جاتیں؟ عثمانی ترک سلطنت شکست وریخت کا شکار تھی۔مگر یہ حقیقت ہے کہ عرب صوبوں میں عوام ترکوں کا ساتھ دیتے تو برطانوی و فرانسیسی افواج کو وہاں قابض ہوتے ہوئے بہت مشکلات پیش آنی تھیں۔اور ممکن تھا کہ برطانیہ اور فرانس عرب صوبوں سے اپنی افواج نکالنے پر مجبور ہو جاتے۔
عرب بغاوت کے ذریعے ہی مغربی افواج کو عرب صوبوں میں قدم جمانے کا موقع ملا اور پھر انھیں اپنے شیطانی عزائم کی تکمیل کے لیے کھلا میدان مل گیا۔ انھوں نے 1918ء میں جنگ ختم ہوتے ہی عرب صوبوں کے حصے بخرے کر آپس میں بانٹ لیے۔
اس طرح برطانوی و فرانسیسی حکمرانوں نے عثمانی ترک سلطنت ختم کرنے کے لیے جو چالیں چلیں، ان میں خاندان شریف مکہ کو مہرے کی طرح استعمال کیا۔شریف خاندان کو یہ لالچ دے کر اپنی سازش کا حصّہ بنایا کہ عرب صوبوں میں اس کی بادشاہت قائم کی جائے گی۔
پھر ان کے ذریعے عرب علاقوں میں ترکوں کے خلاف بغاوت کرا دی جس نے ترک فوج کو کمزور کر ڈالا۔نتیجتہً مغربی فوج ترکوں کو شکست دینے میں کامیاب رہی۔مگر عرب صوبوں پہ مغربی طاقتیں قابض ہو گئیں اور ابتداً شریف خاندان کے ہاتھ کچھ نہ آیا ۔ وہ طیش کے مارے تلملاتا رہ گیا۔
فیصل کا ''یو ٹرن''
جب فیصل بن حسین کو علم ہوا کہ وہ ''عرب عظیم ''(گریٹر عرب )سلطنت کا حاکم نہیں بن سکتا تو عثمانی ترک حکومت سے خفیہ طور پہ رابطے کرنے لگا۔اس نے ترکوں کو حمایتی بننے کی پیش کش کی۔بدلے میں وہ شام صوبے کا حاکم بننا چاہتا تھا۔ترک مگر جان چکے تھے کہ خاندان ِشریف مطلب پرست، خودغرض اور ہوس اقتدار میں مبتلا ہے۔
انھوں نے فیصل کا کوئی مطالبہ تسلیم نہیں کیا۔وہ مجبوراً باپ کے کیمپ میں شامل رہا۔برطانیہ، امریکا اور فرانس کی حکومتوں کو یہ فکر لاحق تھی کہ شریف خاندان وعدہ پورا نہ کرنے پر ناراض ہے۔
لہذا کہیں وہ عرب علاقوں میں مغربی قوتوں کے خلاف جنگ چھیڑ دے۔یہ خطرہ ختم کرنے کے لیے انھوں نے نئی چال چلی اور شریف خاندان کے سب سے سرگرم و پُرجوش رکن، فیصل کو شام کا حاکم بنا دیا۔اس کو برطانیہ کی حمایت حاصل تھی۔مگر خفیہ چال کی منصوبہ بندی کے تحت فرانس فیصل کی مخالفت کرنے لگا کیونکہ شام کا علاقہ اسے مل چکا تھا۔
یوں شریف خاندان کے حامی عربوں کو یہی لگا کہ فرانسیسی حاکم ان سے بدعہدی کر رہے ہیں ورنہ برطانوی تو حمایتی ہیں۔
اس طرح مغربی طاقتوں نے لالچی و احمق شریف خاندان کو ایک بار پھر استعمال کر کے الّو بنا ڈالا۔اقتدار کے پجاری اور عقل کے اندھے فیصل کی شام میں حکومت صرف چار ماہ(مارچ تا جولائی 1920ئ)قائم رہی۔جلد فرانسنسی فوج نے حملہ کر کے پورے شام پہ قبضہ کر لیا۔فیصل کو ذلت وخواری کے عالم میں وہاں سے نکلنا پڑا۔
شیعہ سنی اتحاد
موصل، بغداد اور بصرہ کے صوبے ملا کر عراق کی موجودہ مملکت تشکیل دی گئی جس پر برٹش قابض ہوئے۔ شام و لبنان فرانس کے حصے میں آئے جبکہ فلسطین پر بھی برطانوی طاقت نے قبضہ جما لیا۔عراق، شام اور لبنان میں سنی و شیعہ مسلمان بڑی تعداد میں آباد تھے۔ان کی اکثریت نے انگریز و فرانسیسی حاکموں کا اقتدار تسلیم نہیں کیا۔
وہ بہت راسخ العقیدہ مسلمان تھے۔ترک مسلمانوں کی سیادت تو انھوں نے قبول کر لی مگر غیر مسلم حکمرانوں کو برداشت نہیں کر سکتے تھے۔
اسی لیے تینوں علاقوں میں سنی و شیعہ عوام نے متحد ہو کر برطانیہ وفرانس کے خلاف جہاد شروع کر دیا۔یہ نایاب یک جہتی تھی جو مختلف فرقوں سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں میں دیکھنے کو ملی۔یہ جہاد فرو کرنے میں مغربی طاقتوں کا کثیر سرمایہ خرچ ہوا جو ان پہ کافی بھاری پڑا۔ پہلے ہی جنگ عظیم اول کے اخراجات نے انھیں ادھ موا کر رکھا تھا۔
لڑاؤ، خود حکومت کے مزے لوٹو
اخراجات اور ہر قسم کے نقصان سے محفوظ ہونے کی خاطر برطانوی و فرانسیسی اسٹیبلشمنٹوں نے ''مقامی گروہوں کو لڑاؤ اور خود حکومت کرو''کی دیرینہ پالیسی اپنا لی۔ انھوں نے تینوں نوزائیدہ مسلم ریاستوں میں اپنی کٹھ پتلی حکومتیں قائم کر دیں جن کے وزیر مسلمان تھے۔
یہ وزرا جاگیردار، قبائلی سردار، جنگی سردار(وار لارڈز)، تاجر وغیرہ تھے جو معاشرے میں نمایاں مقام رکھتے۔انھیں بھاری رقم اور مراعات دے کر مغربی قوتوں نے ساتھ ملا لیا۔یہ نام نہاد مسلم حکومتیں برطانیہ اور فرانس کے مفادات پورے کرنے لگیں۔ اس طرح مغربی طاقتوں نے بڑی عیاری سے اپنے اقتدار پہ مسلم روغن چڑھا دیا۔
حقیقت میں طاقت کے سرچشمے غیر مسلم برطانوی و فرانسیسی حکمران ہی تھے۔تینوں نئی عرب ریاستوں میں کٹھ پتلی حکمران طبقے نے مغربی آقاؤں کی ایما پر اور اپنا اقتدار بحال رکھنے کے لیے بھی شیعہ سنی اختلافات جنم دئیے۔
مذہبی مسائل کی چنگاریوں کو ہوا دے کر شعلے بنایا گیا تاکہ عوام تو آپس میں سر پھٹول کرنے لگیں، جبکہ وہ خود اقتدار کے مزے لوٹتے رہیں۔نیز برطانیہ و فرانس کو اپنی کٹھ پتلی حکومتوں کے ذریعے ریاستوں کے وسائل سے استفادہ کرنے کا موقع مل سکے جن میں سرفہرست ''تیل ''تھا۔
ایک تیر سے دو شکار
مسلمانان ِعراق میں فرقہ واریت کی شعلوں کو ہوا دینے کے لیے برطانوی اسٹیبلشمنٹ نے اگست 1921ء میں فیصل بن حسین کو بادشاہ بنا دیا۔عیار برطانیہ نے یوں ایک تیر سے دو شکار کھیلے۔ عراق میں فرقہ واریت کو ہوا دی جبکہ شریف خاندان کو بھی کسی حد تک مطمئن کر دیا جو بدعہدی ہونے پر غصّے سے تلملا رہا تھا۔عراق کے بہت کم شیعہ فیصل سے واقف تھے۔
نئے بادشاہ نے بہرحال اعلان کیا کہ وہ کسی قسم کی فرقہ واریت کا قائل نہیں اور سبھی مسلمان اس کی نظر میں یکساں و برابر ہیں۔فیصل مسلم تھا اور سیّد بھی، اس لیے شیعوں نے بطور حکمران اسے قبول کر لیا۔تاہم ان میں یہ تاثر بھی پیدا ہوا کہ برطانیہ نے طاقت کے بل پر ، زبردستی ایک غیر فرقے کو ان پہ تھوپ ڈالا۔یوں انگریز حکومت نے بڑی چالاکی سے عراق میں فرقہ ورانہ اختلافات کے بیج بو دئیے۔
عبرت ناک انجام
اُدھر حسین بن علی ''شاہ عرب''بننے کے جو سہانے سپنے دیکھ رہا تھا، وہ انگریز و فرانسیسی اتحاد نے کرچی کرچی کر ڈالے۔وہ محض حجاز کا امیر ہی بن سکا۔بقیہ عرب علاقوں پر برطانیہ و فرانس نے قبضہ کر لیا۔طیش کے مارے وہ ان کا مخالف بن گیا۔گوروں نے طوعاً و کراہاً ہی اسے برداشت کیا۔
پالیسی کے تحت حسین کے بیٹوں کو فوقیت دی گئی جو نئے منظرنامے میں محدود علاقے پر بھی اپنی حکومتیں بنانے کو تیار تھے۔جب حسین بدستور مغربی قوتوں پر تنقید کرتا رہا توبرطانیہ اس کے معاصر، ابن سعود کی حمایت کرنے لگا۔ مغربی قوتوں کی مدد پا کر ابن سعود نے کئی لڑائیوں میں حسین بن علی کی فوج کو شکست دی۔ یوں اس کی قیادت کمزور و بے اثر ہو گئی۔
آخر حسین نے مجبورا ًحجاز کی امارت اپنے بڑے بیٹے، علی کے سپرد کر دی۔وہ بھی اسے سنبھال نہ پایا۔دسمبر 1925ء میں ابن سعود نے حجاز فتح کر لیا۔حسین اور علی بھاگ کر اردن چلے گئے۔وہاں حسین کا بیٹا عبداللہ انگریزوں کی آشیرباد سے بادشاہ بن چکا تھا۔
ابن سعود نے انگریزوں پہ دباؤ ڈالا کہ وہ حسین کو فلسطین سے نکال باہر کریں۔برٹش تیل کی وجہ سے ابن سعود کا ساتھ دینا چاہتے تھے۔
لہذا انھوں نے حسین کو قبرض جلاوطن کر دیا۔وہیں 1930ء میں اسے فالج ہوا اور وہ سسک سسک کر زندگی گذارنے لگا۔ اگلے سال دنیا سے رخصت ہو گیا۔یوں اس کا انجام عبرت ناک ہی ہوا۔اللہ تعالی کبھی کبھی دنیا ہی میں بندوں کو سزا دے ڈالتے ہیں۔
حسین بن علی کے تینوں بیٹوں کا بھی انجام اچھا نہ تھا۔ علی محض ایک سال امیر حجاز رہا، پھر وہ پہلے اردن پھر عراق میں مقیم رہا۔1935ء میں اپنا دور حکمرانی یاد کرتے کرتے صرف چھپن سال کی عمر میں اس کا انتقال ہو گیا۔
دوسرے بیٹے، عبداللہ کو برٹش نے اپریل 1921ء میں اپنی پالیسی کے تحت اردن کا بادشاہ بنا دیا تھا۔ عرب فلسطینی اسے مغربی طاقتوں کی کٹھ پتلی سمجھتے تھے جو ان کے مفادات پہ عمل کرتے یہودی ریاست کے قیام کی راہ ہموار کر رہا تھا۔اسی لیے 1951ء میں ایک فلسطینی نے اسے قتل کر دیا۔تیسرے بیٹے، فیصل کا انجام بھی مختلف نہ تھا۔
مغربی طاقتوں کی بے انصافی
عراق میں فیصل نام کا بادشاہ تھا، اصل حکومت برطانیہ کے زرخرید وزرا کی تھی۔ یہی وجہ ہے، برطانیہ وقتاً فوقتاً عراقی حکومت سے بیش بہا فوائد حاصل کرتا رہا۔اکتوبر 1922ء میں ایک معاہدے کے ذریعے برطانیہ نے عراق کی خارجہ پالیسی اپنے ہاتھوں میں لے لی۔یوں اسے عراق میں فوجی اڈے بنانے کا پروانہ مل گیا۔
1925ء میں حکومت عراق نے مملکت میں تیل تلاش کرنے کا ٹھیکا امریکی وبرطانوی تیل کمپنیوں کو دے دیا۔معاہدے کے مطابق اگر تیل نکل آتا تو ان مغربی کمپنیوں کو ''بیس سال''تک کوئی رائلٹی عراقی حکومت کو ادا نہیں کرنی تھی۔یہ برطانوی و امریکی اسٹیبلشمنٹوں کا بہت بڑا ظلم ہے جو انھوں نے عراقی عوام پر ڈھایا۔تیل کی دولت کے اصل مالک عراقی عوام تھے مگر قانون وانصاف و انسانی حقوق کا ڈھنڈورا پیٹنے والی مغربی طاقتوں نے انھیں آمدن کا حق نہ دیا اور غاصب کا کردار ادا کرتے ہوئے بے انصافی کی۔
1928ء میں عراق میں تیل نکل آیا اور جلد اس شعبے میں امریکی کمپنیاں چھا گئیں۔یوں اس عرب ملک میں امریکی اسٹیبلشمنٹ کے اثرات اور مفادات بڑھنے لگے۔امریکی تیل کمپنیاں عراقی حکومت کو کچھ رائلٹی دینے لگیں(بیشتر آمدن خود ہڑپ کر جاتیں)۔اس رائلٹی کا بڑا حصہ عوام کی فلاح وبہبود نہیں شاہی خاندان اور ایلیٹ طبقے کے شاہانہ اخراجات برداشت کرنے پر لگتا۔فیصل نے بہرحال بطور بادشاہ ملک و قوم کی بھلائی و ترقی کے کچھ اہم کام انجام دئیے اور پھر اس کا ضمیر بھی پوری طرح مردہ نہ تھا۔
فیصل کا قتل
جب جولائی 1933ء میں اس نے برطانیہ کا دورہ کیا تو برطانوی حکومت پہ دباؤ ڈالا کہ وہ فلسطین میں یہود کو بڑی تعداد میں آباد نہ کرے۔ بادشاہ کا کہنا تھا کہ برطانیہ کے مسلم دشمن اقدامات سے فلسطینی مسلمانوں کی معاشی، معاشرتی اور سیاسی زندگی زوال پذیر ہو رہی ہے۔ستمبر 1933ء میں فیصل طبی معائنہ سوئٹزرلینڈ گیا۔
وہاں اچانک وہ ''سرکاری ''طور پہ ہارٹ اٹیک سے چل بسا۔مگر اندرون خانہ کہا جاتا ہے کہ برطانوی امریکی خفیہ ایجنسیوں کے ایجنٹوں نے اسے زہر دے کا مار ڈالا۔سوئس حکومت نے فیصل کا پوسٹ مارٹم بھی نہ کرایا اور اس کے جسم کو ممّی بنا دیا۔یوں فیصل ساری زندگی اقتدار کی خاطر جن مغربی قوتوں پر تکیہ کرتا رہا، وہی اس کی قاتل بن گئیں۔ لالچی انسانوں کا عموماً بھیانک انجام ہوتا ہے مگر انسان ان سے کم ہی عبرت حاصل کرتے ہیں۔
اب فیصل کا انیس سالہ بیٹا ،غازی عراق کا نیا بادشاہ بن گیا۔ وہ برطانیہ و امریکا کا مخالف تھا۔اس کے دور میں حکومت پہ قبضہ کرنے کے لیے سیاست دانوں وبیوروکریسی اور فوج کے درمیان کشمکش شروع ہو گئی۔سیاست دان و بیوروکریسی مغربی طاقتوں کے پٹھو تھے۔جبکہ فوج میں بعض جرنیل برطانیہ و امریکا کے مفادات کی تکمیل نہیں چاہتے تھے۔
غازی نے جرنیلوں کا ساتھ دیا۔یہی وجہ ہے، 1936ء میں ایک جرنیل، بکر صدقی نے فوجی بغاوت کر کے اپنے من پسند وزیراعظم کو حکومت دے دی۔یہ جدید عرب کی تاریخ میں پہلی فوجی بغاوت تھی۔غازی بادشاہ جنرل بکر صدقی کا حامی تھا۔برطانوی و امریکی اسٹیبلشمنٹوں کو یہ آزادی پسند نوجوان بادشاہ پسند نہ تھا۔لہذا 1939ء میں قتل کے منصوبے کو حادثے کا رنگ دے کر غازی کو مار دیا گیا۔
الم ناک صورت حال
سچ یہ ہے کہ عراق میں اپنے مفادات پورے کرنے کے لیے پہلے برطانوی اور پھر امریکی حکمران طبقوں نے جو گھناؤنے اور شیطانی کھیل کھیلے، ان پہ ضخیم کتاب بن سکتی ہے۔دوسری جنگ عظیم میں برطانیہ کی سپرمیسی کا سورج غروب ہوا تو امریکا نئی سپرپاور بن گیا۔
آج بھی یہ دونوں اینگلو سیکسن طاقتیں عراق، شام اور مشرق وسطی کے دیگر علاقوں میں اپنے مفادات کی تکمیل کے لیے خفیہ سازشیں کرنے میں مصروف ہیں۔1921ء سے ان کی پالیسی ''مقامی گروہوں کو لڑاؤ اور خود حکومت کرو'' چلی آ رہی ہے۔
غم وافسوس کی بات یہ کہ مغربی طاقتوں میں اپنے مقاصد کی تکمیل کے واسطے ہر اسلامی ملک میں لالچی، بے ضمیر اور غدار مسلمان مل جاتے ہیں جیسے صدام حسین جو امریکی خفیہ ایجنسی، سی آئی اے کا باقاعدہ تنخواہ دار ایجنٹ تھا۔یہی وجہ ہے، بے پناہ قدرتی وسائل رکھنے کے باوجود اسلامی ممالک عالمی سطح پہ کوئی حیثیت نہیں رکھتے اور عدم اتحاد وانتشار کا شکار ہیں۔
عالم اسلام معاشی وسیاسی ہی نہیں تہذیبی وتمدنی طور پر بھی مغرب کا دست نگر بن چکا۔اُمت مسلمہ کے آزاد و خودمختار ہونے کا خواب ہنوز تشنہ ہے کیونکہ بیشتر مسلم ملکوں کا حکمران طبقہ مغربی طاقتوں کی کٹھ پتلی بنا ان کے مفادات پورے کرنے میں مصروف ہے۔
ترک صدر، طیب اردوغان ہی ان طاقتوں کو کسی حد تک چیلنج کرتے ہیں ورنہ دیگر مسلم حکمران طبقے تو مادی مفادات کے اسیر بنے ان کے تلوے چاٹنے سے بھی نہیں کتراتے۔
ہم سبھی(امریکی فوجی)بیس بائیس سال کے نوجوان تھے۔تب ہمارے وہم وگمان میں نہ تھا کہ ہماری حکومت نے جھوٹ بول کر جنگ شروع کی ہے۔تب ہم خود کو نجات دہندہ سمجھتے تھے۔ہمارے ذہن میں ان سوالوں کا نام ونشان نہ تھا کہ ''ہم یہاں کیا کرنے آئے ہیں؟'' یا ''کیا یہ جنگ انصاف پر مبنی ہے؟''
''کویت سے عراق آتے ہوئے راستے میں ہمیں عراقی فوج کے کئی دستے ملے جنھوں نے صرف کھانا ملنے پر لڑے بغیر ہتھیار ڈال دئیے۔یہ دیکھ کر اس خیال کو تقویت ملی کہ ہم عراقی معاشرے کو فاشسٹوں سے آزاد کرانے آئے ہیں۔
بغداد پہنچے تو عراقی مردوں، عورتوں اور بچوں نے ہمارا پُرتپاک استقبال کیا۔ہمیں دیکھ کر ہاتھ ہلائے۔ہم سب نے بھی اظہار ِمسرّت کیا۔
''بعد میں جب رات کی تاریکی میں ہم پر حملے ہونے لگے تو ہمارا یہی خیال تھا کہ یہ شیطان صفت اور فتنہ پرور لوگوں کی کارستانی ہے، وہ لوگ جنھیں ختم کرنے ہم عراق آئے تھے۔یہ وہ عراقی نہیں ہو سکتے جنھوں نے خندہ پیشانی سے ہمارا استقبال کیا تھا۔یہ تلخ سچائی بتدریج ہم پر آشکارا ہوئی کہ عراقی عوام ہمیں پسند نہیں کرتے اور امریکیوں کو حملہ آور اور قابض سمجھتے ہیں۔''
مسّرت چھین لی
یہ امریکی فوج کے سابق سارجنٹ ، کین گرفن کے چشم کشا جملے ہیں جو اپنے ساتھیوں کے ساتھ بیس برس قبل عراقی صدر، صدام حسین کی حکومت کا تختہ الٹنے عراق پہنچا تھا۔پچھلے ماہ کی 15 تاریخ کو امریکا کی زیرقیادت عراق پہ حملہ ہوئے بیس برس مکمل ہو گئے۔وہاں کین زخمی ہوا، اپنی ٹانگ کٹوا بیٹھا اور اب گھر میں زندگی گذار رہا ہے۔
عراق جنگ نے اس سے نارمل زندگی کی خوشی و مسّرت چھین لی اور کاموں میں دوسروں کا محتاج بنا دیا۔تاہم جنگ نے امریکی حکمران طبقے کے کئی مفادات بھی پورے کیے۔گو اسی طبقے کی وجہ سے آج بھی عراقی عوام خانہ جنگی، نسلی وفرقہ وارانہ فساد، حکومتی کرپشن اور غربت میں گھرے پریشانی وتکلیف والی زندگیاں گذار رہے ہیں۔
بگاڑ کا آغاز
ساڑھے چار کروڑ آبادی والے عالم اسلام کے اس اہم دیس، عراق کی حالت زار کو جنم دینے میں مغربی طاقتوں بالخصوص برطانیہ اور امریکا کا خاص کردار ہے۔آج تو ان مغربی طاقتوں کے حکمران انسانی حقوق اور انصاف و قانون کی نام لیوا بلکہ ٹھیکے دار بنے ہوئے ہیں، مگر عراق کی تاریخ ان کا عیّارانہ، مکروہ، لالچی اور داغدار اصل رخ بڑی بے باکی اور سفاکی سے آشکارا کرتی ہے۔
اگرچہ یہ المیّہ وجود میں لاتے ہوئے اپنوں نے بھی بقدر جثّہ اپنا حصہ ڈالا۔ آخر یہ انسان ہی ہیں جو اپنی فکرو عمل سے دوسرے انسانوں کی زندگیاں سنوار تے یا جہنم بنا دیتے ہیں۔عراق کو موجودہ خراب حالت میں پہنچانے کے عمل کا آغاز بھی چند اپنوں سے ہوتا ہے۔ یہ ہیں امیر مکہ المعروف شریف مکہ حسین بن علی اور اس کے تین بیٹے: علی، عبداللہ اور فیصل۔
عرب قوم پسندی کا شوشہ
مکہ کی امارت ترک عثمانی سلطنت کے عرب صوبے(ولایت)، حجاز کا حصہ تھی۔حرمین شریفین کا امیر ہونے کے باعث شریف مکہ کا عرب قبائل میں خاصا اثرورسوخ تھا۔ اس کے بیٹے عرب قوم پسندی کی تحریک سے متاثر تھے جس کا آغاز انیسویں صدی میں لبنانی وشامی عیسائی دانشوروں، بطرس البتانی، ناصف الیازجی اور اس کے بیٹے، ابراہیم نے کیا تھا۔
یہ دانشور مغربی قوتوں کے ایجنٹ تھے جو عثمانی ترک سلطنت کے عرب صوبوں (موجودہ سعودی عرب، شام، عراق، لبنان ، فلسطین اور اسرائیل)میں عرب عوام کو ترکوں کے خلاف بغاوت پر ابھارنا چاہتی تھیں۔
ان کا دعوی تھا کہ ترکوں نے عربوں کو مقامی وسائل سے محروم کر رکھا ہے۔وہ عربوں پہ ظلم کرتے ہیں۔اس بات میں کچھ صداقت تو تھی مگر اتنی نہیں کہ برادران اسلام آپس میں دست وگریبان ہو جائیں۔ترکوں نے عرب صوبوں میں کئی ترقیاتی کام کرائے تھے اور وہ عموماً قبائلی معاملات سے دور رہتے۔
انگریز ''قصائی''
جب ترک عثمانی حکومت کمزور ہوئی تو عرب قوم پسندی کے جراثیم کے زیر اثر امیر مکہ کے بیٹے عرب صوبوں میں اپنے خاندان ِشریف کی حکومت قائم کرنے کے خواب دیکھنے لگے۔بادشاہ بننے کی تمنا پوری کرنے کی خاطروہ ترکوں کے دشمن ، برطانیہ سے جا ملے اوراس سے خفیہ طور پر رابطے کیے۔فروری 1914ء میں عبداللہ چوری چھپے قاہرہ گیا اور وہاں برطانوی قونصل جنرل، لارڈ کچنر سے ملا جو سوڈان میں مسلمانوں کو قتل کرنے کی وجہ سے ''قصائی ''کہلانے لگا تھا۔
یہ بڑی عبرت ناک سچائی ہے کہ امارت ِمکہ کے مسلم حکمرانوں نے صرف اقتدار کی خاطر مسلمانوں کے قاتل سے ہاتھ ملا لیے۔لارڈ کچنر نے اسے امید دلائی کہ خاندان ِشریف مکہ کا خوابِ حکمرانی پورا کرنے کے لیے برطانیہ اس سے بھرپور تعاون کرے گا۔
سبز باغ
اسی سال پہلی جنگ عظیم شروع ہو گئی جس میں عثمانی ترکوں نے برطانیہ کے خلاف جرمنی کاساتھ دیا۔اسی لیے مشرق وسطی بھی جنگ کا نشانہ بن گیا۔
اب اتحادی قوتوں، برطانیہ، امریکا، فرانس اور روس نے مکہ کے حکمران شریف خاندان کویہ سبز باغ دکھایا کہ اگر اس نے عرب صوبوں میں بغاوت کرا دی تو جنگ (عظیم اول)میں کامیابی کی صورت ان صوبوں میں اس کی سلطنت بنا دی جائے گی۔بادشاہ بننے کے لالچ میں باپ بیٹیوں کے ساتھ مغربی طاقتوں کے بچھائے جال میںپھنس گیا۔
عثمانی ترک پچھلے چار سو سال سے عرب صوبوں میں حکومت کر رہے تھے۔ان کا انداز ِحکمرانی اچھائی اور برائی کا ملا جلا مرکب تھا۔
انیسویں صدی کے اواخر سے مغربی قوتوں کے عیسائی عرب ایجنٹ ان صوبوں میں عرب قوم پسندی کے جراثیم پھیلانے لگے۔انھوں نے پروپیگنڈا کیا کہ عرب ترکوں کے ظلم وستم کی وجہ سے غربت، جہالت اور بیماری میں مبتلا ہیں۔لہذا انھیں ترکوں کی غلامی کا طوق اپنی گردنوں سے اتار دینا چاہیے۔اس پروپیگنڈے سے عربوں میں ترکوں کے خلاف نفرت نے جنم لیا۔
یہی وجہ ہے، جب مغربی قوتوں کی فوج عرب صوبوں پر حملہ آور ہوئی تو کئی عربوں نے دفاع پہ مامور ترک فوج کا ساتھ نہیں دیا۔
اور یہ سچ ہے کہ کسی بھی جگہ دفاعی فوج کو عوام کی حمایت حاصل نہ ہو تو اس کا حوصلہ اور عسکری صلاحیتیں کمزور پڑ جاتی ہیں جیسے کہ مشرقی پاکستان میں ہوا۔حتی کہ جزیرہ نما عرب کی دوسری بڑی ریاست، نجد کے امیر،ابن سعود نے بھی عثمانی ترکوں کے خلاف دسمبر 1915ء میں انگریزوں سے دوستی کا معاہدہ کر لیا۔
بیک وقت دو محاذ
ایک طرف تو بیشتر عام عرب ترک فوج کے حامی نہیں رہے، دوسری طرف شریف مکہ کے زیراثر عرب قبائل ترکوں پہ حملے کرنے لگے۔یوں ترک فوج کو بیک وقت دو محاذوں پر سرگرم ہونا پڑا جس سے اس کی مشکلات بڑھ گئیں۔
شریف مکہ نے جون 1916ء سے ترکوں کے خلاف کئی عرب علاقوں میں باقاعدہ بغاوت شروع کرا دی ۔مقصد یہی تھا کہ ترک حکومت ختم کر کے عرب صوبوں میں اپنی بادشاہت قائم کر لی جائے۔ترک ایک ساتھ دو محاذوں پر نہیں لڑ پائے اور رفتہ رفتہ عرب صوبوں کے علاقوں پر برطانوی فوج کا قبضہ ہوتا چلا گیا۔
حتی کہ دسمبر 1917ء میں انگریز جنرل ایلن بی بیت المقدس پہ قبضہ کرنے میں کامیاب رہا۔اس فتح پر برطانوی وامریکی میڈیا نے خوشی ومسّرت کا جشن منایا اور جنرل ایلن کو عیسائیوں کا ہیرو قرار دیا۔اس نے وہ کام کر دکھایا تھا جو رچرڈ شیر دل انجام نہیں دے سکا تھا اور اب نئی صلیبی جنگ میں مسلم سلطنت کو شکست دے ڈالی۔
چال کامیاب رہی
حالات سے آشکارا ہے کہ عربوں اور ترکوں کو باہم لڑانے کی جو حکمت عملی برطانوی ، امریکی اور فرانسیسی اسٹیبلشمنٹوں نے بنائی، وہ کامیاب رہی۔(اسی حکمت عملی پر چلتے ہوئے آج بھی عالم اسلام میں فرقہ وارانہ خصوصاً شیعہ سنی اختلافات کو ہوا دی جاتی ہے تاکہ مغربی قوتیں اپنے مفادات پورے کر سکیں)اس حکمت عملی کے پیچھے امیر کبیر برطانوی و امریکی نژاد یہودی صنعت کاروں اور تاجروں کا اثرورسوخ اور پیسا بھی کارفرما تھا جو فلسطین پر برطانیہ کا قبضہ چاہتے تھے۔
مدعا یہ تھا کہ پھر برطانوی حکمران طبقے کی مدد سے وہاں یہودی ریاست قائم کی جا سکے۔اس پالیسی کی بلی2 نومبر 1917ء کو تھیلے سے باہر نکلی جب برطانوی اسٹیبلشمنٹ نے بذریعہ اعلان بالفور مشتہر کیا کہ وہ فلسطین میں یہودی ریاست بنانے کے لیے یہود کی مدد کرے گی۔
ہوس ِاقتدار
یہ حقیقت ہے کہ عرب اور ترک کو لڑانے کے لیے یہود ونصاری حکمران جو کوششیں کر رہے تھے، شریف مکہ اور اس کے بیٹوں نے اپنے عمل سے انھیں تقویت پہنچائی۔وہ اپنے ہم مذہب ترکوں کا مددگار بننے کے بجائے دشمنان ِاسلام کے حمایتی بن گئے، صرف اس لیے کہ اپنی ہوس ِاقتدار پوری کر سکیں۔
ان کی منزل یہ نہیں تھی کہ عرب صوبوں کے بادشاہ بن کر عوام کی خدمت کریں گے، وہ حکمران بن کر عیش وآرام سے زندگی گذارنا چاہتے تھے جو بیشتر حکمرانوں کا دیرینہ خواب ہوتا ہے۔بنیادی طور پہ ذاتی مفادات کی تکمیل ان کا مقصد تھا جس کے سبب وہ ترکوں کے مخالف بن گئے۔
حتی کہ مسلم دشمن قوتوں سے بھی انھوں نے دوستی کر لی۔شہزادہ فیصل نے تو اپنا اقتدار یقینی بنانے کے لیے صہیونی لیڈر اور اسرائیل کے پہلے صدر، خائم ویزمان سے بھی دوستی کا معاہدہ کر ڈالا تاکہ اپنے انگریز آقاؤں کی خوشنودی حاصل کر سکے۔
تنخواہیں ملتی رہیں
مغربی ماہرین کا دعوی ہے کہ عرب بغاوت برطانوی اسلحے اور مغربی قوتوں کی فراہم کردہ رقم کے باعث کامیاب ہوئی۔شریف مکہ اور اس کے بیٹے صرف نفری فراہم کرنے کے ذمے دار تھے۔اس نفری کو بھی عسکری تربیت دینے میں مغربی ایجنٹوں کا اہم کردار رہا جن میں کرنل لارنس کو بہت شہرت ملی۔
بہرحال بغاوت برپا کرنے کی خدمت بجا لانے کے عوض انھیں 1916ء تا 1920ء بھاری بھرکم معاوضہ ادا کیا گیا جو کئی لاکھ پونڈ تھا۔ مغربی طاقتوں کے دئیے سرمائے نے مکہ کے حاکم شریف خاندان کو دولتمند بنا دیا۔نیز عرب قبائل میں اس کا اثرورسوخ مذید بڑھ گیا۔اسی نئی طاقت کے سہارے بھی وہ بعد ازاں اردن، عراق اور حجاز کے حکمران بننے میں کامیاب رہا۔
کھلا میدان مل گیا
اگر عرب بغاوت رونما نہ ہوتی تو کیا تب بھی مغربی قوتیں ترک فوج کو شکست دے کر مشرق وسطی پہ قابض ہو جاتیں؟ عثمانی ترک سلطنت شکست وریخت کا شکار تھی۔مگر یہ حقیقت ہے کہ عرب صوبوں میں عوام ترکوں کا ساتھ دیتے تو برطانوی و فرانسیسی افواج کو وہاں قابض ہوتے ہوئے بہت مشکلات پیش آنی تھیں۔اور ممکن تھا کہ برطانیہ اور فرانس عرب صوبوں سے اپنی افواج نکالنے پر مجبور ہو جاتے۔
عرب بغاوت کے ذریعے ہی مغربی افواج کو عرب صوبوں میں قدم جمانے کا موقع ملا اور پھر انھیں اپنے شیطانی عزائم کی تکمیل کے لیے کھلا میدان مل گیا۔ انھوں نے 1918ء میں جنگ ختم ہوتے ہی عرب صوبوں کے حصے بخرے کر آپس میں بانٹ لیے۔
اس طرح برطانوی و فرانسیسی حکمرانوں نے عثمانی ترک سلطنت ختم کرنے کے لیے جو چالیں چلیں، ان میں خاندان شریف مکہ کو مہرے کی طرح استعمال کیا۔شریف خاندان کو یہ لالچ دے کر اپنی سازش کا حصّہ بنایا کہ عرب صوبوں میں اس کی بادشاہت قائم کی جائے گی۔
پھر ان کے ذریعے عرب علاقوں میں ترکوں کے خلاف بغاوت کرا دی جس نے ترک فوج کو کمزور کر ڈالا۔نتیجتہً مغربی فوج ترکوں کو شکست دینے میں کامیاب رہی۔مگر عرب صوبوں پہ مغربی طاقتیں قابض ہو گئیں اور ابتداً شریف خاندان کے ہاتھ کچھ نہ آیا ۔ وہ طیش کے مارے تلملاتا رہ گیا۔
فیصل کا ''یو ٹرن''
جب فیصل بن حسین کو علم ہوا کہ وہ ''عرب عظیم ''(گریٹر عرب )سلطنت کا حاکم نہیں بن سکتا تو عثمانی ترک حکومت سے خفیہ طور پہ رابطے کرنے لگا۔اس نے ترکوں کو حمایتی بننے کی پیش کش کی۔بدلے میں وہ شام صوبے کا حاکم بننا چاہتا تھا۔ترک مگر جان چکے تھے کہ خاندان ِشریف مطلب پرست، خودغرض اور ہوس اقتدار میں مبتلا ہے۔
انھوں نے فیصل کا کوئی مطالبہ تسلیم نہیں کیا۔وہ مجبوراً باپ کے کیمپ میں شامل رہا۔برطانیہ، امریکا اور فرانس کی حکومتوں کو یہ فکر لاحق تھی کہ شریف خاندان وعدہ پورا نہ کرنے پر ناراض ہے۔
لہذا کہیں وہ عرب علاقوں میں مغربی قوتوں کے خلاف جنگ چھیڑ دے۔یہ خطرہ ختم کرنے کے لیے انھوں نے نئی چال چلی اور شریف خاندان کے سب سے سرگرم و پُرجوش رکن، فیصل کو شام کا حاکم بنا دیا۔اس کو برطانیہ کی حمایت حاصل تھی۔مگر خفیہ چال کی منصوبہ بندی کے تحت فرانس فیصل کی مخالفت کرنے لگا کیونکہ شام کا علاقہ اسے مل چکا تھا۔
یوں شریف خاندان کے حامی عربوں کو یہی لگا کہ فرانسیسی حاکم ان سے بدعہدی کر رہے ہیں ورنہ برطانوی تو حمایتی ہیں۔
اس طرح مغربی طاقتوں نے لالچی و احمق شریف خاندان کو ایک بار پھر استعمال کر کے الّو بنا ڈالا۔اقتدار کے پجاری اور عقل کے اندھے فیصل کی شام میں حکومت صرف چار ماہ(مارچ تا جولائی 1920ئ)قائم رہی۔جلد فرانسنسی فوج نے حملہ کر کے پورے شام پہ قبضہ کر لیا۔فیصل کو ذلت وخواری کے عالم میں وہاں سے نکلنا پڑا۔
شیعہ سنی اتحاد
موصل، بغداد اور بصرہ کے صوبے ملا کر عراق کی موجودہ مملکت تشکیل دی گئی جس پر برٹش قابض ہوئے۔ شام و لبنان فرانس کے حصے میں آئے جبکہ فلسطین پر بھی برطانوی طاقت نے قبضہ جما لیا۔عراق، شام اور لبنان میں سنی و شیعہ مسلمان بڑی تعداد میں آباد تھے۔ان کی اکثریت نے انگریز و فرانسیسی حاکموں کا اقتدار تسلیم نہیں کیا۔
وہ بہت راسخ العقیدہ مسلمان تھے۔ترک مسلمانوں کی سیادت تو انھوں نے قبول کر لی مگر غیر مسلم حکمرانوں کو برداشت نہیں کر سکتے تھے۔
اسی لیے تینوں علاقوں میں سنی و شیعہ عوام نے متحد ہو کر برطانیہ وفرانس کے خلاف جہاد شروع کر دیا۔یہ نایاب یک جہتی تھی جو مختلف فرقوں سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں میں دیکھنے کو ملی۔یہ جہاد فرو کرنے میں مغربی طاقتوں کا کثیر سرمایہ خرچ ہوا جو ان پہ کافی بھاری پڑا۔ پہلے ہی جنگ عظیم اول کے اخراجات نے انھیں ادھ موا کر رکھا تھا۔
لڑاؤ، خود حکومت کے مزے لوٹو
اخراجات اور ہر قسم کے نقصان سے محفوظ ہونے کی خاطر برطانوی و فرانسیسی اسٹیبلشمنٹوں نے ''مقامی گروہوں کو لڑاؤ اور خود حکومت کرو''کی دیرینہ پالیسی اپنا لی۔ انھوں نے تینوں نوزائیدہ مسلم ریاستوں میں اپنی کٹھ پتلی حکومتیں قائم کر دیں جن کے وزیر مسلمان تھے۔
یہ وزرا جاگیردار، قبائلی سردار، جنگی سردار(وار لارڈز)، تاجر وغیرہ تھے جو معاشرے میں نمایاں مقام رکھتے۔انھیں بھاری رقم اور مراعات دے کر مغربی قوتوں نے ساتھ ملا لیا۔یہ نام نہاد مسلم حکومتیں برطانیہ اور فرانس کے مفادات پورے کرنے لگیں۔ اس طرح مغربی طاقتوں نے بڑی عیاری سے اپنے اقتدار پہ مسلم روغن چڑھا دیا۔
حقیقت میں طاقت کے سرچشمے غیر مسلم برطانوی و فرانسیسی حکمران ہی تھے۔تینوں نئی عرب ریاستوں میں کٹھ پتلی حکمران طبقے نے مغربی آقاؤں کی ایما پر اور اپنا اقتدار بحال رکھنے کے لیے بھی شیعہ سنی اختلافات جنم دئیے۔
مذہبی مسائل کی چنگاریوں کو ہوا دے کر شعلے بنایا گیا تاکہ عوام تو آپس میں سر پھٹول کرنے لگیں، جبکہ وہ خود اقتدار کے مزے لوٹتے رہیں۔نیز برطانیہ و فرانس کو اپنی کٹھ پتلی حکومتوں کے ذریعے ریاستوں کے وسائل سے استفادہ کرنے کا موقع مل سکے جن میں سرفہرست ''تیل ''تھا۔
ایک تیر سے دو شکار
مسلمانان ِعراق میں فرقہ واریت کی شعلوں کو ہوا دینے کے لیے برطانوی اسٹیبلشمنٹ نے اگست 1921ء میں فیصل بن حسین کو بادشاہ بنا دیا۔عیار برطانیہ نے یوں ایک تیر سے دو شکار کھیلے۔ عراق میں فرقہ واریت کو ہوا دی جبکہ شریف خاندان کو بھی کسی حد تک مطمئن کر دیا جو بدعہدی ہونے پر غصّے سے تلملا رہا تھا۔عراق کے بہت کم شیعہ فیصل سے واقف تھے۔
نئے بادشاہ نے بہرحال اعلان کیا کہ وہ کسی قسم کی فرقہ واریت کا قائل نہیں اور سبھی مسلمان اس کی نظر میں یکساں و برابر ہیں۔فیصل مسلم تھا اور سیّد بھی، اس لیے شیعوں نے بطور حکمران اسے قبول کر لیا۔تاہم ان میں یہ تاثر بھی پیدا ہوا کہ برطانیہ نے طاقت کے بل پر ، زبردستی ایک غیر فرقے کو ان پہ تھوپ ڈالا۔یوں انگریز حکومت نے بڑی چالاکی سے عراق میں فرقہ ورانہ اختلافات کے بیج بو دئیے۔
عبرت ناک انجام
اُدھر حسین بن علی ''شاہ عرب''بننے کے جو سہانے سپنے دیکھ رہا تھا، وہ انگریز و فرانسیسی اتحاد نے کرچی کرچی کر ڈالے۔وہ محض حجاز کا امیر ہی بن سکا۔بقیہ عرب علاقوں پر برطانیہ و فرانس نے قبضہ کر لیا۔طیش کے مارے وہ ان کا مخالف بن گیا۔گوروں نے طوعاً و کراہاً ہی اسے برداشت کیا۔
پالیسی کے تحت حسین کے بیٹوں کو فوقیت دی گئی جو نئے منظرنامے میں محدود علاقے پر بھی اپنی حکومتیں بنانے کو تیار تھے۔جب حسین بدستور مغربی قوتوں پر تنقید کرتا رہا توبرطانیہ اس کے معاصر، ابن سعود کی حمایت کرنے لگا۔ مغربی قوتوں کی مدد پا کر ابن سعود نے کئی لڑائیوں میں حسین بن علی کی فوج کو شکست دی۔ یوں اس کی قیادت کمزور و بے اثر ہو گئی۔
آخر حسین نے مجبورا ًحجاز کی امارت اپنے بڑے بیٹے، علی کے سپرد کر دی۔وہ بھی اسے سنبھال نہ پایا۔دسمبر 1925ء میں ابن سعود نے حجاز فتح کر لیا۔حسین اور علی بھاگ کر اردن چلے گئے۔وہاں حسین کا بیٹا عبداللہ انگریزوں کی آشیرباد سے بادشاہ بن چکا تھا۔
ابن سعود نے انگریزوں پہ دباؤ ڈالا کہ وہ حسین کو فلسطین سے نکال باہر کریں۔برٹش تیل کی وجہ سے ابن سعود کا ساتھ دینا چاہتے تھے۔
لہذا انھوں نے حسین کو قبرض جلاوطن کر دیا۔وہیں 1930ء میں اسے فالج ہوا اور وہ سسک سسک کر زندگی گذارنے لگا۔ اگلے سال دنیا سے رخصت ہو گیا۔یوں اس کا انجام عبرت ناک ہی ہوا۔اللہ تعالی کبھی کبھی دنیا ہی میں بندوں کو سزا دے ڈالتے ہیں۔
حسین بن علی کے تینوں بیٹوں کا بھی انجام اچھا نہ تھا۔ علی محض ایک سال امیر حجاز رہا، پھر وہ پہلے اردن پھر عراق میں مقیم رہا۔1935ء میں اپنا دور حکمرانی یاد کرتے کرتے صرف چھپن سال کی عمر میں اس کا انتقال ہو گیا۔
دوسرے بیٹے، عبداللہ کو برٹش نے اپریل 1921ء میں اپنی پالیسی کے تحت اردن کا بادشاہ بنا دیا تھا۔ عرب فلسطینی اسے مغربی طاقتوں کی کٹھ پتلی سمجھتے تھے جو ان کے مفادات پہ عمل کرتے یہودی ریاست کے قیام کی راہ ہموار کر رہا تھا۔اسی لیے 1951ء میں ایک فلسطینی نے اسے قتل کر دیا۔تیسرے بیٹے، فیصل کا انجام بھی مختلف نہ تھا۔
مغربی طاقتوں کی بے انصافی
عراق میں فیصل نام کا بادشاہ تھا، اصل حکومت برطانیہ کے زرخرید وزرا کی تھی۔ یہی وجہ ہے، برطانیہ وقتاً فوقتاً عراقی حکومت سے بیش بہا فوائد حاصل کرتا رہا۔اکتوبر 1922ء میں ایک معاہدے کے ذریعے برطانیہ نے عراق کی خارجہ پالیسی اپنے ہاتھوں میں لے لی۔یوں اسے عراق میں فوجی اڈے بنانے کا پروانہ مل گیا۔
1925ء میں حکومت عراق نے مملکت میں تیل تلاش کرنے کا ٹھیکا امریکی وبرطانوی تیل کمپنیوں کو دے دیا۔معاہدے کے مطابق اگر تیل نکل آتا تو ان مغربی کمپنیوں کو ''بیس سال''تک کوئی رائلٹی عراقی حکومت کو ادا نہیں کرنی تھی۔یہ برطانوی و امریکی اسٹیبلشمنٹوں کا بہت بڑا ظلم ہے جو انھوں نے عراقی عوام پر ڈھایا۔تیل کی دولت کے اصل مالک عراقی عوام تھے مگر قانون وانصاف و انسانی حقوق کا ڈھنڈورا پیٹنے والی مغربی طاقتوں نے انھیں آمدن کا حق نہ دیا اور غاصب کا کردار ادا کرتے ہوئے بے انصافی کی۔
1928ء میں عراق میں تیل نکل آیا اور جلد اس شعبے میں امریکی کمپنیاں چھا گئیں۔یوں اس عرب ملک میں امریکی اسٹیبلشمنٹ کے اثرات اور مفادات بڑھنے لگے۔امریکی تیل کمپنیاں عراقی حکومت کو کچھ رائلٹی دینے لگیں(بیشتر آمدن خود ہڑپ کر جاتیں)۔اس رائلٹی کا بڑا حصہ عوام کی فلاح وبہبود نہیں شاہی خاندان اور ایلیٹ طبقے کے شاہانہ اخراجات برداشت کرنے پر لگتا۔فیصل نے بہرحال بطور بادشاہ ملک و قوم کی بھلائی و ترقی کے کچھ اہم کام انجام دئیے اور پھر اس کا ضمیر بھی پوری طرح مردہ نہ تھا۔
فیصل کا قتل
جب جولائی 1933ء میں اس نے برطانیہ کا دورہ کیا تو برطانوی حکومت پہ دباؤ ڈالا کہ وہ فلسطین میں یہود کو بڑی تعداد میں آباد نہ کرے۔ بادشاہ کا کہنا تھا کہ برطانیہ کے مسلم دشمن اقدامات سے فلسطینی مسلمانوں کی معاشی، معاشرتی اور سیاسی زندگی زوال پذیر ہو رہی ہے۔ستمبر 1933ء میں فیصل طبی معائنہ سوئٹزرلینڈ گیا۔
وہاں اچانک وہ ''سرکاری ''طور پہ ہارٹ اٹیک سے چل بسا۔مگر اندرون خانہ کہا جاتا ہے کہ برطانوی امریکی خفیہ ایجنسیوں کے ایجنٹوں نے اسے زہر دے کا مار ڈالا۔سوئس حکومت نے فیصل کا پوسٹ مارٹم بھی نہ کرایا اور اس کے جسم کو ممّی بنا دیا۔یوں فیصل ساری زندگی اقتدار کی خاطر جن مغربی قوتوں پر تکیہ کرتا رہا، وہی اس کی قاتل بن گئیں۔ لالچی انسانوں کا عموماً بھیانک انجام ہوتا ہے مگر انسان ان سے کم ہی عبرت حاصل کرتے ہیں۔
اب فیصل کا انیس سالہ بیٹا ،غازی عراق کا نیا بادشاہ بن گیا۔ وہ برطانیہ و امریکا کا مخالف تھا۔اس کے دور میں حکومت پہ قبضہ کرنے کے لیے سیاست دانوں وبیوروکریسی اور فوج کے درمیان کشمکش شروع ہو گئی۔سیاست دان و بیوروکریسی مغربی طاقتوں کے پٹھو تھے۔جبکہ فوج میں بعض جرنیل برطانیہ و امریکا کے مفادات کی تکمیل نہیں چاہتے تھے۔
غازی نے جرنیلوں کا ساتھ دیا۔یہی وجہ ہے، 1936ء میں ایک جرنیل، بکر صدقی نے فوجی بغاوت کر کے اپنے من پسند وزیراعظم کو حکومت دے دی۔یہ جدید عرب کی تاریخ میں پہلی فوجی بغاوت تھی۔غازی بادشاہ جنرل بکر صدقی کا حامی تھا۔برطانوی و امریکی اسٹیبلشمنٹوں کو یہ آزادی پسند نوجوان بادشاہ پسند نہ تھا۔لہذا 1939ء میں قتل کے منصوبے کو حادثے کا رنگ دے کر غازی کو مار دیا گیا۔
الم ناک صورت حال
سچ یہ ہے کہ عراق میں اپنے مفادات پورے کرنے کے لیے پہلے برطانوی اور پھر امریکی حکمران طبقوں نے جو گھناؤنے اور شیطانی کھیل کھیلے، ان پہ ضخیم کتاب بن سکتی ہے۔دوسری جنگ عظیم میں برطانیہ کی سپرمیسی کا سورج غروب ہوا تو امریکا نئی سپرپاور بن گیا۔
آج بھی یہ دونوں اینگلو سیکسن طاقتیں عراق، شام اور مشرق وسطی کے دیگر علاقوں میں اپنے مفادات کی تکمیل کے لیے خفیہ سازشیں کرنے میں مصروف ہیں۔1921ء سے ان کی پالیسی ''مقامی گروہوں کو لڑاؤ اور خود حکومت کرو'' چلی آ رہی ہے۔
غم وافسوس کی بات یہ کہ مغربی طاقتوں میں اپنے مقاصد کی تکمیل کے واسطے ہر اسلامی ملک میں لالچی، بے ضمیر اور غدار مسلمان مل جاتے ہیں جیسے صدام حسین جو امریکی خفیہ ایجنسی، سی آئی اے کا باقاعدہ تنخواہ دار ایجنٹ تھا۔یہی وجہ ہے، بے پناہ قدرتی وسائل رکھنے کے باوجود اسلامی ممالک عالمی سطح پہ کوئی حیثیت نہیں رکھتے اور عدم اتحاد وانتشار کا شکار ہیں۔
عالم اسلام معاشی وسیاسی ہی نہیں تہذیبی وتمدنی طور پر بھی مغرب کا دست نگر بن چکا۔اُمت مسلمہ کے آزاد و خودمختار ہونے کا خواب ہنوز تشنہ ہے کیونکہ بیشتر مسلم ملکوں کا حکمران طبقہ مغربی طاقتوں کی کٹھ پتلی بنا ان کے مفادات پورے کرنے میں مصروف ہے۔
ترک صدر، طیب اردوغان ہی ان طاقتوں کو کسی حد تک چیلنج کرتے ہیں ورنہ دیگر مسلم حکمران طبقے تو مادی مفادات کے اسیر بنے ان کے تلوے چاٹنے سے بھی نہیں کتراتے۔