تھر کی قسمت کیا تبدیل ہوگی
سندھ کے سب سے زیادہ پسماندہ علاقہ تھر کی کیا واقعی قسمت بدل رہی ہے؟ تھر کے وسیع ریگستان کے بارے میں ماہرین کی ہمیشہ سے رائے تھی کہ ریت کے ٹیلوں کے نیچے قیمتی معدنیات دفن ہیں۔ کوئلہ، تیل اورکرومائٹ کی موجودگی کا ہمیشہ ذکر ہوتا تھا۔
وفاقی حکومت کے ادارہ جیولوجیکل سروے آف پاکستان Geological Survey of Pakistan نے دو سال قبل تھر میں کوئلہ کے ذخائر کے بارے میں سروے کے بعد بتایا تھا کہ پورے تھر میں 175 بلین ٹن کوئلہ کے ذخائر موجود ہیں۔ یوں تھر کے اس ذخیرہ کو دنیا کے بڑے ذخائر میں شمارکیا جاتا ہے۔
پیپلز پارٹی کی دوسری حکومت میں وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کی ہدایت پر تھر میں دریافت ہونے والے کوئلہ سے بجلی پید ا کرنے کے پلانٹس کی تنصیب پر کام شروع ہوا تھا مگر برسوں گزرنے کے بعد بھی یہ منصوبہ آگے نہیں بڑھ سکا۔
ایٹمی پلانٹ کے ایک ماہر ڈاکٹر ثمر مبارک نے دعوے کیے تھے کہ وہ اس کوئلہ سے بجلی پیدا کرنے کے پلانٹ کو چلا کر دکھائیں گے ، اس پروجیکٹ پر کروڑوں روپے خرچ ہوئے مگر نتائج حوصلہ افزاء نہیں آئے۔
سپریم کورٹ میں ڈاکٹر ثمر مبارک کے اس پروجیکٹ پر خرچ ہونے والے اخراجات کا مقدمہ پیش ہوا تھا ، بعد ازاں نامعلوم اسباب کی بناء پر یہ معاملہ کہیں لاپتہ ہوا۔
جب سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف نے چین سے اقتصادی راہداری سی پیک کے لیے کئی معاہدے کیے تو ان میں سے ایک معاہدہ تھر کے کوئلہ سے بجلی پیدا کرنے کے بارے میں ہوا، یوں چینی کمپنیوں نے تھر کول پروجیکٹ شروع کیا۔ اس پروجیکٹ کا ایک حصہ کچھ عرصہ پہلے مکمل ہوا تھا۔
اب وزیر اعظم شہباز شریف نے گزشتہ دنوں 1320میگاواٹ تھرکول پلانٹ بلاک ون ، 330 میگاواٹ تھر بلاک ٹو کا افتتاح کیا۔ اس موقع پر وزیر اعظم شہباز شریف ، وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری، توانائی کے وزیر خرم دستگیر اور وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے دھواں دار تقاریر کیں۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے اپنی تقریر میں کہا کہ عمران خان کے چار سالہ دور میں اس منصوبہ پر رتی برابر کام نہیں ہوا۔ انھوں نے وزیر توانائی کو ہدایت کی کہ 30 اپریل تک ان پروجیکٹ سے حاصل ہونے والی بجلی کو نیشنل گرڈ سے منسلک کیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان منصوبوں سے سالانہ 11.24 ارب کم لاگت بجلی کے یونٹ پیدا ہوں گے۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ پہلے تھر کے لوگ کام کے لیے دوسرے علاقوں میں جاتے تھے، اب پورے ملک سے اور چین سے لوگ آکر ان پروجیکٹس پر کام کررہے ہیں۔
وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے دعویٰ کیا کہ تھر کے ایک چھوٹے سے علاقہ اسلام کوٹ (جس کی آبادی 40 ہزار سے 45ہزار کے درمیان ہے) کے کئی سو گھروں کو بجلی کے 100یونٹ ماہانہ مفت فراہم کیے جارہے ہیں۔
تھر کی آبادی تقریباً 18 لاکھ کے قریب ہے۔ تھرکا ہزاروں میل کا علاقہ ایک طرف میرپور خاص اور سانگھڑ کی سرحد سے ہوتا ہوا بھارت کی ریاست راجستھان کی سرحدوں تک پہنچ جاتا ہے۔ تھر میں گوٹھوں اور سیٹلمنٹس Settlements کی تعداد 2 ہزار 400 کے قریب ہے اور پورے تھر میں اب بھی آبادی کے 95فیصد حصہ کو بجلی کی سہولت حاصل نہیں ہے۔
بتایا جاتا ہے کہ کچھ عرصہ قبل جب سندھ اینگرو کے پاور پلانٹ نے بجلی کی پیداوار شروع ہونے کے قریب آئی تو حکومت سندھ نے 2017میں عالمی بینک سے قرضہ لیا اور یہ فیصلہ ہوا کہ تھر کول کی بجلی تھر کے لوگوں کو نہیں ملے گی، یہاں پر ایک آف گریڈ سسٹم بنایا جائے گا۔
حکمراں جماعت پیپلز پارٹی نے اپنے اراکین قومی اور صوبائی اسمبلی سے فہرست طلب کی کہ کن گاؤں میں سولر نظام کے تحت بجلی فراہم کی جائے اور کن گاؤں کو اس منصوبہ سے الگ رکھا جائے گا۔
جب اس فیصلہ کی بازگشت ذرایع ابلاغ کو ہوئی تو سروے کیا گیا اور یہ شکایات بھی اخبارات میں شایع ہوئیں کہ مبینہ طور پر متعلقہ عملہ رشوت لے کر سولر پینل فراہم کررہا ہے مگر یہ ضرور ہوا کہ ایک پروجیکٹ میں تھر کی خواتین کو ہیوی ٹرک اور ٹرالر کے ڈرائیوروں کی ملازمتوں پر رکھا گیا۔ یہ الزام بھی لگایا گیا کہ تھر کول پاور پروجیکٹ کے کاموں کے ٹھیکے نیلام ہوتے ہیں مگر تھر سے تعلق رکھنے والے بہت کم افراد کو یہ ٹھیکے دیے گئے۔
یہ بھی الزام لگایا جاتا ہے کہ ان پروجیکٹس میں انجینئروں اور دیگر ماہرین کی آسامیوں کو تو چھوڑ دیا جائے چھوٹے کاموں کے لیے بھی باہر سے افراد بلائے جاتے ہیں۔ اس علاقہ میں بجلی پیدا کرنے کے پروجیکٹ تو مکمل ہورہے ہیں مگر مقامی افراد کی بہبود کے لیے شروع کیے جانے والے سول ورکس ابھی تک نامکمل ہیں۔
تھر میں غربت کی سطح سب سے زیادہ ہے۔ ہر سال دو سال بعد قحط کی صورتحال پیدا ہوتی ہے۔ لوگ اپنے گھروں کو چھوڑنے پر مجبور ہوتے ہیں۔
اس وقت تھر سے تعلق رکھنے والے ایک خام اندازہ کے مطابق 20 ہزار کے قریب نوجوان کراچی کی گارمنٹس فیکٹریوں میں اور 5 ہزار کے قریب افراد کراچی میں گھروں میں کام کرتے ہیں جن میں سے بیشتر کی عمریں 18 سال سے کم ہیں۔ تھر اب بھی تعلیم کی نسبت سے پسماندہ ہے۔
تھر کی 7 میں سے 4تحصیلوں میں گرلز ہائی اسکول نہیں ہیں اور تین تحصیلوں میں انٹرمیڈیٹ کالج قائم نہیں ہوئے ہیں۔ تھر سندھ کا واحد علاقہ ہے جہاں اب تک ایک مکمل یونیورسٹی قائم نہیں ہوئی ہے۔
پیپلز پارٹی کے چیئرمین اور موجودہ وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری اور وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے 2018میں اعلان کیا تھا کہ اس پسماندہ علاقہ میں یونیورسٹی قائم ہوگی مگر یہ وعدہ تو وعدہ ہی رہا مگر این ای ڈی یونیورسٹی نے ایک انسٹی ٹیوٹ قائم کرنے پر اکتفا کیا۔ اس کیمپس میں صرف تین ٹیکنالوجیز قائم ہیں۔ اس کیمپس میں عملاً ٹیکنیکل کالج ہی ہے۔
اس کیمپس میں تھر کے صرف 10طلبہ کو داخلہ ملتا ہے۔ محکمہ تعلیم نے گزشتہ دنوں اساتذہ کی بھرتی کے لیے ٹیسٹ کا انعقاد کیا تھا مگر تھر سے تعلق رکھنے والے انتہائی کم طلبہ اس امتحان میں شریک ہوئے اور یہ طلبہ اپنی کمزور قابلیت کی بناء پر مطلوبہ معیار پر پورا نہ اترنے کے سبب منتخب نہ ہوسکے اور اس تحصیل کی نشست خالی رہ گئی۔
تھر صحت کے معاملہ میں انتہائی پسماندہ ہے۔ اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ خود کشیوں کی شرح کسی طور کم نہیں ہو پائی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ تھر میں ہر شخص ڈپریشن میں مبتلا ہے۔ تھر میں خودکشی کی شرح ملک میں سب سے زیادہ ہے۔
پھر غربت اور کم عمر جوڑوں کی شادیوں کی بناء پر زچہ اور بچہ کی شرح امراض بھی خطرناک حد تک بہت زیادہ ہیں۔ تھر سے تعلق رکھنے والے سینئر صحافی سہیل سانگی کا کہنا ہے کہ بلوچستان کے علاقہ سوئی سے 50ء کی دہائی میں گیس نکلی تھی۔
یہ گیس ایک طرف کراچی اور دوسری طرف اسلام آباد تک پہنچ گئی مگر بلوچستان کے عوام اس نعمت سے محروم رہے اور آج بھی بلوچستان کا بہت سا علاقہ گیس سے محروم ہے۔ ایسی ہی صورتحال تھرکے ساتھ بھی ہورہی ہے، پہلے تھر کو بدلنا چاہیے۔
بھارت کی سرحد سے متصل رہنے والے تھر کے باشندے جب سرحد پار گاؤں کو رات کو بجلی سے جگمگاتا ہوا دیکھتے ہیں تو انھیں یہ خیال آتا ہے کہ کیا ان کی قسمت بھی تبدیل ہوگی؟
وفاقی حکومت کے ادارہ جیولوجیکل سروے آف پاکستان Geological Survey of Pakistan نے دو سال قبل تھر میں کوئلہ کے ذخائر کے بارے میں سروے کے بعد بتایا تھا کہ پورے تھر میں 175 بلین ٹن کوئلہ کے ذخائر موجود ہیں۔ یوں تھر کے اس ذخیرہ کو دنیا کے بڑے ذخائر میں شمارکیا جاتا ہے۔
پیپلز پارٹی کی دوسری حکومت میں وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کی ہدایت پر تھر میں دریافت ہونے والے کوئلہ سے بجلی پید ا کرنے کے پلانٹس کی تنصیب پر کام شروع ہوا تھا مگر برسوں گزرنے کے بعد بھی یہ منصوبہ آگے نہیں بڑھ سکا۔
ایٹمی پلانٹ کے ایک ماہر ڈاکٹر ثمر مبارک نے دعوے کیے تھے کہ وہ اس کوئلہ سے بجلی پیدا کرنے کے پلانٹ کو چلا کر دکھائیں گے ، اس پروجیکٹ پر کروڑوں روپے خرچ ہوئے مگر نتائج حوصلہ افزاء نہیں آئے۔
سپریم کورٹ میں ڈاکٹر ثمر مبارک کے اس پروجیکٹ پر خرچ ہونے والے اخراجات کا مقدمہ پیش ہوا تھا ، بعد ازاں نامعلوم اسباب کی بناء پر یہ معاملہ کہیں لاپتہ ہوا۔
جب سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف نے چین سے اقتصادی راہداری سی پیک کے لیے کئی معاہدے کیے تو ان میں سے ایک معاہدہ تھر کے کوئلہ سے بجلی پیدا کرنے کے بارے میں ہوا، یوں چینی کمپنیوں نے تھر کول پروجیکٹ شروع کیا۔ اس پروجیکٹ کا ایک حصہ کچھ عرصہ پہلے مکمل ہوا تھا۔
اب وزیر اعظم شہباز شریف نے گزشتہ دنوں 1320میگاواٹ تھرکول پلانٹ بلاک ون ، 330 میگاواٹ تھر بلاک ٹو کا افتتاح کیا۔ اس موقع پر وزیر اعظم شہباز شریف ، وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری، توانائی کے وزیر خرم دستگیر اور وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے دھواں دار تقاریر کیں۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے اپنی تقریر میں کہا کہ عمران خان کے چار سالہ دور میں اس منصوبہ پر رتی برابر کام نہیں ہوا۔ انھوں نے وزیر توانائی کو ہدایت کی کہ 30 اپریل تک ان پروجیکٹ سے حاصل ہونے والی بجلی کو نیشنل گرڈ سے منسلک کیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان منصوبوں سے سالانہ 11.24 ارب کم لاگت بجلی کے یونٹ پیدا ہوں گے۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ پہلے تھر کے لوگ کام کے لیے دوسرے علاقوں میں جاتے تھے، اب پورے ملک سے اور چین سے لوگ آکر ان پروجیکٹس پر کام کررہے ہیں۔
وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے دعویٰ کیا کہ تھر کے ایک چھوٹے سے علاقہ اسلام کوٹ (جس کی آبادی 40 ہزار سے 45ہزار کے درمیان ہے) کے کئی سو گھروں کو بجلی کے 100یونٹ ماہانہ مفت فراہم کیے جارہے ہیں۔
تھر کی آبادی تقریباً 18 لاکھ کے قریب ہے۔ تھرکا ہزاروں میل کا علاقہ ایک طرف میرپور خاص اور سانگھڑ کی سرحد سے ہوتا ہوا بھارت کی ریاست راجستھان کی سرحدوں تک پہنچ جاتا ہے۔ تھر میں گوٹھوں اور سیٹلمنٹس Settlements کی تعداد 2 ہزار 400 کے قریب ہے اور پورے تھر میں اب بھی آبادی کے 95فیصد حصہ کو بجلی کی سہولت حاصل نہیں ہے۔
بتایا جاتا ہے کہ کچھ عرصہ قبل جب سندھ اینگرو کے پاور پلانٹ نے بجلی کی پیداوار شروع ہونے کے قریب آئی تو حکومت سندھ نے 2017میں عالمی بینک سے قرضہ لیا اور یہ فیصلہ ہوا کہ تھر کول کی بجلی تھر کے لوگوں کو نہیں ملے گی، یہاں پر ایک آف گریڈ سسٹم بنایا جائے گا۔
حکمراں جماعت پیپلز پارٹی نے اپنے اراکین قومی اور صوبائی اسمبلی سے فہرست طلب کی کہ کن گاؤں میں سولر نظام کے تحت بجلی فراہم کی جائے اور کن گاؤں کو اس منصوبہ سے الگ رکھا جائے گا۔
جب اس فیصلہ کی بازگشت ذرایع ابلاغ کو ہوئی تو سروے کیا گیا اور یہ شکایات بھی اخبارات میں شایع ہوئیں کہ مبینہ طور پر متعلقہ عملہ رشوت لے کر سولر پینل فراہم کررہا ہے مگر یہ ضرور ہوا کہ ایک پروجیکٹ میں تھر کی خواتین کو ہیوی ٹرک اور ٹرالر کے ڈرائیوروں کی ملازمتوں پر رکھا گیا۔ یہ الزام بھی لگایا گیا کہ تھر کول پاور پروجیکٹ کے کاموں کے ٹھیکے نیلام ہوتے ہیں مگر تھر سے تعلق رکھنے والے بہت کم افراد کو یہ ٹھیکے دیے گئے۔
یہ بھی الزام لگایا جاتا ہے کہ ان پروجیکٹس میں انجینئروں اور دیگر ماہرین کی آسامیوں کو تو چھوڑ دیا جائے چھوٹے کاموں کے لیے بھی باہر سے افراد بلائے جاتے ہیں۔ اس علاقہ میں بجلی پیدا کرنے کے پروجیکٹ تو مکمل ہورہے ہیں مگر مقامی افراد کی بہبود کے لیے شروع کیے جانے والے سول ورکس ابھی تک نامکمل ہیں۔
تھر میں غربت کی سطح سب سے زیادہ ہے۔ ہر سال دو سال بعد قحط کی صورتحال پیدا ہوتی ہے۔ لوگ اپنے گھروں کو چھوڑنے پر مجبور ہوتے ہیں۔
اس وقت تھر سے تعلق رکھنے والے ایک خام اندازہ کے مطابق 20 ہزار کے قریب نوجوان کراچی کی گارمنٹس فیکٹریوں میں اور 5 ہزار کے قریب افراد کراچی میں گھروں میں کام کرتے ہیں جن میں سے بیشتر کی عمریں 18 سال سے کم ہیں۔ تھر اب بھی تعلیم کی نسبت سے پسماندہ ہے۔
تھر کی 7 میں سے 4تحصیلوں میں گرلز ہائی اسکول نہیں ہیں اور تین تحصیلوں میں انٹرمیڈیٹ کالج قائم نہیں ہوئے ہیں۔ تھر سندھ کا واحد علاقہ ہے جہاں اب تک ایک مکمل یونیورسٹی قائم نہیں ہوئی ہے۔
پیپلز پارٹی کے چیئرمین اور موجودہ وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری اور وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے 2018میں اعلان کیا تھا کہ اس پسماندہ علاقہ میں یونیورسٹی قائم ہوگی مگر یہ وعدہ تو وعدہ ہی رہا مگر این ای ڈی یونیورسٹی نے ایک انسٹی ٹیوٹ قائم کرنے پر اکتفا کیا۔ اس کیمپس میں صرف تین ٹیکنالوجیز قائم ہیں۔ اس کیمپس میں عملاً ٹیکنیکل کالج ہی ہے۔
اس کیمپس میں تھر کے صرف 10طلبہ کو داخلہ ملتا ہے۔ محکمہ تعلیم نے گزشتہ دنوں اساتذہ کی بھرتی کے لیے ٹیسٹ کا انعقاد کیا تھا مگر تھر سے تعلق رکھنے والے انتہائی کم طلبہ اس امتحان میں شریک ہوئے اور یہ طلبہ اپنی کمزور قابلیت کی بناء پر مطلوبہ معیار پر پورا نہ اترنے کے سبب منتخب نہ ہوسکے اور اس تحصیل کی نشست خالی رہ گئی۔
تھر صحت کے معاملہ میں انتہائی پسماندہ ہے۔ اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ خود کشیوں کی شرح کسی طور کم نہیں ہو پائی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ تھر میں ہر شخص ڈپریشن میں مبتلا ہے۔ تھر میں خودکشی کی شرح ملک میں سب سے زیادہ ہے۔
پھر غربت اور کم عمر جوڑوں کی شادیوں کی بناء پر زچہ اور بچہ کی شرح امراض بھی خطرناک حد تک بہت زیادہ ہیں۔ تھر سے تعلق رکھنے والے سینئر صحافی سہیل سانگی کا کہنا ہے کہ بلوچستان کے علاقہ سوئی سے 50ء کی دہائی میں گیس نکلی تھی۔
یہ گیس ایک طرف کراچی اور دوسری طرف اسلام آباد تک پہنچ گئی مگر بلوچستان کے عوام اس نعمت سے محروم رہے اور آج بھی بلوچستان کا بہت سا علاقہ گیس سے محروم ہے۔ ایسی ہی صورتحال تھرکے ساتھ بھی ہورہی ہے، پہلے تھر کو بدلنا چاہیے۔
بھارت کی سرحد سے متصل رہنے والے تھر کے باشندے جب سرحد پار گاؤں کو رات کو بجلی سے جگمگاتا ہوا دیکھتے ہیں تو انھیں یہ خیال آتا ہے کہ کیا ان کی قسمت بھی تبدیل ہوگی؟