یہ منہ اور مسور کی دال اورغربت
دنیا بھر میں روز بہ روز دالوں کی بڑھتی ہوئی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے 10 فروری کو اقوام متحدہ نے بھی دالوں کا عالمی دن مقررکردیا ہے۔
دالوں کی کئی اقسام ہیں جن میں مسور کی دال کے بارے میں ایک تاریخی جملہ بہت مشہور ہوا۔ کہا جاتا ہے کہ شاہ عالم ثانی کے اقتدار کو زوال پذیر ہوتا دیکھ کر ایک شاہی باورچی دہلی کو خیرباد کہہ کر کسی اور حاکم کے ہاں باورچی مقرر ہو گیا اور وہاں ایسی زبردست مزے دار اور لذیذ مسور کی دال پکائی کہ سب انگلیاں چاٹتے رہ گئے۔
حاکم نے اچانک اس کی لاگت کے بارے میں پوچھا تو کہا 50 پیسے کی مسورکی دال اور 71 روپے کا گرم مسالہ۔ اس پر حاکم آگ بگولا ہو گیا۔ نازک مزاج شاہی باورچی نے بھی فوراً ملازمت کو خیرباد کہا اور یہ کہتے ہوئے چلایا '' یہ منہ اور مسور کی دال۔''
جیسے جیسے ملک بھر میں گوشت کی قیمت میں اضافہ ہو رہا ہے دالوں کی طلب میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ ملکی کھپت میں اضافے کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت ہر سال لاکھوں ٹن دالیں درآمد کر رہی ہے۔
وفاقی ادارہ شماریات کے مطابق رواں مالی سال کے پہلے 8 ماہ کے دوران 9 لاکھ ایک ہزار میٹرک ٹن دالوں کی درآمد پر ایک کھرب 51 ارب 16 کروڑ 50 لاکھ روپے صرف کر دیے گئے جس کے لیے 66کروڑ 9 لاکھ ڈالرز کا زرمبادلہ خرچ کردیا گیا۔
اس طرح امید ہے کہ رواں مالی سال جون تک تقریباً 14 لاکھ ٹن سے بھی زائد (Pulses & Legumes Vegetables) درآمد کرتے ہوئے تقریباً سوا دو کھرب روپے خرچ کرنا پڑ جائیں گے۔
گزشتہ مالی سال کی بات ہے جب 9 لاکھ ٹن دالوں کی درآمد پر 61 کروڑ13 لاکھ 38 ہزار ڈالرز خرچ کردیے گئے تھے اور 2020-21 کے دوران 12 لاکھ 66 ہزار میٹرک ٹن دالوں کی درآمد پر 71 کروڑڈالر کا زرمبادلہ خرچ ہوا تھا اور 2019-20 کے دوران بھی 12 لاکھ گیارہ ہزار میٹرک ٹن دالیں درآمد کرلی گئی تھیں ، جس پر تقریباً ایک کھرب روپے کا خرچ آیا تھا اور اب دو سے ڈھائی کھرب کے قریب پہنچ چکے ہیں، کیونکہ عالمی منڈی میں بھی دالیں ہیں کہ مہنگی ہوتی چلی جا رہی ہیں۔
پاکستان میں دالوں کے مزید مہنگا ہونے کا سبب بہت کچھ ہے۔ کم ملکی پیداوار پر کئی عشروں سے توجہ ہی نہیں ہے۔
دو ماہ قبل کراچی میں دالوں کے امپورٹرز کہہ رہے تھے کہ ڈالر کی قلت کے باعث بندرگاہ پر سیکڑوں دالوں کے کنٹینرز رکے ہوئے ہیں جس سے ملک میں دالوں کی قلت جیسے ہی پیدا ہوئی دالوں کے نرخ آسمان کو چھونے لگے۔
جب سے ہر سال ماہ فروری میں یوم دال منایا جانے لگا ہے۔ امیر آدمی بھی دال پکانے پر فخر محسوس کر رہا ہے ایسے میں غریبوں کی تو بات ہی کچھ اور ہے۔
یوں تو ہر ایک دال مہنگی ہو کر رہ گئی ہے۔ دال مسور بھی بہت ہی مہنگی ہے ایک غریب آدمی کچھ پیسے جوڑ کر پاؤ بھر دال خرید لیتا ہے۔ خاتون خانہ نے جگ بھر پانی ڈالا اور اس پر برائے نام مسالہ چھڑکا اور مسور کی دال کی ہانڈی تیار کر لی۔ پیالہ بھر کر بچوں کے سامنے رکھا اور بچوں نے خوشی خوشی روٹی کے نوالوں کی کشتیاں بنا کر پیالے میں اتار دیں۔
دال مسور کی تلاش میں اپنی انگلیوں کو ڈبکی لگائی اور مسور کے چند دانے جیسے ہی ہاتھ لگتے نعرہ لگا کر اسے اپنے اپنے منہ میں اتار لیتے۔ بچوں کی اس خوشی کو دیکھ کر غریب والدین بھی فخر کرتے۔
شاہی باورچی نے دیسی مسور کی دال پکائی تھی۔ اب پاکستانی عوام درآمد شدہ مہنگی مسور کی دال پکاتے ہیں۔ ایک بچے نے انگلیوں کو پھر پیالے میں غوطہ دیا اور چند مسور کی دال کے دانے جیسے ہی ہاتھ لگے فاتحانہ اور فخریہ انداز میں ان کو جیسے ہی منہ میں اتارنے لگا کسی نے فخریہ یہ جملہ کہہ دیا : یہ منہ اور مسور کی دال۔
بات دراصل یہ ہے کہ مہنگائی اتنی بلند ترین شرح پر پہنچ چکی ہے کہ وہ شے جو مختلف دالوں کے نام سے موسوم ہے وہ بھی غریبوں مسکینوں کے لیے اب نایاب ہو کر رہ گئی ہے۔ بہت سی اشیا خور و نوش اور استعمال کی مصنوعات وغیرہ ایسی ہیں جن کی قیمتیں اتنی بلند ہو چکی ہیں کہ اب یا تو ان کا خریدنا دوبھر ہو گیا ہے یا پھر اس کی قلیل ترین مقدار خریدی جاتی ہے۔
کسی کریانہ دکان پر کھڑے ہو جائیں اس طرح کی آوازیں سننے کو ملتی ہیں۔ آدھا پاؤ دال مونگ یا دال ماش دے دیجیے۔ 50 روپے کی دال مسور دے دیجیے۔ مہنگائی اس وقت خوف ناک ہو جاتی ہے جب آمدن میں کمی ہو جائے۔
برسر روزگار افراد بے روزگار ہو کر رہ جائیں، موجودہ معاشی و سیاسی حالات نے اس مالی سال کے دوران جس حد تک پاکستانی معیشت کو نقصان پہنچایا ہے ایسا گزشتہ پون صدی میں نہ پہنچا تھا۔ گزشتہ ماہ گوجرانوالہ کا صنعتی و معاشی جائزہ لے رہا تھا کہ انکشاف ہوا کہ کئی کارخانے ایسے ہیں جہاں سے 70 فیصد افراد کو بے روزگار کر دیا گیا ہے۔
ایسے میں نوجوانوں کی بڑی تعداد بیرون ملک ملازمت کرنے جارہی ہے لیکن یورپ جاتے ہوئے کئی گولیوں کا نشانہ بن رہے ہیں، کہیں ان کی کشتی ڈوب رہی ہے اور حکومت ہے کہ معمولی کارروائی کے بعد مستقل حل کی تلاش کی طرف کوئی توجہ ہی نہیں ہے۔ دنیا کے امیر صنعتی ممالک اور مشرق وسطیٰ کے ممالک میں افرادی قوت کی زبردست طلب ہے۔
سعودی عرب ''نیوم'' کے نام سے نیا صنعتی شہر آباد کر رہا ہے پاکستانی حکام کو چاہیے کہ اس بارے میں ان کو افرادی قوت کی فراہمی کے سلسلے میں مذاکرات کرکے اپنے غیر تربیت یافتہ افراد کو تین سے چار ماہ کی ٹیکنیکل ٹریننگ دے کر برادر اسلامی ملک کو افرادی قوت فراہم کریں۔
اسی طرح کویت اور دیگر عرب ملکوں کو دیگر ایشیائی ممالک کی نسبت ہم زیادہ افرادی قوت کی فراہمی کو ترجیح دیں، کیونکہ جتنے زیادہ ڈالرز کی پاکستان کو آمدن ہوگی معیشت مضبوط ہوگی روپیہ مضبوط ہوگا۔ ملکی معیشت کی مضبوطی سے بے روزگاری کم آمدن میں اضافہ اور غربت میں کمی ہوگی۔
دالوں کی کئی اقسام ہیں جن میں مسور کی دال کے بارے میں ایک تاریخی جملہ بہت مشہور ہوا۔ کہا جاتا ہے کہ شاہ عالم ثانی کے اقتدار کو زوال پذیر ہوتا دیکھ کر ایک شاہی باورچی دہلی کو خیرباد کہہ کر کسی اور حاکم کے ہاں باورچی مقرر ہو گیا اور وہاں ایسی زبردست مزے دار اور لذیذ مسور کی دال پکائی کہ سب انگلیاں چاٹتے رہ گئے۔
حاکم نے اچانک اس کی لاگت کے بارے میں پوچھا تو کہا 50 پیسے کی مسورکی دال اور 71 روپے کا گرم مسالہ۔ اس پر حاکم آگ بگولا ہو گیا۔ نازک مزاج شاہی باورچی نے بھی فوراً ملازمت کو خیرباد کہا اور یہ کہتے ہوئے چلایا '' یہ منہ اور مسور کی دال۔''
جیسے جیسے ملک بھر میں گوشت کی قیمت میں اضافہ ہو رہا ہے دالوں کی طلب میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ ملکی کھپت میں اضافے کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت ہر سال لاکھوں ٹن دالیں درآمد کر رہی ہے۔
وفاقی ادارہ شماریات کے مطابق رواں مالی سال کے پہلے 8 ماہ کے دوران 9 لاکھ ایک ہزار میٹرک ٹن دالوں کی درآمد پر ایک کھرب 51 ارب 16 کروڑ 50 لاکھ روپے صرف کر دیے گئے جس کے لیے 66کروڑ 9 لاکھ ڈالرز کا زرمبادلہ خرچ کردیا گیا۔
اس طرح امید ہے کہ رواں مالی سال جون تک تقریباً 14 لاکھ ٹن سے بھی زائد (Pulses & Legumes Vegetables) درآمد کرتے ہوئے تقریباً سوا دو کھرب روپے خرچ کرنا پڑ جائیں گے۔
گزشتہ مالی سال کی بات ہے جب 9 لاکھ ٹن دالوں کی درآمد پر 61 کروڑ13 لاکھ 38 ہزار ڈالرز خرچ کردیے گئے تھے اور 2020-21 کے دوران 12 لاکھ 66 ہزار میٹرک ٹن دالوں کی درآمد پر 71 کروڑڈالر کا زرمبادلہ خرچ ہوا تھا اور 2019-20 کے دوران بھی 12 لاکھ گیارہ ہزار میٹرک ٹن دالیں درآمد کرلی گئی تھیں ، جس پر تقریباً ایک کھرب روپے کا خرچ آیا تھا اور اب دو سے ڈھائی کھرب کے قریب پہنچ چکے ہیں، کیونکہ عالمی منڈی میں بھی دالیں ہیں کہ مہنگی ہوتی چلی جا رہی ہیں۔
پاکستان میں دالوں کے مزید مہنگا ہونے کا سبب بہت کچھ ہے۔ کم ملکی پیداوار پر کئی عشروں سے توجہ ہی نہیں ہے۔
دو ماہ قبل کراچی میں دالوں کے امپورٹرز کہہ رہے تھے کہ ڈالر کی قلت کے باعث بندرگاہ پر سیکڑوں دالوں کے کنٹینرز رکے ہوئے ہیں جس سے ملک میں دالوں کی قلت جیسے ہی پیدا ہوئی دالوں کے نرخ آسمان کو چھونے لگے۔
جب سے ہر سال ماہ فروری میں یوم دال منایا جانے لگا ہے۔ امیر آدمی بھی دال پکانے پر فخر محسوس کر رہا ہے ایسے میں غریبوں کی تو بات ہی کچھ اور ہے۔
یوں تو ہر ایک دال مہنگی ہو کر رہ گئی ہے۔ دال مسور بھی بہت ہی مہنگی ہے ایک غریب آدمی کچھ پیسے جوڑ کر پاؤ بھر دال خرید لیتا ہے۔ خاتون خانہ نے جگ بھر پانی ڈالا اور اس پر برائے نام مسالہ چھڑکا اور مسور کی دال کی ہانڈی تیار کر لی۔ پیالہ بھر کر بچوں کے سامنے رکھا اور بچوں نے خوشی خوشی روٹی کے نوالوں کی کشتیاں بنا کر پیالے میں اتار دیں۔
دال مسور کی تلاش میں اپنی انگلیوں کو ڈبکی لگائی اور مسور کے چند دانے جیسے ہی ہاتھ لگتے نعرہ لگا کر اسے اپنے اپنے منہ میں اتار لیتے۔ بچوں کی اس خوشی کو دیکھ کر غریب والدین بھی فخر کرتے۔
شاہی باورچی نے دیسی مسور کی دال پکائی تھی۔ اب پاکستانی عوام درآمد شدہ مہنگی مسور کی دال پکاتے ہیں۔ ایک بچے نے انگلیوں کو پھر پیالے میں غوطہ دیا اور چند مسور کی دال کے دانے جیسے ہی ہاتھ لگے فاتحانہ اور فخریہ انداز میں ان کو جیسے ہی منہ میں اتارنے لگا کسی نے فخریہ یہ جملہ کہہ دیا : یہ منہ اور مسور کی دال۔
بات دراصل یہ ہے کہ مہنگائی اتنی بلند ترین شرح پر پہنچ چکی ہے کہ وہ شے جو مختلف دالوں کے نام سے موسوم ہے وہ بھی غریبوں مسکینوں کے لیے اب نایاب ہو کر رہ گئی ہے۔ بہت سی اشیا خور و نوش اور استعمال کی مصنوعات وغیرہ ایسی ہیں جن کی قیمتیں اتنی بلند ہو چکی ہیں کہ اب یا تو ان کا خریدنا دوبھر ہو گیا ہے یا پھر اس کی قلیل ترین مقدار خریدی جاتی ہے۔
کسی کریانہ دکان پر کھڑے ہو جائیں اس طرح کی آوازیں سننے کو ملتی ہیں۔ آدھا پاؤ دال مونگ یا دال ماش دے دیجیے۔ 50 روپے کی دال مسور دے دیجیے۔ مہنگائی اس وقت خوف ناک ہو جاتی ہے جب آمدن میں کمی ہو جائے۔
برسر روزگار افراد بے روزگار ہو کر رہ جائیں، موجودہ معاشی و سیاسی حالات نے اس مالی سال کے دوران جس حد تک پاکستانی معیشت کو نقصان پہنچایا ہے ایسا گزشتہ پون صدی میں نہ پہنچا تھا۔ گزشتہ ماہ گوجرانوالہ کا صنعتی و معاشی جائزہ لے رہا تھا کہ انکشاف ہوا کہ کئی کارخانے ایسے ہیں جہاں سے 70 فیصد افراد کو بے روزگار کر دیا گیا ہے۔
ایسے میں نوجوانوں کی بڑی تعداد بیرون ملک ملازمت کرنے جارہی ہے لیکن یورپ جاتے ہوئے کئی گولیوں کا نشانہ بن رہے ہیں، کہیں ان کی کشتی ڈوب رہی ہے اور حکومت ہے کہ معمولی کارروائی کے بعد مستقل حل کی تلاش کی طرف کوئی توجہ ہی نہیں ہے۔ دنیا کے امیر صنعتی ممالک اور مشرق وسطیٰ کے ممالک میں افرادی قوت کی زبردست طلب ہے۔
سعودی عرب ''نیوم'' کے نام سے نیا صنعتی شہر آباد کر رہا ہے پاکستانی حکام کو چاہیے کہ اس بارے میں ان کو افرادی قوت کی فراہمی کے سلسلے میں مذاکرات کرکے اپنے غیر تربیت یافتہ افراد کو تین سے چار ماہ کی ٹیکنیکل ٹریننگ دے کر برادر اسلامی ملک کو افرادی قوت فراہم کریں۔
اسی طرح کویت اور دیگر عرب ملکوں کو دیگر ایشیائی ممالک کی نسبت ہم زیادہ افرادی قوت کی فراہمی کو ترجیح دیں، کیونکہ جتنے زیادہ ڈالرز کی پاکستان کو آمدن ہوگی معیشت مضبوط ہوگی روپیہ مضبوط ہوگا۔ ملکی معیشت کی مضبوطی سے بے روزگاری کم آمدن میں اضافہ اور غربت میں کمی ہوگی۔